Back to Posts
Back to Posts
29Sep
قرامطی (مذہباً اسماعیلی شیعہ)کو باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔ حلب و مصر میں انہیں اسماعیلی کہتے تھے، قم، کاشان اور طبرستان میں سبعی، بغداد و ما وراء النہر اور غزنی میں قرمطی کہا جاتا تھا، کوفہ میں مبارکی مشہور تھے، بصرہ میں روندی و برقعی کہلائے، رے میں خلقی اور باطنی، گرگان میں محمّرہ، شام میں مبیضہ، مغرب میں سعیدی، لحساء و بحرین میں جنابی، اصفہان میں باطنی۔ یہ خود اپنے آپ کو تعلیمی کہتے تھے[حوالہ درکار]۔
قرامطہ جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد قرمطی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرمط لقب ہے حمدان بن اشعث کا جس نے اس فرقے کی بنیاد ڈالی۔ قرامط کے معنی عربی میں نزدیک نزدیک قدم ڈال کر چلنا۔ یہ شخص چوں کہ پستہ قد تھا اور پاس پاس پاؤں رکھ کر چلتا تھا اس لیے وہ قرمط کہلانے لگا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرمط کی اصل کرمتیہ ہے جو نبطی زبان کا ایک لفظ ہے۔ جس کے معنی سرخ آنکھوں والے آدمی کے ہیں۔ چوں کہ حمدان بن اشعث کی آنکھیں بہت سرخ تھیں۔ اس لیے عرب اس کو قرمط کہنے لگے۔
بعض مورخوں کا خیال ہے کہ قرامطہ سے اسماعیلی نکلے۔ لیکن اسماعیلیوں کا کہنا ہے اسماعیلیوں کی کئی شاخیں ہوئیں، جن میں اہم شاخ قرامطہ ہے۔ کیوں کہ اسماعیلی فرقہ کی ابتدا اسماعیل بن جعفر صادق کی وفات کے بعد ہوئی۔ جس کی تاریخ 133 ہجری ہے اور قرامطہ احمد بن عبد اللہ بن محمد بن اسماعیل متوفی 242 ہجری کے بیٹے حسین کے عہد میں اسماعیلیوں سے علاحدہ ہوئے۔ یہ دونوں فرقے عقائد کے لحاظ سے دونوں متفق ہیں اور ان دونوں فرقوں میں صرف صدارت کا فرق ہے۔ لیکن قرامطہ دولت فاطمیہ کے آغاز سے پچاس سال پہلے سیاسی میدان میں اترے، اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرامطہ سے اسماعیلی نکلے۔
قرمطہ کا بانی حمدان بن اشعث پندرہ سال تک احمد بن عبد اللہ ( مستور ) کی طرف سے کوفہ کے علاقے میں دعوت کرتا تھا اور کوفہ اور سلمیہ میں برابر مراسلت جاری رہی۔ 242 ہجری میں احمد نے وفات پائی۔ اس کے جانشین حسین نے حمدان کو ایک خط لکھا، جس کا مضمون حمدان کی روایت کے مطابق پہلے خطوں سے مختلف تھا۔ اس لیے اس نے اپنے مدد گار داعی عبد ان کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے سلمیہ روانہ کیا۔ عبد ان جب سلمیہ پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ احمد کا نتقال ہوچکا ہے اور اس کا بیٹیا حسین جانشین ہوا ہے۔ عبد ان نے حسین سے پوچھا کہ وہ حجت اور امام کون ہے جس کی طرف دعوت کی جا رہی ہے۔ حسین نے اس سے الٹا سوال کیا۔ تم بتاؤ وہ امام کون ہے۔ عبد ان نے کہا، وہ امام محمد بن اسماعیل بن جعفر صاحب الزمان ہے۔ حسین نے کہا کوئی امام سوائے میرے باپ کے نہیں ہے اور میں اس کا قائم مقام ہوں۔ یہ سن کر عبد ان حمدان ( قرمط ) کے پاس آیا اور اسے سلیمہ کے واقعے سے مطلع کیا۔ حمدان نے اپنے تمام مدگاروں کو جمع کرکے ان کو سلمیہ کی دعوت سے علاحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔ ان مدد گاروں نے اپنی اپنی جگہوں پر تو اس کے حکم کی تعمیل کی، لیکن دوسرے مقامات پر کچھ نہیں کرسکے۔ کیوں کہ دعوت کوفہ کے تمام علاقوں میں پھیل چکی تھی۔
سلمیہ کے سلسلے کو قطع کر کے حمدان نے 268 ہجری میں اپنی ایک الگ دعوت جاری کی۔ اب گو دعوت قرامطہ کا آغاز ہوا۔ کوفہ کے نبطی اور عرب قبیلے کثرت سے اس دعوت میں داخل ہونے لگے۔ حمدان نے اپنی مدد کے لیے کئی مدد گار داعیوں کو تیار کیا۔ ہر داعی اور اس کا مدد گار اپنے فریضے کے موافق اپنے مقام کا دورہ کرکے دعوت کی نگرانی کرتے۔ آہستہ آہستہ حمدان کی قوت بڑھی اور اسے مال جمع کرنے کی حرص پیدا ہوئی۔ مختلف قسموں کے محاصل تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد مریدوں پر لگائے گئے اور ان کے نام فطرہ، ہجرہ، بلغہ، خمس اور الفہ رکھے گئے۔ ہر ایک کی سند قران کریم سے نکالی گئی۔ الفہ کی شرح کے مطابق تمام مریدوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا مال منقولہ اور غیر منقولہ سب داعی کے خزانے میں جمع کرادیں۔ کسی کے قبضے میں کوئی مال نہیں رہے۔ تاکہ مالی حیثیت سے ایک دوسرے کو کوئی فوقیت نہیں رہے۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق داعی کے خزانے سے رقم دی جائے گی۔ سب ایک سی زندگی بسر کریں گے اور عیش سے بچیں گے۔ اس طرز عمل کے لیے بھی قران کریم سے سند نکالی گئی اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہا ان کو اپنا مال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ روئے زمین کے مالک ہونے والے ہیں۔ یہ زمانہ ان کے امتحان و آزمائش کا ہے تاکہ ان کے خلوص و ایمان داری کا اندازہ ہو سکے۔ انہیں صرف س بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ہتھیار خرید کر گھر میں رکھ سکیں۔ گاؤں والوں کی کمائی جمع کرنے کے لیے ایک معتبر داعی مقرر کیا گیا۔ اس رقم سے جو بھوکا ہو اسے کھانا کھلائے، جو ننگا ہو اسے کپڑے پہنائے اور جو اپاہج ہو اس کی مدد کرے، غرض کہ اس خوبی سے اس طریقہ پر عمل کیا گیا کہ کوئی فقیر یا محتاج نہ رہا۔ سب باشندے اپنے فرائض نہایت مستعدی سے ادا کرنے لگے۔ یہاں تک غریب عورتیں اپنے تکلوں کی کمائی ہنسی خوشی دعوت کے خزانے میں جمع کراتیں اور کم سن بچے پرندوں کی حفاظت کی اجرت خوشی خوشی اس میں داخل کرتے تھے۔
جب حمدان نے دیکھا کہ اس کے پیرو ہر بات میں اس اطاعت کرنے کے لیے بخوشی تیار ہیں تو اس نے اپنے مریدوں کو بتدریح فرقہ ثنویہ کی تعلیم دینی شروع کی۔ جس سے ان کا زہد و تقویٰ جس کی انہیں پہلے تعلیم دی گئی تھی بالکل جاتا رہا اور وہ فسق و فجور میں پڑ گئے۔ انہیں سمجھایا گیا کہ ایک خاص حد کو پہنچنے کے بعد شریعت کی ظاہری اعمال معطل ہوجاتے ہیں۔ اب نماز اور روزے وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ امام حق یعنی محمد اسماعیل بن جعفر صادق کی معرفت کافی ہے۔ یہی مہدی ہیں جو آخری زمانے میں ظاہر ہوں گے اور اپنا حق لیں گے۔ داعی جو بیعت لیتا انہی کے لیے جمع کیا جا رہا ہے۔ وہ زندہ ہیں کبھی نہیں مرتے، وہی مقصود حقیقی ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو خلعت ہلاک ہوجاتی اور ہدایت معدوم ہوجاتی۔ ایسے امام کی معرفت حاصل ہونے کے بعد پھر کسی گناہ سے بچنے اور کسی عذاب سے ڈرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
ایسی تعلیم کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے۔ قرامطہ کی اخلاقی حالت بگڑی اور ایسی بگڑی کہ وہ ہر قسم کی بدکاری میں مبتلا ہو گئے۔ یہ بھی ان سے کہا گیا کہ تمہارے مخالفین کا خون تمہارے لیے حلال ہے۔ جو لوگ تمہاری مخالفت نہ کریں لیکن تمہارے مذہب میں داخل نہ ہونا چاہیں ان سے بھی جزیہ وصول کیا جائے۔ ہتھیار وصول کرنے کی ہدایت تو انہیں پہلے دی جاچکی تھی۔ انہوں نے ایسی خون ریزی شروع کی کہ ہمسائے چیخ اٹھے۔ اتنی قوت انہیں حاصل ہو گئی کہ 279 ہجری میں انہوں میں قریہ مہا باد میں ایک دارلہجرت بنایا اور اسے مظبوط فصیل سے محفوظ کرکے اس کے گرد خندق کھودی۔ اب والیان ریاست بھی ان سے گھبرانے لگے۔ یہاں سے ان کا سیاسی دور شروع ہوا۔
اس حیرت انگیز ترقی کا اہم سبب خلافت عباسیہ کی کمزوری تھی۔ سرحدوں کا انتظام اچھا نہیں تھا اور ملک میں بے امنی پھیلی ہوئی تھی۔ بصرہ میں جو بدوی عرب سپاہ کی حیثیت سے آکر بس گئے تھے۔ انہوں نے لوٹ مار کی۔ اصلی نبطی کسان ان مظالم سے تنگ آکر باغی ہو گئے۔ بعض ایسے عرب قبیلے بھی ان کے ساتھ مل گئے جنہیں عباسیوں سے شکایتیں تھی۔ ایسے تاریک ماحول میں قرامطہ نے اپنی تبلیغ شروع کی اور اپنی ان تھک کوششوں سے عراق اور بحرین کے باشندے قرامطہ کے ساتھ ہو گئے۔ کیوں کہ انہیں امید دلائی کہ مہدی کے ظاہر ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ وہ انہیں موجودہ مصیبتوں سے نجات دلائیں گے۔ مہدی کے ظہور کی خبروں کو ایسے پر آشوب زمانے میں شائع ہونے کا اچھا موقع ملا۔ مہدی کا انتظار قرامطہ کی سیاسی ترقی کے اسباب میں دوسرا اہم سبب شمار کیا جاتا ہے۔
حمدان کی دعوت کا اعلان کوفہ میں تو ہو گیا لیکن دوسرے شہروں میں اس کی اطلاع پہنچ نہیں سکی۔ وہاں کے داعی یہ سمجھتے رہے کہ ان کا تعلق سلمیہ سے جاری ہے۔ ان میں سے ایک داعی طالقان کی طرف چلاگیا تھا۔ اس داعی نے جب دیکھا کہ کوفہ کے قرامطہ نے خط کتابت بند کردی ہے۔ تو وہ طالقان سے روانہ ہوا اور قرامطہ کو تلاش کرتا ہوا عبد ان کے پاس پہنچ کر اس کے سکوت پر عتاب کرنے لگا۔ عبد ان نے کہا چوں کہ سلمیہ کے ائمہ نے امام محمد بن اسماعیل کی دعوت کرنا چھوڑ دی ہے اس لیے اس نے ان سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ اس کے بعد یہ داعی ذکرویہ بن مہرویہ سے ملا اور اسے پھر دعوت کا سلسلہ شروع کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے کہا عبد ان کی زندگی میں یہ ناممکن ہے۔ پھر اس نے تجویز پیش کی کہ عبد ان اگر کسی طرح قتل کر دیا جائے تو پھر دعوت شروع کی جاسکتی ہے۔ اس رائے سے بعض دوسرے داعیوں نے بھی اتفاق کیا اور عبد ان کو 286 ہجری میں قتل کر ڈالا۔ یہ دیکھ کر عبد ان کے طرف سے مقرر داعی اور ان کے پیروکار ذکرویہ کے مقابلے میں تیار ہو گئے۔ یہاں سے قرامطہ میں تفرقہ پڑھ گیا اور وہ دو جماعتوں میں بٹ گئے، عبد ان کی جماعت چوں کہ زبردست تھی اس لیے ذکرویہ ایک کنویں میں چھپ گیا۔
دو سال تک ذکرویہ اور اس کے طرف دار روپوش رہے۔ عباسی خلیفہ معتضد نے ان کا زور ٹورنے کے لیے لشکر بھیجا اور کئی لڑائیاں ہوئیں جن میں قرمطہ کثرت سے مارے گئے۔ اس لیے عبد ان کی جماعت کمزور ہو گئی اور اس کے افراد ذکرویہ کو بھول گئے۔ لیکن ذکرویہ نے خفیہ طور پر اپنا کام جاری رکھا اور رفتہ رفتہ اپنی قوت بڑھالی۔ اب ذکرویہ نے ان شہروں کی طرف توجہ کی جو کوفہ کے قریب تھے۔ ان شہروں کے باشندوں کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کی۔ مگر اس کوشش میں وہ ناکام رہا۔ اس لیے اس نے289 ہجری میں اپنے تین بیٹوں یحییٰ، حسین اور علی کو بلاد شام کی طرف بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ بنو کلب میں جاکر کام کریں اور یہ دعویٰ کریں کہ وہ اسماعیل بن صادق کی نسل سے ہیں۔ یحییٰ کو اپنی اس تبلیغ میں بڑی کامیابی ہوئی اور بہت سے شامی اس کے پیرو بن گئے۔ وہ ’ شیخ ‘ کے نام سے مشہور ہو گیا اور یہ دعویٰ کرنے لگا کہ وہ خود محمد بن عبد اللہ بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق ہے۔ اس طرح قرامطہ نے بلاد شام پر اپنا سکہ جما لیا۔ عباسی خلیفہ معتضد کے غلام ’ شبل ‘ رفاصہ کی جانب سے ان پر حملہ کر دیا۔ شبل مارا گیا۔ قرامطہ نے رفاصہ کی جامع مسجد جلادی اور لوٹ مار شروع کردی۔ اس کے بعد احمد بن محمد طائی نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے رئیس ابو الفورس کو گرفتار کرکے معتضد کے پاس بغداد بھیج دیا۔ معتضد نے اسے بڑے عذاب سے قتل کیا۔
290 ہجری میں قرامطہ نے دمشق پر چڑھائی کی۔ جہاں احمد بن طولون کا غلام ’ طبغج ‘ والی تھا۔ اس نے مصری فوج کی مدد سے قرامطہ سے متعدد لڑائیاں لڑیں۔ آخری لڑائی میں یحییٰ اور اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے۔ ان میں سے جو بچ نکلے انہوں نے یحییٰ کے بھائی حسین جس نے اپنا نام احمد رکھ لیا تھا اپنا سردار بنالیا۔ اس کے منہ پر ایک دھبہ تھا، اس لیے یہ صاحب الشامہ کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ اس نے لوگوں کو باور کروایا کہ یہ دھبہ اسے خدا کی طرف سے شناخت کے طور پر دیا گیا اور وہ خود مہدی امیر المومنین ہے۔ اس سے اس کا چچا زاد بھائی عیسیٰ بن مہدی آیا۔ جس نے اپنا نام عبد اللہ بن احمد بن محمد بن اسماعیل رکھ لیا اور مدثر کا لقب اختیار کیا اور دعویٰ کیا کہ کلام اللہ میں جس مدثر کا ذکر ہے اس سے مراد میری ذات ہے۔ اکثر بدوی اس کے ساتھ ہو گئے ان کی مدد سے اس نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ اہل دمشق نے اسے کچھ مال دے کر صلح کرلی۔ پھر وہ حمص، حماۃ، معرۃ النعمان اور بعلبک کی طرح روانہ ہوا۔ جہاں اس کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ ان مقامات کی تسخیر کے بعد اس نے سلیمہ کا رخ کیا اور یہاں رہنے والے بہت سے بنو ہاشم کو تلوار کے گھاٹ اتارا۔
شام کے شہروں میں قرامطہ نے ایسے ہولناک فتنے اور فسادات برپاکئے کہ عباسی خلیفہ مکتفی نے اپنے سالار محمد بن سلیمان کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اور خود بھی رقہ تک اس کے ساتھ گیا۔ اس دفعہ قرامطہ کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صاحب الشامہ احمد ( حسین ) اور اسے کئی ساتھی گرفتار کرلیے گئے اور انہیں اذیتوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔ غرض ذکرویہ کے تینوں بیٹے مارے گئے۔
اس واقعہ کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ قرامطہ نے پھر اپنے حملوں کا سلسلہ پہلے سے زیادہ زور سے شروع کر دیا۔
جب ذکرویہ نے دیکھ کہ اس کے مرید شام میں پسپا ہو گئے اور اس کے تینوں بیٹے بھی لڑائی میں مارے گئے تو وہ عراق میں اپنے پوشیدہ ٹھکانے جہاں وہ بیس سال تک چھپا ہوا تھا نکلا اور دعویٰ کیا کہ اسے الہام ہوا ہے کہ اس کے تنیوں بیٹے لڑائی میں مارے گئے اور اب صاحب الزماں کے ظہور کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ اس کے عراقی داعی اس سے آملے اور اسے کندھوں پر بلند کرکے اس کا جلوس نکالا اور کہنے لگے یہ امام الزماں کا نائب ہے۔ ہزاروں قرامطہ اس کے ساتھ ہو گئے۔ ان کے مقابلے میں مکتفی نے پھر لشکر بھیجا، مگر اس دفعہ اس کے لشکر کو شکست ہو گئی۔ قرامطہ بڑھتے بڑھتے کوفہ، بصرہ اور بغداد تک پہنچ گئے اور لوٹ مار شروع کردی۔ راستے میں مکہ معظمہ سے آنے والے حاجیوں کے تین قافلوں پر زبردست حملے کیے۔ ان حملوں میں تقریباً بیس ہزار افراد قتل ہوئے اور کئی لاکھ دینار قرامطہ کے ہاتھ لگے۔ بغداد میں کوئی گھر ایسا نہیں رہا جو مصیبت کدہ نہ ہو اور جہاں سے آہ و زاری کے نالے بلند نہ ہوئے ہوں۔
حاجیوں کی اس تباہی کی افسوس ناک خبر جب بغداد پہنچی تو خلیفہ مکتفی نے تیسری دفعہ اپنے سالار وصاف کی ماتحتی میں ایک بڑا لشکر روانہ کیا۔ ذکرویہ نے اس کا مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور زخمی ہوکر گرفتار ہوا۔ وصاف نے اسے بغداد بھیج دیا، مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے ہی میں مرگیا۔ عوام کی تشفی کے لیے بغداد میں اس کی لاش کو سولی دی گئی۔ ذکرویہ کے مرتے ہی عراق میں قرامطہ کا زور ٹوٹ گیا۔ جو قرامطہ اس معرکہ میں بچ گئے وہ شام کی طرف بھاگ گئے۔ جہاں شام کے حاکم حسین بن حمدان نے ان پسپا کرنے کی کوشش کی۔
عراق اور شام ہی تک قرامطہ کی شورشیں محدود نہیں رہیں۔ ان سے زیادہ خوفناک شورشیں بحرین میں ہوئیں، 281 ہجری میں قرامطہ کا ایک داعی یحییٰ بن مہدی موضع قطیف ( بحرین ) پہنچا اور یہ دعویٰ کرنے لگا کہ وہ مہدی کا رسول ہے اور اب مہدی کے ظہور کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ دیہات کے باشندے اس کے زیر اثر آ گئے۔ بہت دنوں تک قیس کے قبیلوں میں رہے کر اپنے مریدوں سے مختلف طریقوں سے مال سمیٹتا رہا۔ اس کے چلے جانے کے بعد اس کا ایرانی قائم مقام حسن بن بہرام نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور بنو قصار کے خاندان میں جو پہلے ہی اسماعیلی دعوت قبول کرچکے تھے شادی کرلی۔ عبد ان یا حمدان سے اس نے مذہبی تعلیم پائی۔ چونکہ قریہ جنابہ کا رہنے والا تھا اس لیے یہ ابو سعید جنابی مشہور ہو گیا۔ اب اس نے 286 ہجری میں خود داعی بن کر بدوی عربوں کو ملک گیری کی ترغیب دی۔ کثرت سے بنو کلاب اور بنو عقیل اس کے ساتھ ہو گئے، جلد ہی بحرین کے اکثر دیہات اس کے قبضے آ گئے۔ اس کی طاقت بڑھی تو اس نے کافی فوج جمع کرلی اور اس نے احساء کو اپنا مستقر بنایا۔ اس کے بعد قرامطہ بحرین سے نکل کر بصرے کے قریب پہنچ گئے۔ عباسی خلیفہ معتضد نے عباس بن عمرو غنوی کو ان کے مقابلے میں بھیجا۔ لیکن ابو سعید جنابی نے عباس کو گرفتار کر لیا اور اس کی فوج کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ پھر اس نے ہجر پر جو بحرین کا پائے تخت تھا، معتدد حملے کرکے اس کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد اس نے بحرین کے شہروں کی حفاظت کی اور رعایا کی بہبود کی طرف متوجہ ہوا۔ خصوصاً زراعت و فلاحت کی ترقی میں بڑی دلچسپی لی۔ نوجوان لڑکوں کو سپاہ گری کی تعلیم دی اور کافی سامان جنگ جمع کیا۔ بنو ضبہ جو اس کی مخالفت کرتے تھے کئی معرکوں میں شکست دی۔ تقریباً پندرہ سال حکومت کرنے کے بعد 301 ہجری میں اپنے غلام کے ہاتھوں جو عباس کے لشکر کا قیدی تھا قتل ہوا۔
جنابی کے قتل کے بعد اس کے چھ بیٹوں میں سے سب سے بڑا بیٹا ابو القاسم سعید اس کا جانشین ہوا۔ تین سال حکومت کے بعد اس کے چھوٹے بھائی ابو طاہر سلیمان نے بغاوت کی اور اسے قتل کر دیا۔ 403 ہجری میں ابو طاہر بحرین کے قرامطہ کا صدر ہوا۔ 311 ہجری تا 325 ہجری کے درمیان بحرین کے قرامطہ نے بصرہ، کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں اپنے بھائیوں سے زیادہ فساد برپا کیا۔ بعض روایتوں معلوم ہوتا ہے کہ مہدی ‘جو فاطمین کے ظہور کا پہلا امام تھا‘ نے قرامطہ سے اتحاد کرنے کی کوشش کی۔ مہدی نے ابو طاہر کی ولایت کو تسلیم کیا۔ ابو طاہر کو پہلے ہی کافی قوت حاصل ہوچکی تھی۔ مہدی کی تائید حاصل ہوتے ہی اس نے بصرہ پر چڑھائی کر دی اور دس روز تک خون ریزی کرتا رہا اور والی سبک مفلمی کو قتل کر دیا۔ شہر لوٹ کر جس قدر مال حاصل ہوا وہ سب اپنے مستقر ہجر بھجوادیا۔ جو قیدی ہاتھ لگے انہیں غلاموں کی طرح بیچ ڈالا۔
315 ہجری میں قرامطہ کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ سے زیادہ اس شہر کو تاراج کیا۔ اس کے بعد اس کی فوجیں عراق میں پھیل گئیں اور بار بار عباسی خلیفہ کو شکست دی۔ مقتدر نے آخر دو فوجی سردار ہارون بن غریب اور صافی کو بصرے کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے قرامطہ کو زبردست شکست دی۔ اس کے بعد قرامطہ نے عراق میں سر نہیں اٹھایا۔
اب تک قرامطہ نے حاجیوں کے قافلوں کو لوٹا تھا، لیکن 317 ہجری میں قرامطہ عراق ے بھاگ کر مکہ معظمہ پہنچے۔ اس سال منصور دیلمی حاجیوں کا سردار تھا۔ یہ لوگوں کو ساتھ لے کر بغداد سے مکہ معظمہ روانہ ہوا۔ مکہ میں عین ترویہ کے روز قرامطہ نے اچانک ان پر حملہ کرکے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ ان میں سے کئی آدمیوں کو بیت اللہ اور مسجد الحرام میں قتل کیا۔ حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال کر اپنے مستقر ہجر لے گئے۔ امیر مکہ نے کئی اشراف کو ساتھ لے کر یہ کوشش کی کہ قرامطہ اپنے کرتوت سے باز آجائیں۔ مگر ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اس کے بعد بیت اللہ کا دروازہ اور محراب اکھاڑ کر ساتھ لے گئے اور مقتولین کے لاشے زم زم کے کنوئیں میں پھینک گئے اور کچھ بغیر غسل و کفن کے مسجد الحرام میں دفن کیے گئے۔ اہل مکہ پر مصیبتیں ڈھائی گئیں۔ اس حادثے کی اطلاع جب مہدی کو قیروان پہنچی تو اس نے قرامطہ کے رہنما ابو طاہر پر بہت لعنت ملامت کی اور حجر اسود کی واپسی کے لیے لکھا۔ مہدی کے بعد اس کے بیٹے اور جانشین قائم نے بھی ایک خط ابو طاہر کو لکھا۔ ابو طاہر نے 339 ہجری میں یہ کہہ کر حجر اسود واپس کیا۔ کہ ہم اسے حکم سے لے گئے تھے اور حکم سے ہی واپس کرتے ہیں۔ تقریباً بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے پاس ہجر میں رہا اور اس دوران قرامطہ مکہ پر قابض رہے۔ حجر اسود پر جو ٹوٹ پھوٹ کے نشانات نظر آتے ہیں وہ اس کے اکھڑے جانے سے ہو گئے۔
361 ہجری میں قرامطہ نے دمشق اور مصر پر چڑھائی کی تیاری کی تو فاطمی خلیفہ معز نے ان کے سردار حسن کو خط لکھا۔ اس میں اسے خوب ڈرایا ڈھمکایا، مگر حسن نے کچھ پروا نہیں کی اور جنگ کے لیے آمادہ ہو گیا۔ معز نے حسن کو معطل کرکے اس کے قبیلے کے کسی رشتہ دار کو قرامطہ کا والی مقرر کر دیا۔ حسن کی عدم موجودگی میں نئے والی نے جزیرہ اوال سے نکل کر احساء کو لوٹ لیا۔ لیکن طالع اللہ عباسی خلیفہ نے ان دونوں کے درمیان صلح کروا دی۔ حسن نے شام و مصر کو فتح کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔
366 ہجری میں حسن افتگین سے مل گیا اور بنو عباس کی بیعت بھی کرلی۔ تاکہ عباسیوں کی مدد سے بنو فاطمہ کا مقابلہ کرے۔ لیکن جب وہ شکست کھا کر بھاگ گیا تو قرامطہ اس سے پھر گئے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ اسے معزول کر دیں اور جنابی خاندان کے کسی رہنما کو اپنا سردار نہیں بنائیں اور سرداری کے لیے ایک نہیں دو افراد جعفر اور اسحاق سرداری کے لیے منتخب کیے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد ان میں اختلاف ہو گیا اور اس کے علاوہ جنابی خاندان میں بھی خانہ جنگیاں شروع ہوگئیں۔ جس کی وجہ سے قرامطہ کا زور ٹوٹ گیا اور ان پر اصغر بن ابی الحسن ثغلبی نے 398 ہجری میں غلبہ حاصل کرکے موجع احساء کو فتح کر کے ان کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔
ہر شخص تعجب کرتا ہے قرامطہ کیسے ثابت قدم اور اپنی دھن کے پکے تھے۔ ایک مقام پر پسپا ہوتے تو دوسرے مقام پر وہ پھر سر اٹھاتے۔ غرض کہ انہوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جانوں تک کو دینے سے دریغ نہ کیا۔ ہر وقت مہدی کی امید میں رہتے اور اسی کا انتظار کرتے، کبھی ایک شخص کو مہدی سمجھتے کبھی دوسرے کو۔ ان کے داعیوں کے اغراض و مقاصد عام طور پر خود غرضی پر مبنی تھے۔ بہت سے غریب اور پسے ہوئے عربوں نے لوٹ مار کے لالچ میں ان کا ساتھ دیا۔ مگر اس قسم کے ناروا محرکات کے علاوہ وہاں کچھ روحانی قوت بھی ضرور ہوتی ہے، جو اس قدر کثیر التعداد جماعتوں کو قبضے میں رکھتی ہے اور ان کو بغاوت کی غنیمتوں کے ساتھ خطرناک جانبازیوں کا مقابلہ کرنے کی قوت دیتی ہے۔ مرد تو مرد ان کی عورتیں بھی لڑائیوں میں حصہ لیتی تھیں۔
بے شک لوٹ مار کی رغبت کے علاوہ قرامطہ کا مذہبی جوش ان کو اس بات پر آمادہ کردیتا تھا کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہوتے تھے لیکن عباسیوں کے ٹڈی دل لشکروں کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ ان کے سفید جھنڈے پر قران کریم ایک آیت لکھی ہوتی تھی اور مہدی کا انتظار اور اس کے ظہور کی امید ان کے جوش کو بڑھادتی تھی۔ کبھی کبھی وہ پسپا بھی ہوتے تھے۔ مگر فتحیابی کا خدائی وعدہ ان کی ہمت کو پست نہ ہونے دیتا تھا۔ عباسیوں کے بہترین سردار بھی ان کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے۔ بڑھتے بڑھتے یہ لوگ ایک دفعہ بغداد کے قریب پہنچ گئے۔ خلیفہ مقتدر بہت بگڑا اور تعجب سے کہنے لگا کیا قرامطہ کی فوج دو ہزار سات سو سے زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے اسی ہزار کے لشکر کو مغلوب کردیتی ہے۔
Leave a Reply