سوشلزم ، سینٹرل ایشیا کی تاریخ کاایک نیا موڑ
( پائند خان خروٹی)
دنیا میں اگر براعظم ایشیاء کو’’ کنفیوزڈ لینڈ ‘‘کہا جائے تو بے جانہ ہوگا یہ کنفیوژن جو صدیوں پر محیط ہے سامراجی قوتوں اور ان کے حواریوں کے مذموم مقاصد اور یہاں کے مقامی حکمرانوں اور دانشورں کی نااہلی کاباعث ہے جس نے پورے خطے میں بے یقینی کی صورتحال پیدا کررکھی ہے اور آج خطے کی غیر مادی کلچر(Non-tangible Culture)کے بارے میں بھی کئی شکوک وشہبات پائے جاتے ہیں ۔ اس تناظر میں ایشین الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر فراہم کیے جانے والے علم ومعلومات ، تعلیمی اداروں میں رائج نصاب ونظام تعلیم اور لوگوں کو فکری رہنمائی فراہم کرنے والے ادیب اور سیاستدان بھی مختلف پروپیگنڈوں کے زیر اثر ہیں ۔ ہمارے ہاں آج بھی انسانی تاریخ کو مسخ کرنے ، درباری روایت کو برقرار رکھنے اور اپنے پیش روؤں کی نااہلی اور ناکامی کوچھپانے والوں کو مختلف القابات سے نوازے جاتے ہیں جبکہ فلسفہ ،سائنس ، تنقیدی شعور اور ترقی پسندانہ نظریات کی روشنی میں انسانی زندگی کے حقائق بیان کرنے والوں پر منکر وملحد کے ٹپے لگتے رہتے ہیں ۔ اپنوں کی غلطیوں کو چھپانے اور غیروں کی خوبیوں کو پس پشت ڈالنے جیسی جھوٹی مگر مقدس ر وایت کی پاسداری سے ہم مجموعی طور پر نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے قارئین وسامعین کو کو ذہنی طورپر مطمئن کرنے کی بجائے ان کی ذہنی سطح بلند کرنے ، ان میں نئے سوالات کرنے کاجذبہ اُبھارنے ، تصویر کادوسرا رخ دکھانے اور چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھنے کادرس دیں تاکہ مشتعل میلے لگانے اور نہتے عوام کے پاکیزہ جذبات کے ساتھ کھیلنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
یورپی ایشیائی ملک روس پر تقریباً تین سو برس تک ایک ہی خاندان رومانوف کی بادشاہت مسلط تھی اور روسی بادشاہ کیلئے لقب زار استعمال ہوتا تھا۔ جبکہ Tsardom of Russiaکے توسیع پسندانہ عزائم اور سب کچھ بٹورنے کی ہوس نے سولہ ریاستوں بشمول مسلم اکثریتی علاقے آذر بائیجان ، ترکستان ، ازبکستان ، قازقستان ، تاجکستان ، داغستان (کاکیشیا)، کرغستان ، کریمیا ، ایدل اورال ، والگا اور چیچینا وغیرہ پر طویل عرصے تک قبضہ جمائے رکھا ۔ سوائے افغانستان کے جس نے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھا باقی تقریباً سینٹرل ایشیا کے تمام ممالک زار روس کے تسلط میں رہے ۔’’ زار سلطنت محض ایک قومی ریاست نہیں تھی ۔ روس براعظم ایشیا اور یورپ کی بہت سے قومیتوں کے علاقوں پر مشتمل ایک کثیر القومی ریاست تھی ۔ اس میں دوسو سے زائد قومتیں شامل تھیں ۔ یہ قومتیں ایک دوسرے سے انتہائی مختلف تھیں ۔زار روس کے زمانے میں ان کے ساتھ محکوم لوگوں جیسا سلوک کیاجاتا تھا ۔ ان کی زبان اور ثقافت کو کم وبیش دبا کر رکھا جاتا تھا ۔وسطی ایشیا کے ان لوگوں کی بہتری اور ترقی کیلئے بھی کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا تھا ۔( جواہرلال نہرو، 1)
