دو قومی نظریہ کے بانیوں کی حقیقت
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سےدانستہ یا نادانستہ کویۤ کوتاہی سرزد نہ ہو یا یوں کہہ لیجیےۤ کہ اُنہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیےۤ مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے یا سمجھوتا کرنا پڑتا ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ جنم گھٹی میں پڑے ہوےۤ خیالات سے سمجھوتا کرنا مشکل کام ہے یا یوں بھی کہیےۤ کہ اپنا حلقہ احباب بڑھانے اور اثر و رسوخ اور مراعات حاصل کرنے کے لیےۤ ایک گروہ کی حمایت اور ایک گروہ کی مخالفت ضروری ہے ورنہ ذہر کا پیالہ پینا ہوگا یا کھال کھنچوانا ہوگی۔
دو قومی نظریہ کے بانیوں کی حقیقت
عمر علی
(بات تو سچ ہے پر سچایۤ کی)
پپاکستان کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے قیام کے جواز کو درست ثابت کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ دوقومی نظریہ کے مطابق ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کےحقوق کا تحفظ کرنا تھا۔
یہ نظریہ اپنے اصل میں تضادات کا مجموعہ ہے اور ماضی میں وقتاً فوقتاً اس پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ان سوالات کا جواب دینے اور اس نظریہ کو درست ثابت کرنے کے لیے دائیں بازو کے دانشور و تاریخ دان ،اس کا تعلق ماضی کے مسلمان حکمرانوں سے جوڑتے ہیں۔
محمد بن قاسم سے محمود غزنوی تک بیرونی حملہ آوروں کو پاکستان کا بانی قرار دیا جاتا ہے ۔ ایک ریٹائرڈ سرکار ی افسر ڈاکٹر صفدر محمود ، ، جو مورخ بھی کہلواتے ہیں ،لکھتے ہیں کہ محمد غوری پاکستان کا اصل بانی تھا۔ ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ محمد بن قاسم اور محمد غوری جیسے حملہ آوروں پر فخر کی بجائے ہمیں ان کی مذمت کرنی چاہیے جو وقتاً فوقتاً ہندوستان کو لوٹ کر چلے جاتے تھے۔ یہ ہمارے ہیرو نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے قاتل ہیں اور ان کا تاریخ میں ہیرو کی بجائے ایک مجرم طور پر ذکر ہوناچاہیے‘‘۔
کئی تاریخ دان دوقومی نظریہ کو شیخ احمد سر ہندی اور شاہ ولی اللہ سے جوڑتے ہیں جبکہ ہماری نصا بی کتب میں سرسید احمد خان کو دوقومی نظریہ کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔اگر ان شخصیات کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں پڑھا جائے تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے اپنے نظریات میں بے پناہ تضادات تھے۔
شیخ احمد سرہندی ’’وحدت الشہود‘‘ کے بانی تھے جسے اکثر مسلمان علماء نے بدعت قرار دیا تھا۔ وہ مغل حکمرانوں کی ’’صلح کل‘‘ پالیسی کے سخت خلاف تھے اور اسے اسلام کی اشاعت میں رکاوٹ خیال کر تے تھے۔ جہانگیر کو جب شیخ احمد سرہندی کی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچی تو اس نے ان کو گرفتار کر لیا۔
’’ جہانگیر کو علم ہوا کہ سرہند میں ایک شخص نہ صرف اپنے علاقے میں سادہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے بلکہ اس نے مختلف علاقو ں میں اپنے خلیفہ بھی مقرر کر رکھے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں‘‘ (تزک جہانگیری صفحہ 36)۔سبط حسن ’’ہندوستان میں تہذیب کے ارتقاء ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ شیخ سرہندی فلسفے کو کفر خیال کر تے تھے اور فلسفی کو احمق اور بے وقوف قرار دیتے تھے(صفحہ 323)َ۔
