ترقی پسندوں کا نقیب

Back to Posts

ترقی پسندوں کا نقیب

ڈاکٹر رشید حسن

انٹرویو: ضمیر شیخ

ڈاکٹر رشید حسن خان حیدرآباد (بھارت) میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کی۔

آپ نے ثانوی تعلیم  کراچی میں حاصل کی اور ڈاو میڈیکل کالج (جو اب ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ہے) سے گریجویشن کیا۔

اس کے بعد آپ نے کراچی میں محنت کشوں کے علاقوں میں فلاحی کلینک کھولے۔

جوانی کے دنوں ہی سے آپ ترقی پسند تحریک میں سرگرم رہے۔

بالخصوص نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔

2010ء میں آپ نے میڈیکل پریکٹس ترک کردی اور ملک کے پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے متعلق پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوگئے۔

گزشتہ دنوں ان کا انتقال ہو گیا۔

چند برس قبل ان کا کیا گیا انٹرویو پیش خدمت ہے۔

سوال: بائیں بازو کا سماجی معاشی انقلاب کا فلسفہ پاکستان میں جڑیں کیوں نہیں پکڑسکا،

حالانکہ طلبہ نے قربانیاں دیں اور عہد کے جابر کا مقابلہ کیا؟ کیا تبدیلی کی گنجائش موجود ہے؟

کیا بایاں بازوں عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں ناکام رہا؟ آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: ہر سیاسی تحریک اپنے خطے کے معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر عوامل کے مطابق آگے بڑھتی ہے اور جڑیں پکڑتی ہے۔

جب 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا،

مغربی پاکستان میں بہت کم سیاسی سرگرمی تھی۔

تقسیم کی وجہ سے ہونے والے قتل عام اور بڑے پیمانے پر ہجرت نے مغربی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے

کیونکہ ہندو اور سکھ ترقی پسند کارکنوں کی بڑی تعداد کو پاکستان سے جانا پڑا۔

ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ترقی پسندوں کو نئے ماحول میں کام کرنے سے پہلے اسے سمجھنے کے لیے وقت درکار تھا۔

اس کے باوجود ترقی پسند عناصر کراچی میں،

اور پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں تحریک استوار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

تاہم مغربی پاکستان میں جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی مضبوطی ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی۔

اس کے برخلاف مشرقی پاکستان میں صورت حال مختلف تھی۔ وہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی جڑیں نہیں تھیں۔

علاوہ ازیں وہاں سے بڑے پیمانے پر ہجرت نہیں ہوئی اور ملک کے اس حصے میں بائیں بازو کی جڑیں بھی گہری تھیں۔

تبدیلی کی جدوجہد میں مشرقی پاکستان کے طلبہ آگے آگے تھے۔

ملک کے مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کی ترقی پسند قوتیں یکجا ہوکر رجعت پسند اور ظلمت پسند قوتوں کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی تھیں لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ دونوں مل کر کام کرنے کی بجائے علیحدہ علیحدہ کام کرتے رہے۔ اس کی وجہ دونوں حصوں کے مابین طویل فاصلہ،

سیاسی حالات کا فرق اور جابر و استحصالی نام کی برقراری میں سامراج کا کردار بنا۔

پھر بھی مشرقی پاکستان کی ترقی پسند قوتوں نے پاکستان کی سیاست میں سامراجی اور جاگیردارانہ قوتوں کی بیخ کنی میں مثبت کردار ادا کیا۔

چونکہ کراچی کا ڈھانچہ نہ قبائلی تھا اور نہ ہی جاگیردارانہ اس لیے ہجرت کرنے والے ترقی پسند عناصر کراچی میں اکٹھے ہوئے۔

جلد یہ ساحلی شہر ترقی پسند سوچ اور تنظیموں کی تربیت گاہ بن گیا۔

1950ء کی دہائی میں اس وقت کے حکمران امریکی سامراج سے جڑ گئے اور متعدد عوام دشمن عسکری معاہدے کیے۔

غلام محمد کی سیاسی آمریت کے دوران نوزائیدہ سرمایہ داروں، جاگیردارانہ اشرافیہ  اور سول و عسکری بیوروکریسی کی مثلث وجود میں آئی اور ملک میں غالب قوت بن گئی۔

