تاریخ اور پنیر : تاریخ کی شہادت / ڈاکٹر مبارک علی
ہمیں قدیم تہذیبوں سے لے کر آج تک کھانے میں پنیر کا استعمال نظر آتا ہے۔ اس موضوع پر (Paul Kindstedt)نے ایک کتاب’’Cheese’s Culture and History of Chesse and its Place‘‘لکھی ہے جو 2012ء شائع ہوئی اس میں تحقیق کے مطابق تاریخ کی ابتدائی دور میں جب مختلف تہذیبوں میں مویشیوں کو سدھایا گیا تو اُن کے دودھ سے دہی اور پنیر بنانے کی ابتدا ہوئی، لیکن ماہرین آثار قدیمہ کے مدد سے ہمیں سمیری تہذیب میں اس کے بارے میں کافی معلومات ملتی ہیں۔ مویشیوں کو سدھانے کے علاوہ سمیریوں نے ہل ایجاد کر کے اُسے کھیتی باڑی میں استعمال کیا جس کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اس زائد پیداوار کو ایک جانب تجارت میں استعمال کیا گیا اور دوسری جانب بڑے بڑے مندروں کی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ ان مندروں میں پیداوار کا ذخیرہ بھی ہوتا تھا اور ڈیری بھی ہوتی تھی، جہاں دودھ سے دہی اور پنیر بنائی جاتی تھی۔ مندر کی دیوار پر ایک تصویر ہے جس میں دودھ دوھتے ہوئے اور پھر دودھ کو مٹی کے برتنوں میں جمع کرتے دکھایا گیا ہے۔ سمیری تہذیب میں پنیر کی اہمیت اس وجہ سے بھی تھی کہ اس کی دیوی ’’انانہ‘‘ کو پنیر پسند تھا اور اُس نے ایک چرواہے سے اس لیے شادی کی تھی تاکہ وہ اُس کے لیے پنیر تیار کرے۔ مندر میں انانہ کی دیوی کو پنیر بطور نذر پیش کی جاتی تھی، ورنہ بصورت دیگر دوسرے دیوی، دیوتا جانوروں کی قربانی پسند کرتے تھے۔ سمیری معاشرے میں بھی پنیر کا استعمال ہوتا تھا اور خاص طور سے مزیدار بنایا جاتا تھا۔
سمیری تہذیب کے علاوہ ہمیں دوسری تہذیبوں میں بھی پنیر کا ذکر ملتا ہے۔ سوائے ویدک تہذیب کے، کیونکہ ویدک تہذیب میں کھانے پینے کی چیزوں پر سخت شرائط تھیں، جن میں باسی کھانے پر پابندی تھی اور ضروری تھا کہ کھانا تازہ پکا ہوا ہو۔ اس لیے یہاں پنیر کا استعمال نہیں ہوا۔ اس کے مقابلے میں سمیری تہذیب کے تجارتی تعلقات مصر اور اناطولہ کے Hittite تہذیب سے زیادہ اس لیے اِن کے ہاں پنیر کا استعمال ہوتا تھا۔
یونانی تہذیب میں بھی پنیر کو بنانے اور کھانے کا شوق تھا۔ خاص طور سے یونان کے صحت کے دیوتا (Escapius) کو پنیر کے بنے کیک بطور نذرانہ پیش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ سمپوزیم میں جو پینے پلانے کی دعوت ہوتی تھی۔ آخر میں پنیر کا بنا کیک مہمانوں کو پیش کیا جاتا تھا۔
یونان کے بعد روایات رومی سلطنت میں بھی جاری رہی۔ اس میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ دوسری ’’پیونک وار‘‘ جو ہینی بال کے ساتھ ہوئی، اس نے کھیتوں کو اُجاڑ دیا تھا اور کسان جو فوج میں شامل تھے، جب جنگ کے بعد واپس گئے تو اُنہیں اپنے کھیت ویران ملے۔ بعد میں ان زمینوں پر اُمراء نے قبضہ کر کے غلاموں کے ذریعے کھیتی باڑ ی کرائی اور یہ بے روزگار کسان روم کے شہر میں آ کر بس گئے۔ جہاں حکومت کی جانب سے اُنہیں اناج کا راشن ملتا تھا۔ لہٰذا جب اُمراء کا تعلق زراعت سے ہوا تو انہوں نے بڑی تعداد میں مویشی رکھ کر کئی اقسام کی پنیریں تیار کیں ’’Cato the Elder‘‘ جو سینیٹ کا ممبر بھی تھا اس نے اپنی کتاب میں مختلف قسم کی پنیر کی تیاری کے نسخے دیے ہیں۔ رومی تہذیب میں پنیر سے تیار کیے کیک پسند کیے جاتے تھے۔ پنیر کی تعریف کرتے ہوئے Pliny the Elder نے اپنی کتاب نیچرل ہسٹری میں لکھا ہے کہ جب زرتشت پیغمبر نے بیس سال تک صحرا میں زندگی گزاری تو اس کا گزارا پنیر پر ہوتا تھا۔
