عبدالستار ایدھی
ایدھی نے ایوب خان سے کہا ’’ تم جھوٹے ہو‘‘
ان پر آوازیں کسی جاتیں، انھوں نے کہا،’’بیواؤں کو وظیفے دے کر فقیر مت بناؤ‘‘ ۔ فوٹو : فائل
عبدالستار ایدھی کے دیرینہ رفیق ِ کار انورکاظمی کی ایدھی صاحب کی یادوں پر مشتمل یہ تحریرپاکستان کے سرمایہ افتخار سماجی کارکن کی زندگی کے کئی اہم گوشے سامنے لاتی ہے۔
یہ 1962 کی بات ہے، میری بیٹھک اکثر بمبئی بازار کے بالکل پیچھے اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ ان دوستوں کی نانی میمنوں خاص طور پر بانٹوا کے میمنوں کی پیرنی تھیں۔ ایوب خان کے مارشل لا کی وجہ سے سیاست شجر ممنوعہ تھی، نئی بائی کے نام سے مشہور پیرنی صاحبہ مرحومہ مزدور لیڈر رفعت بابا کی نانی تھیں اور ان کے دو چھوٹے بھائیوں شوکت اور شفیع سے میری زیادہ دوستی تھی۔
میں این ایس ایف (نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن) کا کارکن تھا۔ یونیورسٹی آرڈیننس اور دیگر کالے قوانین کے خلاف طلبا نے جدوجہد شروع کی۔ جب طلبا پر لاٹھی چارج کے باوجود جدوجہد جاری رہی تو 12 سرکردہ طالب علموں کو کراچی بدر کردیا گیا، جس کے بعد ڈی جے سائنس کالج، جو طلبہ تحریک کا مرکز بن گیا تھا، میں طلبہ پر پولیس نے زبردست لاٹھی چارج کیا اور بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ زخمی طلبہ کو سول اسپتال لے جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس لیے ہم انھیں مولانا ستار کے اسپتال لے گئے۔ عبدالستار ایدھی صاحب زخمی طلبہ کو دیکھ کر بہت جذباتی ہوگئے۔ ’’میں اپنی تین ایمبولینسیں لے کر وہاں جاتا ہوں‘‘ ستار صاحب نے غصے سے کہا۔ ’’انھیں شرم نہیںآتی، ہمارے بے گناہ بچوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں۔‘‘
’’وہاں اب کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ ہم نے انھیں بتایا۔
کسی بھی ناانصافی پر ایدھی صاحب ہمیشہ شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی آئیڈیل شخصیتوں میں رسول اﷲ ﷺ کے علاوہ حضرت ابو زر غفاریؓ، لینن، مارکس، ماؤزے تنگ، قائداعظم اور گاندھی جی شامل تھے۔ ترقی پسند سوچ اور ناانصافی سے نفرت ہمارے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنتی گئی۔ اکثر وہ جب رات کے وقت میٹھادر میں اپنی ڈسپنسری میں فارغ بیٹھے ہوتے تو حالات حاضرہ، ویت نام، فلسطینیوں کی جدوجہد اور چین کے انقلاب پر باتیں ہوتیں۔ ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے وہ شدید مخالف تھے۔
کسی بھی ناانصافی پر ایدھی صاحب ہمیشہ شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی آئیڈیل شخصیتوں میں رسول اﷲ ﷺ کے علاوہ حضرت ابو زر غفاریؓ، لینن، مارکس، ماؤزے تنگ، قائداعظم اور گاندھی جی شامل تھے۔ ترقی پسند سوچ اور ناانصافی سے نفرت ہمارے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنتی گئی۔ اکثر وہ جب رات کے وقت میٹھادر میں اپنی ڈسپنسری میں فارغ بیٹھے ہوتے تو حالات حاضرہ، ویت نام، فلسطینیوں کی جدوجہد اور چین کے انقلاب پر باتیں ہوتیں۔ ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے وہ شدید مخالف تھے۔
حالاں کہ وہ اپنے علاقے سے ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت دو بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے بی ڈی ممبر منتخب ہوچکے تھے۔ 1964 کے صدارتی انتخابات میں جب محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کا مقابلہ ہو رہا تھا تو حکومت کی جانب سے نشتر پارک میں کراچی سے منتخب ہونے والے بی ڈی ممبروں کا اجلاس بلایا گیا۔ اس نظام کے تحت بی ڈی ممبروں کو صدر کو منتخب کرنا ہوتا تھا۔
اس اجلاس میں جب ایوب خان کے حاشیہ بردار تقریریں کرچکے تو ایوب خان نے اپنے کارنامے گنوانے شروع کیے، ایدھی صاحب یہ برداشت نہ کرسکے، کھڑے ہوکر کہا،’’جسے تم امن کہہ رہے ہو یہ قبرستان کی خاموشی ہے۔‘‘ انھوں نے ایوب خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’تم جھوٹے ہو۔‘‘ کچھ دیر کے لیے پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔ ایوب خان جیسے آمر کو شاید آج تک اس طرح کی صورت حال سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ کچھ دیر تک اسٹیج پر چہ می گوئیاں ہوتی رہیں، پھر چیف کمشنر کراچی نے ایوب خان کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد ایوب خان نے مسکراتے ہوئے دوبارہ اپنی تقریر شروع کردی۔ بعد میں پتا چلا کہ چیف کمشنر کراچی نے ایوب خان سے کہا تھا کہ یہ مولانا ستار ہے۔ سیاسی آدمی نہیں ہے۔ مشہور سماجی کارکن ہے۔
اس زمانے میں عبدالستار ایدھی اپنے علاقے اور کراچی میں مولانا ستار اور ان کی ڈسپنسری مولانا کا اسپتال کہلاتی تھی۔ اولڈ کراچی کے علاقے میٹھادر کھارادر سمیت کاغذی بازار، صرافہ بازار اور جوڑیا بازار میں تقسیم ہند سے قبل زیادہ تر ہندو رہتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ان علاقوں میں بھارت کے صوبے گجرات سے آنے والے گجراتی اور میمن آباد ہوگئے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں میمن وہ واحد کمیونٹی تھی جو باقاعدہ فلاحی کاموں میں حصہ لیتی تھی۔ میمن برادری کی بنیاد پر جن علاقوں میں کاروبار کرتے وہاں برادری کے نام پر فلاحی تنظیمیں بناکر فلاحی کام انجام دیتے۔
ان کا فلاحی کام زیادہ تر برادری کے لیے ہوتا، جس کی سرپرستی سرمایہ دار کرتے تھے۔ 18 سالہ عبدالستار ایدھی جب ستمبر 1947 میں جونا گڑھ کے علاقے بانٹوا سے کراچی آئے تو اس سے قبل انھیں اپنے آبائی علاقے بانٹوا میں فلاحی کام کرنے کا تجربہ بھی تھا۔ ابتدا میں انھوں نے بانٹوا میمن خدمت کمیٹی میں شمولیت اختیار کی، جس کی باگ ڈور چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں تھی اور اس میں زیادہ تر اراکین کی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو سرمایہ داروں کی چاپلوسی کرتے تھے۔
عبدالستار ایدھی نے بانٹوا میمن خدمت کمیٹی پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے خلاف اور اس کے اغراض و مقاصد پر سخت تنقید کرنی شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا،’’ہمارے فلاحی کام صرف ’’برادری کے لیے نہیں ہونے چاہییں۔ بیواؤں کو وظیفہ دے کر فقیر مت بناؤ، بل کہ ان کی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے مدد کرو۔‘‘ بانٹوا برادری کے بڑے سرمایہ داروں کو نوجوان بے باک عبدالستار ایدھی کی یہ بات پسند نہیں آئی اور انھوں نے انھیں تنظیم سے نکال دیا۔ اس جدوجہد میں عبدالستار ایدھی اکیلے نہیں تھے برادری کے کچھ نوجوان بھی اس تحریک میں ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے میٹھادر میں ایک چھوٹی سی جگہ لے کر 24 گھنٹے کی فری ڈسپنسری شروع کردی۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی پوری زندگی اس فلاحی کام کے لیے وقف کردی اور اپنی آیندہ زندگی اور فلاحی کاموں کے لیے چند راہ نما اصول اختیار کیے جس پر وہ ہمیشہ قائم رہے۔
انھوں نے طے کیا کہ وہ اپنے فلاحی کاموں کے لیے چندہ مانگنے کسی کے پاس نہیں جائیں گے، جسے بھی چندہ دینا ہے وہ ان کے کام کو دیکھ کر چندہ دے سکتا ہے۔ انھوں نے طے کیا کہ وہ سادہ لباس پہنیں گے، وقت کی پابندی کریں گے ہمیشہ سچ بولیں گے، اور اجتماعی خدمات انجام دیں گے۔ جب علاقے کے لوگوں نے ان کو دیکھا اور اچھی طرح پرکھ لیا تو غریبوں نے انھیں چندہ دینا شروع کیا۔ کُل وقتی فلاحی کام کرنے والے عبدالستار ایدھی نے اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے اپنے چند دوستوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی۔ ان کے یہ دوست جو مختلف جگہوں پر کام کرتے تھے، تنگ نظر ہونے کی وجہ سے ان کے ہر کام پر تنقید کرتے، جس سے فلاحی کاموں کو آگے بڑھانے میں دشواریاں پیش آرہی تھیں، جب کہ عبدالستار ایدھی کے وسائل محدود مگر ان کی نظر بہت وسیع تھی اور وہ بہت سارے منصوبوں پر فوری عمل کرنا چاہتے تھے۔