سبط حسن کے دعوے کی تصدیق شیخ احمد سرہندی کے خطوط سے ہو جاتی ہے وہ اپنے ایک مرید کو لکھتے ہیں کہ ’’ جب حضرت عیسیٰ نے افلاطون(احمقوں کے سردار) کو دعوت دی کہ وہ ان کو نبی تسلیم کرے تو اس کا جواب تھا کہ ہم صاحب بصیرت لوگ ہیں اورکسی ایسے شخص کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو ہمیں بصیر ت دینے کا دعویٰ کرتا ہے ( مکتوبات امام ربانی ، مکتوب 266)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ افلاطون، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ساڑھے تین سو سال پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔انہوں نے اپنی کتاب’’ مبداء موعود‘‘ میں بھی اسی قسم کے دعوے کیے ہیں جن کو دہرایا نہیں جا سکتا( مترجم حسین نقشبندی صفحہ 188-189)۔
شیخ احمد سرہندی فرقہ پرست بھی تھے انہوں نے شیعوں کے خلاف ایک کتاب ’’ رد روافض‘‘ لکھی ۔( رودِ کوثر از ایس ایم اکرام صفحہ 567-574)۔آج کل شیعوں کے خلا ف زیادہ تر فتوے انہی کتابوں سے اخذ کیے جاتے ہیں۔اگر دو قومی نظریہ کے بانی شیخ احمد سرہندی شیعہ کو کافر قرار دیتے ہیں تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟
شاہ ولی اللہ کا کردار اور نظریہ بھی اسی طرح کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس سے پہلے نادر شاہ نے حملہ کرکے مغل حکومت کی لوٹ مار کے بعد اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔
شاہ ولی اللہ نے ابدالی کو لکھا ’’ تم خوف خدا کرو اور تمہارا عمل نادر شاہ کی طرح نہیں ہونا چاہیے جس نے مسلمانوں کو تباہ کیا لیکن مراٹھوں کو چھوڑ دیا( شاہ ولی اللہ دہلوی کے سیاسی مکتوبات خلیق احمد نظامی صفحہ 106) ۔اس حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں ’’ گو ابدالی نے 1761 میں مراٹھوں کو شکست دے دی تھی۔ اس نے مغل شہنشاہ اور اس کی سلطنت کو نہ صرف لوٹا بلکہ مزید کمزور کیا‘‘ ۔
یہ سوچ کہ غیر ملکی امداد سے آپ کی حکومت مضبوط ہو گی غلط ثابت ہوئی۔ْایک اندازے کے مطابق احمد شاہ ابدالی نے 30 سے 120 ملین روپے لوٹے۔ اس نے مغل شہنشاہ ، محمد شاہ کی چھوٹی بیٹی سے زبر دستی شادی کی ( گمشدہ تاریخ از ڈاکٹر مبارک علی صفحہ 101)۔
شاہ ولی اللہ نے جب قرآن کا فارسی ترجمہ کیا تو انہیں قتل کی دھمکیاں ملیں تو انہیں کفر کے فتووں کی وجہ سے دہلی کو چھوڑنا پڑا( رود کوثر ایس ایم اکرام صفحہ 522)۔ ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے انگریزوں کی ملازمت کے حق میں فتویٰ دیا اور کہا کہ آپ ان کے وفادار رہیں لیکن نصیحت کی کہ مسلمانوں کا ان سے کوئی سماجی میل جول نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ وہ ان برتنوں کو دھولیں جن کو انگریز استعمال کرتے ہیں( علماء اور سیاست ڈاکٹر مبارک علی صفحہ 80)۔
خالد احمد اپنی کتاب ’’فرقہ وارانہ جنگ ( صفحہ 15) میں لکھتے ہیں ’’شیخ احمد سرہندی کی طرح شاہ ولی اللہ نے بھی شیعوں کو کافر قرار دیا تھا ۔ ’’ لذت الخفا ‘‘ ، ’’ قرۃالعینین‘‘ اور خطوط ’’ کلمات طیبات‘‘ کے تفصیلی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ زندیق ، نوابت اور متبدی ہیں‘‘۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے شیعوں کے خلاف ایک مبسوط و مدلل کتاب’’ تحفہ اثنا عشریہ ‘‘ کے نام سے لکھی ۔
سید احمد بریلوی اور شاہ اسمعیل کو آزادی کے مجاہد قرار دیاجاتا ہے جنہوں نے کافروں سے جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ یہ شخصیات انگریز سے لڑنے کی بجائے جو جغرافیائی طور پر ان کے نزدیک تھے اور اصل میں ہندوستان پر قابض تھے، یہ شمال کی جانب گئے اور سکھوں اوردوسرے مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی۔ شاہ اسمعیل نے کلکتہ میں جہاد کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکھ حکمرانوں کی وجہ سے مسلمان محکوم ہیں اس لیے انگریزوں کی بجائے سکھوں کے خلاف جہاد کرنا جائز ہے۔
’’ یہ ضروری نہیں کہ انگریز حکمرانوں کے خلاف جہاد کیا جائے کیونکہ ان کے دوراقتدار میں مسلمان آزادی سے اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور کسی بیرونی حملے کی صورت میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کی مدد کریں۔(حیات طیبہ از حیرت دہلوی صفحہ 264)۔
آزادی کی جنگ جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا انگریز کی حکمرانی کے خلاف تھی کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ شاہ اسمٰعیل کیسے ہمارے آزادی کے ہیرو ہو سکتے ہیں جنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد نہ کرنے کافتویٰ دیا تھا۔ شاہ اسمعیل انگریزوں کی خوشامد میں اکیلے شخص نہیں تھے۔انہوں نے اپنے مریدوں کو بھی انگریز کی اطاعت کا حکم دیاتھا۔
میاں نذیر احمد دہلوی، ممتاز اہل حدیث عالم تھے جنہوں نے مشکل وقت میں انگریز سلطنت کی مدد کی تھی اور انگریز ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے تھے۔میاں نذیر نے حج پر روانگی سے قبل راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کمشنر دہلی سے سفارشی خط کی درخواست کی ۔ کمشنر نے اپنے رقعے میں لکھا کہ میاں نذیر نے مشکل وقت میں انگریز سلطنت کی مدد کی ہے،اب حج کے لیے مکہ جانا چاہتے ہیں۔ لہذا انہیں کسی بھی برطانوی افسر کی مدد کی ضرورت ہو مہیا کی جائے کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں ( حیات بعد الممات صفحہ 87)۔
جناح اور اقبال کے بعد سرسید احمد کو ہمارے نصاب کی کتابوں میں پاکستان کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔الطاف حسین حالی سرسید احمد خان کی سوانح حیات ’’ حیات جاوید‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ سر سید احمد خان نے ملکہ وکٹوریہ کے لیے دعائیں کرتے تھے کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ ہماری حکمران ہیں ‘‘۔ ( حیات جاوید صفحہ182)۔سرسید احمد خان ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شاہ اسمعیل شہید کی سکھوں کے خلاف لڑائی اصل میں جہاد تھا ( صفحہ 73)۔
انہی سر سید احمد خان نے 1857کی جنگ آزادی کی مذمت کرتے ہوئے اسے غدر سے تشبیہ دی تھی۔ وہ 1857جنگ کرنے والوں کو گھٹیا اور کم ذات قرار دیتے ہیں (حیات سر سید از ضیاالدین لاہوری صفحہ 124)۔
ان حالات میں جبکہ دوقومی نظریہ کے نام نہاد بانی یا تو دوسرے مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا رہے ہوتے تھے یا انگریز کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے مخالفین کے خلاف جہاد کرتے تھے اور ان کے حق میں لکھتے تھے تو پھر پاکستانی قوم کو کنفیوزڈ قوم بننے سے کون روک سکتا ہے۔ یہ تاریخ دانوں کا کام ہے کہ وہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کریں جنہیں اس ملک کا بانی قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف نفرت کا پرچار کرتے تھے بلکہ اپنے مریدوں کے ذریعے اس کو فروغ دیتے تھے
Leave a Reply