اسمآ جہانگیر
اسمآ جہانگیر
ـــــــــــــــــــــــــــ
شعلہءبیدار جل کر سو گیا.اک ستارہ سا خلا میں کھو گیاعاصمہ کی موت پر غمگین ہوں
آج پاکستان گونگا ہو گیا
باقر رضا
گستاخ لگی نہ غدار لگی ہاں تھوڑی سی بیدار لگی
مردوں کے اس ریوڑ میں
اک عورت ہی جی دارلگیطارق سہیل میر
من چلیطارق سہیل میر_____
وہ ابھی اکیس برس کی لاء اسٹوڈنٹ تھی کہ اس کے والد کو جنرل یحییٰ خان نے جیل میں ڈال دیا
وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے پاکستان کے ایک ایک بڑے وکیل کے پاس گئی، سب نے جنرل یحییٰ خان کے خوف سے کیس لینے سے انکار کردیا
اس کم عمر لڑکی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑے گی ، عدالت نے اجازت دی اور وہ لڑکی کیس جیت گئی
پاکستان کی اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا
اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لاختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا
اس لڑکی کا نام عاصمہ جہانگیر ہے ۔۔ یہ پاکستان میں ملک دشمنی، غداری اور اسلام مخالف ایک ایسا استعارہ بن چکی ہے جسے گالی دینا گویا ایک روایت ہے
1983میں تیرہ برس کی صفیہ بی بی سے زیادتی ہوئی اور وہ حاملہ ہوگئی،صفیہ بی بی کو عدالت نے جیل بھیج کر اس پر جرمانہ عائد کردیاکیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونےوالی زیادتی کے گواہ نہیں لاپائی تھی اور ملزمان نے ثابت کردیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضامندی سے یہ گناہ کیا
عاصمہ جہانگیرنے یہ کیس لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچالیا، ضیاالحق کے اس دورمیں عاصمہ جہانگیر نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی ، جس پر پولیس تشدد پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے
1993میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا، اس موقع پر عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرکے ننھے بچے کو پھنسایا
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی تھی! پاکستان کا آئین یہ کہتا تھا کہ عورت کی شادی کے لیے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔۔۔سرپرستوں کی مرضی لازمی ہے اور یہ بات بھلا عاصمہ جہانگیر کو کہاں برداشت ہوتی ۔۔
اس نے عدالت سے پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی ومذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کرسکتی ہے
عاصمہ جہانگیرکی شخصیت کا اگر اندازہ کرنا ہوتو اس کی بے نظیر بھٹو سے مثالی دوستی اور مثالی مخالفت قابل ذکر ہے، بے نظیربھٹو اور عاصمہ جہانگیر بچپن کی سہیلیاں تھیں مگر ہر دور میں عاصمہ جہانگیر نے بے نظیر بھٹو کی زبردست سیاسی مخالفت کی۔۔
پاکستان میں عورتوں اور اقلیتوں کے لیے لڑنے والی اس عورت کا معیار بہت عجیب ہے ۔۔ کچھ عرصہ قبل ٹم سبسٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کی بدترین مخالف عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ اگر طالبان کا بھی ماورائے عدالت قتل ہوا تو وہ طالبان کےحق میں آواز اٹھائے گی
کیا کوئی عورت تصور کرسکتی ہے کہ سڑک پر اس کے ملک کے محافظ اس کے کپڑے پھاڑیں اور اور وہ بے بسی سے اپنے تن پر چادر ڈالنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتی پھرے ۔۔ عاصمہ جہانگیر پر یہ وقت بھی گزرا ہے۔۔یہ لڑکی جب ٹین ایجر تھی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف لڑی، نوجوان ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے غلط اقدامات کے خلاف آوازاٹھائی، یہ ضیاالحق کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ننھی ہیروئن کہلاتی تھی، یہ اپنی بہترین سہیلی بے نظیر بھٹو سے لڑی، اس نے نوازشریف کے اقدامات کو چیلنج کیا اور یہ پرویز مشرف کے لیے سوہان روح بن گئی
یہ عورت کسی کی نہیں ہے ۔۔ اس کے اپنے اصول ہیں اور یہ ان کے آگے کسی کی نہیں سنتی
یہ پاکستان کی بہادر عورت ہے ۔۔یہ قوم کی ایک قابل فخر ماں ہے ۔۔ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس کو غلط ثابت کرنا آسان نہیں ہ
وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے پاکستان کے ایک ایک بڑے وکیل کے پاس گئی، سب نے جنرل یحییٰ خان کے خوف سے کیس لینے سے انکار کردیا
اس کم عمر لڑکی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑے گی ، عدالت نے اجازت دی اور وہ لڑکی کیس جیت گئی
پاکستان کی اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا
اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لاختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا
اس لڑکی کا نام عاصمہ جہانگیر ہے ۔۔ یہ پاکستان میں ملک دشمنی، غداری اور اسلام مخالف ایک ایسا استعارہ بن چکی ہے جسے گالی دینا گویا ایک روایت ہے
1983میں تیرہ برس کی صفیہ بی بی سے زیادتی ہوئی اور وہ حاملہ ہوگئی،صفیہ بی بی کو عدالت نے جیل بھیج کر اس پر جرمانہ عائد کردیاکیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونےوالی زیادتی کے گواہ نہیں لاپائی تھی اور ملزمان نے ثابت کردیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضامندی سے یہ گناہ کیا
عاصمہ جہانگیرنے یہ کیس لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچالیا، ضیاالحق کے اس دورمیں عاصمہ جہانگیر نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی ، جس پر پولیس تشدد پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے
1993میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا، اس موقع پر عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرکے ننھے بچے کو پھنسایا
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی تھی! پاکستان کا آئین یہ کہتا تھا کہ عورت کی شادی کے لیے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔۔۔سرپرستوں کی مرضی لازمی ہے اور یہ بات بھلا عاصمہ جہانگیر کو کہاں برداشت ہوتی ۔۔
اس نے عدالت سے پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی ومذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کرسکتی ہے
عاصمہ جہانگیرکی شخصیت کا اگر اندازہ کرنا ہوتو اس کی بے نظیر بھٹو سے مثالی دوستی اور مثالی مخالفت قابل ذکر ہے، بے نظیربھٹو اور عاصمہ جہانگیر بچپن کی سہیلیاں تھیں مگر ہر دور میں عاصمہ جہانگیر نے بے نظیر بھٹو کی زبردست سیاسی مخالفت کی۔۔
پاکستان میں عورتوں اور اقلیتوں کے لیے لڑنے والی اس عورت کا معیار بہت عجیب ہے ۔۔ کچھ عرصہ قبل ٹم سبسٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کی بدترین مخالف عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ اگر طالبان کا بھی ماورائے عدالت قتل ہوا تو وہ طالبان کےحق میں آواز اٹھائے گی
کیا کوئی عورت تصور کرسکتی ہے کہ سڑک پر اس کے ملک کے محافظ اس کے کپڑے پھاڑیں اور اور وہ بے بسی سے اپنے تن پر چادر ڈالنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتی پھرے ۔۔ عاصمہ جہانگیر پر یہ وقت بھی گزرا ہے۔۔یہ لڑکی جب ٹین ایجر تھی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف لڑی، نوجوان ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے غلط اقدامات کے خلاف آوازاٹھائی، یہ ضیاالحق کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ننھی ہیروئن کہلاتی تھی، یہ اپنی بہترین سہیلی بے نظیر بھٹو سے لڑی، اس نے نوازشریف کے اقدامات کو چیلنج کیا اور یہ پرویز مشرف کے لیے سوہان روح بن گئی
یہ عورت کسی کی نہیں ہے ۔۔ اس کے اپنے اصول ہیں اور یہ ان کے آگے کسی کی نہیں سنتی
یہ پاکستان کی بہادر عورت ہے ۔۔یہ قوم کی ایک قابل فخر ماں ہے ۔۔ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس کو غلط ثابت کرنا آسان نہیں ہ
Leave a Reply