🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

پاکستان کی انقلابی جِدوجہد میں طالبات کا کردار

Back to Posts

پاکستان کی انقلابی جِدوجہد میں طالبات کا کردار

قِسط اوّل

دنیابھر کی طرح پاکستانی کی انقلابی جدوجہد میں بھی خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ اپنے مضمون کو مختصر رکھتے ہوئے، میں براہِ راست ان عظیم انقلابی خواتین کے تعارف پر آتا ہوں۔
(یہ تمام معلومات حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی کتاب ’سوُرج پہ کمند‘، جرائد جدوجہد، ارتقاء اور طالبِ علم سے لی گئی ہیں۔ تاہم این ایس ایف پاکستان (ملتان) کی جدوجہد کی تاریخ میرے زیرِ طباعت ناول The Controversial کا حِصہ ہیں)

حمزہ (بیگم) واحد

’بارِش میں بھیگے ہوئے، سردی میں ٹھِٹھرے ہوئے، گرمی سے جھُلسے ہوئے، کِسی بھی دِن، صُبح سے لے کر رات کے گیارہ بجے تک کے درمیان کِسی بھی وقت ، موسم کی سختیوں سے بے نیاز، دروازے پر ایک پُراِسرار سی دستک ۔۔۔۔ میں دروازہ کھولتا ہوں۔ دروازے پر سیاہ بُرقعے میں ملبوُس، نقاب اُٹھائے ایک خاتون کھڑی ہیں۔ میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوُں۔ خاتوُن اندر آ جاتی ہیں اور بُرقع اتار کر بیٹھ جاتی ہیں۔ سر جھاڑ، منہ پہاڑ، بِکھرے ہوئے بال، اُجاڑ چہرہ، بلبلاتی، کپکپاتی، لقلقاتی، بھوُکی، پیاسی، کہیں دُور سے آ رہی ہیں۔ کہیں بہت دُور جانا ہے۔ کوئی بہت ضروری بات کرنی ہے۔ تمام تر پریشانی اور بے سروسامانی کے باوجود آنکھیں ہیں کہ سِتاروں کی طرح جگمگا رہی ہیں اور اُن میں سے جو روشنی پھوُٹ رہی، وہ ان کے بے کراں وجود کی توانائی اور زبردست باطنی قؤت کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ ہیں حمزہ بیگم‘۔
انوار احسن صدیقی کا یہ خوُبصورت تعارفی پیرایہ بھی شائد نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ کے اِس روشن ستارے کی شخصیت کے ساتھ پوُرا انصاف نہیں کرتا۔ اپنی ذات میں وہ ادارہ، بادشاہ گر، بذاتِ خود ایک تاریخ اور نجانے کون کون سے لاحقے جو اِس شخصیت کے لیئے استعمال کیئے گئے مگر سب اِن کے سامنے ہیچ نظر آئے۔
الہہ باد بھارت میں انیس سو چونتیس میں پیدا ہونے والی یہ خاتون اپنے خاندان سمیت ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئیں اور اپنی ثانوی تعلیم گورنمنٹ اسکول جیکب لائن سے، بی ایس سی گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے اور ایم ایس سی جامعہ کراچی سے مکمل کی۔ ترقی پسند نظریہ انہیں گھُٹی میں ملا تھا۔ ان کے دو بڑے بھائی کیمونست پارٹی کے سرگرم رکن تھے۔ ابھی اسکول ہی میں تھیں کہ ہائی اسکول سٹوڈنٹس فیڈریشن اور ڈی ایس ایف کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حِصہ لینے لگیں۔ رہنمائی کی قدرتی صلاحیتوں اور بے پناہ خلوص سے وہ ہر ایک کو گرویدہ بنا لیتیں۔ ڈی ایس ایف، این ایس ایف اور گرلز سٹوڈنٹس کانگریس کی بیشتر سرگرم کارکن طالبات کو انقلاب کی راہ پر ڈالنے والی حمزہ بیگم ہی تھیں۔ گرلز سٹوڈنٹس کانگریس قائم کرنے کی تجویز ان کی طرف سے آئی تھی تاکہ ذیادہ سے ذیادہ طالبات کو ترقی پسند نظریے سے منسلک کیا جا سکے کیونکہ اُس وقت کی معاشرتی اقدار کے باعث بہت سی طالبات لڑکوں کے ساتھ کام کرنے میں جھِجک محسوس کرتی تھیں۔ انجمنِ مومنات کے بینر تلے رضویہ گرلز اسکول کو بھی ان کی اور زاہدہ تقی کی تجویز پر جی ایس سی نے گود لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک چھپر نُما عمارت ایک مکمل اور معیاری اسکول میں تبدیل ہو گئی۔
جنوری 1953 کی تاریخ ساز تحریک ہو یا دسمبر 1953 میں آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن APSO کے قیام کے لیئے کل پاکستان کنونشن، سوئز کینال پر حملے کے خِلاف این ایس ایف کا مظاہرہ ہو یا جبل پور تحریک کے بعد طلباء رہنماؤں کی سزاؤں کے خِلاف بھرپور احتجاجی تحریک، تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تحریک میں طلباء رہنماؤں کی شہربدری کے خلاف احتجاجی جلسے اور جلوس ہوں یا یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف بھرپور جدوجہد، ۔۔۔۔۔۔ حمزہ بیگم انیس سو ساٹھ کی دہائی کے وسط (1965 – 1966) تک این ایس ایف کی قیادت میں طالبِعلموں کی ہر تحریک میں، پہلی صف میں قائدانہ کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ اُن کی انتھک تنظیمی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے انور احسن صیدیقی ہی نے لِکھا ہے کہ ’حمزہ بیگم ترقی پسند تحریک میں شامِل لڑکیوں کے کارواں کی سالار تھیں۔۔۔۔۔ صبح سے شام تک وہ کراچی کے کالجوں میں گھُومتی پھِرتی رہتیں۔ سیاہ بُرقعے میں ملبوس، نقاب اُٹھائے، جلتی دوپہروں میں، گرم سہ پہروں میں، برستی شاموں میں اور اوّلِ شب کی نیم تاریک ساعتوں میں وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھرتیں اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتیں۔ انہیں نہ اپنے کھانے پینے کا ہوش رہتا نہ لباس و زیبائش کا، پیشہ ورانہ ذندگی کے آغاز کے بعد بھی ان کی سیاسی اور نظریاتی روِش برقرار رہی۔ انہوں نے ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے عملی ذندگی شروع کی اور بعد میں وہ کالج ڈیمانسٹریٹر بنیں اور آخِر میں وہ بطور کالج لیکچرر ریٹائر ہو گئیں۔ ان حیثیتوں میں وہ کراچی ٹیچرز یونین، کراچی کالج لیکچررز ایسوسی ایشن اور سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے قیام کی محرک رہیں اور اساتذہ کے حقوق اور مطالبات کی حمائت میں سرگرم رہیں۔
این ایس ایف ہی کے ایک سابق رہنما، مزدور سیاست کے کارکن اور نامور صحافی واحد بشیر کو حمزہ بیگم کے رفیقِ حیات ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور اسی نسبت سے انہوں نے شادی کے بعد اپنے آپ کو حمزہ واحد کہلوایا۔ دونوں ہی مارکسی نظریات پر اپنی پوری ذندگی ثابت قدم رہے اور محنت کش طبقے ہی کی ایک آبادی ولائت آباد میں مقیم رہے۔ حمزہ نے یہاں بھی عام لوگوں کی بہبود کے ادارے بشمول ایک معیاری ڈسپنسری اپنی کوششوں سے قائم کیے۔
(یہاں سورج پہ کمند کے منصفین نے ذکر نہیں کیا مگر میں واضح کرتا چلوں کہ ان کے تمام رفاحی کاموں میں انہیں کسی این جی او کی مدد حاصِل نہ تھی)
حمزہ بیگم انتیس دسمبر انیس سو اٹھانوے کو کراچی میں رحلت کر گئیں اور وہیں مدفون ہیں۔ ان کے انتقال پر ان کے پرانے ساتھی حسن عابد نے ایک نظم کہی، جِس کے دو منتخب اشعار کے ساتھ ہم اِس ذکر کو مختصر کرتے ہیں:
لیجیئے آفتاب ڈوب گیا
ہو گئی شام، دِن تمام ہوا
چاندنی سے کفن میں لپٹی ہوئی
روشنی نذرِ خاک ہوتی ہے
_______________________________________________________________
حوالہ جات: انوراحسن صدیقی، ’حمزہ کی یاد میں‘ اور حسن عابد، ’حمزہ واحد بشیر کی دائمی جدائی پر‘
ارتقاء، شمارہ نمبر ۳۰، کراچی، دسمبر ۲۰۰۱
________________________________________________________________

