🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

رنگ زیب کا دور حکومت قسط # 3

Back to Posts

رنگ زیب کا دور حکومت قسط # 3


شہنشاہ اورنگزیب کے اسلامی دور حکومت (1658- 1707) میں ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مندروں کو ڈھایا گیا اور کافروں ( ہندوؤں اور سکھوں) کو ذبح کیا گیا ۔ وہ اپنی سوانح حیات ماثر عالمگیری میں لکھتا ہے کہ 1669 ء میں بے وقوف برہمن اپنے مدرسوں میں ہندو اور مسلمانوں کو فضول مذہبی کتابیں پڑھاتے تھے بلکہ دور دراز سے طالب علم یہاں آکر تحصیل علم کے لیے آتے تھے۔ اورنگ زیب اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے تمام صوبائی گورنروں کو ہدایت کی کہ کافرانہ تعلیمات پر سختی سے پابندی لگا دی جائے، بت پرستی کو ختم کیا جائے اور ہندوؤں کے تمام مندر اور مدرسوں کو ختم کر دیا جائے۔ ۱۷۔ ہندوؤں کو ان کے امتیازی نشانات استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا اور سزا کے طور پر جزیہ نافذ کیا گیا۔اورنگزیب اپنے آپ کو کافرانہ رسوم اور عبادت کے خاتمے کو نہ صرف مذہبی فریضہ سمجھتا تھا بلکہ اپنے آپ کو ان رسوم کے خاتمے کا چیمپین کہتا تھا۔ ماثر عالمگیری کے مطابق صرف ایک سال 1679ء کا احوال کچھ اس طرح درج ہے۔ ۔۱۔ خاں جہاں بہادر جب جودھ پور سے آیا تو بے شمار بیل گاڑیاں بتوں اور مورتیوں سے لدے ہوئی تھیں جو مندروں کو ڈھا کر لوٹے گئے تھے۔ کچھ بتوں کو بڑی مساجد کے دروازوں کے سامنے ڈال دیا اور نمازی انھیں پاؤں سے روندتے ہوئے مسجد میں داخل ہوتے۔ ۔۲۔ شہزادہ محمد اعظم اور خان بہادر اودھے پور گئے جس کا مقصد بت پرستی کا خاتمہ اور مندروں کو ڈھانا تھا لیکن بیس کے قریب ہندو راجپوت شہزادوں نے مندروں کے ڈھانے کے خلاف بغاوت کر دی ۔ جس پر اسلامی فوج نے ان راجپوت شہزادوں کو جہنم واصل کر دیا اور مندروں سے تمام بتوں کا صفایا کر دیا گیا۔ ۔۳۔ اورنگزیب نے تین بڑے مندروں کو ڈھانے کا حکم دیا جو رانا یودیس گڑھ نے تعمیر کروائے تھے ۔ اس مہم سے واپسی پر حسن علی خان نے بتایا کہ یہ مندر محل کے نزدیک تعمیر کیے گئے تھے ۔ ان کو ڈھانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے دوسرے اضلاع میں بھی تقریباً 120 مندر ڈھا دئے گئے۔ ۔۴۔ اورنگزیب چتوڑ کی طرف بڑھا جہاں 63 مندروں کو ڈھایا گیا۔ ۔۵۔ بادشاہ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے امبر کے مندروں کو بتوں سے صاف کر دیا گیا ۔ ابو تراب لکھتا ہے کہ تین بڑے بتوں اور چھ چھوٹے بتوں کو زمین کے برابر کر دیا گیا۔۱۸۔ سنہ1679ء میں اورنگزیب کے حکم پر 200 سے زائد مندروں کو ڈھایا گیا کچھ کے نزدیک ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔ مندروں کے پجاریوں کو بھی مار دیا جاتا ۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی داراشکوہ کو بھی نہ بخشا اور اسے ہندو مذہب میں دلچسپی رکھنے کے الزام میں قتل کر دیاتھا۔ اورنگزیب نے سکھوں کے گرو تیغ بہادر اور اس کے دو ساتھیوں کو اس الزام پر قتل کر دیا کہ وہ کشمیری ہندوؤں کو زبردستی سکھ بنانا چاہتے تھے۔ سنہ1738 میں ایرانی حکمران نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دو لاکھ افراد کوقتل کیا اور اپنے ساتھ بے شمار دولت لوٹ کر لے گیا جس میں خوبصورت لڑکیاں بھی تھیں۔ ایلین ڈینیلو (متوفی ۱۹۹۹) ایک فرانسیسی سکالر تھا جو ہندوستانی فلاسفی، مذہب ، تاریخ اور آرٹ کا ماہر تھا ، نادر شاہ کے دہلی پر حملے کی تفصیل لکھتا ہے کہ ’’۔۔۔ ایک ہفتے تک قتل و غارت جاری رہی۔۔۔ تمام عمارتیں تہ و تیغ کر دی گئیں اور یہ حالت ہو گئی کہ زندہ بچ جانے والوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔ وہ قیمتی فرنیچر ، آرٹ کے نمونے ، گھوڑے ، کوہ نور ہیرا اور سونے کے سکوں سمیت تقریباً 150 ملین مالیت کا سامان ایران لے گیا ۔ اس نے اتنی دولت لوٹی کے اگلے تین سال کے لیے ایران میں ہر قسم کا ٹیکس معاف کر دیاگیا۔۱۹۔ مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان میں ہندو ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت کی مذہبی عبادت گاہوں کو جتنا تباہ و برباد کیا ہے دنیا کی تاریخ میں ایسی تباہی کسی اور حملہ آور کی طرف سے نہیں ہوئی۔ جب کوئی مندر ڈھایا جاتا تو اس کی مورتیوں میں چھپی دولت کو نکالا جاتا اور مندر کے ڈھائے گئے پتھر مساجد کی تعمیر میں استعمال ہوتے۔ دہلی کی مسجد قوت اسلام مندروں کے ڈھائے گئے میٹریل سے ہی تعمیر کی گئی تھی ۔مندروں کے بچاریوں اور رکھوالوں کو قتل کر دیا جاتا جس کا ذکر بڑے فخر سے امیر خسرو اور فیروز شاہ تغلق کرتے ہیں۔ ۲۰۔ ہندوستان میں مسلمان حملہ آوروں کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا ذکر اپنے وقت کے مسلمان تاریخ دانوں نے بڑے فخر سے کیا ہے اور اسے اسلام کی فتح قرار دیتے ہیں۔مسلمان حکمرانوں کی لوٹ مار اور مندروں کو ڈھانے کے متعلق فرانسس واٹسن لکھتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے ذہنوں میں بت پرستی کے خلاف سخت نفرت بھری ہوئی تھی ۔ وہ مندروں کو ڈھاتے ،بتوں کو توڑتے اور ان میں چھپی دولت لوٹتے اور اس کا ذکر خود مسلمان مورخین نے کیا ہے ۔ ہندوستان کے قدیم شہر واراناسی اور متھرا، اجین اور مہا شیور، جوالہ مکھی اور دوارکا میں قدیم دور کا ایک بھی مندر سلامت نہ رہنے دیا گیا ۔ ۲۱۔ مسلمان حکمرانوں میں شہنشاہ اکبر کو روشن خیال اور رحم دل کہا جاتا ہے اور اس کے دور کو ہندوستان کا شاندار دور کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبر نے 1588 میں چتوڑ میں تیس ہزار افراد کے قتل کا حکم دیا کیونکہ انھوں نے ہندو راجپوت شہزادوں کا ساتھ دیا تھا۔ جب آٹھ ہزار سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا تو ان کی عورتوں کی تعداد جو کہ آٹھ ہزار بتائی جاتی ہے کو لونڈیاں بنا لیا گیا جنہوں نے اپنی عزتیں لٹ جانے کے ڈر سے آگ میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ختم کر لیا۔شہنشاہ جہانگیر لکھتا ہے کہ اس نے اور اس کے والد (شہنشاہ اکبر) کے مشترکہ دور (1556-1627) میں پانچ سے چھ لاکھ افراد کو ذبح کیا گیا تھا۔۲۲۔ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کی آمد سندھ پر حملے سے شروع ہوئی اور قتل و غارت و بربریت کا ایک بھیانک دور شروع ہوا جو آخری مسلمان حکمران ٹیپو سلطان (1750-99) کی وفات تک جاری رہا ۔ تاریخ میسور از ہوادانہ راؤ کے مطابق 1790 کو ٹیپو سلطان نے میسو ر کی لنگرکمیونٹی کے سات سو مرد عورتیں اور بچوں کودیپاولی کی تقریبات کے موقع پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔بعد میں ٹیپو سلطان نے برطانوی جنرل ہیرس جو کہ مدراس اور تیمور لنگ کا گورنر تھا سے معاہدہ کرلیا۔ ایک مغل جنرل محب الحسن ٹیپو سلطان کی زندگی کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے ٹراون کورTravancore کی جنگ میں دس ہزار ہندو اور عیسائیوں کو قتل کیا اور سات ہزار کو غلام بنایا ان غلاموں کو سرنگا پٹم لے جایا گیا جہاں ان کو زبردستی مسلمان کیا گیا، ان کے ختنے کیے گئے اور گائے کا گوشت کھلایا گیا۔۲۳۔مسلمان مورخ ’کرمانی‘ اپنی کتاب نشانِ حیدری میں لکھتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے ستر ہزار Coorgies کو زبردستی اسلام قبول کرایا۔ کچھ ماڈرن تاریخ دان اس تعداد کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کچھ مسلمان مورخ اپنے آپ کو اسلام کا چیمپین ثابت کرنے کے لیے تعداد بڑھا چڑھا کر لکھتے تھے(وکی پیڈیا) یہ اعداد و شمار درست ہیں یا نہیں لیکن ماڈرن تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ تلوار کے زور پر لوگوں کو مسلمان کرنا اس وقت بھی بڑے فخر سے ذکر کیا جاتا تھا جب ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کا اقتدار ختم ہورہا تھا۔ ایلین ڈینیلو ہندوستان میں مسلمانوں کی یلغار کے متعلق لکھتا ہے ’’ہندوستان میں 632 ء سے مسلمانوں کی آمد شروع ہو گئی تھی اور اس کے بعد قتل و غارت بربریت اور لوٹ مار کی لمبی تاریخ ہے ۔ ان جنگوں کو اللہ کی جنگ کہا گیا اور یہ جنگیں اللہ کی خوشنودی اور اس کی شریعت قائم کرنے کے لیے لڑی گئیں۔۲۴۔ محمود غزنوی نے 1018میں بربریت کی انتہا کرتے ہوئے متھرا، قنوج اور مشہور سومنات کے مندروں کو زمین کے برابر کر دیا جو ہندوؤں کی مقدس عبادت گاہیں تھیں۔ اس کے بعد آنے والوں نے محمود غزنوی سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا۔بنارس کے علاقے میں 103مندروں کو مکمل طور پر ڈھا دیا گیا یہ مندر اس خطے کی تہذیب و تمدن کی علامت تھے۔ ایلین ڈینیلو لکھتا ہے کہ ان مسلمان حکمرانوں نے ایک منصوبہ بندی کے ذریعے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ امریکی تاریخ دان و فلاسفر ول ڈیورانٹ کے مطابق مسلمانوں کا ہندوستان پر حملے دنیا کی تاریخ مین سب سے زیادہ خونریز حملے کہے جا سکتے ہیں جبکہ مسلمان تاریخ دان 800ء سے 1700 عیسوی کے دور کو مسلمانوں کا شاندار دور کہتے ہیں اور فخریہ انداز سے اقرار کرتے ہیں کہ انھوں نے کافروں کو جہنم رسید کیا یا مسلمان کیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا۔ زبردستی مسلمان کیا گیا مندروں کو تباہ کیا اور لوٹ مار کو مالِ غنیمت کہا جاتا ہے ۔۲۵۔مسلمان مورخین محمد الکافی ، البلادری، العطبی، حسن نظامی، امیر خسرو ، ضیاء الدین برنی اور محمد قاسم فرشتہ نے ان تمام واقعات کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ حملہ آوروں کی طرف سے ہندوستان میں قتل و غارت بربریت اور عبادت گاہوں کی اتنے بڑے پیمانے پر تباہی شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم نے کی ہو۔ہندو کش پہاڑی سلسلہ کا نام بھی اس لیے دیا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں ہندو افراد (عورتیں، لڑکے اوربچے) جنھیں غلام بنا کر وسطی ایشیائی ریاستوں میں لے جایا تھا کی بڑی تعداد اس پہاڑی سلسلے میں سرد موسم کو برداشت نہیں کرسکتی تھی اور راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے تھے ۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ہندوکش کا مطلب ہندؤوں کی قتل گا ہ ہے کیونکہ غلام لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد برفانی پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتی تھی۔اس پہاڑی سلسلے میں کتنے افراد سر دی کی وجہ سے ہلاک ہو ئے اس کا اندازہ لگایا نہیں جا سکتا ۔ مورلینڈ کے مطابق زندہ بچ جانے والے غلاموں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ غیر ملکی مارکیٹ میں یہ کم قیمت پر فروخت ہوتے تھے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts