امریکی ساختہ لبرل جمہوریت کا فسطائی چہرہ
’’وہ (امریکا) کہتے ہیں کہ وہ ایک جمہوری ماڈل رائج کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ہے ان کا جمہوری ماڈل ! یہ تو اشرافیہ طبقے کی جھوٹی جمہوریت ہے۔ بل کہ میں تو کہوں گا کہ ایک نہایت ہی حقیقی جمہوریت، جسے ہتھیاروں، بموں اور بندوقوں سے نافذ کیا گیا ہے۔‘‘
( ہوگو شاویزکا 20ستمبر2006کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب )
کامریڈ فیدل کاسترو کی رحلت کے بعد ایک طرف امریکا و یورپ کے حکمرانوں نے اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے اور اس کے جلو میں مغربی پریس کو ایک بار پھر سوشلزم کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا ہے تو دوسری جانب اس میں ہمارے وہ لبرل دانش ور اور صحافی حضرات بھی پیچھے نہیں جن کا پسندیدہ مشغلہ مغرب کے چبائے پر جگالی کرنا ہے۔ امریکی لبرل جمہوریت کے یہ معذرت خواہ ’’ کمیونسٹ شہنشاہیت‘‘ اور ’’ خاندانی کمیونزم‘‘ کا رونا روتے ہوئے سرمائے کی گلیوں میں سر بہ گریباں ہیں اور کاسۂ گدائی میں جمہوریت کے نوحے لیے پھر رہے ہیں ۔
ان کے اتہامات کا بنیادی ماخذ Father of the so-called yellow press کہلانے والا ’ولیم ہرسٹ‘ ہے، جوایک امریکی ارب پتی تھا اور اس نے ایک ایسی صحافی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے نازیوں سے لے کر امریکا اور مغرب تک کے لیے برسوں سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈے کا مواد فراہم کیا۔ ولیم ہرسٹ تو1951 میں چل بسا لیکن ’’ہرسٹ کارپوریشن ‘‘ کی صورت میں دنیا کا ایک بڑا صحافتی ادارہ چھوڑ گیا جس کی پاس 1998 تک رسائل و جرائد، کتابوں، ریڈیو، ٹیلی ویژن ، ٹیلی ویژن کیبلز، نیوز ایجنسیوں اور ملٹی میڈیا اداروں کی ایک سو کمپنیاں تھیں۔
اس سلسلے میں دوسرا نام رابرٹ کانکیسٹ کا ہے۔ موصوف کا تعلق خفیہ برطانوی ایجنسی (IRD) سے تھا، جسے 1947 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا اصل نام ’’کمیونسٹ انفارمیشن بیورو ‘‘ تھا۔ برطانیہ کے سو سے زائد معروف صحافی اس ادارے سے وابستہ تھے جس کا بنیادی مقصد کمیونسٹ مخالف پروپیگنڈا تھا۔ یہ ادارہ فنانشل ٹائمز ، دی ٹائمز، دی اکانومسٹ، ڈیلی میل، ڈیلی مرر، دی ایکسپریس اور دی گارجین جیسے اخبارات کو سوشلزم مخالف مواد تیار کر کے فراہم کرتا تھا۔
ولیم ہرسٹ اور رابرٹ کانکیسٹ سے لے کر الیگزندر سولزے نٹسن، سخاروف اور میدویدوف تک نے جو سوشلزم مخالف مواد تھوک کے حساب سے اذہان میں نصف صدی تک انڈیلا، اس کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب گوربا چوف نے سوویت یونین کی سینٹرل کمیٹی کی دستاویزت کو منظر عام پر لانے کا حکم دیا ۔ بہرکیف کذب ، افترا اور اتہامات پر مبنی اس جھوٹے پروپیگنڈے کی خوراک پر پلنے والے یہ لبرل حضرات آج بھی سوشلزم کے خلاف مکھی پر مکھی مارنے کی اسی پرانی روش پر چل رہے ہیں ۔