رضی (غفور) کمالی

رضی غفور جو شادی کےبعد رضی کمالی کے نام سے معروف ہوئیں، انیس سو تریپن میں ڈی ایس ایف سے اُس وقت وابستہ ہوئیں جب وہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھیں، ان کو ڈی ایس ایف سے متعارف کروانے کا سہرا حمزہ بیگم کے سر تھا۔ رضی نے خود اپنی ایک تحریر میں اِس ابتدائی تعارف کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے،
’اس زمانے میں طلباء کی بڑی فعال انجمن ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہوا کرتی تھی۔ جِس کی وہ (حمزہ بیگم) بڑی پرجوش کارکن اور نمائندہ بن گئی تھیں۔ طلباء کے مسائل پر وہ کالج کی لڑکیوں سے خوب خوب بحث کرتیں اور ان کو قائل کرتی تھیں۔ میرے قریب بھی وہ اِس ضمن میں آئی۔ مجھ سے بات چیت کر کے وہ اُچھل پڑی۔ کہنے لگیں کہ تم میں ترقی پسندی کے سارے جراثیم موجود ہیں اور کام کا ولولہ بھی ہے۔ تمہیں تو ہمارئ ساتھ کام کرنا چاہیئے۔ پھر میں اور حمزہ بیگم قریب ہوتے چلے گئے‘۔
ڈی ایس ایف پر پابندی کے بعد جب سن انیس سو چھپن میں پہلے سے قائم این ایس ایف پر ڈی ایس ایف اور ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق کارکنان نے غلبہ حاصل کر کے اسے ایک ترقی پسند تنظیم کی شناخت دی تو رضی بھی ان ابتدائی کارکنان میں شامل تھیں۔ این ایس ایف کی رکنیت سازی میں لڑکیوں کی جھجھک کے پیشِ نظر جب ایک جڑواں یا ہمشیرہ تنظیم گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس GSC کی تجویز پیش کی گئی تو رضی اس کے بانی اور سرگرم ترین کارکنان میں سے ایک تھیں۔ انہیں اس تنظیم کی بانی جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ تنظیم کراچی کی طالبات کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش تھی اور ساتھ ہی این ایس ایف کی تمام تحریکوں میں بھی شانہ بشانہ جدوجہد کرتی تھی۔
رضی غفور کی شہرت ایک سنجیدہ، تحمل مزاج، نرم گفتار، معاملہ فہم اور طالبات کاز (Female Students Cause) سے بے لوث وابستگی رکھنے والی کارکن کی تھی اور انہی خصوصیات کی وجہ سے انہیں تنظیم کا پہلا جنرل سیکرٹری بھی منتخب کیا گیا تھا۔ وہ تنظیم کی تمام سرگرمیوں میں صفِ اوّل سے قیادت کی قائل تھیں۔ جی ایس سی کے سرکردہ ارکان غریب طالبات کے لیئے سیفیہ اور اردو کالج میں مفت ٹیوشن سنٹر چلاتے تھے۔ دیگر ارکان کی طرح رضی بھی اِس میں بطور رضاکار پڑھاتی تھیں۔ جب اس تنظیم نے انجمنِ مومنات رضویہ سوسائیٹی کے اسکول کو گود لیا تو تنظیم ہی کی سرگرم کارکنان نے یہاں رضاکارانہ طور پر پڑھانا شروع کیا۔ رضی غفور کو اس کی پہلی رضاکار ہیڈمسٹریس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری ذاہدہ تقی نے سنبھالی۔
رضی نے ڈی جے سایئنس کالج سے بی ایس سی اور جامعہ کراچی سے حیاتیات (Biology) میں ایم ایس سی کی سند حاصل کی، جِس کے بعد بی ایڈ کر کے وہ مسقلاً تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئیں۔ انہوں نے بطور استاد سیفیہ اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ وہی اسکول تھا جہاں کبھی وہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس GSC کے زیرِ اہتمام غریب طالبات کے مفت ٹیوشن سنٹر میں رضاکارانہ پڑھاتی رہی تھیں۔
سن انیس سو بہتر میں بھٹو حکومت کے دوران نجی اسکولوں کو قومیا لیا گیا۔ رضی کمالی نے قومیائے گئے اسکولوں کے اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لیئے ایک ایکشن کمیٹی بنائی اور سفارشات مرتب کر کے حکومت سے تسلیم کروائیں حالانکہ ان کی اپنی مرتب کردہ ایک سفارش کی رُو سے وہ خود سیفیہ اسکول کی ہیڈمسٹریس بننے کے موقع سے محروم رہیں۔ انہوں نے اساتذہ کے حقوق کی خاطر مستقل بنیادوں پر جدوجہد کرنے کے لیئے کراچی ٹیچرز یونین کے نام سے بھی ایک تنظیم تشکیل دی۔
رضی کا انتقال سترہ فروری سن دو ہزار سات کو کراچی میں ہوا۔
________________________________________________________________
حوالہ جات: مسعود اصغر، بیگم رضی حمید کمالی، نیشنل ایجوکیشنل پبلیکیشنز، سن دو ہزار بارہ
رضی کمالی، حمزہ کی ہمہ جہت شخصیت، ارتقاء، شمارہ نمبر تیس، کراچی، دسمبر دو ہزار ایک
________________________________________________________________

زرینہ صالح شفیع

طلباء تحریک سے زرینہ کی وابستگی اس وقت شروع ہوئی جب وہ ابھی اسکول ہی کی طالبہ تھی۔ جنوری انیس سو تریپن تحریک میں ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے محمد شفیع کی قیادت میں ڈی ایس ایف کے شانہ بشانہ ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں جہاں ایک طرف صغیر احمد، برکات عالم اور صبغت اللہ قادری جیسے متحرک طلباء تھے تو دوسری جانب حمزہ بیگم اور زرینہ شفیع جیسی طالبات بھی نہایت سرگرم تھیں، جنہوں نے مختلف اسکولوں میں ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم یونٹ قائم کیئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈی ایس ایف کی تمام سرگرمیوں میں اسکولوں کی طالبات بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتی تھیں۔
عقیلہ اسلام اس دور میں زرینہ کی انتھک سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے خود اپنی طلبہ تحریک سے وابستگی کا سہرا زرینہ کے سر باندھتی ہیں۔ اس کے علاوہ عقیلہ کی یادداشتیں ایچ ایس ایس ایف HSSF کے گرلز ونگ کے طریقہءکار کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم غالباً دسویں جماعت میں تھے جب میں نے اور زرینہ نے دوسرے اسکولوں کی طالبات کو مختلف سماجی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی ترغیب دینی شروع کی، جس کا ہم لوگ خود اہتمام کرتے تھے جیسے مینا بازار، ورائیٹی شو، ادبی محفلیں اور تقریری مقابلے وغیرہ‘۔ زرینہ اور حمزہ بیگم کی قیادت میں اسکولوں کی طالبات کی ایک بڑی تعداد جنوری انیس سو تریپن کی تحریک کے جلوسوں میں شرکت کے لیئے مرکزی شہر پہنچی جس کی تصدیق ہمیں ذاتی یادداشتوں کی شکل میں ملتی ہے۔ اختر احتشام ان کی اور حمزہ بیگم کی قیادت میں طالبات کے ایک وفد کی دسمبر سن انیس سو تریپن مین ہونے والی آل پاکستان اسٹوڈنٹس کنونشن میں شرکت کا بھی زکر کرتے ہیں۔ زرینہ کی ترقی پسند طلبہ تحریک سے وابستگی کالج دور میں بھی جاری رہی۔ ڈی ایس ایف کے بعد اب وہ این ایس ایف کی صفوں میں بھی پیش پیش رہیں اور این ایس ایف کی تمام سرگرمیوں میں طالبات کی ایک بڑی تعداد کو متحرک کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس GSC کی بانی رکن اور اس کے قیام کے محرکین میں شامل تھیں۔ جی ایس سی GSC کی پہلی صدر محترمہ شائستہ ذیدی نے زرینہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی انتظامی صلاحیًتوں کا بھی خصوصی ذکر کیا ہے، جِس کے نتیجے میں جی ایس سی GSC ایک نہائت منظم جماعت کی صورت اختیار کر گئی۔
زرینہ نے نہ صرف جی ایس سی GSC کے آئین اور تنظیمی ڈھانچے کے خدوخال کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ وہ پریس ریلیز اور ہر اجلاس کے ایجنڈے اور کارروائی کو تحریر کرنے اور اجلاس میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی نبھاتی تھیں۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے یہ ظاہر ہے کہ زرینہ ایک مخلص، مثالی اور مکمل کارکن تھی۔ ان کی خدمات کے پیشِ ںظر انہیں شائستہ کرار ذیدی کے بعد جی ایس سی GSC کا اگلا صدر منتخب کیا گیا۔
ان کی شادی ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر اور این ایس ایف کے سابق نائب صدر محمد شفیع سے ہوئی اور اسی نسبت سے وہ زرینہ شفیع کے نام سے معروف ہوئیں۔
________________________________________________________________
حوالہ جات: عقیلہ اسلام کی یادیں، بذریعہ برقی ڈاک، چوبیس نومبر سن دو ہزار بارہ، شائستہ کرار سے حسن جاوید کی گفتگو، سات اپریل سن دو ہزار تیرہ، سیّد اختر احتشام A Medical Doctor Examines Life on Three Continents: A Pakistani View آل گورا پبلیکیشنز، سن دو ہزار آٹھ
________________________________________________________________