اس موڑ پر پاکستان کے ترقی پسند طلبہ نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹ فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کا آغاز کیا اور اسے طلبہ اور  نوجوانوں میں ترقی پسند تحریک کی تشکیل کے لیے بروئے کار لائے۔ 8

جنوری 1954ء کی طلبہ تحریک اسی جدوجہد کی کڑی تھی۔

آل پاکستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (اے پی ایس او) بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔

اس مقصد کے لیے ایمپریس مارکیٹ کے نزدیک اس وقت موجود کترک ہال میں ترقی پسند طلبہ کا اجلاس ہوا۔

لیکن حکومتی غنڈوں نے اسے منتشر کردیا،

اور حکومت نے بھی اے پی ایس او پر پابندی لگا دی۔ پس ترقی پسند طلبہ زیرعتاب آگئے۔

جب امریکی صر آئزن ہاور نے 1959ء میں پاکستان کا دورہ کیا تو ڈی ایس ایف اور نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) کے کارکنوں کو سلاخیوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے ترقی پسند قوتوں، بالخصوص طلبہ کے خلاف جبر کی انتہا کردی۔

انہیں پولیس اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔

انہیں بلیک لسٹ، خارج، قید اورعمومی ہدف بنایا گیا۔

سوال: کیا یہ سچ ہے کہ بائیں بازو کی تحریک کٹی رہی اور عوامی رابطے سے گریز کیا؟

جواب: نہیں، یہ غلط ہے۔

بائیں بازو کی تحریک محدود نہیں تھی۔

بائیں بازو کی پالیسی تھی کہ عوام کو ان کے حقوق بارے آگہی دی جائے اور ان حقوق کے حصول کی خاطر جدوجہد کے لیے متحرک کیا جائے۔

روز اول سے، کالجوں میں یونٹ بنائے۔ سماج کے کسی حصے کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔

بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے دانش وروں اور لکھاریوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔

مزدوروں کو ٹریڈ یونین میں، کسانوں کو کسان تنظیموں میں اور عورتوں کو عورتوں کی تنظیموں میں منظم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

سماج کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جسے نظرانداز کیا گیا ہو۔

ترقی پسند قوتوں کو مسلسل ہراساں کرنے سے پاکستان میں ایک انقلابی سیاسی جماعت کے ظہور کی راہیں مسدود ہوئیں۔

یہ جماعت معاشی سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے کارگر ہوسکتی تھی۔

یہ تو ظاہر ہی ہے کہ بائیں بازو کی تحریک میں کمزوریاں تھیں جس سے ریاست کے لیے جبر کرنا ممکن ہوا۔

سوال: کیا یہ درست ہے ذوالفقار علی بھٹو نے بائیں بازو کے فلسفہ اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیوں اور ان کی قیادت کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟

جواب: ذوالفقار علی بھٹو جب سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوا ایوب خان کی آمریت متزلزل تھی۔

وہ تباہ کن داخلی و خارجی پالیسیوں کی وجہ سے بند گلی میں جا پہنچی تھی۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی خلا تھا۔ بھٹو ترقی پسندوں کی قوت اور اثر سے آگاہ تھا۔

گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کی دنیا میں بہت ہل چل تھی۔ ویت نام جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں سامراج مخالف تحریک نے جنم لیا تھا۔

ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں آزادی کی جدوجہدیں سامراج کے خلاف تاریخی کامیابیاں سمیٹ رہی تھیں۔

بھٹو اس عہد میں زندہ تھا اور صورت حال سے مستفید ہونے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔

بھٹو کی دعوت پر ترقی پسند طلبہ اور کارکنوں نے اس خیال کے ساتھ اس کی حمایت کی کہ یوں تبدیلی آئے گی اور پرانے اور ناکارہ سیاسی نظام سے چھٹکارہ ملے گا۔ بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور چالاکی سے بائیں بازو کے پروگرام اور نعروں کے مطابق ڈھالا۔

کم از کم پی پی پی کے تشکیلی دوراور ایوب رجیم کے خلاف 1968ء کی تحریک کے دوران میں اس نے خود کو خالص بایاں بازو ظاہر کیا۔

وہ بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوا۔

تاہم بھٹو کی حمایت سے سامراج اور اس کے پیادوں کو تنہا کرنے میں کامیابیاں حاصل کیں۔ علاوہ ازیں بایاں بازو ظلمت پسند اور عوام دشمن قوتوں کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوا۔

یہ مذہبی سیاسی جماعتیں تھیں جو پی پی پی عوامی لیگ اور نیپ کے خلاف متحرک تھیں۔

بھٹو کے ذہن میں ایوب خان کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد کا تصور تھا جس میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی!

دراصل یہ جماعت اسلامی تھی جس نے پی پی پی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں بھٹو نے اپنا اصل رنگ ظاہر کردیا۔

کراچی سائٹ اور لانڈھی میں مزدوروں نے جب اپنے حق میں تحریک کا آغاز کیا تو ان پر پولیس نے فائرنگ کردی۔

مل مالکان مزدوروں کے مطالبات ماننے کو تیار تھے لیکن بھٹو نے انہیں ایسا کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی کیونکہ وہ ٹریڈ یونین اور ترقی پسند تحریک کچلنا چاہتا تھا۔ سوال: بھٹو کے ساتھ آپ کی ہمدردیاں کب تک رہیں؟

جواب: 1968ء کی تحریک میں بھٹو نے جو کردار ادا کیا وہ اس کے سیاسی کیریئر کا سب سے مثبت پہلو ہے۔

جاگیرداروں اور استحصال کرنے والوں  سے مفاہمت پی پی پی کو فیصلہ کن موڑ پر لے آئی۔

اس کے بعد  سے یہ ایسٹبلشمنٹ سے تعاون کرنے والی قوت بن گئی۔

سوال: آپ کتنا عرصہ سلاخوں کے پیچھے رہے؟

جواب: یحییٰ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد طلبہ یونین پر پابندی عاید کردی۔

اکتوبر اور نومبر میں طلبہ نے یونین انتخابات کے حق میں دھرنا دیا اور گرفتار کرلیے گئے۔

ان گرفتار طلبہ کی رہائی اور طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے این ایس ایف نے ملک گیر تحریک چلائی۔

ہمیں گرفتار کرلیا گیا اور اس ‘جرم’ میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

حسن بخاری، شہریارمرزا، زاہد حسین، بصیر نوید، عبدالقدوس، سبط اطہر، علی یاور، کلیم درانی اور دیگر کو چھ ماہ سے ایک سال تک سزا ہوئی۔

جب ون یونٹ ٹوٹا تو ہمیں رہا کردیا گیا۔

سوال:1970ء کے عام انتخابات میں آپ کہاں تھے؟

جواب: 1970ء کے انتخابات میں میں  جیل میں تھا۔ مجھے فروری/مارچ 1971ء کو چھوڑا گیا جب مشرقی پاکستان میں بھرپور فوجی کارروائی ہورہی تھی۔

میر احمد علی تالپور، طارق عزیز اور مولانا عبدالحق (رہنما پی پی پی) بھی اس وقت حیدر آباد جیل میں تھے لیکن انہیں عام انتخابات سے پہلے رہا کردیا گیا۔

رہائی کے بعد طارق عزیز نے اخبار کو انٹرویو کے دوران قیدیوں کی حالت زار اور انہیں منشیات پہنچانے میں جیل کے عملے کے کردار کے بارے میں بتایا۔

جیل کے سپریٹنڈنٹ نے مجھ سے ان الزامات کو رد کرنے کے بیان کو مطالبہ کیا۔ میرے انکار پر اس نے مجھے قید تنہائی میں ڈال دیا۔

یہ وہی سیل تھا جہاں پیر پگاڑی صبغت اللہ شاہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔

میں نے احتجاجاً بھوک ہڑتال کردی۔

ایک ہفتے بعد میری صحت خراب ہونے لگی لیکن مجھے مناسب طبی امداد نہیں دی گئی۔

بلکہ مجھے سکھر جیل بھیج دیا گیا۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts