غوریوں کے حملے قسط # 2
ندوستان میں اسلا می حکومت قائم کرنے کے نام پر تیسری بڑی یلغار 12ویں صدی کے آواخر میں غوریوں نے کی
اور 1206ء میں حکمران ہوئے۔ فارسی تاریخ دان حسن نظامی اپنی کتاب ’’ تاج المسیر‘‘ میں لکھتا ہے کہ محمد غوری نے اجمیر کو فتح کرنے کے بعد وہاں سے ایک لاکھ ہندوؤں کو جہنم واصل کیا اور بے شمار دولت، سونا، ہیرے اور جواہرات ، لوٹی ۔ سلطان غوری نے جب دہلی کی طرف رخ کیاتو اپنے راستے میں آنے والوں کو خون میں نہاتا چلا گیا ۔۸۔ سنہ 1193ء میں محمد غوری کے جرنیل قطب الدین ایبک نے علی گڑھ میں سینکڑوں ہندؤں کو جہنم واصل کیا۔ ان کی لاشوں کے تین بڑے مینار بنائے گئے اور ان کے مردہ جسم جانوروں کی خوراک بنے۔یہاں سے بتوں کا مکمل صفایا کیا گیا اور کفر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔۹۔ نظامی لکھتا ہے کہ ’’ قطب الدین ایبک نے بنارس کی طرف چڑھائی کی جو کہ ہندوستان کا مرکز تھا ۔ یہاں اس نے تقریباً ایک ہزار مندروں کو ڈھا کر مساجد تعمیر کیں۔ اسلامی شرعیت نافذ کی اور اسلامی حکومت کا آغاز ہوا ۔ جنوری 1197ء کو قطب الدین نے ایبک نہاروالہ کی طرف بڑھا جو کہ گجرات کا صدر مقام تھا یہاں 50 ہزار کافروں کو جہنم واصل کیا اور لاشوں کے ڈھیر لگائے کہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں کوئی تمیز نہ رہی۔ 20ہزار افراد کو غلام بنا لیا گیا اور ان کے جانور قبضے میں کر لیے گئے۔حسن نظامی قطب الدین ایبک کی شاندار فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے 1202ء میں کالنجر کی فتح کو شاندار قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ مندروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا گیا جہاں سے پانچ وقت اذان بلند ہونے لگی اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ پچاس ہزار ، مرد خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا ۔۱۱۔ غوریوں کے حملے کے متعلق نہرو لکھتا ہے کہ ’’یہ مسلمان نہایت ظالم اور وحشی تھے ۔ ان مسلمان حکمرانوں کے حملوں کی وجہ سے لوگوں کی بڑی آبادی جنوب کی طرف نکل گئی۔۔۔تو ہنرمندوں اور کاریگروں کی ایک بڑی تعداد بھی جنوبی ہندوستان چلی گئی۔ مسلمان حملہ آوروں کی طر ف سے امن پسند ہندؤوں کا قتل عام ، انہیں غلام بنانا، زبردستی مسلمان کرنا، مندروں کو ڈھانا اور ان کی جگہ مساجد بنانا اور مندروں سے دولت لوٹنا کوئی انفرادی واقعات نہیں ہیں بلکہ ہندوستان میں تمام مسلمان حکمرانوں کا طرز عمل ایک جیسا ہی تھا۔۱۲۔ سلطان علاؤالدین خلجی (1296-1316) اور محمد شاہ تغلق (1325-1351) نے اپنے ادوار میں ہندوؤں کو مارا اور ان کی دولت لوٹی۔سلطان فیروز شاہ تغلق (1351-88)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مہربان اور رحم د ل حکمران تھا۔ جنگ کے دوران وہ اتنی احتیاط کرتا تھا کہ کسی مسلمان یا مخالف کو ناحق قتل نہ کرے۔