شمیم (ارشاد) زین الدین

شعلہ بیان مقرر، ابتدائی سالوں میں پیپلز پارٹی کی صفِ اوّل کی رہنما اور شعروادب کی دلدادہ شخصیت ڈاکٹر شمیم زین الدین، این ایس ایف کے سابق رہنما زین الدین خان لودھی سے شادی سے قبل شمیم ارشاد کے نام سے معروف تھیں۔ ان کی طلبہ تحریک سے وابستگی ڈی ایس ایف کے زمانے سے ہی شروع ہوئی اور وہ حمزہ بیگم اور زرینہ صالح کی قیادت میں ان طالبات میں شامل تھیں جو ڈی ایس ایف کی تمام سرگرمیوں بشمول جنوری انیس سو تریپن تحریک میں پیش پیش رہیں۔ ۸ جنوری ۱۹۵۳ کی تحریک کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے اُن کی درج ذیل نظم بہت مشور ہوئی جو اسٹوڈنٹس ہیرالڈ Students Herald کے جنوری تحریک نمبر میں شایع ہوئی ۔۔۔۔
By going into the Mother Earth
Blessed be the Men who often prove their worth
By laying down their lives for what they aspire
Blessed be the tremulous Souls whose burning zeal
Kindles the fire of action in the heart
Blessed be the lightning of the shots which part
Light from the Darkness and Morning reveal
The progress, Mankind ever marches on
And, finding some unfathomable hitch
Some Gallants from the ranks patch up the ditch
A bridge the abyas and the gulf is gone
O Blood smeared, who in cool graved lie
We swear that will either do or die
ڈی ایس ایف پر پابندی اور اس کے سینیئر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ڈی ایس ایف کے جونیئر کارکنوں اور حمائتیوں نے پہلے سے قائم این ایس ایف کی صفوں میں شامل ہونا شروع کیا تو ان کارکنان میں شمیم ارشاد بھی شامل تھیں۔ جب سن انیس سو چھپن میں حمزہ بیگم اور دیگر سرگرم طالبات نے این ایس ایف کی ایک ہمشیرہ تنظیم گرلز سٹوڈنٹس کانگریس کی تجویز پیش کی تو اس کا تاسیسی اجلاس ڈاؤ میڈیکل کالج کی اک طالبہ مریم کھنڈوالا کے گھر پر ہوا۔ شمیم جو خود بھی ڈاؤکی طالبہ تھی، اس تاسیسی اجلاس کا حصہ بنی۔
سن انیس سو چھپن میں ہی نہر سوئز پر برطانیہ اور فرانس کے حملے کے خلاف این ایس ایف نے ایک بڑا مُظاہرہ کیا تو گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی کارکنان این ایس ایف کے شانہ بشانہ اس جلوس میں شامل تھیں۔ بلکہ یہ جی ایس سی ہی کی کارکنان تھیں جو سب سے پہلے پولیس کا محاصرہ توڑ کر ایوانِ وزیرِ اعظم پہنچیں اور وزیرِ اعظم کو یارداشت پیش کی۔ اس موقع پر شمیم ارشاد نے مظاہرے کے شرکاء سے ایک جوشیلا خطاب بھی کیا جس کا زکر انیس ہارون نے ہم (حسن جاوید) سے اپنی گفتگو میں کیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ شعلہ بیان مقرر ہونے کے ساتھ شعروادب میں بھی گہری دلچسپی رکھتی تھیں، اُنیس سو چھپن میں این ایس ایف کے ایک سابق رہنماء اور معروف ادیب انور احسن صدیقی جو اس وقت سندھ مسلم کالج کے طالبِ علم تھے، انہوں نے طالبِ علموں کے ایک ادبی رسالے ’لوح و قلم‘ کی اشاعت شروع کی۔ شمیم ارشاد اس رسالے میں باقاعدگی سے لکھنے والی طالبہ تھیں۔ ان کے افسانے اس میں پابندی سے شایع ہوتے تھے۔ جب سن انیس سو انسٹھ 1959 میں پاکستان رائٹرز گِلڈ کی بنیاد رکھی گئی تو شمیم ارشاد ان تین طلباء میں شامل تھیں جنہیں گِلڈ کا تاسیسی رکن بنایا گیا۔ باقی دو طلبہ ادیب بھی این ایس ایف کے ہی انور احسن صدیقی اور انور علی حیدری تھے۔
زمانہء طالبِ علمی کے بعد بھی شمیم زین الدین نے ترقی پسند نظریئے سے اپنا ناطہ قائم رکھا اور نیشنل عوامی پارٹی میں متحرک رہیں۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد انہیں پارٹی نے پیپلز پارٹی میں بھیجا تو وہ انیس سو ستر میں کراچی پیپلز پارٹی کی عہدیدار کے طور پر معراج محمد خان کے ساتھ ان مقررین میں شامل تھیں جن کی تقریریں ہر جلسے میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ انتخابات میں ان کی کامیابی یقینی تھی مگر پارٹی کی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ واپس کر دیا۔
_______________________________________________________________
حوالہ جات: ریاض احمد شیخ، پاکستان کی طلبہ تحریک پر غیر مطبوعہ کتابی مسوّدہ ( بشکریہ ڈاکٹر ہارون احمد)، انیس ہارون سے حسن جاوید کی گفتگو، ۵ اکتوبر دو ہزار سولہ، شائستہ ذیدی سے حسن جاوید کی گفتگو، سات اپریل دو ہزار تیرہ، انور احسن صدیق، دلِ پر خوں کی اک گلابی سے، شہزاد پبلیکیشنز، کراچی، اگست دو ہزار بارہ
________________________________________________________________