پاکستان نیا ملک تھا۔ خصوصاً سندھ میں جہاں زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہندو تھے، جو ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے، ان میں ڈاکٹر، نرسیں اور مڈوائف شامل تھیں، جس سے صوبے میں صحت کے حوالے سے صورت حال ابتر تھی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے کراچی میں مریضوں اور میتوں کے لیے بس چند ایمبولینسیں تھیں۔ ایمرجینسی یا حادثات کی صورت میں زخمی سڑک پر تڑپتے ہوئے دم توڑ دیتے تھے۔ چناں چہ عبدالستارایدھی نے اپنے فلاحی کاموں کے لیے صحت کے شعبے کا انتخاب کیا۔ بقول ان کے اگر تعلیم نہ ملے تو انسان زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر صحت کا معاملہ ہو تو انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ میٹھادر، کھارادر اور لیاری کے علاقوں میں دور دور تک میٹرنٹی ہومز نہیں تھے۔
چند پرائیویٹ میٹرنٹی ہومز تھے بھی تو اتنے منہگے تھے کہ ان کی خدمات حاصل کرنا غریبوں کے بس میں نہ تھا۔ جب ایدھی کے پاس کچھ رقم جمع ہوگئی تو انھوں نے ڈسپنسری کے اوپر والی جگہ خرید کر سب سے پہلے ایک فری میٹرنٹی ہوم قائم کیا اور کچھ عرصے بعد ہی نرسنگ ٹریننگ سینٹر بھی قائم کردیا، جہاں تھوڑی بہت پڑھی لکھی لڑکیوں کو چھے مہینے کی نرسنگ ٹریننگ کے ساتھ وظیفہ بھی دیا جانے لگا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اپنے فلاحی کاموں کو انجام دینے میں مدد کے لیے انھوں نے ایک کمیٹی بنائی تھی، جس میں زیادہ تر برسرروزگار لوگ تھے۔ شام کو جب وہ فارغ ہوکر آتے تو کام کے بجائے تنقید میں لگ جاتے۔
ان کا مقصد محض کاموں میں روڑے اٹکانا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے ’’مدینہ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ اور ’’بانٹوا میمن والنٹیئر‘‘ کور کو ختم کرکے عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن کو رجسٹر کروا کر اس کے زیرسایہ کام انجام دینا شروع کیا۔ اب ان کے فلاحی کاموں کو آگے بڑھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ میں عبدالستار ایدھی کو 1962 سے جانتا تھا۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا الزام ہو جو ان پر نہیں لگایا گیا،’’آپ کو پتا ہے۔ یہ چندہ کہاں جاتا ہے؟ یہ مولانا ستار سارے پیسے کھا جاتا ہے، نرسنگ ٹریننگ سینٹر تو بہانہ ہے یہ عیاشی کا اڈا ہے۔‘‘
الزام لگانے والوں کا تعلق ان کی برادری بانٹوا میمن سے یا ایک مذہبی سیاسی جماعت سے تھا۔ کبھی وہ ہمارے ساتھ کہیں جا رہے ہوتے تو وہ ان پر آوازیں کستے۔ ہمارا جوان خون کھولنے لگتا کہ انھیں سخت جواب دیا جائے تو ایدھی صاحب ہمیں روکتے کہ انھیں بھونکنے دو جواب دے کر اپنا وقت ضائع مت کرو، تمہیں الجھانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ایک دل چسپ مثال بھی دیتے کہ دیہات میں جب فقیر بھیک مانگنے نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ایک ڈنڈا ہوتا ہے، کیوںکہ انھیں معلوم ہے کتے ان کے ازلی دشمن ہیں۔ کتے بھونکتے رہتے ہیں اور وہ اپنے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی کتا زیادہ قریب آجاتا ہے تو لکڑی کا ہلکا اشارہ کردیتے ہیں، جس سے کتا ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔
ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کے کسی پہلو کو مخفی نہیں رکھا۔ انھوں نے شادی کے لیے 4 لڑکیوں کو پروپوز کیا، جنھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ جب بلقیس ایدھی ان سے شادی کرنے پر تیار ہوگئیں تو ایدھی نرسنگ سیکشن میں کام کرنے والی لڑکیوں نے انھیں ڈرایا،’’تو کس سے شادی کر رہی ہے۔ یہ تو تجھے بند کرکے رکھے گا، یہ داڑھی والا ہے، ساری زندگی آنسو بہائے گی۔‘‘
لیکن اس کے برعکس ایدھی صاحب سے شادی کے بعد وہ ان کی شریک کار بنیں اور ایدھی کے فلاحی کاموں میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ خود ایدھی صاحب کہتے تھے،’’حساب کا ایک سادہ فارمولا ہے، ایک اور ایک دو ہوتے ہیں، لیکن بلقیس سے شادی کے بعد ہم ایک اور ایک گیارہ ہوگئے۔‘‘ ایدھی صاحب کا غصہ بہت خراب تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے اور بلقیس ایدھی کے مطابق،’’سب کے سامنے میرے پر گرم ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر کسی کام میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو ان کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا، لیکن یہ غصہ وقتی ہوتا۔
بہت پرانی بات ہے، جب بوری بازار میں بم کا دھماکا ہوا تو پہلا مرحلہ زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کا تھا۔ جب ایک ایمبولینس میں زخمیوں کو لٹایا گیا تو پتا چلا کہ اس کا ڈرائیور زخمیوں کو چھوڑ کر اذان ہوتے ہی نماز پڑھنے چلا گیا ہے۔
یہ دیکھ کر ایدھی صاحب کا غصہ آسمان پر پہنچ گیا۔ اس کے آتے ہی چابی لے کر فوراً بھگا دیا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہیں پٹائی بھی کردیتے،’’یہ مسلمان تو مسلمان انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ کیا یہی ایک سچا مسلمان ہے، میں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں۔‘‘ میں نے ایدھی صاحب کو پہلی مرتبہ اتنے غصے میں دیکھا۔ یہ واقعہ کئی دنوں تک ان کے اعصاب پر سوار رہا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے فلاحی کاموں کا دارومدار صرف پاکستانی عوام، خواہ وہ پاکستان میں رہتے ہوں یا پاکستان سے باہر، سے ملنے والے عطیات پر ہے۔ ایدھی صاحب کو حکومت پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے اداروں، جن میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو ایس ایڈ، راک فیلر فاؤنڈیشن کی طرف سے اربوں روپے بہ طور امداد دینے کی پیشکش کی گئی، جسے انھوں نے شکریے کے ساتھ یہ کہہ کر مسترد کردیا،’’میرا کام پاکستانی عوام میں شعور پیدا کرنا ہے۔ میں ان کا یہ جذبہ ختم کرنا نہیں چاہتا۔ اگر مجھے رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو میں کسی بھی شہر کی سڑک پر بیٹھ کر عوام سے بھیک مانگتا ہوں، جس سے مجھے لاکھوں روپے مل جاتے ہیں، کیوںکہ عوام مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میں ان پر اعتماد کرتا ہوں۔‘‘
لوگ اکثر عبدالستار ایدھی صاحب کی کام یابی کے بارے میں سوال کرتے ہیں، میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے، سادگی، سچائی، محنت، وقت کی پابندی، مسلسل جدوجہد، Determination یہی ان کی کام یابی کا راز ہے۔
انہیں اپنی تعریف پسند نہیں تھی
عبدالستار ایدھی آخر دم تک پاکستان میں ہر فرد کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں رہے، وہ ملک میں ہر 500 کلو میٹر کے فاصلے پر اسپتال تعمیر کرانا چاہتے تھے۔ انہیں احتراماً مولانا کا لقب دیا گیا، لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے بعد وہ خود کو ڈاکٹر کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہیں یہ بات بھی سخت ناپسند تھی کہ لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کریں۔ عبدالستار ایدھی حکومت یا مذہبی جماعتوں سے امداد نہیں لیتے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ان کی امداد کسی نہ کسی مفاد سے مشروط ہوتی ہے۔
عبدالستار ایدھی آخر دم تک پاکستان میں ہر فرد کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں رہے، وہ ملک میں ہر 500 کلو میٹر کے فاصلے پر اسپتال تعمیر کرانا چاہتے تھے۔ انہیں احتراماً مولانا کا لقب دیا گیا، لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے بعد وہ خود کو ڈاکٹر کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہیں یہ بات بھی سخت ناپسند تھی کہ لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کریں۔ عبدالستار ایدھی حکومت یا مذہبی جماعتوں سے امداد نہیں لیتے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ان کی امداد کسی نہ کسی مفاد سے مشروط ہوتی ہے۔
انہوں نے شہرت اور عزت کے باوجود اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، ان کے زیرملکیت جوڑوں کی تعداد دو تین سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ اپنے زیراستعمال رہنے والا جوتوں کا جوڑا انہوں نے تقریباً بیس برس قبل خریدا تھا۔ عبدالستار ایدھی کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ عاجزی اور انکساری کی ایک روشن مثال تھے، چند سال قبل جب افغانستان میں ایدھی مرکز کا افتتاح کیا گیا تو وہاں کے عملے نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ اس حرکت پر ایدھی بہت خفا ہوئے کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ کرسیوں کی خریداری پر خرچ کی گئی رقم سے کسی ضرورت مند کی مدد کی جاسکتی تھی۔۔‘‘
Leave a Reply