کیونکہ بحرروم کے ممالک معتدل آب و ہوا کے ہیں اس لیے یہاں پنیر کو زیادہ عرصے تک نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ لیکن جب اہل یورپ اس سے روشناس ہوئے تو ان کے ہاں اس کا استعمال بڑھ گیا۔ کسانوں کے علاوہ پنیر کو بنانے میں خانقاہ کے راہبوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ کیونکہ ہر خانقاہ میں ڈیری ہوتی تھی۔ عبادت کے اوقات کے علاوہ راہبوں پر یہ فرض بھی تھا کہ وہ بیکری اور ڈیری میں کام کریں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب شارلیمن اپنی سلطنت کے دورے پر تھے اور ایک خانقاہ میں مہمان ہوا اُس دن وہ کھانے میں گوشت نہیں کھانا چاہتا تھا اس لیے خانقاہ کے بشپ نے اُسے پنیر پیش کی۔ اس سے پہلے اس نے پنیر کھائی تھی اور نہ اُس کے ذائقہ سے واقف تھا، لیکن جب اُس نے پنیر کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھا تو اُسے اس کا ذائقہ پسند آیا اور بشپ سے فرمائش کی کہ وہ اس کی سپلائی اُس کے محل میں جاری رکھے۔
یورپ کی آب و ہوا میں پنیر کی تیاری میں اضافے ہوئے خاص طور سے فرانس کے کسانوں نے انواع و اقسام کی پنیر تیار کرنا شروع کی۔ اس لیے فرانس میں دوسرے یورپی ملکوں کے مقابلے میں پنیر کی کئی اقسام ہیں اور اب یہ روز مرہ کے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قدیم ہندوستانی تہذیب میں تو پنیر کا استعمال نہیں ہوا، لیکن موجودہ ہندوستان میں پنیر کو گوشت کے متبادل استعمال کیا جاتا ہے اور روزمرہ کے کھانوں میں اس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ مثلاً اب پنیر کے کباب، کوفتے اور پسندے تیار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پنیر کا استعمال آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ اگر اس کو زیادہ تعداد میں بنایا جائے تو پنیر اور مشروم کو گوشت کے متبادل استعمال کیا جا سکتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ جہان پاکستان )
بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ انسان کے استعمال میں ہونے والی اشیاء ایک جانب اُس کی ذاتی زندگی میں تبدیل لاتی ہیں تو دوسری جانب ان سے معاشرے کے رویے تشکیل پاتے ہیں۔ اِن اشیاء میں خاص طور پر مختلف ادوار میں کھانے کی ڈشوں میں اہم کردار رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے ڈشیں جو اپنے خاص دور میں مشہورتھیں، اُن کا استعمال ختم ہو گیا لیکن کچھ ایسی ڈشیں آج بھی موجود رہیں جو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ استعمال ہوتی رہی ہیں۔ کھانا کھانے میں اِنسان کے دو رویے ہوتے ہیں، ایک تو وہ اپنی بھوک کو مٹانے کے لیے ہر قسم کی چیز کھا لیتا ہے۔ دوسرے جب معاشرہ خوشحال ہو جائے تو وہ کھانے کو ذائقے دار بناتا ہے اور کھانے کی تیاری میں مصالحے دار اور دوسری اشیاء کی مدد سے اُسے تیار کرتا ہے۔ اس مرحلے پر کھانا پکانے کی کتابیں لکھی جانے لگی ہیں۔
Leave a Reply