زاہدہ تقی

انیس سو چھپن میں برطانیہ اور فرانس نے نہر سوئز کو قومیانے کے مِصری فیصلے کے بعد مِصر پر باقاعدہ فوجی حملہ کر دیا۔ اِس جارحیت نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں غم و غُصہ کی لہر دوڑا دی۔ پاکستانی عوام میں بھی اس بارے میں اشتعال پایا جاتا تھا۔ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اِس جارحیت کے خِلاف عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ایک جلوس کی شکل میں وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کی رہائشگاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں پولیس نے طلباء کو گھیرے میں لیکر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ایسے میں طالبات کی ایک بڑی تعداد محاصرے کو توڑ کر ایوانِ وزیرِاعظم کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اِن طالبات کی قیادت کرنے والوں میں زاہدہ تقی بھی شامل تھیں۔
ان کا شمار این ایس ایف کے ابتدائی سرگرم کارکنان اور گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس جلد ہی اپنے بانی کارکنان کی انتھک محنت کے نتیجے میں ایک بہت متحرک تنظیم کی شکل اختیار کر گئی جو این ایس ایف کے شانہ بشانہ نہ صرف طلبہ کے جمہوری حقوق بلکہ عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش تھی۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم طالبات کے لیئے سماجی خدمات بھی سر انجام دیتی تھی جن میں مفت کتابوں کی فراہمی، مفت ٹیوشن سنٹرز کا قیام اور وبائی امراض کے خلاف حِفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم جیسی سرگرمیاں شامل تھیں۔
عقیلہ اسلام بیان کرتی ہیں کہ ایک سال چھوٹی چیچک (Smallpox) کی وباء پھیلی تو جی ایس سی کے کارکنان نے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کی مہم شروع کی۔ اس مہم کے سلسے میں ان کارکنان کا مرکز لڑکیوں کا ایک چھپر اسکول ’رضویہ گرلز اسکول‘ بھی بنا جو انجمنِ مومنات رضویہ سوسائٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیا تھا لیکن اس کے ارکان اب اس اسکول کو جاری رکھنے میں مشکلات سے دوچار تھے۔ انہوں نے جی ایس سی کے ان کارکنان کی بے غرضی اور لگن سے متاثر ہو کر انہیں اس اسکول کا انتظام سنبھالنے پرراضی کر لیا۔ جی ایس سی کے زیرِ انتظام اس اسکول نے تیزی سے ترقّی کے مدارج طے کیئے۔ اسکول پراجیکٹ کے انتظامات میں زاہدہ تقی سب سے متحرک رضاکاروں میں شامل تھیں۔ وہ خود بھی اسی علاقے کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے رضی غفور کے بعد اس اسکول کے پرنسپل کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔
زاہدہ تقی کو زرینہ صالح کے بعد گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی سربراہ منتخب کیا گیا اور انہی کی سربراہی میں جی ایس سی نے این ایس ایف کے شانہ بشانہ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ یہ تحریک آل پارٹیز ایکشن کمیٹی کی زیرِ قیادت چلائی گئی تھی جس میں این ایس ایف اور جی ایس سی سب سے متحرک تنظیمیں تھیں۔ اس تحریک کے دوران جب معراج محمد خان سمیت این ایس ایف کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تو زاہدہ تقی نے آئی سی بی کے فیضان علی ساتھ براہِ راست طلباء ایکشن کمیٹی اور اس تحریک کی سربراہی سنبھال لی اور تحریک کی شدت میں کمی نہ آنے دی۔ بلآخر حکومت نے طلبہ کے مطالبات پر غور کرنے کے لیئے جسٹس حمودالرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا، جِس کے بعد تحریک اپنے اختتام کو پہنچی۔
زاہدہ تقی جی ایس سی کو منظم اور متحرک رکھنے میں ذاتی طور پر اس کے تمام یونٹوں کا دورہ کیا کرتی تھیں جس کا ذکر انیس ہارون نے بھی ہم (حسن جاوید) سے اپنی گفتگو میں کیا۔ زہدہ تقی کی شادی این ایس ایف کے صفِ اوّل کے رہنما جوہر حسین سے ہوئی۔
————————————————————————————————————–
حوالہ جات: عقیلہ اسلام کی یادیں، بڈریعہ برقی ڈاک چوبیس نومبر دو ہزار بارہ۔ انیس ہارون سے حسن نجاوید کی گفتگو پانچ اکتوبر دو ہزار سولہ۔ ہمراز احسن، پاکستان کی طالب علم تحریکیں، دوسری قِسط، مساوات سیاسی ایڈیشن، چوبیس ستمبر انیس سو چھہتر
————————————————————————————————————–

لالہ رخ (انصاری) حسین

لالہ رخ انصاری انیس سو ستر کی دہائی میں این ایس ایف کی سب سے معروف خاتون رہنما تھیں۔ وہ این ایس ایف کے سابق مرکزی صدر زاہد حسین سے شادی کے بعد لالہ رخ حسین نام سے جانی گئیں۔ وہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جامعہ کراچی میں شعبہء صحافت میں این ایس ایف سے وابستہ ہوئیں اور بہت جلد این ایس ایف کے سرگرم ترین کارکنان میں شمار ہونے لگیں۔ ان کی شہرت ایک نظریاتی کارکن کی تھی لہٰذہ ان انہوں نے جونیئر ساتھیوں کے سٹڈی سرکل کی نگرانی فرائض بھی سرانجام دیئے۔ سن انیس سو بہتر میں مزدور متحدہ محاز کے زیرِ قیادت کراچی کی ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کی تحریک کے دوران این ایس ایف کے ان کارکنوں میں شامل تھیں جو مزدوروں کی مدد کر رہے تھے۔ اسی سال لانڈھی کے مزدوروں کی تحریک کی حمائت میں وہ ڈاکٹر رشید حسن خان کے ساتھ این ایس ایف کی جانب سے پیش پیش تھیں۔ ان تحریکوں کے دوران مزدوروں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار کر دی گئی تھی۔ لالہ رخ کی ذمہ داریوں میں ان بے روزگار مزدوروں کے اہلِ خانہ کو مدد فراہم کرنا اور ان کے حوصلے بلند رکھنا شامل تھا۔ انیس سو ستر کی دہائی میں ہی اسکول اساتذہ اور کالج لیکچررز کی تحریک کی حمائت میں بھی وہ ڈاکٹر رشید حسن خان کے ساتھ کھڑی رہیں اور انیس سو تہتر کے کنونشن میں این ایس ایف پاکستان کی مرکزی جواینٹ سیکرٹری منتخب ہوئیں اور انیس سو ستتر تک اس عہدے کو تمام نامساعد حالات کے باوجود بخوبی نبھاتی رہیں۔
دورِ طلب علمی ختم ہونے کے بعد بھی وہ طلبا محاذ پر ذمہ داریاں نبھاتی رہیں۔ انیس سو ستتر میں سندھ میڈیکل کالج کی بسوں کی تحریک کے دوران طالبِ علموں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر لالہ رخ جامعہ کراچی یونٹ کی نسرین زہرہ کے ہمراہ گرفتار طالبِ علموں کے گھر جا کر ان کے والدین کی ہمت بڑھاتیں اور عملی مدد فراہم کرتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں خواتین محاز منظم کرنے کی ذمہ داریاں بھی دی گئیں اور وہ خواتین محاذ کے جریدے ’آدھی دنیا‘ کی بھی نگران مدیر رہیں۔
انہوں نے دورِ طالب علمی کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا اورڈیلی نیوز، ویکلی میگ، روزنامہ سن اور بعد میں ڈان سے منسلک رہیں۔ وہ پارٹی کے قانونی جریدے پندرہ روزہ ’پرچم‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی تب تک نبھاتی رہیں جب تک اس پر پابندی عائد نہ ہو گئی۔ انیس سو اٹھہتر کی صحافتی آذادی کی تحریک میں انہوں نے سرگرمی سے حصہ لیا اور تحریک کے دوران انہیں گرفتار کر کے ان کی ایک سالہ بیٹی کے ہمراہ نظربند کر دیا گیا۔ ان کی بیٹی کی پہلی سالگرہ کی تقریب ان کی گرفتاری کے دوران ہی کراچی پریس کلب میں منعقد کی گئی۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے ان کو ایک سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔
انیس سو اسی میں افغانستان میں روسی سوشل سامراج کی مسلح مداخلت پر پارٹی تقسیم ہو گئی۔ اس عمل سے وہ مایوس ہو کر سیاسی عمل سے دور ہو گئیں۔ اپنے آخری سالوں میں وہ چرچ آف سائنٹولوجی سے منسلک ہو کر امریکہ جا بسیں۔
انہیں آج بھی ایک بے حد شگفتہ مزاج، نہایت محنتی اور مخلص کارکن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لالہ رخ طویل علالت کے بعد انیس مارچ سن دو ہزار تیرہ کو انتقال کر گئیں۔
________________________________________________________________
حوالہ جات: گوہر تاج نقوی کی یارداشتیں، بذریعہ برقی ڈاک، چھبیس اگست دو ہزار تیرہ، توصیف احمد خان، آذاد صحافت کی آواز: لالہ رخ، روزنامہ ایکسپریس، ستائیس مارچ دو ہزار تیرہ

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts