جہالت، غربت کی ماں ہے!
جہالت ، غربت کی ماں ہے مغالطا ہے۔کیا غیر تعلیم یافتہ شخص عقل و فہم اور ادراک نہیں رکھتا؟ ہاں البتہ نصابی تعلیم کے بغیر بہتر روزگار فی زمانہ ممکن نہیں یوں محنت مزدوری کر کر غیر تعلیمیافہ افراد اور اُن کے خاندان کے افراد عسرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور یوں اُن کی آمدنی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اُن کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں اور یوں ان کے خاندانوں کا نسل در نسل سلسلہ نصابی تعلیم سے محروم رہتا پے۔ یہ ان پڑھ انسان اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے تو بہت خواہشمند ہوتے ہیں اور اس بات کا بھی بخوبی انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بہتر آمدنی اور زندگی کے لیےؑ نصابی تعلیم اشد ضروری ہے۔ مگر جو خاندان اپنی قلیل آمدانی سے صرف پیاز،مرچوں اور چتنی سے روتی کھا کر بمشکل اپنے پیت کی دوزخ بجھاتے ہوں اور جن کے پاس زندگی کی دوسری ضروریات علاج معالجہ کے لیےؑ بھی چند روپے نہ ہوں تو وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں گے یا اُس کو کمسنی میں کسی کام کاج میں نہیں جوتایؑیں گے تو اور کیا کریں گے؟ سب سے پہلے اپنے اور بچوں کے زندہ رہنے کے لیےؑ روتی کا بندوبست کریں یا بچوں کو اسکول بھیجیں۔ جب بچے بھوک سے بلک بلک کر زمین پر لوت رہے ہوں تو ماں باپ روتی کی تگ و دو کریں یا بچوں کو تعلیم دلانے کی فکر کریں؟ ۔ ۔ ۔ اور بیچاری لاکھوں وہ خواتین جو مردوں کے بغیر بچوں کے ساتھ تنہا زندگی گزار رہی ہیں،کیا وہ بچوں کا اسکول میں تعلیم دلانے کی فکر کریں۔ ۔ ۔ ان خواتین کا روتی کے بعد دوسرا مسٰلہ سر چھنپانے کے لیےؑ ایک جھونپڑا ہے ۔ جو اُن کو میسر نہیں۔ ملک ریاض جیسے اشخاص اربوں ،کھربوں کے مکانات اُن افراد کے لیےؑ تو بنا رہے ہیں جو ان کو خریدنے کی استعداد رکھتے ہین۔ اور وہ لاکھوں افراد جن کہ پلہ ایک پیسہ بھی نہیں ہے اُن کے لیےؑ مفت دسترخوان کا ڈرامہ کر کر معزز بھی بن رہے ہیں۔ کروڑوں ،اربوں روپے کی مسجد بنا کر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر عوام کو اپنا گرویدہ بھی بنا رہے ہیں۔ مگر لاکھوں بے گھر افراد جو دو وقت کی روتی پیاز،چتنی سے کھاتے ہیں،اُن کے لیےؑ ایک کمرہ کا جھونپڑا بنانے فکر نہیں۔ مسجد بنا کر اپنے لیےؑ جنت میں گھر بنانے کی خوش فہمی میں ہیں اور بے گھروں کی دنیا میں دوزخ کو جنت بنانے کی فکر نہیں۔ یہ ایک ملک ریاض نہیں بلکہ سینکڑوں صاحب ثروت افراد ملک ریاض کی صفوں میں کھڑے ہیں۔
ں ان کے خاندانوں کا نسل در نسل سلسلہ نصابی تعلیم سے محروم رہتا پے۔ یہ ان پڑھ انسان اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے تو بہت خواہشمند ہوتے ہیں اور اس بات کا بھی بخوبی انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بہتر آمدنی اور زندگی کے لیےؑ نصابی تعلیم اشں اور چتنی سے روتی کھا کر بمشکل اپنے پیت کی دوزخ بجھاتے ہوں اور جن کے پاس زندگی کی دوسری ضروریات علاج معالجہ کے لیےؑ بھی چند روپے نہ ہوں تو وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں گے یا اُس کو کمسنی میں کسی کام کاج میں نہیں جوتایؑیں گے تو اور کیا کریں گے؟ سب سے پہلے اپنے اور بچوں کے زندہ رہنے کے لیےؑ روتی کا بندوبست کریں یا بچوں کو اسکول بھیجیں۔ جب بچے بھوک سے بلک بلک کر زمین پر لوت رہے ہوں تو ماں باپ روتی کی تگ و دو کریں یا بچوں کو تعلیم دلانے کی فکر کریں؟ ۔ ۔ ۔ اور بیچاری لاکھوں وہ خواتین جو مردوں کے بغیر بچوں کے ساتھ تنہا زندگی گزار رہی ہیں،کیا وہ بچوں کا اسکول میں تعلیم دلانے کی فکر کریں۔ ۔ ۔ ان خواتین کا روتی کے بعد دوسرا مسٰلہ سر چھنپانے کے لیےؑ ایک جھونپڑا ہے ۔ جو اُن کو میسر نہیں۔ ملک ریاض جیسے اشخاص اربوں ،کھربوں کے مکانات اُن افراد کے لیےؑ تو بنا رہے ہیں جو ان کو خریدنے کی استعداد رکھتے ہین۔ اور وہ لاکھوں افراد جن کہ پلہ ایک پیسہ بھی نہیں ہے اُن کے لیےؑ مفت دسترخوان کا ڈرامہ کر کر معزز بھی بن رہے ہیں۔ کروڑوں ،اربوں روپے کی مسجد بنا کر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر عوام کو اپنا گرویدہ بھی بنا رہے ہیں۔ مگر لاکھوں بے گھر افراد جو دو وقت کی روتی پیاز،چتنی سے کھاتے ہیں،اُن کے لیےؑ ایک کمرہ کا جھونپڑا بنانے فکر نہیں۔ مسجد بنا کر اپنے لیےؑ جنت میں گھر بنانے کی خوش فہمی میں ہیں اور بے گھروں کی دنیا میں دوزخ کو جنت بنانے کی فکر نہیں۔ یہ ایک ملک ریاض نہیں بلکہ سینکڑوں صاحب ثروت افراد ملک ریاض کی صفوں میں کھڑے ہیں۔
جہالت ، غربت کی ماں ہے مغالطا ہے۔کیا غیر تعلیم یافتہ شخص عقل و فہم اور ادراک نہیں رکھتا؟ ہاں البتہ نصابی تعلیم کے بغیر بہتر روزگار فی زمانہ ممکن نہیں یوں محنت مزدوری کر کر غیر تعلیمیافہ افراد اور اُن کے خاندان کے افراد عسرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور یوں اُن کی آمدنی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اُن کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں اور یوں ان کے خاندانوں کا نسل در نسل سلسلہ نصابی تعلیم سے محروم رہتا پے۔ یہ ان پڑھ انسان اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے تو بہت خواہشمند ہوتے ہیں اور اس بات کا بھی بخوبی انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بہتر آمدنی اور زندگی کے لیےؑ نصابی تعلیم اشد ضروری ہے۔ مگر جو خاندان اپنی قلیل آمدانی سے صرف پیاز،مرچوں اور چتنی سے روتی کھا کر بمشکل اپنے پیت کی دوزخ بجھاتے ہوں اور جن کے پاس زندگی کی دوسری ضروریات علاج معالجہ کے لیےؑ بھی چند روپے نہ ہوں تو وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں گے یا اُس کو کمسنی میں کسی کام کاج میں نہیں جوتایؑیں گے تو اور کیا کریں گے؟ سب سے پہلے اپنے اور بچوں کے زندہ رہنے کے لیےؑ روتی کا بندوبست کریں یا بچوں کو اسکول بھیجیں۔ جب بچے بھوک سے بلک بلک کر زمین پر لوت رہے ہوں تو ماں باپ روتی کی تگ و دو کریں یا بچوں کو تعلیم دلانے کی فکر کریں؟ ۔ ۔ ۔ اور بیچاری لاکھوں وہ خواتین جو مردوں کے بغیر بچوں کے ساتھ تنہا زندگی گزار رہی ہیں،کیا وہ بچوں کا اسکول میں تعلیم دلانے کی فکر کریں۔ ۔ ۔ ان خواتین کا روتی کے بعد دوسرا مسٰلہ سر چھنپانے کے لیےؑ ایک جھونپڑا ہے ۔ جو اُن کو میسر نہیں۔ ملک ریاض جیسے اشخاص اربوں ،کھربوں کے مکانات اُن افراد کے لیےؑ تو بنا رہے ہیں جو ان کو خریدنے کی استعداد رکھتے ہین۔ اور وہ لاکھوں افراد جن کہ پلہ ایک پیسہ بھی نہیں ہے اُن کے لیےؑ مفت دسترخوان کا ڈرامہ کر کر معزز بھی بن رہے ہیں۔ کروڑوں ،اربوں روپے کی مسجد بنا کر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر عوام کو اپنا گرویدہ بھی بنا رہے ہیں۔ مگر لاکھوں بے گھر افراد جو دو وقت کی روتی پیاز،چتنی سے کھاتے ہیں،اُن کے لیےؑ ایک کمرہ کا جھونپڑا بنانے فکر نہیں۔ مسجد بنا کر اپنے لیےؑ جنت میں گھر بنانے کی خوش فہمی میں ہیں اور بے گھروں کی دنیا میں دوزخ کو جنت بنانے کی فکر نہیں۔ یہ ایک ملک ریاض نہیں بلکہ سینکڑوں صاحب ثروت افراد ملک ریاض کی صفوں میں کھڑے ہیں۔
Leave a Reply