🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

مسلم دنیا اور تاریخ کا سبق

Back to Posts

مسلم دنیا اور تاریخ کا سبق

مسلم دنیا اور تاریخ کا سبق

اسلام کے ابتدائی دور میں تاریخ نویسی کا رواج نہیں تھا اسی لیے عرب معاشرے کے شعور پر تاریخ کا اثر بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ مشہور عالم ابن حزم (وفات: 1064) وضاحت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب ہی تاریخ کو سمجھنے کا واحد ذریعہ تھا۔ چنانچہ تاریخ مذہب کی ایک شاخ بن گئی اور مذہب نے اس کی ساخت اور ترتیب بھی بدل ڈالی۔
عربوں کو اپنی شاعری پر ناز تھا اور وہ علم کے دیگر ذرائع میں کم ہی دلچسپی لیتے تھے۔ ال کندی، ال فارابی اور ابن سینا کی تحریروں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان میں تاریخ کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ چونکہ ان کے علم کا ماخذ یونانی کتابوں کے تراجم تھے لہٰذا وہ تاریخ سے زیادہ فلسفے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اگرچہ بعد میں تاریخ کے مضمون نے بھی ترقی پائی اور یہ ماضی کے واقعات سے آگاہی کا اہم ذریعہ بن گیا تاہم اسے وہ اہمیت نہ مل سکی جو علم کے دیگر ذرائع کو حاصل تھی۔ مثال کے طور پر ‘رسائل الاخوان الصفا’ نامی انسائیکلوپیڈیا میں تاریخی تذکرہ سب سے آخر میں ہے جس سے اس وقت تاریخ کی بے وقعتی کا باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چنانچہ اس دور میں اہل علم کی تاریخ اور اس کے تناظر سے واقفیت بے حد محدود تھی۔ اس دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ قبل از اسلام دور کی تاریخ کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور اس کا تعلق دور جاہلیت سے ہے۔ علما کے خیال میں صرف اسلامی تاریخ ہی پڑھائے جانے کے لائق تھی کیونکہ اس کی بنیاد سچائی اور راست گوئی پر رکھی گئی تھی۔
تاریخ کو اس حد تک کمتر مضمون سمجھا جاتا تھا کہ اہل علم پیشہ وارانہ طور پر اس کی تعلیم دینا گوارا نہیں کرتے تھے۔ تاریخی واقعات قلم بند کرنا درباریوں، مذہبی علما اور قانون سے وابستہ لوگوں کا کام تھا۔ تاہم ان کی شہرت بطور مورخ نہیں بلکہ ان کے دوسرے کام کی بدولت تھی۔ مثال کے طور پر الطبری (وفات: 923) مذہبی عالم کے طور پر مشہور تھے جبکہ ابن خلدون (وفات: 1406) کو لوگ قاضی کی حیثیت سے جانتے تھے تاہم ان دونوں کا شمار عظیم مورخین میں بھی ہوتا ہے۔
جب آزاد مسلم ریاستیں وجود میں آئیں تو حکمرانوں نے اپنے دور کی تاریخ لکھنے کے لیے درباری مورخ مقرر کیے۔ عام طور پر ان لوگوں کو انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ یہ کام اضافی طور پر کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ مسلم معاشرہ مختلف مذہبی فرقوں میں بٹا ہوا تھا اسی لیے ہر فرقہ اپنا موقف بیان کرنے اور خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے تاریخ سے کام لیتا تھا۔ نتیجتاً تاریخ مذہب کے تابع ہو گئی۔
تاریخ عقیدت یا دوسرے فرقے سے عداوت کے زیراثر لکھی جاتی تھی جس سے تعصب کو فروغ ملتا اور فرقہ وارانہ نفرت پروان چڑھتی تھی۔ ہر فرقہ خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتا جس سے تاریخ کو نقصان پہنچتا تھا۔ اس عمل میں تاریخ مسخ ہو گئی اور ماضی کے واقعات غلط طور سے قلم بند ہونے لگے۔
چنانچہ مسلمان مورخین کے لیے تنقیدی تاریخ لکھنا ممکن نہ رہا کیوںکہ عقیدہ اور تاریخ باہم یوں گڈمڈ ہو گئے تھے کہ انہیں الگ کرنا آسان نہیں تھا۔ ایسے میں تاریخ دینیات کی بندش میں رہ کر لکھی جاتی جو عموماً اخلاقی اقدار کے وعظ اور تبلیغ تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی تھی۔
جس زمانے میں تاریخ نویسی بادشاہان وقت، شاہی خاندانوں اور طبقہ امرا تک محدود تھی تو مورخین صرف دربار سے وابستہ معاملات، تقریبات، انتظام و انصرام، محصولات کی وصولی، جنگی حکمت عملی، فوجوں کی تنظیم اور سازشوں پر ہی لکھتے تھے۔ ایسی تاریخ کا مقصد نوجوان شہزادوں اور برسراقتدار طبقات کو حکمرانی اور ریاستی معاملات کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا۔
تاہم عرب تاریخ نویسی کی خصوصیات کا ذکر کیا جائے تو اس میں برسراقتدار اشرافیہ کے بیان کے ساتھ معاشرے سے متعلق مختلف موضوعات کا تذکرہ بھی ہوتا تھا۔ دوسری جانب فارسی تاریخ نویسی صرف حکمرانوں، طبقہ امرا اور سرکاری حکام کے گرد گھومتی تھی۔ اس میں دوسرے طبقات کے تذکرے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔
جدید دور میں مسلم تاریخ نویسی انتہائی طور سے تبدیل ہو گئی ہے۔ ہر مسلمان ملک میں مورخین قوم پرستی کی بنیاد پر تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اب انہیں قبل از اسلام دور کے اپنی ماضی پر فخر ہے اور وہ اسے اپنے تہذیبی سفر کا اہم حصہ گردانتے ہیں۔ مثال کے طور پر مصری مورخین فراعین پر فخر کرتے ہیں، شامی اور عراقی مورخ سمیری، اکادی، بابل اور قدیم آشوری تہذیب میں اپنی جڑیں تلاش کر رہے ہیں۔
اس سوچ نے مسلم تاریخ نویسی کی ساخت تبدیل کر دی ہے جبکہ قوم پرستی کے جذبے نے اسے سیکیولر رنگ دے دیا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان کے عیسائیوں نے تاریخ نویسی میں گراں قدر حصہ ڈالا ہے۔ فلپ ہٹی کی کتاب ‘عربوں کی تاریخ’ اور البرٹ ہورانی کی ‘عرب لوگوں کی تاریخ’ اس کی نمایاں مثال ہیں۔
جب مسلم ممالک نے یورپی سامراج کے خلاف جدوجہد کی تو ان کے یہاں تاریخ نویسی مزید بہتر ہو گئی۔ اس موقع پر سیاست دانوں نے لوگوں میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے کام لیا۔ قوم پرستی پر مبنی اس تاریخ میں مذہبی اقلیتوں کو بھی شامل کیا گیا۔
جب تاریخ سیاست سے آلودہ ہوئی تو مخصوص سیاسی نکتہ ہائے نظر کو درست ثابت کرنے کے لیے تاریخی واقعات میں تحریف بھی ہونے لگی۔ شاید اسی باعث یہ سوال آج بھی برقرار ہے کہ آیا مسلم معاشروں نے ماضی سے کوئی سبق بھی حاصل کیا یا تاریخ کو تفریح کے طو پر لیا جاتا رہا ہے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts