زچگی کے بعد ڈپریشن کا مرض
مائیں خود حیران ہوتی ہیں کہ انہیں بچے کی خواہش بھی تھی اور سب کچھ اچھی طرح ہوگیا ہے اس کے باوجود ان کی طبیعت کی اُداسی بڑھتی جارہی ہے؟ انہیں بچے کی پیدائش کی خوشی محسوس کیوں نہیں ہورہی ہے۔ بعض دفعہ وہ پریشان ہوجاتی ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان میں اچھی ماں بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
مگر حقیقت میں نہ ان خواتین کی ممتا میں کوئی نُقص ہے اور نہ ان کے رویے میں، وہ ایسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں جو بہت سی ماؤں کو بچے کی پیدائش کے بعد ہوجاتی ہے اور وہ اپنی لاعلمی یا ناواقفیت کی بناء پر علاج کی ضرورت محسوس کئے بناء اس تکلیف کو برداشت کرتی رہتی ہیں۔
بہت زیادہ بچوں کی پیدائش کے بعد تقریباً ہر دس میں سے ایک ماں بعد از پیدائش ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔ علاج کے بغیر یہ بیماری مہینوں بلکہ سالوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج کیا جائے تو اسے چند ہفتوں میں ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
بچہ کی پیدائش کے بعد ہونے والا ڈپریشن
اداسی: بعد از پیدائش ڈپریشن کی سب سے زیادہ نمایاں علامات ہے۔ مریضہ ہر وقت اداس اور ناخوش رہتی ہے۔ بعض دفعہ اداسی دن کے کسی ایک حصے میں زیادہ ہوتی ہے۔
مثلاً صبح و شام میں بچے کی دیکھ بھال اور خوراک کا خیال نہ رکھنا، بعض مریضوں میں تو اداسی اتنی شدید ہوتی ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ اس زندگی سے تو مرنا ہی بہتر ہے۔ یہاں تک کہ خود کو مار دینے اور بچے کو ختم کردینے کا خیال آنے لگتا ہے۔
چڑچڑاپن: اس چڑچڑے پن کا رُخ دوسرے بچوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور بسا اوقات نوزائیدہ بچے کی طرف بھی ہوتا ہے۔ اس کا رخ شوہر کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو نہیں سمجھ پاتا کہ اس چڑچڑے پن کی وجہ کیا ہے۔
تھکن: عموماً تمام نئی مائیں تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں مگر ڈپریشن کا شکار مائیں اس قدر شدید تھکن اور کمزوری کا شکار ہوجاتی ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ شاید انہیں کوئی جسمانی بیماری ہوگئی ہے۔
بے خوابی: مریضہ شدید تھکن کے باوجود جب بستر پر لیٹتی ہے تو اسے بہت دیر تک نیند نہیں آتی ہے یا پھر صبح وقت سے پہلے آنکھ کھل جاتی ہے۔
بھوک کی کمی: مریض کو یا تو کھانے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا یا پھر دن بھر کھانے کی خواہش نہیں ہوتی۔
کسی چیز میں مزہ نہ آنا:جن چیزوں میں پہلے بہت مزہ آتا تھا اور بہت دلچسپی محسوس ہوتی تھی بعد از پیدائش ڈپریشن میں مبتلا ماؤں کو ایسے تمام کاموں میں بیزاری اور اُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔
خصوصاً انہیں جنسی معاملات سے بالکل بے رغبتی ہوجاتی ہے نتیجتاً شوہر سے ذہنی اور جسمانی دوری ہونے لگتی ہے۔
گھبراہٹ/ پریشانی:گھبراہٹ بہت شدید ہوتی ہے اس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں مثلاً بچے کے ساتھ اکیلے رہنے سے خوفزدہ ہونا کہ کہیں وہ زیادہ شور نہ کرے، کوئی چیز گلے میں نہ پھنسالے، گِرنہ جائے یا اس کو کسی اور طرح سے چوٹ نہ لگ جائے۔
کچھ کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اُداس مائیں ڈپریشن کی وجہ سے اپنے بچے کے لئے دل میں محبت پیدا نہیں کرپاتیں بلکہ اپنا ہی بچہ ان کو عجیب و غریب لگنے لگتا ہے۔
وہ اس کی ضرورت کو سمجھ نہیں پاتیں اور بچے کو سنبھالنا ان کے لئے مصیبت بن جاتا ہے۔
بعد از پیدائش ڈپریشن ان ماؤں میں بھی ہوسکتا ہے جنہیں اپنے بچے سے بہت محبت پیدا ہوتی ہے۔
یہ مائیں شدید پریشانی کا شکار رہتی ہیں کہ کہیں ان کی نااہلی یا کمزوری کی وجہ سے انکے بچے کو نقصان نہ پہنچ جائے۔
وہ ہر وقت چیک کرتی رہتی ہیں کہ بچہ کھارہا ہے یا نہیں، اس کا وزن بڑھ رہا ہے کہ نہیں، وہ سانس لے رہا ہے کہ نہیں، اگر وہ رورہا ہے تو اتنا زیادہ کیوں رو رہا ہے، اگر وہ خاموش ہے تو اتنا خاموش کیوں ہے؟
ڈپریشن میں مبتلا ان ماؤں کو اپنی صحت کی طرف سے بھی بہت زیادہ فکر رہتی ہے۔
اگر ان کی نبض کی رفتار بڑھ جائے یا دل کی دھڑکن بڑھ جائے تو ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کا آخری وقت آپہنچا ہے اور اس کو دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔
پرپیورل سائیکوسس (Perpueral Psychosis)
(بعد از زچگی شدید نفسیاتی بیماری)
خوش قسمتی سے پریپورل سائیکوسس بہت ہی کم ہونے والی بیماری ہے اور پیدا ہونے والے ہر پانچ سو بچوں میں سے ایک کی ماں کو یہ بیماری ہوسکتی ہے۔
یہ بیماری صدیوں سے جانی پہچانی جاتی ہے، سقراط کی تحریروں میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے، عموماً ان عورتوں میں اس بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جن کو کسی پہلے بچے کی پیدائش کے بعد یہ بیماری ہوچکی ہو یا ان کے خاندان میں کسی کو کوئی نفسیاتی بیماری ہوچکی ہو اور وہ اتنی شدید ہو کہ نفسیاتی علاج کی ضرورت پیش آئی ہو۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ پریپورل سائیکوسس عام نفسیاتی بیماریوں سے مختلف کوئی بیماری ہے اور زندگی کے اس مخصوص حصے کے علاوہ اور حصوں میں نہیں ہوتی۔ مگر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہ بھی دیگر نفسیاتی بیماری جیسی بیماری ہے۔
پرپیورل سائیکوس کیوں ہوتا ہے؟
اس بیماری کے ہوجانے کا سب سے زیادہ امکان پیدائش کے فوراً بعد سے چند دنوں میں ہوتا ہے۔ بعض ماؤں میں پیدائشی طور پر اس بیماری کا شکار ہونے کااندیشہ ہوتا ہے جبکہ بعض ماؤں میں زندگی کے مختلف حالات و واقعات کی وجہ سے اس بیماری کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کیا اس کا کوئی حل ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ گائنی کولوجسٹ، دوسرے ڈاکٹر حضرات اور مڈ وائف کو یہ معلوم ہو کہ اس طرح کی بیماری ہوسکتی ہے اور اس کی ابتدائی علامات کیا ہیں، مثلاً نیند کا بالکل نہ آنا، لوگوں سے تعلق ختم کرلینا اور شدید بے چینی وغیرہ۔
بچے کی پیدائش سے پہلے تمام خواتین سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ کیا کبھی ان کو یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کوئی نفسیاتی بیماری ہوئی ہے۔ اگر بیماری کی ابتدائی علامات نظر آنے لگیں تو ماہر نفسیات سے فوری مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
مینیا (Mania)(جنون کی بیماری)
عموماً اس کی خوراک بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ بول رہی ہوتی ہے اور کام کررہی ہوتی ہے وہ اپنے بچے کی طرف پوری توجہ نہیں دے پاتی کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ اس کو بے شمار کام کرنے ہیں مثلاً خریداری کرنا ہے، بڑے بڑے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے ہیں، اپنے گھر اور اپنی زندگی کو نئے طریقے سے استوار کرنا ہے۔
اس کا مزاج بغیر کسی وجہ کے انتہائی خوش ہوتا ہے۔ اگر اس کو کسی ارادے یا منصوبے سے روکا جائے تو مزاج فوراً شدید غصّے اور چڑچڑے پن میں بدل جاتا ہے۔اس بیماری میں ماں اور بچے دونوں کی صحت اور جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔
ڈپریشن (Depression)(اداسی کی بیماری)
وہ اپنے آپ کو بہت حقیر اور گناہ گار سمجھنے لگتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ دوسرے بھی اس کے بارے میں اسی طرح سے سوچ رہے ہیں۔ اس کی بھوک مرجاتی ہے اور نیند بہت خراب ہوجاتی ہے، عموماً اس کی آنکھ صبح اپنے عام وقت سے پہلے (مثلاً تین بجے) کھل جاتی ہے اور اس وقت اداسی اور گھبراہٹ بہت شدید ہوتی ہے۔
اس بیماری میں خودکشی کے خیالات آنے لگتے ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بیماری میں مبتلا مائیں اپنے بچوں کو ہلاک کرکے خود بھی خودکشی کرلیتی ہیں۔ اس لیے اس بیماری کی تشخیص کرنا اور اس کا فوری علاج کروانا بہت ضروری ہے۔
شیزو فرینیا(Schizophrenia)
اس کے خیالات اور احساسات گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ سمجھنے لگتی ہے کہ اس کے ارد گرد جو کچھ ہورہا ہے اس کا اس کی ذات سے کوئی خاص تعلق ہے۔
اس کو اس طرح
جب یہ مریض اس طرح کی باتیں کرتی ہیں تو ان کے رشتہ داروں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کیا باتیں کررہی ہیں۔
Leave a Reply