بچوں کو جنسی زیادتی سے کیسے بچایؑیں۔(بشکریہ،دنیا نیوز انگلش)
بچوں کو جنسی زیادتی سے کیسے بچائیں؟
(بشکریہ،دنیا نیوز انگلش)
لاہور: (ویب ڈیسک) جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر معاشرے پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ذرا سی غفلت سے وہ بھی جنسی تشدد کا شکار ہو سکتا ہے۔
کسی بھی مہذب ملک یا معاشرے میں اس طرح کی درندگی کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ بچے ریاست والدین اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہیں جہاں والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور ان کا خیال رکھیں وہاں ریاست کی بھی یہ ذمہ داری ہے وہ ایسا محفوظ ماحول فراہم کرے جہاں ہر بچہ امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکے، جبکہ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ مشفقانہ برتاو کرے۔
والدین کی انفرادی تعیلم و تربیت اس وقت اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے جب بچہ باہر نکلتا ہے تو اسے محفوظ ماحول نہیں ملتا۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات نہ صرف لمحہ فکریہ ہیں بلکہ حکومت اور معاشرے کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کو درندہ صفت حیوانوں سے کیسے بچایا جائے؟
اکثر خونی اور قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ جڑے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے اس طرح کے بچوں کی مدد کرنا اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے کیسز میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ بچہ یا والدین نہیں بلکہ خاندان والے رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ایسے واقعات میں پولیس کا کردار اس وقت تک سوالیہ نشان بنا رہے گا جب تک ان کی ذہنی تربیت میں انسانیت کے احترام کے جراثیم اور نصاب میں انسانی حقوق کا باب شامل نہیں ہوتا۔
بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے حوالے سے کی گئی مختلف ریسرچ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ 18سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ والدین اپنے بچوں کو آگاہی سے محروم رکھتے ہیں اور یہی خاموشی اس جرم کو مزید پھیلا رہی ہے۔
بچوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے
بچے پر جنسی تشدد کہیں بھی ہو سکتا ہے اس لئے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کریں انہیں اعتماد میں لیں اور ان سے ہر وہ بات شیئر کریں جس سے ان کی ذہنی اور شعوری نشو نما ہونے کے ساتھ انہیں اچھے یا برے کی تمیز ملتی ہو۔ بچوں کو یہ بتانا چاہئے کہ اگر کوئی آپ کے جسم کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے یا آپ کے ساتھ ایسا کام کرے جو آپ کو عجیب لگے تو اس شخص کو سختی سے منع کر دیں۔
آپ کے بچے بالخصوص بیٹیاں سنِ بلوغت کو پہنچنےلگیں تو انہیں جنسی معاملات سے متعلق درست آگاہی فراہم کریں ، یاد رکھیں اگر آپ اپنے بچوں کوخود یہ سبق نہیں پڑھائیں گے تو پھر معاشرہ انہیں جنسی معاملات کی غلط اور بے ہودہ تشبیہات سے روشناس کرادے گا۔
بچے جنسی زیادتی کا شکار صرف گھر سے باہر نہیں گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کو آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملازم یا رشتہ دار کے کمرے میں اکیلےجانے سے گریز کریں۔
عموما بچے ہی بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔یعنی ایک دو یا چند برس بڑے بچے چھوٹے بچوں کو کھیل کھیل میں ایسی حرکات سے آگاہ کرتے ہیں جو آگے چل کر کسی مسئلے یا المیے کا باعث بن سکتی ہیں۔نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی خود سے چھوٹے بچوں کا استحصال کرتی ہیں ، لہذااگر بچہ کسی رشتہ دار یا پڑوسی،پڑوسن کے پاس بار بار جائے یا جانے کی ضد کرے تو فورا نوٹس لیں۔
اگر بچہ کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت کریں۔
بچوں کو کسی کے پاس اکیلا مت چھوڑیں۔
بچے سکول یا وین بدلنے کی بات کریں تو اسے سنجیدگی سے لیں۔
بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ ہو تو نوٹس لیں اور وجہ جانیں۔
بچے کو پرائیویٹ باڈی پارٹس کا تصور واضح طور پر سمجھائیں۔
بچے کو سکھائیں کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائے۔
بچے کو واضح طور پر بات کرنا سکھائیں یعنی ایسی صورتحال میں جب وہ خدانخواستہ اجنبی جگہ پر ہوں اور کوئی انہیں چھونے یا اٹھانے کی کوشش کرےیا گھر کے اندر بھی تو وہ صرف رونے کی بجائے بچاؤ بچاؤ کی آواز لگائیں یا میں اسے نہیں جانتا یا یہ میرے انکل نہیں ہیں وغیرہ کہے۔ تاکہ لوگ متوجہ ہوں
آپ کو اپنی معاشرت میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی، ایسے مواد اور اشخاص کو اپنی زندگی سے خارج کردیں جو کہ آپ کے معصوم بچوں کے ذہن پرکسی منفی طورنظرانداز ہوسکے۔
اگر آپ کا بچہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں شکایت کرتا ہے تو اس معاملے میں خاموشی ہرگز اختیار نہ کیجئے۔
اپنے گھر کا ماحول مذہبی رکھئے اور بچوں کو عبادت اور عبادت گاہوں سے مانوس کرائیے تا کہ ان کے خیالات میں پاکیزگی کی آمیزش ہوتی رہے۔
خدا نخواستہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے تو اسے ڈانٹنا مارنا تو دور کی بات بلکہ موردِالزام بھی نہ ٹھہرایے بلکہ انتہائی ملائمت اور پیار سے اسے سمجائیں کہ اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اس کا اثر اپنے ذہن پر ہرگز نہ لے۔
جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں، کیوں کہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائے جاتے۔ چنانچہ اس جرم کے مرتکب درندے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے، جن سے اِن کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوکر منشیات اور بعض اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
Leave a Reply