روس کی زار شاہی نہ صرف روس میں موجود تمام روسیوں اور غیر روسیوں کیلئے ناسور تھی بلکہ یہ پوری دنیا کی ارتقاء اور ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی ۔ انسان اور انسانیت کی ترقی کیلئے شاہ اور شاہ پرستوں کاخاتمہ اشد ضروری تھااور ہے۔ شاہی نظام اور خاندانی حاکمیت کے منفی اثرات مرتب ہورہے تھے ۔’’عظیم روسی کسی بھی جنگ میں زار شاہی کی شکست چاہے بغیر اپنے مادر وطن ک ادفاع نہیں کرسکتے کیونکہ عظیم روس کے نوے فیصد ی باشندوں کیلئے زار شاہی بدی ہے ۔ اس لئے زار شاہی ان نوے فیصدی لوگوں پر نہ صرف معاشی اور سیاسی لحاظ سے ظلم ڈھاتی ہے بلکہ دوسری قوموں کو غلام بنانے کی تعلیم دے کر اور اپنی بے شرمی کو ریا کارانہ اور نام نہاد حب الوطنی کے فقروں سے چھپا کر انہیں پست ہمت بناتی ہے ۔ ان کے اخلاقی بگارٹی ہے ۔ انہیں بے آبرو کرتی ہے اور انہیں بیسوا بناتی ہے ۔‘‘(ولادمیر لینن ، 2)
لہذا روس کے باشعور اہل علم وسیاست نے1898 ء میں ’’سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی ‘‘ کے پلیٹ فارم سے زار شاہی کے ظلم ، جبر ، استحصال اور معاشی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہرمحاذ پر شعوری جدوجہد کی ۔ انقلابی نظریہ اور مبارزہ کی بدولت انیس برس کی قلیل مدت میں معاشرے کی عظیم اکثریت کی توسط سے دنیا کی مضبوط ترین روسی بادشاہت اور وائٹ گارڈز کوزمین بوس کرنے میں کامیاب وکامران رہے ۔ روس میں زار شاہی دور کے بورژ وا (Bourgeois)اور کولاک (Kulak) کوعوامی رنگ میں رنگنے سے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ استحصال ، تعصب اورجنونیت میں ملبوس عناصر صحیح معنوں میں بے نقاب ہونے لگے ۔ واضح رہے کہ یہ تبدیلی روس تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشت وسیاست پر اثر انداز رہی ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مارکسی معاشی وسیاسی نظریات اور طبقاتی جدوجہد (Class War)کے اس نئے موڑ سے دنیا بھر کے بادشاہوں ، فوجی آمروں اور بالخصوص معاشی اجارہ داروں پر اپنے گھروں میں زمین تنگ ہونا شروع ہوئی ۔ بالشویک انقلاب1917 ء نے نہ صرف دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں کو تقویت بخشی بلکہ مزدور اور کسان تحریکیں اپنے حقوق وآزادی کیلئے ایک نئے انداز میں سراٹھا نے لگیں ۔ اس طرح انسانی وفکری ارتقاء نے ایک نئی کروٹ لی۔ جس نے علامہ اقبال کو بھی یہ کہنے پر مجبور کیا کہ :
قوموں کی روش سے ہوتا یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمی گفتار
جب پہلی دفعہ انگریز سامراج اور جعتی قوتوں کی گردنیں ناپی گئیں تو انہوں نے بھی اپنے بقاء کیلئے ایک طرف فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور دوسری طرف رائل پیراسائٹ(Royal Parasite)اور مقدس مقامات کے ذریعے لوگوں کو پورے سماجی نظام کو نئے سرے سے معاشی بنیادوں پر استوار کرنے کے مطالبے سے دستبردار کرنے اورجزوی اصلاحات پر صبر وشکر ادا کرنے کادرس دیا ۔ زمینی بادشاہت کوآسمانی بادشاہت کے ساتھ جوڑنے سے اپنے تشدد اور استحصال کوچھپانے کی ناکام کاوشیں کیں ۔