کمیونسٹ آمریت ان کا مرغوب موضوع ہے لیکن انہیں سرمایہ دارانہ آمریت کی یہ’’ درخشاں روایات‘‘ نظر نہیں آتیں کہ خود جمہوریت کے عالمی چیمپئین کہلانے والے امریکہ میں جان ایف کینڈی اور ان کے بھائی رابرٹ کینڈی اقتدار کی غلام گردشوں میں نظر آتے ہیں، کبھی جارج ڈبلیو بش کے بعد ان کا بیٹا بش جونیئر اور سابق صدر بل کلنٹن کہ اہلیہ ہیلری کلنٹن آج تک نظر آتی ہیں۔ انڈونیشیا میں احمد سوئیکارنو کی بیٹی سویئکارنو پتری، سری لنکا میں مسٹر نائیکے کی بیوی بندرا نائیکے ، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد، انڈیا میں جواہر لعل نہرو پھر ان کی بیٹی اندرا گاندھی ان کے بعد اندرا کا بیٹا راجیو گاندھی اور اب خیر سے چوتھی نسل راؤل گاندھی کی شکل میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے تیار ہے۔ ایسی ہی مثال ہمیں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔
ہم فرانکو، مارکوس، مبوتو، ٹروجیلو، سموزا ،سوہارتو، پنوشے، ضیاالحق اورسعودی، بحرین، قطر، دبئی وغیرہ کے آمروں کی بات نہیں کر رہے جو امریکی سنگینوں کے سائے میں پروان چڑھے بلکہ یہ چند موٹی موٹی مثالیں ان کی ہیں جو ’’معروف جمہوری طریقوں‘‘ سے منتخب ہوئے۔ یہ’’جمہوری آمریت‘‘ کسی ’’دیدۂ بینا‘‘ کو نظر نہیں آتی، اس پر سامراج کی نمک حلالی کرنے والا کوئی لبرل دانش ور ، کوئی جمہوریت پسند کچھ نہیں بولتا۔ ہاں سوشلسٹ اور سامراج مخالف ممالک کے خلاف بیرونی امداد کے بل بوتے پر پٹاخے پھوڑ کر خود کو جمہوریت کے نابغۂ روزگار کہلوانے میں یہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
الزامات کی ایک طویل فہرست ہے، سنگِ دشنام کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو ہر اس ملک کے خلاف جاری ہے جو امریکی کبر ونخوت کے حضور سر بہ سجود ہونے سے انکاری ہیں، جو اپنے وسائل کے آپ مالک ہیں اور اپنے انقلابات کی سربلندی اورقومی وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں، جنہوں نے کبھی کسی پر جارحیت نہیں کی لیکن خود امریکا کی بالواسطہ اور بلا واسطہ جارحیت کا شکار ہیں، جنہوں نے کسی کے وسائل نہیں لوٹے لیکن ان کے وسائل ہڑپ کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
ہر وہ ملک جو اس کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا، اس کے نزدیک ’’بدی کا محور ‘‘ ہے ۔لیکن لبرل اور جمہوری امریکا خود کیا ہے؟ اپنی سرشت میں ایک فسطائی آمرانہ ریاست، جس کی ساری تاریخ جبر وتعدی، قوموں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، ان کے قتل عام اوران پربہ زور اپنی سام راجی بالادستی قائم کرنے سے عبارت ہے۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب یورپ سے نسل پرست گوروں نے بندوقوں کے ساتھ اس خطے پر یلغار کی اور یہاں کے قدیم باشندوں کی نسل کشی کرتے ہوئے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے بڑی تعداد میں عادی اور سزا یافتہ مجرموں کو یہاں لا کر آباد کیا، جس کا اعتراف امریکا کی سرکاری تاریخ کی کتاب “An Outline Of American History” ( ایڈیٹر ،Howard Cincotta) میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:’’ججوں اور جیل حکام نے سزایاب مجرموں کو موقع دیا کہ وہ ملکی جیلوں میں سڑنے کی بجائے ترک وطن کر کے نوآبادیوں میں منتقل ہو جائیں‘‘(صفحہ نمبر25)۔
یہ جرائم پیشہ اور ان کے سرپرست ہی تھے جو تہذیب و تمدن کے نام نہاد معمار کہلائے، جنھوں نے اس خطے کی قدیم ’’مایا‘‘ ،’’انکا‘‘ ،’’اولمیک‘‘ اور ’’ ازتیک‘‘ تہذیبو ں کو برباد کیا۔ فاتح کے طور پر شمالی امریکا سے جنوبی امریکا تک پر قابض ہونے والے ان ڈاکوؤں نے ’’مجسمۂ آزادی‘‘ بھی تعمیر کرڈالا اور آزادی کی گھنٹی (Liberty Bell) بھی جس پر تحریر ہے کہ’’ یہ پوری سرزمین کے تمام باشندوں کی آزادی کی دعوے دار ہے‘‘ لیکن اسی کے سائے تلے انہوں نے ریڈ انڈینز اور سیاہ فام امریکی باشندوں سے لے کر دنیا بھر میں مظلوم انسانوں کو آزادی سے محروم کیا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔یہ مجسمہ آزادی ہی ہے جس کے قدموں تلے ایک زمانے سے انسانی شرف اوروقار سسک رہا ہے، کراہ رہا ہے لیکن’’جمہور کی سالاری‘‘ کے غلغلے میں کون ہے جو اس پر کان دھرے؟ سرمائے کی ’’ضیا پاشیوں‘‘ نے ساری تاریکیوں پر ایک دبیز پردہ ڈال رکھا ہے جس میں لبرل دانش ور پیش پیش ہیں۔
شمالی امریکا کے قدیم ریڈ انڈینز باشندوں کے بدنام زمانہ قاتل اور بعد میں امریکی صدر بننے والے جیکسن اینڈریو کی نسل پرستی کا یہ عالم تھا کہ وہ برسرِ عام کہا کرتا تھا، ’’ ایک مرا ہوا ریڈ انڈین ہی اچھا ریڈ انڈین ہوتا ہے.‘‘ ابراہم لنکن جو امریکا کا سولہواں صدر منتخب ہوا اورجس کا ذکر امریکی بڑے فخر سے کرتے ہیں اور جس کے کارناموں کی، اس کی انسان دوستی کی غلامی کے خاتمے کی جدوجہد وغیرہ کی ایک طویل فہرست پیش کی جاتی ہے، وہ دراصل امریکی فوج کا ایک کپتان تھا جس کی سربراہی میں مقامی باشندوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ اپنے پیش رؤں اور ہم عصروں کی طرح وہ بھی کوئی کم فسطائی اور نسل پرست نہ تھا۔ 9جولائی 1858 کو صدارتی انتخاب میں اس کے مدِ مقابل اسٹیفن ڈگلس نے یہ بیان دیا کہ ’’ ہماری حکومت سفید فام لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کی گئی ہے ۔یہ سفید فام لوگوں نے بنائی ہے سفید فام آدمیوں کے بھلائی کے لیے اورسفید فام آدمیوں کے لیے کہ وہ اس کا انتظام کریں‘‘۔
اب ذرا اس کے جواب میں ابراہم لنکن کی گل افشانی ملاحظہ فرمائیں:’’میں نہ تو اس وقت اس بات کا قائل ہوں اور نہ ماضی میں رہا ہوں کہ سفید فام اور سیاہ فام لوگوں کے درمیان سماجی وسیاسی طور پر مساوات ہو۔میں نہ تو اب اور نہ ہی آنے والے وقت میں اس امر کی حمایت کروں گا کہ نیگروز کو ووٹ کا حق دیا جائے یا انھیں عدالت میں جیوری میں بٹھایا جائے۔‘‘
برطانیہ کے سیاسی تسلط سے آزادی کے لیے امریکا میں جو ’’جنگِ آزادی‘‘ لڑی گئی، اس کے بارے میں معروف امریکی مؤرخ بنک فورٹ Bancfort نے لکھا کہ’’درحقیقت یہ جنگ آزادی اور جمہوریت کی فتح تھی‘‘۔لیکن اس نے یہ نہیں لکھا کہ آزاد ملک کا دستور بنانے کے لیے جب کنونشن کا انعقاد کیا گیا تواس کے مندوبین میں صرف بڑے بڑے زمیں دار، تاجر، صنعت کار، چرچ کے عہدے دار اور وکلا وغیرہ ہی شامل تھے۔اس میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، یہاں تک کے تھامس پینThamas Paineکی بھی نہیں جس کی شہرۂ آفاق کتابComman Sense نے جنگ آزادی کے دوران لوگوں کے جذبات بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اسی طرح سموئیل آدمSamuel Adamجیسے متحرک سیاسی کارکن کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں جن نظریات کے حامل تھے، ان میں نسل پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
