خصوصی رپورٹ: بانیانِ پاکستان 1947 سے 1951 قسط # 2
جی ایم سید سیاسی طور پر بالکل مختلف تھے، مگر پھر بھی وہ کبھی خود کو جناح کا سپاہی اور جناح کو اپنا جرنیل قرار دے چکے تھے۔ لیگ کے ساتھ ان کے اختلاف صرف تقسیم کے وقت سامنے آئے، اور وہ بھی الیکشن کے لیے تنگ نظر صوبائی سیاست پر تھے۔ انہیں مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا تھا، مگر لیگ نے ایسی قدآور سیاسی شخصیات کو دیوار سے لگا رہنے دیا۔
یہاں تک کہ لیگ کے اپنے اندر جن رہنماؤں نے صوبائی حقوق، شہری آزادیوں یا معاشرتی اصلاحات کے لیے آواز اٹھائی، انہیں رفتہ رفتہ باہر کا دروازہ دکھایا جاتا رہا۔ چنانچہ اپوزیشن کی اولین جماعتوں نے لیگ کے اپنے اندر سے جنم لیا۔ سہروردی، فضل الحق، مولانا بھاشانی، پیر صاحب مانکی شریف، افتخار حسین ممدوٹ، میاں افتخار الدین، اور کئی دیگر کبھی لیگ کا حصہ تھے جہاں ان کی جگہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔
پہلے سے کمزور سیاسی طبقہ جب مزید کمزور ہونا شروع ہوا تو سول ملٹری طاقت کے لیے اپنی برتری اور غلبہ جمانا مزید آسان ہوگیا۔
سول سرونٹس کو کولونیل ریاست چلانے کا تجربہ تھا۔ انہوں نے اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے وہ ریاستی نظام بحال کر لیا جو اپنی خصوصیات میں کولونیل نظام سے بالکل بھی مختلف نہیں تھا۔
فوج کے پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کی آمد کے ساتھ ایسا سول ملٹری اتحاد ابھرا جس نے جلد ہی چند افراد تک محدود حکومت کا روپ دھار لیا۔ آزادی کے ابتدائی دو سال کے اندر ہی ریاست کی پالیسیاں اور نظریات سامنے آنے لگے تھے۔
کولونیل حکمرانوں کے ہاتھوں تقسیم میں ہونے والی بدانتظامی، کئی معاملات کو غیر حل شدہ چھوڑا جانا، اور اہم ترین طور پر جموں اور کشمیر کے مسئلے نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شروع سے ہی مخاصمت کو جنم دیا۔ اکتوبر 1947 میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر جنگ چھڑ گئی۔ 14 ماہ بعد جنگ بندی تو ہوگئی، مگر 70 سال اور تین جنگوں کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 1947 پر ہی منجمد ہیں۔
دلیپ ہیرو نے اس مسئلے پر اپنی کتاب کا عنوان بالکل درست طور پر ‘دی لانگسٹ آگسٹ’ (طویل ترین اگست) رکھا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات نے ہمارے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل کر دیں جس کا بنیادی فلسفہ دفاعی معیشت ہو۔ ریاست کی ترجیحات انہی چیزوں کو تقویت دینے کے لیے بنائی گئیں جنہیں ریاست خود اپنے لیے قبول کر چکی تھی۔ دوسری جانب، وہ چیزیں جو سماجی بھلائی اور جمہوری اصولوں پر مبنی ایک جدید جمہوری ریاست کے لیے ضروری ہوتی ہیں، وہ غیر اہم بن گئیں۔
جس مشکل صورتحال میں پاکستان نے آزادی کے بعد خود کو پایا، اس نے بیوروکریسی کو معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع فراہم کیا۔ کیتھ کیلارڈ لکھتے ہیں کہ “تقسیم اور اس کے بعد کے حالات کا تقاضہ تھا کہ نئی ریاست پر حکومتی کنٹرول کے قیام کے لیے مضبوط مرکزی اقدامات کیے جائیں۔”
ہندوستان کے برخلاف پاکستان الگ ہونے والی ریاست تھا، جبکہ ہندوستان (برطانوی راج کی) جانشین ریاست تھا جسے تقسیم سے پہلے رائج پورا ریاستی نظام وراثت میں ملا تھا۔
چنانچہ پہلے سے یہ حدود واضح تھیں کہ ریاستی معاملات میں حقیقی قوت کس کے پاس ہوگی اور فیصلہ لینے کا اختیار کس کے پاس ہوگا، اور اس منفرد ریاستی نظام کو سیاسی جمہوری رنگ دینے میں کس کا کردار صرف ثانوی نوعیت کا ہوگا۔
یہ اختلاف ابتداء سے ہی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیاقت علی خان اس کے پہلے شکار بنے۔ انہیں امریکا بھیجا گیا تاکہ وہ، جیسا کہ انہوں نے امریکی سرزمین پر اپنا پہلا قدم رکھنے پر کہا، “اپنے ملک اور امریکا کے درمیان ایک روحانی پل” کی تعمیر کر سکیں۔
1951 کے اختتام تک انہوں نے امریکا کو خوش رکھنے کی اپنی ابتدائی پالیسی سے منحرف پالیسی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اسی سال اکتوبر میں ان کے قتل نے امریکی حمایت کے حصول کی زبردست کوششوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر دیں۔ دو سالوں کے اندر اندر ہی لیاقت علی خان کو تنہا کر دیا گیا تھا، یہ راولپنڈی سازش کیس سے واضح ہے۔
جانے والے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے نئے کمانڈر ان چیف ایوب خان کو فوج میں مو
جود نوجوان ترکوں کے ایک گروہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا نے بھی کراچی میں برطانوی ڈیفینس اتاشی سے نوجوان افسران میں موجود قوم پرست جذبات کے بارے میں ایک تبصرہ کیا تھا۔
وزیرِ اعظم کو لاعلم رکھا گیا اور انہیں پولیس کے سویلین ذریعے سے اس تبصرے کے بارے میں معلوم ہوا۔ ایوب اور مرزا نے وزیرِ اعظم کو اندھیرے میں رکھا۔ سازش در سازش اپنی کہانی خود بیان کرتی ہے۔
تاریخ دانوں نے رفتہ رفتہ پاکستان کے اپنے قیام سے ہی مطلق العنانیت کی جانب جھکاؤ کو محسوس کر لیا تھا، اور تب سے اب تک اس بارے میں بہت سی سیاسی تحریریں لکھیں گئی ہیں۔ مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنہوں نے اسے سب سے پہلے محسوس کیا، وہی مطلق العنانیت کے نتائج سہنے والوں میں سب سے اول تھے۔
یہ ہمارا مزدور طبقہ، ہمارا دانشور طبقہ، ہمارے مصنفین اور ہمارے شاعر تھے۔
اپنے وقتوں کی مشکلات کا احاطہ کرنے والی منٹو اور قاسمی کی تحریروں اور ن م راشد اور فیض احمد فیض کی شاعری کو کون بھول سکتا ہے
کیا انہیں بھی بانیانِ پاکستان میں شمار نہیں کرنا چاہیے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈاکٹر سید جعفر احمد جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔
Leave a Reply