ایس آئی یو ٹی (SIUT) کا سنٹر فاربائیومیڈیکل ایتھکس اینڈ کلچر(CBEC) وقتاً فوقتاً
دلچسپ اجتماعات کا اہتمام کرتا رہتا ہے جس میں ممتاز دانشوروں کو سنٹر کے اراکین سے خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی ہے-
اخلاقیات کا موضوع اپنے اندر خاصی وسعت رکھتا ہے اس لئے یہاں مختلف موضوعات پر جو فکر انگیز تقاریر کی جاتی ہیں وہ سامعین کومختلف مسائل پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں-
جولائی میں ڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرہ جو لاہور کے ایک کالج میں تاریخ پڑھاتی ہیں سی بی ای سی کی مہمان تھیں اور انہوں نے جس اثر انگیزی اور معقولیت کے ساتھ ایک نکتہ اٹھایا وہ یہ تھا کہ جو لوگ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کی اجتماعی سوچ کو اسطرح کھرچ دیا جائے کہ اس کا نشان تک باقی نہ رہے-
اس غارت گری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تبدیلیوں کو روکنے کے اقدامات پہلے ہی سے کر لئے جائیں- ڈاکٹر عارفہ زہرہ اس سلسلہء عمل کو افراد اور معاشرہ کا مشکل ترین عمل قرار دیتی ہیں-
ان کا مفروضہ جسے انہوں نے وضاحت اور سادگی کے ساتھ اردو زبان میں پیش کیا جس میں مزاح اور طنز کی چاشنی بھی تھی وہ یہ تھا کہ تاریخ ایک ایسا اوزار ہے جس کے ذریعہ قوموں کے ماضی میں ہم اچھائی اوربرائی میں تمیز کرنے کا سراغ لگا سکتے ہیں اور ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا یہ تجزیہ ہمیں حال میں تبدیلیوں کی شروعات کرنے میں مدد دیتا ہے-
ہمارے ملک میں اس عمل کو روک دیا گیا ہے کیونکہ پاکستان کا مقدر جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ نہیں چاہتے کہ اس قسم کی تبدیلیاں واقع ہوں- مذہب ان کی توجہ کا اس درجہ محور بن گیا ہے کہ وہ ماضی کے واقعات کو مسخ کر دیتے ہیں اور لوگوں کی توجہ معمولی روایات کی طرف موڑ کربحث میں الجھا دیتے ہیں تا کہ اہم مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جائے-
چنانچہ ڈاکٹر عارفہ زہرہ نے جس بڑے جھوٹ کو بے نقاب کیا اس کا تعلق اس مفروضہ نظریہ پاکستان سے ہے جسے غیر محتاط قیادت کی بڑی تعداد نے مذہب کے ذریعہ رائج کرنا چاہا- جو روایتی سوچ اس نظریہ کو بے دریغ طور پر فروغ دینے کیلئے استعمال کی گئی وہ یہ تھی کہ “پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا الله” تحریک پاکستان کا مرکزی نعرہ تھا-
ڈاکٹر عارفہ زہرہ کا استدلال یہ تھا کہ تاریخ کی تحقیق سے حتمی طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ نعرہ 1968 میں ایوب کے دور حکمرانی میں وضع کیا گیا تھا اور اس وقت سے لیکر اب تک پاکستان کی تاریخ کی ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے-
جب تمام قوانین مجوزہ طور پر مذہب کی بنیاد پر بنائے جائیں تو پھر ایسے قائدین کو لامحدود اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جو بیک وقت جج، جیوری اور جلاد بن کر ان قوانین کی تشریح اور عمل درآمد کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں-
اس طرح وہ اپنے لئے ایسا ماحول قائم کر لیتے ہیں جس میں وہ سادہ لوح عوام کو پھآنس کر انھیں بے بس کر دیتے ہیں اور کوئی انکے اس جال سے نکلنا نہیں چاہتا کیونکہ انھیں ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہوتا ہے-
انتہائی بہیمانہ جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد مذہب کا ایسی دیدہ دلیری سے استعمال کس نے نہیں دیکھا ہے؟ انکو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا-
تاریخ کو مسخ کرنے کے عمل نے دائیں بازو کے قدامت پسند اسلام کےعلم برداروں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے نظریاتی قلعے تعمیر کریں جو درحقیقت ریت پر بنائے جانے والے گھروندوں کی مانند ہیں-
چنانچہ یہ نظریہ بھی مسخ شدہ ہے کہ پاکستان اس لئے بنایا گیا کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ ریاست حاصل کریں تا کہ وہ مروجہ اسلامی نظام کے مطابق ایک نظریاتی ملک تشکیل دے سکیں-
ڈاکٹر مبارک علی ایک دوسرے تاریخ دان ہیں جنھیں تاریخ کو مسخ کئے جانے پر افسوس ہے- ان کا نقطہء نگاہ بھی وہی ہے جو ڈاکٹرعارفہ زہرہ کا ہے-
وہ لکھتے ہیں “ہماری ریاست تاریخ کو اپنے سیاسی اور نظریاتی مفادات کیلئے استعمال کرتی ہے- یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا- چنانچہ پاکستان میں سرکاری سطح پرتاریخ کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کی آئیڈیالوجی کو ایک قانونی شکل دی جائے اور تاریخ کو ایک ایسے سانچے میں لکھا جائے جو حکمران طبقات کے مفادات کے مطابق ہو-“
اس سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے مختلف مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ناکام کیوں رہے- اسی وجہ سے ہم نئی ٹکنولوجی کی مخالفت کرتے ہیں، جس میں چاند دیکھنے کے موقع سے لیکرجو ہماری زندگیوں پر ہر سال اثر انداز ہوتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو شہادت کے طور پر قبول کرنے سے منکر ہے-
ہم “دوسروں” کی جانب برداشت اور رحمدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مذہب کے تعلق سے ہمارا نظریہ روایت پرستانہ ہے- اس میں دیگر ثقافتی اقلیتوں کی کوئی گنجایش نہیں ہے-
ہم اپنے بچوں میں تجسس کا مادہ پیدا کرنا نہیں چاہتے، ہم انہیں سوچ بچار کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ ہمیں ڈر اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں وہ غلط قسم کے سوالات نہ کر بیٹھیں جس سے ان کا “ایمان” کمزور ہو جائے-
ڈاکٹر عارفہ زہرہ کے مطابق تاریخ کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے سماجی – ثقافتی اقدار اور اخلاق کا تحفظ کرے- عوام کا اجتماعی حافظہ سماج میں نیکی اور بدی کے درمیان تمیز کرنے میں مدد دیتا ہے- گیہوں کو بھوسی سے چھان پھٹک کرنے کا عمل ہماری ترجیحات کا تعین کرتا ہے اور ہمارے اخلاقی ورثے کی بنیاد فراہم کرتا ہے-
اگر اجتماعی حافظہ کو کھرچ دیا جائے یا انہیں مسخ کر دیا جائے تو عوام اس ذریعہ سے محروم ہو جاتے ہیں جن سے وہ اپنے ماضی کے اچھے اوربرے تجربات کا جائزہ لے سکیں-
ان حالات میں اخلاقیات کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے-
سی بی ای سی کے تحت ہونے والے مختلف مباحث میں حساس نوعیت کے مسائل زیر بحث آئے جن کا ادویات سے خصوصی تعلق ہے مثلا زندگی اور موت، عضویات کا کاروبار، اعضاء کی پیوند کاری اور سکوں بخش دوائیں- ٹکنولوجی اور مواصلات کی تیز رفتار ترقی کے پیش نظرجسکے نتیجے میں نئے نئے نظریات معاشرے میں فوراً سرائت کر جاتے ہیں، نئے اخلاقی اصول و ضوابط بنانے کی ضرورت ہے-
آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرانسپلانٹیشن سوساِئٹی آف پاکستان کوبعض غیر محتاط یورولوجسٹ کے خلاف جدوجہد کرنی پڑی تھی جو ملک میں عضویات کی فروخت کے کاروبارکوفروغ دے رہے تھے- ان لوگوں نے وفاقی شریعت کورٹ میں درخواست دی تھی جسکی بنیاد یہ تھی کہ ٹرانسپلانٹیشن آف آرگن اینڈ ٹشوز آرڈیننس اسلامی قوانین کے خلاف ہے- یہ روشن خیال جج جسٹس حاذق الخیری ہی تھےجنہوں نے عضویات کے کاروبار کے خلاف فیصلہ دیا-
تاریخ ہماری رہنمائی کرسکتی ہے لیکن صرف اس وقت جبکہ دیانتداری سے تحقیق و جستجو کی جائے اور دیانتداری سے لکھا جائے- ماضی کے حوالے کے بغیر اخلاقیات کے اصول وضوابط بنانا مشکل ہے- خاص طورپران حالات میں کہ معاشرے میں مختلف ادوار میں مختلف ثقافتی اور اخلاقی اقداراور ایقانات مروج رہے ہوں-
Leave a Reply