امریکا کا دستور بنانے والا بٹ ماروں کا ایک ٹولہ تھا جن کی تقاریر سے ان کی ذہنی پستی وافلاس کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مندوب چارلس پنک نیCharles Pinck Ney نے اس کنونشن میں تجویز دی کہ’’امریکا کا صدرایسا شخص ہونا چاہیے جس کے پاس ایک لاکھ ڈالر کی رقم موجود ہو۔‘‘ اسی کنونشن میں عوام کو ’’گندہ مجمع ‘‘ اور ایسے ’’کیڑے مکوڑے‘‘ قرار دیا گیا تھا جنھوں نے سوچنا اور غور کرنا شروع کر دیا ہو۔انہوں نے متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’عوام ابھی جمہوریت کے قابل نہیں ہیں۔‘‘
یہ ہے امریکی فسطائیت کا اصل چہرہ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شروع دن سے ہی جمہوریت اورانسانی آزادی کا کتنا بڑا علم بردارہے۔بہت سے باضمیر امریکی لکھاریوں، دانش وروں اور مؤرخین نے کئی موقعوں پر اس کا پردہ فاش کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ایک ایسا ہی امریکی مؤرخ جیمس ڈبلیو لوون تھا، جس نے ان الفاظ میں سفید سام راج کا بھانڈا پھوڑا: ’’1815سے لے کر بعد کے زمانے تک بہ جائے اس کے کہ ہم جمہوریت کو مقبولِ عام بناتے، ہم نے سفید اقوام کی نسلی برتری کو دوسرے ممالک تک پہنچایا۔ ہم نے امریکی سیاسی تسلط کو میکسیکو سے آگے بڑھا کر فلپائن تک پہنچایا اور جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) بھی ہم سے محفوظ نہیں رہے اور یہ تسلط بلاواسطہ دوسری اقوام تک پہنچایا گیا۔اگرچہ یورپی
اقوام نے اب ظاہر کیا کہ ہم نے جو کچھ مغربی سرحدوں پر کیا اس سے انھیں گہرا صدمہ پہنچا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا بل کہ انھوں نے ہماری تقلید شروع کر دی۔ہم نے امریکی انڈینز کے لیے جو کیمپ بنائے تھے اس کی ہٹلر بہت تعریف کرتا تھا اور اپنے قریبی حلقوں میں اس کا اظہار کرتے ہوئے امریکی چابک دستی اور مہارت کی داد دیتا تھا جنہوں نے مقامی باشندوں کو بھوکا مار کر اور اپنے بہترین ہتھیاروں کے ذریعے قتل کر کے ختم کر دیا۔ اس کا یہ ماڈل تھا کہ جس پر عمل کرتے ہوئے اس نے یہودیوں اور خانہ بدوشوں کو کیمپوں میں محصور رکھ کر ختم کیا۔‘‘
آج تک امریکا کی تاریخ اسی فسطائیت اور جبروعقوبت کی تاریخ ہے، لیکن یہ ستم ظریفی بھی تو دیکھیے کہ آج یہ لطیفہ سنانے والوں کی دنیا میں کوئی کمی نہیں کہ امریکا بہادر ’’جمہوریت پسند‘‘ اور ’’مظلوموں کا مونس وغم خوار ‘‘ ہے، پہلے امریکا بہادر سے بھلے کچھ ’’غلطیاں‘‘ ہوئی ہوں مگرسرد جنگ اور کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد اس کی فطرت بدل گئی ہے، اب وہ دنیا بھر میں امن وانصاف اور جمہوریت کا بول بالا کرنے نکلا ہے، اس کا مطمح نظر آمریتو ں کو تہس نہس کر تے ہوئے جمہوریت کی دیوی کے چرنوں میں سفید پھول رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ امریکا بہادر کو جمہوری اور ترقی پسند ثابت کرنے والے کہتے ہیں کہ سائنسی اور تیکنیکی انقلاب کے نتیجے میں جدید سرمایہ دارانہ نظام (جس کی نکیل امریکا بہادر کے زیر پا ہے) نے صنعتی پیداوار کے سلسلے میں جو ترقی کی ہے، اس کی بہ دولت امریکا اپنے استحصالی کردار کے باوجود پس ماندہ اور کم ترقی یافتہ اقوام کو تیکنیکی ترقی دینے کے سلسلے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا۔
یہ بے چارے اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ امریکا کے پیش رو برطانوی سام راج نے بھی اپنے وقت میں سائنس اور تیکنیکی انقلاب کے نتیجے میں بڑی ترقی کی تھی اور اپنے سماج سے جاگیرداری کو بھی اکھاڑ پھینکا تھا مگر یہی انگریز جب برِصغیر پر قابض ہوئے توان کی سائنسی، تیکنیکی اور پیداواری عمل کی ترقی نے یہا ں کی مقامی صنعتوں کو تباہ کر تے ہوئے یہاں کے ہنرمندوں اور دست کاروں کو مزارع اور کھیت مزدوروں میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ہر پہلو سے ترقی یافتہ برطانوی استعمار کا “فیض” یہاں جاگیرداری نظام کا قیام تھا جس کے خلاف وہ خود اپنے ملک میں لڑے تھے۔ یہ’’ترقی یافتہ‘‘ انگریز ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو دوام دینے کے سلسلے میں یہا ں کے باشندوں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے اور باہم دست وگریباں کرنے کی پالیسی اپنائی جس پر آج دنیا بھر میں امریکی سام راج بھی عمل پیرا ہے۔
مارکس نے کس قدر درست کہا تھا کہ ’’سرمائے کا کوئی بھی مذہب ،اخلاق اور نظریہ نہیں ہوتا بل کہ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے؛ لوٹ کھسوٹ اور استحصال۔‘‘
امریکا کے عوام دشمن اور مظلوم دشمن کردار کو محض سرد جنگ اور کمیونسٹ بلاک کے تناظر میں دیکھنے والے دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی سام راجی فسطائی شکل اس کے جوہر میں موجود ہے۔یہ اس حقیقت کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ آج خود امریکا میں تیکنیکی اور سائنسی ترقی کے باوجود وہاں سماجی رشتے پہلے کی طرح قائم ودائم ہیں اور اُن میں کوئی بنیادی نوعیت کی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
امریکاسرد جنگ کے زمانے لے کر آج تک ’’جمہوریت‘‘ کا مستقل مریض ہے لیکن امریکی سام راج کتنا جمہوری اور مظلوموں کا کتنا بڑاحامی ومددگار ہے ،یہ عالم آشکار ہے ۔اپنی ساری تاریخ میں اس نے جو ’’کارہائے نمایاں‘‘ سرانجام دیے ہیں، اس نے تاریخ کی کتابوں میں اتنی سڑاند پیدا کی ہے جسے تحلیل ہونے میں زمانے لگیں گے۔ اپنی انسان کش پالیسیوں کی بنا پر وہ دنیا بھر میں جو کچھ کرتا رہا ہے اور آج جو کچھ کر رہا ہے اس سے وہی صرفِ نظر کر سکتے ہیں جو اپنے اذہان سے سوچنے اور اپنی بینائی سے کچھ دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
(اگرچہ یہ تحریر یہاں تک مکمل ہے لیکن اسے اس موضوع پر سلسلہء مضامین کی پہلی قسط سمجھا جائے ۔اگلی قسط جلد پیش کی جائے گی ۔)
Leave a Reply