شیراج عفیف کے مطابق اس رحم دل بادشاہ نے جب بنگال فتح کیا تو قتل ہونے والے بنگالیوں کے سر گنے گئے تو ان کی تعداد 180,000 کے قریب تھی ۔۱۲۔ فیروز شاہ سے پہلے جو مسلمان حکمران تھے وہ برہمنوں سے جزیہ وصول نہیں کرتے تھے۔ سلطان فیروز تغلق اتنا مذہبی تھا کہ اس نے کہا کہ پہلے بادشاہوں نے برہمنوں سے جزیہ نہ لے کر شرعی غلطی کی ہے۔ برہمن ہی تو بت پرستی اور شرک کے پیروکار ہیں ۔وہ بت پرستی کے سخت خلاف تھا اس لیے کئی مندر ڈھا دیئے ۔ اس کے جاسوس پوری سلطنت میں گھوم پھر کر اس بات کا کھوج لگاتے کہاں بت پرستی ہو رہی ہے۔ اس نے مندروں کو ڈھانے اور ان کے مجاوروں کو قتل کرنے کے متعلق تاریخ فیروز شاہی میں کئی واقعات لکھے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ ہندو اپنے مندروں میں بت نصب کرتے جو کہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہذا انھیں توڑدینا چاہیے ۔ حکم الٰہی ہے کہ میں یہ تمام بت توڑ دوں اور ان کے رکھوالوں کو قتل کر دوں اور نرم ترین حکم یہ ہے کہ میں انہیں اس برائی پر اس وقت تک تنبیہ کرتا رہوں جب تک کہ وہ باز نہ آجائیں۔۱۳۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ اسے اطلاع ملی کہ ہندوؤں نے کوہانہ میں ایک مندر تعمیر کیا ہے جہاں وہ اکٹھے ہو کر اپنی عبادت کرتے ہیں۔ میں نے حکم جاری کیا کہ انھوں نے اسلامی حکومت کی حکم عدولی کی ہے اور ان کی مکاری کی سزا یہی ہے کہ انھیں مندر کے گیٹ باہر سر عام قتل کر دیا جائے۔ میں نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ کافروں کی تمام کتابیں ان کے بت اور ان کی عبادت کی اشیا کو سر عام جلا یا جائے۔ تمام غیر مسلموں کو تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسی حرکت کوئی نہ کرے اور غیر مسلموں (ذمی) کو اسلامی ملک میں ایسی مکار حرکتوں سے باز رہنا چاہیے۔ عبدالقادر بدایونی لکھتا ہے کہ وسطی انڈیا کے علاقے گلبرکہ اور بدر کے باہمانی سلطان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر سال ایک لاکھ ہندو( مرد، عورتیں اور بچے) قتل کرتے تھے ۔۱۴۔تاریخ فرشتہ کے مطابق دکن کے باہمانی سلطان ہر مسلمان کے بدلے ایک لاکھ ہندؤں کو قتل کرنے کا اعلان کرتے تھے۔جب ہندو راجا دیورایا دوم نے دو مسلمان سپاہیوں کو جنگ میں پکڑا تو سلطان علاؤ الدین احمد شاہ باہمانی دوم (1436-58)نے کہا کہ اگرراجہ دیو رایا نے ان سپاہیوں کو قتل کیا تو وہ اس کے بدلے ایک لاکھ ہندؤوں کو قتل کر دے گا ۔ دیورایا اتنا خوفزدہ ہوا کہ اس نے فوری طور پر دونوں سپاہیوں کو رہا کر دیا اور سلطان کی شان میں تعریفی کلمات ادا کیے۔۱۵ امیر تیمور اپنی یاداشتوں ( ملفوظات تیموری) میں لکھتا ہے کہ اس نے ہندوستان پر حملہ کرکے اپنا اسلامی فرض پورا کیا تاکہ وہ کافروں کے خلاف لڑتا ہوا غازی یا شہید کا رتبہ پا سکے۔ وہ لکھتا ہے کہ دسمبر 1398 کو دہلی پر حملہ کرنے کے موقع پر ایک لاکھ کافروں کو جہنم واصل کیا۔۱۶۔
Leave a Reply