🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

خصوصی رپورٹ: بانیانِ پاکستان 1947 سے 1951 قسط # 1

Back to Posts

خصوصی رپورٹ: بانیانِ پاکستان 1947 سے 1951 قسط # 1

روشنی کا موسم 
ڈاکٹر سید جعفر احمد

“وہ بہترین زمانہ تھا، وہ بدترین زمانہ تھا، وہ دانائی کا زمانہ تھا، وہ بے وقوفی کا زمانہ تھا، وہ یقین کا زمانہ تھا، وہ بے یقینی کا زمانہ تھا، وہ روشنی کا موسم تھا، وہ اندھیرے کا موسم تھا ۔۔۔ ہم سب براہِ راست جنت میں جا رہے تھے، ہم سب براہِ راست دوسری جانب جا رہے تھے۔”

چارلس ڈکنز نے یہ سطور انقلابِ فرانس کے پس منظر میں لکھی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے مکمل طور پر مختلف منظر نامے، جس میں پاکستان کی تشکیل ہوئی اور اس نے اپنا سفر شروع کیا، یہ سطور اس پر بھی صادق آتی ہیں۔ یہ وہ سفر تھا جو امید اور نومیدی اور یقین و بے یقینی کی متضاد کیفیتوں کے ساتھ شروع ہوا تھا۔

پاکستان دنیا کے نقشے پر اس قومی سوال کا جواب بن کر ابھرا جس پر متحدہ ہندوستان کے فریم ورک میں غور کرنا کم کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بٹوارہ ناگزیر بن چکا تھا۔

بانیانِ پاکستان نے ملک کے بارے میں ایک بہت ہی پرامید اور خوشگوار تصور قائم کیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ سماجی بھلائی اور جدید جمہوری اصولوں پر مبنی ملک ہوگا جس میں وہ تمام خصوصیات ہوں گی جس کی توقع ایک عام مسلمان ایک اسلامی ریاست سے کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی حقیقت بانیانِ پاکستان کے پروان چڑھائے گئے تشخص کے بالکل الٹ ثابت ہوئی۔ پاکستان کی کہانی کا بڑی حد تک تعلق اس کی قیادت سے ہے۔


تاریخ دان جب تاریخی اسٹیج سجاتے ہیں، تو اپنی کہانی میں وہ پہلے کرداروں کا صرف تعارف کرواتے ہیں، جن کی خواہشات اور ان کا سماجی پس منظر و سیاق و سباق بعد میں کھلتا ہے۔ اس لیے سماجی اور سیاسی تاریخ پر کام کرنے والے تاریخ دانوں کو اہم کردار ادا کرنے والی تاریخی شخصیات کو مناسب مقام دینا پڑتا ہے۔

آزادی کے بعد پاکستان کی امیدوں اور نومیدی کا اس کے قائدین، اس کے بانیان سے بھی لینا دینا ہے۔ مگر ان میں سے کس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

ہماری آزادی کو صرف ایک شخص، قائدِ اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

لیونارڈ موسلی نے پاکستان کی تخلیق کو ‘ایک آدمی کی کامیابی’ قرار دیا۔ پاکستان کی تخلیق میں جناح کے کردار کی اس سے بھی زیادہ جامع تشریح اسٹینلے وولپرٹ نے کی تھی “۔۔۔۔ کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بھی کچھ دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ ان میں بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پر سجاتے ہیں۔اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ہیں۔”

مگر، جہاں جناح کا غیر معمولی کردار انہیں ایک منفرد شخصیت بناتا ہے، وہیں یہ ہماری تحریکِ آزادی کی ایک کمزوری بھی عیاں کرتا ہے، جس نے بڑے رہنماؤں کا ایک وسیع حلقہ پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ جناح کے ساتھ تھے، ان میں سے زیادہ تر ان کے سائے کے برابر بھی نہیں تھے۔

یہ کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آئی جب آزادی کے صرف 13 ماہ بعد جناح چل بسے۔ بیورلی نیکولز نے اس خطرے کو کافی پہلے بھانپ لیا تھا: “اگر گاندھی چلے گئے، تو نہرو ہوں گے، یا پھر راج گوپال اچاری، یا پٹیل، یا پھر درجنوں دیگر۔ پر اگر جناح چلے گئے، تو ان کی جگہ کون لے گا؟”

اور واقعی جب جناح کی وفات ہوئی تو ان کی جگہ لینے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ لیاقت علی خان پختہ عمر کے تھے اور یقیناً ایک قدآور شخصیت تھے، مگر جناح کی چھوڑی ہوئی جگہ وہ قطعاً نہیں بھر سکتے تھے۔ قائدِ اعظم کے معتمد سپاہی ہونے کے باوجود لیاقت علی خان قائدِ اعظم جتنے بالادست نہیں تھے۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناح کی وفات کے بعد وہ قدرتی طور پر سیاسی منظرنامے پر سامنے آئے۔ اسی طرح پاکستان نے اپنے سفر کا آغاز محدود سیاسی وسائل کے ساتھ کیا۔

بدقسمتی سے تحریکِ آزادی کے دوران مسلم لیگ ایک ایسا پلیٹ فارم رہی جو مسلم سیاسی علیحدگی پسندوں کو آواز فراہم کرتی تھی۔ یہ ایک ایسی چھتری تھی جس کے تلے ہر طرح کے مسلمان جمع ہو سکتے تھے۔ یہ ایک تحریک تو تھی، مگر ایک سیاسی جماعت نہیں۔ اس میں منظم ڈھانچہ موجود نہیں تھا، اور نہ ہی وفادار اور تربیت یافتہ کارکنان۔

آزادی کے فوراً بعد، لیگ کی کونسل میں تجویز پیش کی گئی کہ پارٹی کو تحلیل کر دیا جائے اور اس کے اندر موجود گوناگوں عناصر کو مختلف نظریاتی ترجیحات اور سیاسی پروگرامز کے گرد گھومنے والی زیادہ قدرتی تنظیمیں بنانے کی اجازت دی جائے۔ اس تجویز کو منظور نہیں کیا گیا، اور آنے والے سالوں میں کچھ رہنماؤں کی کوتاہ بینی نے انہیں یہاں تک کہنے پر مجبور کر دیا کہ صرف اور صرف مسلم لیگ کو ہی ملک پر حکومت کرنے کا حق حاصل تھا۔

نامور لیگیوں میں سے کئی صوبائی سیاست سے اوپر نہیں گئے، اور صوبائی اکھاڑوں میں بھی زیادہ تر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے نظر آتے۔ اس طرح کی اندرونی کمزوریوں کے ساتھ مسلم لیگ سول اور ملٹری اداروں کا دباؤ نہیں سہہ سکی، جنہوں نے ریاست چلانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں لیگ کی قیادت کی ایک بڑی ناکامی اس حقیقت کو نظرانداز کرنا تھا کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل تھا، ان کی مؤثر سیاسی قیادت ملک کی تعمیر میں بہت بڑی مدد کر سکتی تھی۔

یہاں جن رہنماؤں کی بات کی جا رہی ہے، وہ یا تو تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے ساتھ نہیں تھے، اور کچھ کو نئے ملک کے حوالے سے تحفظات بھی تھے، مگر پھر بھی جب نیا ملک بن گیا، تب بھی ان کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں صرف اضافہ ہی ہوا کیوں کہ وہ حقیقی طور پر دھرتی کے بیٹے تھے، چنانچہ ان کے مضبوط سماجی بندھن اور سیاسی گڑھ تھے، اور انہیں ایک بڑی تعداد عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔

کنارے سے لگا دی گئی ان قدآور شخصیات میں خان عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، اور غوث بخش بزنجو شامل تھے۔ ان لوگوں کو ساتھ رکھنا نہ صرف مددگار ثابت ہوتا، بلکہ لیگ کے وعدہ کردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی اہم ثابت ہوتا۔

اگر پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی ریاست بننا تھا، جس کے لیے جناح نے سب سے زیادہ معقول دلائل دیے تھے، تو یہ سیاستدانوں کا کام تھا، جو اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے درکار تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے حامی نہیں تھے، یہ زیادہ اہمیت کی حامل بات نہیں ہے، کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد ریاست نے مذہبی سیاسی جماعتوں، یہاں تک کہ فرقہ وارانہ تنظیموں تک کی حمایت حاصل کرنے میں دیر نہیں کی جنہوں نے تصورِ پاکستان کی مخالفت نہایت شدت اور مضبوط دلائل کے ساتھ کی تھی۔ اگر یہ دوسری طرح ہوا ہوتا، تو پاکستان کے سیاسی میدان میں موجود افراد کی تعداد اور قدر و قیمت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہوتی۔

تقسیمِ ہند کے بعد غفار خان نے واشگاف الفاظ میں نئے ملک سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ ایک موقع پر جناح نے ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کو صوبے کی گورنری کی بھی پیشکش کی، مگر یہ تمام اقدامات آگے نہیں بڑھ سکے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts