Back to Posts
Back to Posts
06Nov
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فارسی کا دور
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
#٭
لاہور کا ستارہ اقبال محمود غزنوی کے جانشینوں کے عہد میں چمکا۔ولایت ہند کا دارلحکومت ہونے کے سبب نووارد مسلمانوں کو آرام سے زندگی بسر کرنے کے بہت سے مواقع میسر تھے۔ لہذا علمآ،فضلآ،سوفیا اکرام اور شعرآ بخارا،سمرقند،ہرات،غزنی اور خراساں سے کھنچ کھنچ کر یہاں انے لگے اور لاہور بلاد اسلامیہ میں علم و ادب کا نہایت اہم مرکز بن گیا۔
٭مگر شمال مغرب کی سمت سے آنے والے ان بزرگوں کی سرگرمیاں صرف لاہور تک محدود نہ رہیں بلکہ بعض نے پشاور،ملتان،اُوچھ، اور منصورہ میں بھی سکونت اختیار کرلی۔ اس طرح فارسی زبان و ادب اور ایرانی تہذیب کا غلبہ رفتہ رفتہ وادی سندھ کے سبھی شہروں پر ہوگیا۔ غزنوی حکمران علم و ادب کے بڑے مربی و سرپرست تھے۔ خصوصا محمود غزنوی کے دور کے فردوسی اور البیرونی کے کارنامے دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔
٭فردوسی کا شاہنامہ فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھاجاتا ہے اور دنیا اسے آج تک دلچسپی سے پڑھتی ہے ۔
ا ٭لبیرونی اپنے زمانے کا سب سے بڑا محقق اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ غزنویوں کے دور میں لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کے مرکز کے طور پر ابھرا۔ اس زمانے میں فارسی کے کئی ادیب اور شاعر یا تو لاہور میں پیدا ہوئے یا یہاں آکر آباد ہوئے ۔ ادیب و شعرآ ـــــــــــــــــــــ
٭غزنوی دور کے مشہور شاعروں میں مسعود سعد سلمان ساوۤجی تھے(1046-1121)۔ یہ دراصل پاکستان کے پہلے فارسی شاعر تھے۔یہ لاہور ہی میں پیدا ہوےۤ تھے۔ان کے والد بسلسلہ ملازمت لاہور آےۤتھے۔بعد ازاں مسعود سعد کو نایۤب سلطنت ہند کے پیشکار اور سپہ سالار
٭ابو نصر فارسی کی سر پرستی حاصل ہوگیۤ تھی۔جو خود بھی شاعر تھا۔ اس نے مسعود کو جالندھر کا ناظم مقرر کردیا۔ مسعدو سعد نے اسیری کے دوران کیۤ جسیہ قسیدے لکھے۔
٭ جسیات کی جو روایت مسعود سعد نے 900 برس پہلے قایۤم کی تھی۔وہ نہ صرف اب تک زندہ ہے بلکہ
٭ غالب،حسرت موہانی،ظفرعلی خان،فیض احمد فیض،حبیب جالب،سردار جعفری،مخدوم محی الدین،گُل نصیر خان،اجمل خٹک،استاد دامن،احمد ندیم قاسمی اور دوسرے ادیبوں نے اس روایت کو اور چمکایا ہے۔
٭ تذکرہ نویسوں نے مسعود کے علاوہ کیۤ اور شعرآ کا ذکر کیا ھے۔
٭ ان میں ابو عبداللہ روزبہ، ابوالفراج روفی،مسعود بن سعد شالی زیادہ مشہور ہیں۔
٭ لاہور کا آخری مسلمان بادشاہ خسرو ملک (1160۔1186)تھا۔وہ شعر و شاعری کا بڑا دلداہ تھا۔ اس کے عہد کے شاعروں میں٭ خواجہ شہاب الدین محمد رشید، یوسف بن نصر اور یوسف بن محمد الور بندی قابل ذکر ہیں۔
٭ یوسف بن محمد کا شمار امرآ دربار میں ہوتا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے فقیری لے لی اور گوشہ نشین ھوگیا۔
٭ خسرو ملک کے زمانے کا ایک مشہور شاعر فاضل نصراللہ بن عبدالحمید تھا/ اُس نے
٭ کلیلہ دمنہ کا ترجمہ عربی سے فارسی میں کیا تھا۔ خسرو ملک نے کسی بات پر خفا ہوکر اسے قید کردیا اور نصراللہ نے اسیری ہی میں وفات پایۤ۔
٭عوفی بہت مشہور ہیں۔ ان کا شمار فارسی کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے ۔ یہ دونوں شاعر سلطان ابراہیم اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں تھے ۔
صوفی
ــــــــــــ
جس طبقہ نے یہاں کے عام لوگوں میں شعایۤر اسلامی کی تبلیغ کی اور ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا وہ ایرانی صوفیا تھے۔ یوں تو اکا دکا بزرگ سلطان محمود غزنوی کے عہد میں ہی یہاں آنے لگے تھے۔
٭ شیخ اسماعیل بخاری (1005ؑؑع )نے لاہور کے ہزاروں لوگوں کو مسلمان کیا تھا۔
٭لیکن صوفیوں کے قافلہ کے سالار اول در حقیقت داتا گنج بخش ہجویری( 1009۔1072ع) تھے۔ آپ نے غزنی کے مشہور عالم دین
٭ابوالعباس شقایۤ اور ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی( جو حسن بصری کے مرید تھے) سے تعلیم حاصل کی۔آپ 40 سال کی عمر میں لاہور آےۤ اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ البتہ انیوں نے نہ غزنوی نایۤب سلطنت کے دربار کی دہلیز چومی اور نہ وہ کسی امیر کی ڈیوڑھی پر سلام کرنے کے لیےۤ گےۤ۔
٭ داتا گنج بخش لاہور کو ِ،، لہانور،، کہتے تھے۔ اور وہ لاہور کو ملتان کے مضافات میں شمار کرتے تھے۔ گو یہ شہر سلطنت ہند کا دارلحکومت تھا لیکن شہرت کے اعبار سے اس کی حیثیت ملتان سے کم تھی۔اور غالباً عالموں اور صوفیوں کی لاہور میں عدم موجودگی کے باعث اپنے آپ کو صحبت ناجنساں میں گرفتار محسوس کرتے تھے۔دراصل اس وقت تک
٭ وادی سندھ میں مسلمانوں کا سب سے اہم تہذیبی مرکز ملتان ہی تھا۔
٭ ملتان کے ،،اسماعیلی حکمران،، بڑے علم دوست اور روشن خیال تھے۔ جو عقیدے کے اختلاف کے باوصف ایرانن سے آنے والے صوفیوں کا خیر مقدم کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ملتان اور اوچھ میں آباد ہونے والے صوفیوں کا تعلق خود اسمعیلی یا شیعہ فرقہ سے تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مغلوں کی آمد سے قبل تک تصوف کے سب سے بڑے مرکز،، ملتان اور اُوچھ،، تھے۔
٭ چنانچہ وہ صوفی جو ہندوستان جانے کے ارادے سے یہاں آتے تھے وہ بھی لاہور کے بجاےۤ ملتان ہی میں برسوں قیام کرتے تھے۔
٭ مثلاً خواجہ معین الدین اجمیری اور خوجہ قطب الدین بختیار کاکی (دہلی)،خواجہ نظام الدین اولیآ( بابا فرید گنج شکر کے مرید) دہلی سے اجودھن (پاک پٹن) آتے اور مہینوں مرشد کے پاس قیام کرتے۔
صوفیآ لاہور
ــــــــــــــــــــ
٭لاہور کےا علماء میں حضرت علی بن عثمان ہجویری (400ھ تا 465ھ) بہت مشہور ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے ولی تھے جن کی وجہ سے لاہور کے علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور بہت سے ہندو مسلمان ہوئے ۔ حضرت ہجویری آجکل داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے 40 سال تک اسلامی دنیا کے بہت بڑے حصے کی سیر کی اور آخر میں لاہور آکر رہنے لگے ۔ ان کا مزار لاہور میں موجود ہے ۔ حضرت ہجویری ”کشف المحجوب“ نامی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ یہ علم تصوف میں فارسی زبان کی پہلی کتاب ہے اور تصوف کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے ۔ یہ کتاب انہوں نے لاہور میں لکھی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوگیا ہے ۔
