🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

کیا اکیسویں صدی میں انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے؟

Back to Posts

کیا اکیسویں صدی میں انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے؟

ایک امن پسند انسان دوست ہونے کے ناطے جب میں انسانوں کے صدیوں کے ارتقا کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسانیت اکیسویں صدی میں ایک دوراہے تک آ گئی ہو اور اب اسے فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ان دو راہوں میں سے کس راہ کا انتخاب کرے۔
ایک راستہ غصہ ’نفرت‘ تلخی ’تضاد‘ تشدد اور جنگ کی طرف اور دوسرا راستہ محبت ’پیار‘ دوستی ’امن‘ دانائی اور آشتی کی طرف جاتا ہے۔
اگر انسانوں نے پہلا راستہ اختیار کیا تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ خانہ جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں سے اجتماعی خود کشی کے مرتکب نہ ہو جائیں

اگر انسانوں نے دوسرا راستہ اپنایا تو امید ہے کہ وہ کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ تعمیر کر سکیں گے جہاں ہر رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب کے لوگ خوشی سے مل جل کر رہ سکیں گے اور اپنے تضادات کا پر امن حل تلاش کر سکیں گے۔
انسانی ارتقا میں بیسویں صدی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور وہ واقعہ ایٹم بم کی ایجاد تھا۔ اس ایجاد نے انسان کی اجتماعی نفسیات پر ایک گہرا اثر ڈالا۔ ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں انسانوں کی اس اجتماعی نفسیات کا موازنہ انسانوں کی انفرادی نفسیات سے کرنا چاہتا ہوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دو سال کا بچہ خودکشی نہیں کر سکتا اور چار سال کی بچی بھی خود کشی نہیں کر سکتی لیکن جب کوئی بچہ یا بچی چودہ پندرہ سال کے ہو جاتے ہیں اور adolescence کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ اگر چاہیں تو خودکشی کر سکتے ہیں اور بعض نوجوان نفسیاتی مسائل سے مجبور ہو کر خود کشی کر بھی لیتے ہیں لیکن اکثر نوجوان اس دور سے گزر کر جوان ہوتے ہیں ’زندگی کے تجربات سے سیکھتے ہیں‘ عاقل اور بالغ ہوتے ہیں ’اور پھر زندگی سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں سات ارب انسان اجتماعی طور پر adolescence سے گزر رہے ہیں۔ ماضی کی جنگوں میں انسان چند سو یا چند ہزار انسانوں کا قتل کرسکتے تھے۔ انسانوں کی تاریخ میں ایٹم بم بنانے کے بعد یہ پہلی دفعہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اجتماعی طور پر خود کشی کر سکتے ہیں اور پوری انسانیت کو کرہِ ارض سے نیست و نابود کر سکتے ہیں۔
میں انسان دوست ہونے کے ناطے یہ امید رکھتا ہوں کہ انسان جنگ کی بجائے امن کے راستے کا انتخاب کریں گے ’محبت‘ پیار اور دانائی کا راستہ اپنائیں گے اور کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ قائم کریں گے۔
کرہ ِ ارض پر پرامن معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
ہر ملک میں عوام کا سماجی شعور اس سطح پر لایا جائے جہاں وہ جنگ پر امن کو ترجیع دیں
ہر قوم میں ایسے سیاسی ’مذہبی اور سماجی رہنما پیدا ہوں جو عوام کی امن کی طرف رہنمائی کریں
بین الاقوامی سطح پر ہمیں ایک ایسی اقوامِ متحدہ چاہیے جو ایک امن کی فوج اور PEACE FORCE رکھتی ہے جو ساری دنیا کے ممالک کے فوجیوں سے مل کر بنی ہو اور کرہِ ارض پر امن قائم کرنے میں ایک فعال کردار ادا کر سکے۔
ایک انسان دوست ہونے کے ناطے میں اس دن کا خواب دیکھتا ہوں جہاں ساری دنیا میں ہر مرد ’عورت اور بچے کی جان اور مال محفوظ ہو اور اسے جنگ کا بالکل خطرہ نہ ہو۔ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ ایک خواب ہے لیکن ہم سب پہلے خواب دیکھتے ہیں اور پھر مل کر اس خواب کو شرمندہِ تعبیر کرتے ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے میں امن کا نوبل انعام پانے والے دانشوروں کی تقاریری کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ ان دانشوروں نے اپنی تقاریر میں جنگ کی وجوہات پر روشنی بھی ڈالی ہے اور امن قائم کرنے کے مشورے بھی دیے ہیں۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں امن ایک قوسِ قزح کی طرح ہے جس کے کئی رنگ ہیں۔ معاشی امن ’سماجی امن اور سیاسی امن اس قوسِ قزح کے تین رنگ ہیں۔
بنگلہ دیش کے محمد یونس معاشی امن کے نمائندے ہیں۔ ان کا کہنا کہ غربت امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اگر ہمیں اس دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو ہمیں امیر اور غریب کے فرق کو کم کرنا ہوگا
امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ سماجی امن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نسلی تعصب امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں ایسا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جہاں رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر انسان ایک دوسرے کو گلے لگائیں۔

جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا سیاسی امن کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے ایک ربع صدی جیل میں گزارنے کے باوجود اپنے دشمن سے ہاتھ ملایا اور کالوں گوروں نے مل کر جنوبی افریقہ میں جمہوریت کے ذریعے ایک پر امن معاشرہ قائم کیا۔
ہر قوم ’ہر ملک اور ہر عہد میں ایسے رہنما پائے جاتے ہیں جو عوام کو امن کے خواب دکھاتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے دانشور سماجی ارتقا میں انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں تا کہ ساری دنیا میں پرامن اور انصاف پسند معاشرے قائم ہو سکیں۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts