سیاسی و سماجی شعور / ڈاکٹر مبارک علی ۔ چیپٹر 15
امریکا کے ایک شہر چیپل ہل میں ایک چھیالیس سالہ امریکی شہری کرایگ سٹیفن ہکس نے 11فروری بروز بدھ تیننوجوان مسلمانوں
کے گھر میں گھس کر انتہائی وحشیانہ طریقے سے ان کے سروں پر گولیاں مارکر انھیں شہید کردیا ہے۔اس واقعے سے ایک بار پھر مسلمانوں پر دہشت گردی مسلط کر دی گئی ہے۔ مغرب ذرایع ابلاغ حسبِ معمول خاموش ہیں۔ روایتی طرز فکر اپناتے ہوئے اس امریکی دہشت گرد کو دہشت گرد کہنے سے بھی مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔
جب اس شخص پر مقدمہ چلے گا اوراس کو سزا ہوگی تو امریکی و مغربی عوام کےذہنوں میں یہ بات راسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ شخص آزاد خیال یا ملحد دہشت گرد نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک ’’نفسیاتی مریض‘‘ تھا۔ اگر ایسا ہی واقعہ کسی مسلمان سے سرزد ہوجاتا تو بلاشبہ اسے نہ صرف دہشت گرد کہا جاتا بلکہ مغرب و امریکا میں مقیم مذہبی رہنماؤں کو مجبور بھی کیا جاتا کہ وہ اس واقعے پر معذرت کریں ان خیالات کے ساتھ کہ ’’قرآن تو دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے‘‘ لیکن اس قسم کے لوگ قرآنی آیات کو غلط مفاہیم پہنا کر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اس طرح نتیجہ یہ نکلتا کہ قتال و دہشت کا جواز سماجی و سیاسی پس منظر میں تلاش کرنے کی بجائے چودہ سو برس قبل کے اسلام کی کسی شکل کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا اور اس طرح یہ تاثر بھی مستحکم ہوتا کہ اسلام کی ایک دہشت پسند شکل موجود ہے، اس لیے سامراجی ممالک کی مسلمان ممالک پر مسلط کی گئی جنگ و جدل معاشی و آئیڈیولاجیکل غلبے کی نہیں بلکہ صرف آئیڈیولاجیکل تصادم کا نتیجہ ہے، اور لبرل جمہوری اقدار کو بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔
کرایگ ہکس نامی امریکی دہشتگرد جس نے معصوم مسلمانوں پر دہشتگردی مسلط کی اور انھیں انتہائی بے رحمی سے قتل کردیا وہ خود کو ملحد کہتا تھا، اور اکثر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر مختلف مذاہب کا تمسخر اڑایا کرتا تھا۔ تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس نے دہشتگردی کے لیے مسلمانوں ہی کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ امریکا ہی میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد رہتی ہے، جن میں اکثریت انتہا پسند مسیحیوں کی ہے؟ الحاد کی نظریاتی بنیاد تو سبھی مذاہب کو یکساں چیلنج پیش کرنے کے تصور پر استوارہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کے واقعات مذہبی یا الحادی نظریات سے کہیں زیادہ سماجی تشکیل ہوا کرتے ہیں۔قتال کے عمل کے لیے کسی ’’کتاب‘‘ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ وحشت انگیز خیالات صرف کتابوں ہی کے ذریعے سے نہیں سماج میں پھیلائے جانے والے مقتدر طبقات کے خیالات کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔
برسر اقتدار طبقات اپنے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف مذاہب یا آئیڈیالوجیز کے درمیان نفرت و مخاصمت کو تشکیل دینے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔مختلف نسلوں، فرقوں اور مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے کی آئیڈیالوجی کسی خاص مذہب سے اتنا تعلق نہیں رکھتی جتنا گہرا تعلق اس کا حکمرانوں کے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے سے ہوتا ہے۔ کیا یہ واقعی مذہبی یا الحادی تشکیل ہے؟ اس کا جواب نفی و اثبات دونوں میں ہوگا ، اس لیے کہ سماج کے اندر یہ دونوں رجحانات موجود ہیں، مقتدر طبقات ہی طے کرتے ہیں کہ نفرت انگیز اور تعصب سے معمور خیالات کو کب،کن خطوط پر بروئے کار لانا ہے۔
ان معنوں میں اس قسم کے واقعات سماجی تشکیل ہوتے ہیں۔ عوام سکون سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں، لیکن تبلیغ کے ذریعے ان کے مخالف تیارکیے جاتے ہیں، ان مخالفین کو ان کا سب سے بڑا دشمن بتایا جاتا ہے، ان کے انہدام کو اپنی معاشرتی بقا کے لیے لازمی تصور کرلیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماج کی تقسیم آئیڈیولاجیکل بنیادوں پر اتنی گہری نہیں ہوتی، جتنی کہ طبقاتی بنیادوں پر گہری ہوتی ہے۔طبقاتی تقسیم کو مخفی رکھنے یا اسے محض ایک واہمہ قرار دینے کے لیے مذہبی،نسلی،قومی اورگروہی تقسیم کو لوگوں کے اذہان میں راسخ کردیاجاتا ہے۔اس طرح وہ تمام پسے ہوئے اوراستحصال زدہ طبقات جن کا اتحاد سماج میں ظلم و بربریت کے لیے لازمی ہوتا ہے، انھیں ایک دوسرے سے برسرپیکار کردیا جاتا ہے۔
مغرب اور امریکا جیسے معاشرے جہاں ہمہ وقت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اورکوئی ایسا موقع نہیں گنوایا جاتا کہ جس میں مسلمانوں اور اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑا گیا ہو تو ایسے میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند مسیحیوں، یہودیوں ، آزاد خیالوں اورملحدوں کے ذہن میں دہشت پسندانہ جذبات کا مشتعل ہونا لازمی امر ہے۔ پروپیگنڈا خواہ پاکستان کے کسی محلے کی مسجد میں مختلف فرقوں کے درمیان ہو یا ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں میں جدید تنکیک سے لیس ذرایع ابلاغ کے ذریعے سے،ایک ہی جیسا مہلک ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ذرایع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پھیلانے میں فرقہ پرست مساجد کا نعم البدل بن چکے ہیں،دونوں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہی جیسا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔
دونوں ہی اپنے مخالفین کے خلاف نفرت پھیلانے اور انھیں نیست و نابود کرنے میں مصروف ہیں، دونوں ہی خود کو درست اور اپنے مخالفین کو غلط سمجھتے ہیں۔مذہب پرست مذہب کے نام پر جان لیتے ہیں، آزاد اور روشن خیال ’’آزادی، انصاف اور جمہوریت‘‘ کے نام پر دہشت برپا کرتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کے اذہان میں تعصبات کا گہرائی میں راسخ ہوجانا ہرگز حیرت کی بات نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مغربی و امریکی معاشروں میں ذرایع ابلاغ کے وسیلے سے پھیلائی جانے والی نفرت کو محض اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ یہ ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشرے میں پروان چڑھی ہے اور ملائیت رجعت اور قدامت پسندی کی علامت ہے اس لیے اس کا انہدام ضروری ہے۔
ترقی یافتہ معاشرے جب روشن خیال آئیڈیالوجی کی بنیاد پر مظلوم اقوام کے لوگوں یا اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا قتال کراتی ہیں تو وہ بھی قابل مذمت ہیں ۔ معصوم لوگوں کا محض خود سے مخالف نظریات رکھنے کی پاداش میں قتلِ عام خواہ کسی مذہبی رجعت پسند کے ہاتھوں سے ہو یا آزاد اورروشن خیالی کے مبلغ کی دہشت پسند طبع کا نتیجہ ہو، ایک ہی جیسے قابلِ مذمت ہیں۔
امریکا ، برطانیہ اور مغرب میں لاتعداد ملحد صرف ملاؤں، پادریوں اور راہبوں کے ردِ عمل میں پیدا ہوئے ہیں۔ انھیں سرمایہ داری نظام کے بطن میں تضادات کی نوعیت اور شدت سے کوئی غرض نہیں ہے، نہ ہی انھیںاس نظام کی انسانوں پر برپا کی جانیوالی دہشت و بربریت سے ہی کچھ لینا دینا ہے۔ سماج کو طبقاتی یعنی سائنسی بنیادوں پر بھی وہ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ عہد حاضر میں برپا کی گئی ہر قسم کی دہشت پسندی کو قومی سطح پر طبقاتی تقسیم اور قومی اور بین الاقوامی کے مابین تضاد کی بنیاد پر سمجھنے کی بجائے صرف مذہب کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مذاہب کی تاریخ کو کریدتے ہیں، مذہبی کتابوں سے حوالے تلاش کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید مذہب کے ’خاتمے‘ سے ساری دنیا کے تمام مسائل حل ہو جائینگے لیکن ایسے آزاد خیال اور ملحد اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ دہشت و بربریت کا منبع و مآخذ محض نظریات نہیں ہوتے، وہ نظام ہوتا ہے جو نظریات کو اپنی امیج پر خلق کرتا ہے، نظریاتی شناخت ایسی مستحکم شے نہیں ہے جس میں تبدیلی کا گزر نہ ہوتا ہو، معاشی، سماجی اور سیاسی ہیئتوں کی تبدیلی ہر قسم کی آئیڈیالوجیکل تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ اگر انسانی شعور کو بالائی طبقات اپنے نظریاتی مفادات کے تحت بگاڑنے کی کوشش نہ کریں تو وہ ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ لیتا ہے۔
تبدیلی سے متصادم یا غیرہم آہنگ ہونے کا رجحان اتنا مذاہب کی اپنی سرشت میں پیوست نہیں ہوتا جتنا کہ بالائی طبقات کے مفادات کے تحفظ اور غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی خواہش سے جڑا ہوتا ہے۔مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کی کیفیات انھی ممالک کے سامراجی مفادات کی تشکیل اور ان کو دوام عطا کرنے کے رجحان سے جڑی ہوئی ہیں۔ جتنا کسی خاص کمیونٹی کو ہراساں کیا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، طبقاتی تقسیم کے احساس کو گزند پہنچتی ہے،اور اتنا ہی زیادہ لوگ اپنی اس شناخت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس شناخت کی بنیاد پر انھیں نشانہ بنایا جارہا ہوتا ہے۔
مسلمانوں کو ہراساں کرنا عہد حاضر کے سامراجی نظام کی باطنی ضرورت بن چکا ہے۔ اس طرح اپنے ہی ممالک میں پسے اور استحصال زدہ طبقات پر غلبے اور عالمی سطح پر سامراجی غلبے و اقتدار کو تسلسل اور دوام عطا کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگوں میں حقیقی تقسیم یعنی طبقاتی تقسیم کا خیال بیدار نہ ہوجائے ، یہی خیال انھیں طبقاتی شعور سے ہم آہنگ کرکے باقی ہر طرح کی مصنوعی تقسیم سے نجات دلا سکتا ہے۔
Leave a Reply