سیکس ایجوکیشن یا کاما سترا کی جنسی تعلیم؟
سیکس ایجوکیشن کا نام آتے ہیں بحث چھڑ جاتی ہے۔ اس کی تجویز دینے والوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ اس سے بہت فسق و فجور پھیلے گا۔ کچی پکی یعنی پلے گروپ اور نرسری کے بچوں کو یہ پتہ چل جائے گا کہ جنسی عمل کیسے کیا جاتا ہے۔ گویا سیکس پر قدیم ہندوستانی کتاب کاما سترا ننھے ننھے معصوم بچوں کے نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے جس میں جنسی افعال سرانجام دینے کے نت نئے طریقوں سے ننھے بچوں کو روشناس کرایا جائے گا اور کتاب سے یہ سیکھنے کے فوراً بعد وہ اس پر عمل پیرا ہو جائیں گے۔ واقعی بات تو نہایت معقول ہے۔ بچوں کو سکول میں سیکس کے متعلق کاما سترا جیسی کتاب پڑھانا نہایت بری بات ہے جو پانچ دس بچوں کا ماں باپ بن جانے والے بالغان کی غالب ترین اکثریت بھی نہیں پڑھتی ہے۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ سیکس ایجوکیشن کیا ہے جسے نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے؟ اس کا کیا مقصد ہے؟ کیا یہ یہود و ہنود کی ایک سازش ہے جس کے ذریعے ہماری آئندہ نسلوں کو فسق و فجور میں مبتلا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے؟ کیا اس تعلیم کے ذریعے واقعی زینب جیسے واقعات کا سدباب کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ محض ایک افسانہ ہے؟
ننھے بچوں کو سیکس کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جب سیکس کا علم رکھنے والے بالغ ان کو اپنے جنسی جذبوں کی تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں تو ان بچوں کو علم نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہ الٹا خود شرمندہ ہوتے پھرتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو یہ بات بتانے سے کتراتے ہیں اور ایک مستقل شکار بن جاتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی اس کی وجہ سے شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ ایک نارمل انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔
ننھے بچوں کو سیکس ایجوکیشن کے اسباق میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے جنسی اعضا کو کوئی چھِیڑے تو وہ اس کی شکایت فوراً اپنے والدین یا استانی سے کریں۔ اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ بچوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانے والے ایک دن ایسے ہی اٹھ کر بچے کا ریپ نہیں کر دیتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ ان جذبات کی پرورش کرتے ہیں۔ بیشتر کیسز میں وہ بچوں کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ سے آغاز کرتے ہیں اور اس کا انجام کسی بچے کے ریپ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر ایسے شکاری کی چھیڑ چھاڑ کا شکار ہونے والا پہلا بچہ ہی یہ بتانے کے قابل ہو کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے، تو ایسے کج روی رکھنے والے فرد کو فوراً رپورٹ کیا جا سکتا ہے اور اس سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے افراد کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جسے ”سیکس آفینڈر رجسٹر“ کہا جاتا ہے۔ اس رجسٹر میں جن افراد کا نام آ جائے تو ان افراد کو ایسی جاب نہیں دی جا سکتی ہے جس میں ان کا میل جول بچوں کے ساتھ ہو۔ ان کی نقل و حرکت ٹریک کی جاتی ہے۔ جس علاقے میں وہ جائیں ادھر کے رہائشیوں کو اس شخص کے بارے میں خبردار کیا جا سکتا ہے۔ ان افراد کے نام انٹرنیٹ پر پبلش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی بہت سے اقدامات ہیں جو والدین اور اہل علاقہ کو خبردار کرنے اور بچوں کے تحفظ کے لئے اٹھائے جاتے ہیں۔ یعنی ننھے بچوں کو ابتدائی سیکس ایجوکیشن دینے سے ان کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
بچے جب بلوغت کی حدود کو پہنچنے لگیں تو سیکس ایجوکیشن میں ان کو جسمانی تبدیلیوں کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ بلوغت کے بعد انسانی جسم میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ فطری ہیں، ان پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بلوغت کے بعد جب بچے جنسی طور پر ایکٹو ہونے کے قابل ہو جائیں تو اس لیول پر جا کر ان کو جنسی عمل اور سیف سیکس کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق آکسفورڈ کے سلیبس میں نظام تولید میں جزوی طور پر جنسی عمل اور بچوں کی پیدائش کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