صوفیآ ملتان
ـــــــــــــــــــ
تیرہویں صدی کی ابتدآ میں جب منگولوں نے ترکستان اورایران کو تخت وتاراج کرنا شروع کیا تو عالموں،صوفیوں،ہنرمندوں کی بہت بڑی تعداد ترک وطن کرکے ملتان،لاہور،سندھ اور ہندوستان میں پناہ لی۔ بابا فرید گنج شکر کے دادا بھی منگولوں کے خوف سے کابل سے ملتان آےۤتھے۔
٭پہلا نام شاہ یوسف گردیزی (1069- 1152ع) کا ہے۔ یہ بغداد سے آےۤ تھے۔ اور ان کے خاندان کے لوگ آج تک ملتان میں آباد ہیں۔
٭ دوسرے مشہور صوفی سلطان سخی سرور (وفات 1181ع) ہیں جو ملتان کے مضافات میں پیدا ہوےۤ۔
٭جن بزرگوں نے اپنی درویشی اور انسان دوستی کے باعث ملک گیر شہرت پایۤ ۔
ان میں
٭ بابا فرید گنج شکر (،1174 ۔وفات 1265ع)، ۔ آپ نے ملتان،ہانسی اور دہلی میں تعلیم حاسل کی۔ دہلی ،خراساں ،عراق،مکہ معظمہ کے سفر کے دوران
٭خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،شیخ شہاب الدین سہروردی،شیخ فریدالدین عطار کی صحبتوں سے بھی فیض اُٹھایا۔۔ سفر سے واپسی پر دہلی میں قیام کیا پھر اجودھن میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ۔
٭ شیخ بہاوۤالدین زکریا ملتانی(1172-1262ع) سر فہرست ہیں۔
٭ شیخ بہاوۤالدین زکریا جو برصغیر میں ،، سہروردی،، سلسلہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں ،ملتان میں پیدا ھوےۤ۔خراساں اور بغداد میں تعلیم پایۤ۔ وہیں
٭ شیخ شہاب الدین سہروری ( ) کے مرید ہوےۤ۔ آپ خانہ نشین درویش نہ تھے بلکہ بہبود خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتےتھے۔ انہوں نے آبپاشی کے لیےۤ نہریں اور کنویں کھدواےۤ۔زراعت کے لیےۤ جنگلون کو کتوا کر کھیت تیار کرواےۤ اور تجارت کی بھی حوسلہ افزایۤ کی۔ شیخ بہاوۤالدین زکریا کو شاعری اور سماع کا بھی شوق تھا۔
٭ مشہور ایرانی شاعر ،،عراقی،، جو شہاب الدین سہروردی کا بھانجہ تھا،ملتان آیا تو شیخ نے اس کی بری خاطر مدارات کی اور بالآخر اپنی بیٹی اس سے بیاہ دی۔
اۤوچھ
ـــــــــ
٭ سید جلاالدین منیر شاہ
٭ میر سُرخ بخاری سندھ ـــــــــ لال شہباز قلندر وفات 1274ع)
٭ سہروردی کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے الحاد کے جۤرم میں قتل کروادیا تھا۔
٭عہد غزنوی کی دو عظیم ہستیاں ابو سعید ابوالخیر (357ھ تا 440ھ) اور سنائی (465ھ تا 545ھ) ہیں۔ ابوالخیر اپنے عہدے کے بڑے صوفی اور ولی تھے ۔ ان کی شہرت زیادہ تر رباعیوں کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ فارسی زبان کے پہلے بڑے رباعی گو شاہر تھے ۔ ان کی یہ رباعیاں آج بھی مقبول ہیں اور خدا سے محبت اور اخلاقی تعلیم ان کا خاص موضوع ہے۔ ٭سنائی غزنویوں کے آخری دور کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور فارسی میں صوفیانہ شاعری کے بانی ہیں۔ ان کا کلام سوز و گداز اور اخلاقی تعلیم سے بھرا ہوا ہے ۔ ابو سعید ابوالخیر کا تعلق خراسان سے تھا اور سنائی کا شہر غزنی سے ۔
٭عربی زبان کا مشہور ادیب بدیع الزماں ہمدانی (متوفی 1007ء ) بھی اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے ۔ وہ ہرات کا رہنے والا تھا۔ اس کی کتاب ”مقامات“ عربی انشا پردازی کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی ہے
Leave a Reply