ا نقلاب اور انقلابیوں کو ناکام اور بدنام کرنے کیلئے مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے ۔ مارکسی نظریہ اور مبارزہ کی خوشبو کو سمندر پار پھیلنے اور بکھیرنے کیخلاف ان کی تمام سازشیں بے سود ثابت ہوئیں ۔ انٹرنیشنل علم ودانش کے اُفق پر رشین انٹلیجنسیاء(Intelligentsia) کاچھا جانے اور دنیا سے چھیننے کی بجائے دنیا کو کچھ پیش کرنے کی پوزیشن میں آنے سے ولاد میر لینن بھی خوشی سے جھوم اٹھا اور رشین دانشور طبقہ اور تنظیمی کمیساروں پر لفظوں کے پھول یوں نچھاور کیے ۔’’ ہمیں اس پر قومی فخر ہے کہ عظیم روسی قوم نے بھی ایک انقلابی طبقہ پیدا کرلیا ہے اور اس کی تصدیق بھی کی ہے کہ وہ انسانیت کو آزاد اور سوشلزم کی جدوجہد کے عظیم نمونے پیش کرنے کے قابل ہے ‘‘۔ (ولادمیر لینن ، 3)
بالشویک انقلاب نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ بورژوا کے مقابلے میں پرولتاریہ(Proletariat)کے مبہم کردار کو واضح کرنے ، خیالی سوشلسٹ ریاست کو عملی شکل دینے ، کینسرزدہ استحصالی نظام کو سر کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور مختلف قومیتوں اور جمہوریتوں پر مبنی رضا کارانہ اتحاد بنانے کیلئے مضبوط اور مستحکم اشتراکی بنیادیں فراہم کرنے میں اولین کردار ادا کیا ۔ برسراقتدار آتے ہی سائنسی سوشلزم سے پیوستہ اور خلق خدا سے جڑے ہوئے خلقی قائدین نے ہر قسم کے قومی ، مذہبی اور جغرافیائی تعصبات اور امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کانام روس کے بجائے ’’ زیارکشوں کا گھر‘‘ (USSR)یعنی یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلکس ‘‘ رکھا اور نسلاً روسی ہونے کے باوجود تمام سرکاری دستاویزات سے لفظ روس نکال کرد نیا بھر کے ذی فہم انسانوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ قومیتوں اور جمہوریتوں کا یہ رضا کارانہ اتحاد معاشی مساوات ، حق خود ارادیت ، برابری اور ثقافتی آزادی پر استوار تھا ۔ جو ہر لال نہرو نے اپنی آنکھوں دیکھا حال اور مختلف جمہوریتوں کے رضاکارانہ اتحاد کو یوں بیان کیا ہے ۔’’سوویت یونین میں جمہورتیں ہر اعتبار سے مساوی درجہ رکھتی ہے ار ہر ایک جمہوریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے یونین سے علیحدہ ہوجائے ۔یونین کا آئینی نظام د وسرے قوانین کی طرح تبدیل ہوسکتا ہے ۔ یعنی لچکدار ہے اور نئے حالات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں ۔ اُس میں قومی اختلافات کو تسلیم کیاگیا ہے اور مختلف قسم کے تمدنوں کو ترقی دینے کی کامل آزادی حاصل ہے ۔ زمانہ سابق کا عہد حکومت اپنی زبان اورتمدن کو ان تمام قوموں میں جو اس کے ماتحت تھیں زبردستی رائج کیاکرتا تھا لیکن اب یہ بات نہیں ہے ۔‘‘(جواہرلال نہرو، 4)
واضح رہے کہ ولاد میر لینن جس طرح انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف تھے اسی طرح وہ ایک قوم کے دوسری قوم پر جبر واستحصال کے بھی خلاف تھے ۔ وہ قوم پرست تونہیں تھے مگر قومی جبر واستحصال کی ہر شکل کے مخالف تھے ۔ دوسرا یہ کہ وہ زار شاہی سلطنت میں شامل اقوام کو سوویت یونین سے علیحدہ کرنے کی بجائے رضاکارانہ شمولیت کے حق میں تھے جس کیلئے انہوں نے ہر قوم کی حق خود مختیاری سے بھی انکار نہیں کیا ۔ سوویت یونین میں یہ چھوٹی اور بڑی قوم کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیاگیا ۔ بعض وہ قومتیں اور خانہ بدوشی روسی قبائل جن کی مادری زبان کارسم الخط نہیں تھا ان کے رسم الخط کو ازسر نو بنانے اور ترتیب دینے کیلئے ماہرین لسانیات کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔ سامراجی قوتوں اور رجعت پرستوں نے دو مختلف مگر حساس مسائل مذہب اور قوم کے ساتھ جذباتی وابستگی پیدا کرکے روس کے اندر اور بیرونی دنیا میں دونوں پر تیل چھڑک کر سادہ لوح لوگوں کو مارنے اور مرمٹنے پر اکساتے رہے ۔ مگر روس کے عوامی کمیساروں(People’s Commissars) اور سیاسی دانشوروں نے ان دونوں حساس مسئلوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کو سائنسی انداز میں سمجھنے اور حل کرنے کیلئے عملی اقدامات کیے جس کے نتیجے میں کروڑوں انقلابیوں کے ساتھ باشعور مذہب پرستوں نے بھی کامریڈ ولاد میر لینن ، جوزیف اسٹالن اور لیون ٹراٹسکی کے ہاتھ ریڈ آرمی کی طرح مضبوط کرتے رہے ۔
وسط ایشیا اپنی جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے نہایت اہمیت کاحامل ہے ۔ یہ براعظم یورپ اور ایشیا کے درمیان آمد ورفت اور تجارت کاسب سے اہم گزرگاہ ہے ۔
بدبختانہ وسط ایشیا کے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاریخ میں پسماندگی ، ناخواندگی اور محرومی کے شکار رہے ہیں ۔ پہاڑوں اور چراگاہوں پر مشتمل یہ خطہ بالشویک انقلاب برپا ہونے تک عوام دوست قیادت سے نہ صرف محروم تھا بلکہ تاریخ میں چنگیز خان ، ہلاکو خان سے لیکر زارروس تک کے معاشی غنڈوں نے پاؤں تلے کئی بارروندا ۔ ان ریاستوں کے عوام ظالم وجابر حکمرانوں کے علاوہ غیر ملکی پیشہ ور لیٹروں اور جنگجوؤں کے رحم وکرم پر رہتے تھے ۔ تعلیم ، ترقی اور جدید زندگی کے تقاضوں سے آشنائی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سینٹرل ایشیا میں سامراج کے مقامی گماشتے (Compardors) بھی غریب عوام کے خون چوستے رہے ۔ زار روس نے تو ان پر علم وشعور کے دروازے بند رکھے تھے ۔ ایسے مایوس کن حالات میں ولاد میر لینن ان کیلئے ایک عظیم غمخور اور زیر مخور بن کر سامنے آیا جس نے خود ان علاقوں کے عوام کو سیاسی شعور اور طبقاتی جدوجہد کااحساس دلاکر زارروس کے ظالمانہ نظام کے خلاف لڑنے اور اپنے جیسے دیگر استحصال کے شکار محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کے ساتھ رضاکارانہ اتحاد قائم کرنے پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ ان کیلئے سماجی ،ثقافتی اور تعلیمی ترقی کے ایسے درکھول دیئے جس کا اس سے قبل سینٹرل ایشیا کے مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ یہ کامریڈ لینن ہی تھا جس نے وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کو سوفیصد تعلیم کی سہولت سے سرفراز کیا ۔ ریلوے لائن اور سڑکوں کاجال بچھا یا ، کارخانوں اور صنعتوں کے قیام سے ان کی معیار زندگی بلند کیا ۔ سینٹرل ایشیا کے چراگاہوں کو صنعتی زون میں تبدیل کرنے اور چرواہوں کوسائنس لیبارٹری تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کے ذہنوں کو مارکسی نظریہ اور تنقیدی شعور سے منور کیا جس کے نتیجے میں سینٹرل ایشیا میں آباد قوموں کی زبان ، ثقافت اور علم وادب پر تعمیری اثرات مرتب ہونے لگے ۔ انہیں تاریخ میں پہلی بار بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کویقینی بنایا اور مجموعی طورپر ان وسط ایشیا ئی مسلم ریاستوں کوترقی ا ور تعلیم کے اس مرحلے تک پہنچادیا جہاں آج بھی مسلم ممالک کے علاوہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ بالخصوص بڑی معاشی قوتیں سینٹرل ایشیا کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں ۔
میری ذاتی خواہش ہے کہ میں اپنے قارئین کے سامنے کامریڈ لینن کے دستخط سے جاری کردہ انقلاب کے وقت وہ ’’روسی انقلاب کااعلان‘‘ رکھ دوں جس میں مسلمانوں کو معاشی وسیاسی حقوق کی فراہمی اور مذہبی وثقافتی آزادی دلانے کے وعدے کیے تھے ۔ اسی سے دوباتیں واضح ہوجائیگی اول یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے وعدے نبھانے میں روس کے انقلابی قائدین کس قدر سچے تھے ۔ دوئم یہ کہ سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کوروسیوں کے ساتھ جنگ میں کھڑا کرنے والی سامراج قوتیں اور ان کے حواری اپنے مفادات کیلئے کسی قسم کی آگ وخون کی ہولی کھیلتے رہے ۔ بالشویک انقلاب کے وقت انقلابی قائد نے سوویت یونین میں موجود مسلمان قومیتوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کرکے انقلابی فرمان یوں بیان کیا :
’’ روس کے مسلمانو ! والگا اور کریمیا کے ترکو اور تاتاریو ، ترکستان کے سارتو ، ٹرانس کا کیشیا کے ترکو اور تاتاریو اور وہ سب لوگوں جن کی مسجدیں اور عبادت گاہیں تباہ کردی گئی تھیں ا ور جن کے مذہب اور روایت کو روسی زاروں اورغاصب فرما نرواں نے پامال کردیاتھا ۔ آج سے تمہارا دین وایمان، تمہاری روایات ، تمہارے قومی اورثقافتی اداروں کی آزادی اور حرمت کااعلان کیاجاتا ہے ۔ اپنی قومی زندگی کی تعمیر آزادی سے اوربے روک ٹوک کرو ۔ یہ تمہارا حق ہے ۔ سوویت انقلاب تمہاری اور سوویت یونین کی تمام اقوام کی حفاظت اور تکریم کرے گا۔ سوویت یونین تم سے صرف تعاون چاہتی ہے ۔ عوامی کمیساروں کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مختلف قوموں کے متعلق اپنی پالیسی کی بنیادیں مندرجہ ذیل اصولوں پر رکھے گی ۔
1۔ روسی قوموں کو مساوی حقوق اورحاکمیت حاصل ہوگی ۔
2۔ روسی قوموں کو حق خود اختیار ی حاصل ہوگی ۔(5)
مندرجہ بالا انقلابی فرمان کی روشنی میں انقلابی قائدین سوویت یونین کے اندر موجود تمام اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کیلئے تعلیم ، صحت ، معیشت اور انفراسٹر کچر فراہم کرنے میں وہ کچھ کیا جو مسلمانوں کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا ۔ کامریڈ لینن کی زندگی میں مسلمانوں جمعہ کی چھٹی ، شرعی عدالتوں کے قیام ،روسی مسلم نیشنل کونسل ( مجلس شوریٰ) کاقیام اور سوویت یونین کی پارلیمنٹ میں بھرپور نمائندگی دی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے روس کو بجلی کی فراہمی، لینن کی نئی اقتصادی پالیسی اور اسٹالن کے پانچ سالہ منصوبے میں مسلمانوں کو برابری کی بنیادی پر حصہ دیا گیا ۔ایک وقت ایسا بھی آیا کے سینٹرل ایشیا کے کارپٹ بنانے والا ترکی اور فارسی زبان ، خلائی شٹل میں بیٹھ کر سائنسدانوں کے ساتھ خلائی سفر کرنے پر چل نکلے ۔ اس طرح سوشلزم سینٹرل ایشیا کی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ(Turning Point) ثابت ہوا ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں بعض مسلمان(انور پاشا سے لیکرابراہیم بیگ تک) نے جب سفید فوج اور جرمن فوج کے ساتھ دیکر سوویت یونین کے انقلابیوں کی مخالفت کی ۔ سلطنت عثمانیہ اور برطانوی سامراج کے اشارے پر ہتھیار اٹھا کر خانہ جنگی کوہوا دینے اورحالات کوسبو تاژ کرنے کی سازشیں کیں تو ریڈ آرمی اور بالخصوص کامریڈ سٹالن نے ان کو بسماچی (Basmachi)یعنی لٹیروں کی تحریک کانام دیکر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ۔
آج تقریباً سوسال کے بعد گوادر تا کاشغر اکنامک کوریڈور اور چاہ بہار تا یوکرین اکنامک کوریڈور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے معاشی قوتوں کے درمیان نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ۔نئے معاہدے(SCO & BRICS) نے نیٹو کو کاؤنٹر بیلنس کرنے کیلئے سیاسی ومعاشی افق پرنمودار ہوئے۔چائنا ، روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک سے حالات ایک بار پھر ایک نئے رضاکار انہ اتحاد کاتقاضہ کررہا ہے۔ پرانا شاہراہ ریشم ایک نئے نام کامتقاضی ہے ۔سوویت یونین کے انتشار کو تاریخ اور نظریے کے خاتمے سے جوڑنے والے آج تاریخ اور نظریے کی نئی پیدائش (Re Birth of History & Idealogy)لکھنے پر مجبور ہیں ۔ دوسری جانب امریکن مفادات کو ایندھن فراہم کرنے والے اپنے بھیانک انجام کودیکھ کر اپنے ہاتھ مسلتے رہ گئے جس سے سوشلزم کی حقانیت اشکار ہونے لگی ہے ۔ سینٹرل ا یشیا دنیا کی بڑی قوتوں کی معاشی وسیاسی سرگرمیوں کامرکز بنتا جارہا ہے اور یہی ایک نئے پرامن انقلاب کاپیش خیمہ ثابت ہوگامگر انسانوں کوتقسیم اور قوموں کو غلام بنانے والے ہمیشہ ناکام اور نامراد رہیں گے ۔
حوالہ جات:
1۔ نہرو ، جواہرلال، تاریخ عالم پر ایک نظر جلد سوئم، ناشر تخلیقات لاہور ، 2011ص 339
2 ۔لینن ، ولاد میر ، اشتراکی نظریات اور ثقافت، ناشر فیکشن ہاؤس لاہور ،2013، ص83/84
3۔لینن ، ولاد میر ، اشتراکی نظریات اور ثقافت، ناشر فیکشن ہاؤس لاہور ،2013، ص83
4۔ نہرو ، جواہرلال ،سیاحت روس، ناشر پورب اکادمی اسلام آباد،2005ص33
5۔چراغ راہ ،سوشلزم نمبر جلد اول مجلہ ادارۃ معارف اسلامی کراچی ،1967 ، ص313
Leave a Reply