جن افراد کا یہ خیال ہے کہ بچوں کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ”کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی“، یعنی جب شادی ہو گی تو بچے خود بخود سیکھ جائیں گے، وہ زمانے سے بہت پیچھے ہیں اور معصومیت کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ ان کے بچپن میں شہری بچوں میں تو ایسی معصومیت پائی جاتی تھی مگر اس وقت بھی دیہات میں پلنے بڑھنے والے بچے بھی جانوروں میں عمل تولیدگی اور عمل پیدائش کی عینی شہادت رکھتے تھے۔ یعنی ملک کی غالب ترین اکثریت جو دیہات میں رہتی ہے، وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی جنسی عمل سے بری بھلی آگاہی پا لیتی ہے۔
اب شہری بچے بھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے بچے کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے۔ وہ اس پر موجود جنسی مواد سے اپنا علم بڑھانے کا اہل ہے۔ چاہے وہ خود متجسس ہو کر تلاش کرے یا ایسا مواد اشتہار کی شکل میں اسے مل جائے، جلد یا بدیر وہ ان فلموں اور کہانیوں تک پہنچ جائے گا۔ پانچ چھے برس پہلے ایک سرکاری سکول کے استاد ہم سے شکوہ کر رہے تھے کہ ”مار نہیں پیار“ کی پالیسی نے ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں، اب استاد سبق دے رہا ہوتا ہے اور کلاس کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے بچے مل کر اپنے موبائل فونوں پر جنسی فلموں کا مشاہدہ اور تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم ان حقائق سے آنکھیں چرائیں گے یا پھر بچوں کو سرکاری نصابی ماہرین کی نگرانی میں وہ سبق ایک بہتر انداز میں پڑھائیں گے جو وہ ان فلموں اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر مواد کی مدد سے سیکھ رہا ہے۔ اس انفارمیشن ایج میں بچے نے علم تو حاصل کرنا ہی ہے، ہم نے فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اس کی درست اخلاقی راہنمائی کی جائے یا پھر اسے انٹرنیٹ کے حوالے کر دیا جائے جہاں اسے گمراہ ہونے کا ہر طریقہ ملے گا۔ ”کاما سترا“ کے جس علم سے بچے کو محفوظ رکھنے کا دعوی کیا جا رہا ہے وہ اس کے ہاتھ میں موجود موبائل میں پہلے ہی موجود ہے۔
اس سے اگلی سٹیج آتی ہے شادی کی۔ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ آبادی کی شرح میں اضافے کا ہے۔ ہماری حکومت کی آمدنی میں اتنی تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا ہے جتنی تیزی سے آبادی میں ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے ہم نہ صحت کی سہولت فراہم کر پا رہے ہیں، نہ تعلیم کی اور نہ روزگار کی۔ تو پانچ سات بچے پیدا ہونے کے بعد جو تعلیم ہم ”سبز ستارہ“ کے ذریعے دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس سے پہلے ہی سکول اور کالج کے اختتامی برسوں میں دینے میں کیا برائی ہے؟ یا پھر آپ یہ تعلیم ان بالغوں کو تعلیمی اداروں میں دینے کی بجائے ٹی وی اشتہارات کے ذریعے دیں گے جو چھوٹا بڑا ہر فرد دیکھتا ہے؟ سکول کالج سے نکلنے کے بعد لوگوں کو تعلیم بالغاں فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان نو بالغوں کو سیف سیکس کے متعلق بتایا جائے تو شرح آبادی میں اضافے کے علاوہ تیزی سے پھیلتی ہوئی ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسی بیماریوں پر کنٹرول بھی ممکن ہو گا۔
مختصراً یہ کہ سیکس ایجوکیشن کے تین مرحلے اور مقاصد ہیں۔ پہلا ننھے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا اور دست درازی کرنے والوں کو رپورٹ کرنا۔ دوسرا لڑکپن میں بلوغت کی تبدیلیوں سے ان کو روشناس کرانا۔ تیسرا یہ کہ جب وہ بالغ ہو کر جنسی طور پر ایکٹو ہونے کی سٹیج پر پہنچ چکے ہوں تو ان کو سیف سیکس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا۔
فیصلہ آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ زینب جیسے ننھے بچوں کو شکاریوں کے حوالے کریں گے یا ان شکاریوں کو پکڑیں گے، اور بلوغت کی حدود تک پہنچتے بچوں کو تعلیم آپ خود دیں گے یا انٹرنیٹ کو ان کا استاد مقرر کریں گے۔
Leave a Reply