مسلمانوں کا سنہرا دور اور اس کے بعد۔۔۔۔؟ ڈاکٹر خالد سہیل بشکریہ ،،ہم سب،،
جب ہم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ایک وہ دور تھا جب مسلمان ساری دنیا میں معزز و معتبر تھے۔ مشرق و مغرب میں وہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی تحقیقات سے پوری انسانیت استفادہ کرتی تھی۔ وہ دور مسلمانوں کا سنہرا دور THE GOLDEN PERIOD جانا جاتا ہے۔ اس دور میں چند ایسے مسلم دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے سائنس اور فلسفے‘ طب اور مذہب‘ شاعری اور موسیقی‘ نفسیات اور سماجیات کے علوم میں گرانقدر اضافے کیے۔ یہ دور نویں صدی عیسوی سے بارھویں صدی عیسوی کا دور ہے۔ ؎ اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی مسلمانوں کے سنہری دور کے پہلے دانشور ابو یوسف الکندی AL-KINDI تھے جو 801عیسوی میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور 873عیسوی میں فوت ہوگئے۔ انہوں نے بغداد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کو اپنے غیر روایتی نظریات کی وجہ سے اپنی زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب روایتی مسلمانوں نے ان پر بہت سختیاں کیں۔انہوں نے الکندی کے گھر پر حملہ کیا اور ان کی لائبریری سے کتابیں لوٹ کر لے گئے۔ الکندی پہلے مسلم فلسفی تھے جنہوں نے یونانی فلسفیوں سقراط‘ افلاطون اور ارسطو کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو سائنس‘ فلسفہ اور طب کا مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ وہ دنیا میں ترقی کر سکیں۔ ان کی نگاہ میں مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس انسانوں کو خدا کے قریب لاتی ہے کیونکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات کے رازوں کو انسانوں پر منکشف کرتی ہے۔ الکندی خدا کو مانتے تھے اور کہتے تھے کہ کائنات کا خالق خدا ہے۔ کائنات قوانینِ فطرت سے چلتی ہے اور قوانینِ فطرت خدا نے بنائے ہیں۔ الکندی چونکہ ایک طبیب تھے اسلیے سائنسی طرزِ فکر رکھتے تھے۔ وہ یونانی طبیبوں بقراط HIPPOCRATES اور جالینوس GALENسے بھی بہت متاثر تھے۔ مسلمانوں کے سنہری دور کے دوسرے دانشور ابو بکر الرازی AL RAZIتھے جو 856عیسوی میں ایران میں پیدا ہوئے اور 932عیسوی میں فوت ہوگئے۔ الرازی بھی الکندی کی طرح طبیب بھی تھے اور ادیب بھی۔ وہ بغداد میں طب کی پریکٹس کرتے تھے۔ وہ اتنے مشہور ہوئے کہ ساری دنیا سے طالب علم ان سے طب کا علم سیکھنے آتے تھے۔ان طالب علموں میں سے ایک طالب علم چینی تھا جس نے عربی سیکھ لی تھی۔ الرازی نے اس طالبعلم کو جالینوس کی کتاب پڑھ کر سنائی‘ اس نے اس کتاب کا چینی میں ترجمہ کر دیا اور پھر اس کتاب کو چینی طلبا و اساتذہ کے لیے چین لے گیا۔ الرازی نے خسرہ اور چیچک MEASLES AND CHICKENPOXکی بیماریوں کی تشخیص اور علاج پر ایک اہم کتاب لکھی جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور الرازی کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ الرازی نے انسانی بیماریوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا۔ قابلِ علاج اور ناقابلِ علاج۔ الرازی کا موقف تھا کہ ناقابلِ علاج بیماریوں کی ذمہ داری طبیب پر نہیں ڈالنی چاہیے۔ الرازی نے طبیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی طب کی کتابیں لکھیں تا کہ وہ روزمرہ کی بیماریوں کا خود علاج کر سکیں۔ الرازی نے بچوں کی بیماریوں پر بھی پہلی کتاب لکھی اسی لیے طب کی دنیا میں وہ FATHER OF PEDIATRICS کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ الکندی کی طرح الرازی بھی مسلمانوں میں سائنس‘ طب اور فلسفے کی تعلیم عام کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھی مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہ پاتے تھے۔ مسلمانوں کے سنہری دور کے تیسرے دانشور ابو نصر الفارابی AL FARABIتھے۔ الفارابی نے الکندی اور الرازی کی روشن خیالی کی روایت کو آگے بڑھایا۔انہوں نے ارسطو کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ وہ مغربی دنیا میں SECOND MASTER کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ مغربی فلسفی ارسطو کو FIRST MASTER سمجھتے ہیں۔ الفارابی نے منطق کے علم میں گرانقدر اضافے کیے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ نیا خیال پیش کرنا اور پھر اس خیال کا ثبوت فراہم کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ الفارابی نے موسیقی کے موضوع پر بھی کتاب لکھی جس میں انہوں نے اپنا موقف پیش کیا کہ موسیقی ذہنی پریشانی کو کم کر سکتی ہے اور نفسیاتی مسائل کے مریضوں کو ذہنی سکون پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے موسیقی کی تھیریپی MUSIC THERAPY کی روایت کو آگے بڑھایا۔ الفارابی نے افلاطون کی خیالی اور مثالی ریاست REPUBLIC کی طرح ایک اور خیالی اور مثالی ریاست کا تصور پیش کیا اور اس کا نام المدینہ الفضیلہTHE VIRTUOUS CITY رکھا۔ بو علی سینا نے الفارابی کو یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا کہ انہیں ارسطو کی کتاب مابعد لطبیعاتMETAPHYSICS کئی بار پڑھنے کے باوجود اس وقت تک سمجھ نہیں آئی جب تک انہوں نے الفارابی کی تفسیر نہیں پڑھی۔ الکندی اور الرازی کی طرح الفارابی بھی سائنس‘ طب اور فلسفے کی تعلیم کے حق میں تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ کائنات قوانینِ فطرت سے چلتی ہے۔ وہ ان فلسفیوں سے زیادہ متاثر تھے جو اپنے اقوال پر عمل بھی کرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ انسانی معاشرے کے لیے فلسفی وہی حیثیت رکھتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے طبیب۔ مسلمانوں کے سنہری دور کے چوتھے دانشور بو علی سینا AVICENNAتھے۔ وہ الکندی اور الرازی کی طرح طبیب بھی تھے، ادیب بھی تھے اور فلسفی بھی۔ وہ نوجوانی میں ہی ایک معتبر طبیب بن گئے تھے۔ وہ 980عیسوی میں ایران میں پیدا ہوئے اور 1037عیسوی میں فوت ہو گئے۔ وہ ایران کے شہر ہمدان میں دفن ہیں۔ بو علی سینا نے طب کے بارے میں جو دو کتابیں CANNON OF MEDICINE اورTHE BOOK OF HEALING تخلیق کیں وہ کئی صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ بو علی سینا نے بھی الکندی‘ الرازی اور الفارابی کی طرح سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہ پایا اور مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ساری دنیا کے جدید علوم کا مطالعہ اور ان سے استفادہ کریں۔ بو علی سینا نے نفسیات کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی جس کا نام ’کتاب النفس‘ تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے ذہنی بیماری مالیخولیاMELANCHOLIA کے بارے میں‘جو اب ڈیپریشن DEPRESSION کے نام سے جانی جاتی ہے‘ ایک اہم باب رقم کیا۔ مغربی دنیا میں بو علی سینا کا اتنا احترام کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں سقراط اور جالینوس کی طرح طب کا شہزادہ PRINCE OF PHYSICIANS سمجھتے ہیں۔ مسلم دنیا میں ابو حمید الغزالی AL GHAZALIکے آنے سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ الغزالی 1058عیسوی میں ایران میں پیدا ہوئے اور 1111عیسوی میں فوت ہوئے۔ الغزالی ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی تربیت ایک صوفی بزرگ نے کی۔ الغزالی نے اپنے دور کے ایک مشہور فلسفی الجوینی AL JAWAYNIسے مذہب اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ جب الجوینی فوت ہوئے تو الغزالی نے ان کی جگہ سنبھال لی اور بغداد کے نظامیہ مدرسے میں پڑھانے لگے۔ 1095عیسوی میں الغزالی کو ایک شدید نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کافی عرصے تک درس و تدریس کے فرائض سے کنارہ کش ہوگئے۔ جب وہ اس بحران سے نکلے تو انہوں نے فلسفہ اور سائنس کو ترک کر کے تصوف کو اپنا لیا۔ وہ ایک طویل عرصے تک ایک خانقاہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے۔ تصوف کی راہ اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنے نظریا ت اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ INCOHERENCE OF PHILOSOPHERS میں پیش کیے۔ اس کتاب میں انہوں نے مسلمانوں کو سائنس اور فلسفہ ترک کر کے تصوف اور طریقت اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اس کتاب میں انہوں نے نہ صرف الفارابی اور بو علی سینا کی مخالفت کی بلکہ ارسطو اور افلاطون کی تعلیمات کو بھی رد کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ دنیا کا ہر کام قوانینِ فطرت سے نہیں خدا کی مرضی GOD’S WILL سے ہوتا ہے۔ اورخدا جب چاہے قوانینِ فطرت بدل ڈالے۔ جب ہم الغزالی کی زندگی کا نفسیاتی و نظریاتی تجزیہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے اوائل میں وہ فلسفے کے حق میں تھے۔ انہوں نے اس دور میں فلسفے کی حمایت میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام ’مقاصدِ فلسفہ‘ تھا لیکن نفسیاتی بحران کے بعد انہوں نے فلسفیانہ اور سائنسی علم کو ترک کر کے روحانیت اور طریقت کے علوم کو گلے سے لگا لیا۔ انہوں نے اپنے نفسیاتی بحران کی روحانی تشریح پیش کی اور اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ وہ اس بحران کے دوران بہت پریشان خیالی کا شکار تھے لیکن پھر ایک دن ان کے دل میں خدا کی روشنیDIVINE LIGHT داخل ہوئی جس سے سب اندھیرے چھٹ گئے اور ان پر حقیقت منکشف ہو گئی۔ الغزالی کی مقبولیت اور شہرت کا ایک ایسا دور بھی آیا کہ مسلمانوں نے انہیں ’حجتہ الاسلام‘ PROOF OF ISLAM کا اعزاز دیا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے سائنس اور فلسفے سے دور ہونے اور روحانیت اور طریقت کے قریب ہونے میں الغزالی کی شخصیت ‘فلسفے اور کتابوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے چند سو سالوں میں مسلمانوں نے سائنسدان اور فلسفی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں۔ الغزالی نے اس سوچ کو فروغ دیا کہ جدید علوم مسلمانوں کے ایمان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور انہیں دہریہ بنا سکتے ہیں۔ الغزالی کے بعد مسلم دنیا میں جس فلسفی نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی وہ ابو الولید ابن رشد تھے جو مغرب میں AVERROS کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ابن رشد 1126عیسوی میں قرطبہ CORDOBA میں پیدا ہوئے اور 1198عیسوی میں فوت ہو گئے۔ ابن رشد نے بو علی سینا کی طرح طب کے بارے میں ایک اہم کتاب ’الکلیات فی الطب‘ GENERALITIES لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابن رشد نے بہت کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کو دوبارہ الکندی‘ الرازی‘ الفارابی اور بو علی سینا کی سائنس‘ فلسفے‘ اور طب کی روایت سے جوڑیں اور ان میں دوبارہ روشن خیالی پیدا کریں لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہوئے۔ وہ الغزالی کے مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات کو زائل نہ کر سکے۔ انہوں نے الغزالی کی کتاب ’تہافت الفلاسفہ‘ INCOHERENCE OF PHILOSOPHERS کا مفصل اور مدلل جواب بھی لکھا اور اس کتاب کا نام ’تہافت التہافت‘ INCOHERENCE OF INCOHERENCE رکھا ۔ ابن رشد کی انتھک کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے ان کے موقف کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ابن رشد نے ارسطو کی کتابوں کی جو تشریح اور تفسیر لکھی وہ مغربی دنیا میں بہت مقبول ہوئی۔ مغربی مفکرین ابن رشد کے ممنون ہیں کہ وہ یونانی فلسفیوں اور یورپی فلسفیوں کے درمیان ایک فلسفیانہ پل بنے۔ مغربی دانشور ابن رشد کا تہہِ دل سے احترام کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مذہب اور سائنس‘ فلسفے اور روحانیت کی جنگ میں مغرب میں سائنس اور فلسفہ اور مشرق میں مذہب اور روحانیت جیت گئے۔ مسلمانوں نے سائنس کو خدا حافط کہہ کر مذہب کو گلے سے لگا لیا۔ مسلمانوں کا سنہری دور جو نویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا اور بارھویں صدی میں اپنے عروج تک پہنچا تھا تیرھویں صدی میں رو بہ زوال ہو گیا۔ اس دور کے ایک اہم فلسفی تقی الدین ابن تیمیہ IBN TAYMIYYAHتھے جو 1263عیسوی میں پیدا ہوئے تھے اور 1328عیسوی میں فوت ہو گئے۔ ابن تیمیہ کے والد دمشق کی GREAT MOSQUE کے امام تھے۔ ابن تیمیہ نے نوجوانی میں ہی قرآن‘ حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔ ان کے استاد شمس الدین المقصدی تھے جو اپنے عہد کے مستند قاضی تھے اور حنبلی مسلک کے فتوے دیا کرتے تھے۔ ابن تیمیہ کی عمر 21 برس تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ابن تیمیہ نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کر دیا اور سکھریہ مدرسے کے استاد بن گئے۔ وہ امیٌد مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ انتیس برس کی عمر میں ابن تیمیہ نے اپنی پہلی کتاب ’مناسکِ حج‘ لکھی۔ ابن تیمیہ حنبلی مسلک کے مفتی تھے اور وہ مسلک حنفی‘ شافعی اور مالکی مسالک کے مقابلے میں زیادہ روایت پسند مانا جاتا ہے۔ 1293عیسوی میں ابن تیمیہ کی زندگی میں اس وقت ایک سیاسی موڑ آیا جب ایک عیسائی پادری عصاف النصرانی ASSAF AL NASRANIنے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کی۔ ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ شام کے گورنر نے جب ابن تیمیہ کا فتویٰ سنا تو اس نے عصاف کو دعوت دی کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ عصاف کے مشرف بہ اسلام ہونے کے باوجود ابن تیمیہ نے اپنا فتویٰ نہ بدلا۔ شام کا گورنر ابن تیمیہ کے فتوے سے اتنا برہم ہوا کہ اس نے ابن تیمیہ کو جیل میں ڈال دیا۔ جیل جانے سے ابن تیمیہ کے مزاج میں اور بھی شدت پیدا ہو گئی ۔ ابن تیمیہ نے جیل میں گستاخیِ رسول کی سزا موت کے موضوع پر کتاب لکھی۔ جس کا نام ’الثارم المسلول الشاطم الرسول‘ تھا۔ THE DRAWN SWORD AGAINST THOSE WHO INSULT THE MESSANGER وقت کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ کے مزاج میں تندی‘ تیزی‘ شدت اور سختی پیدا ہوتی گئی۔ انہوں نے نہ صرف دہریوں اور مرتدوں کے بارے میں فتوے دینے شروع کیے بلکہ شراب بیچنے والوں کی دکانوں پر حملے کا بھی حکم دیا تا کہ مسلمان شراب کی بوتلیں توڑ توڑ کر گلیوں ‘بازاروں اور سڑکوں پر بہا دیں۔ ابن تیمیہ نے نہایت غیر یقینی سیاسی حالات میں زندگی گزاری۔ اس دور میں شام پر منگولوں نے کئی بار حملہ کیا۔ جب غزن خان GHAZAN KHANنے تیسری بار حملہ کیا تو ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ شام کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے۔ انہوں نے MARJ AL SAFFAR کی جنگ میں خود بھی شرکت کی اور جہاد میں حصہ لیا۔ اس طرح ابن تیمیہ نے اپنے فتوے سے مستقبل کے لیے مسلمانوں کے خلاف جہاد کا راستہ کھول دیا اور اسلام کے ایک مسلک کے مسلمانوں کا دوسرے مسلک کے مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دے دیا۔ ابن تیمیہ حکومت کے کاروبار میں مذہب کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’الکتاب السیاسی الشریعہ‘ لکھی۔ جس میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کی کہ “جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”۔ ابن تیمیہ نے نہ صرف دہریوں اور ملحدوں کے خلاف جہاد کیا بلکہ الغزالی جیسے تصوف کے پرستاروں کی بھی مخالفت کی کیونکہ ابن تیمیہ کی زندگی کا مقصد طریقت نہیں اسلامی شریعت کو فروغ دینا تھا۔ ابن تیمیہ کا موقف اتنا جارحانہ اور شدت پسند تھا کہ اس دور کے دوسرے مسالک کے علما نے ان کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے انہیں کئی بار جیل جانا پڑا۔ آخر ابن تیمیہ نے جیل جانے کو بھی خدا کی رحمت A DIVINE BLESSING جانا اور جیل میں کئی کتابیں لکھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں مسلمان شدت پسند اور دہشت پسند ہوتے گئے ابن تیمیہ کے پیروکاروں اور پرستاروں میں پچھلی کئی صدیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ بیسویں صدی میں سید قطب اور اسامہ بن لادن جیسے مسلم رہنمائوں اور اخوان المسلمین جیسی تحریکوں نے ابن تیمیہ کی تعلیمات کو اپنا مشعلِ راہ بنایا۔ بیسویں صدی کی بہت سی تکفیری‘ سلفی‘ وہابی اور جہادی جماعتوں نے ابن تیمیہ کو اپنا نظریاتی رہنما مانا اور انہیں ’شیخ الاسلام‘ کا خطاب دیا۔ جب عراق کے شدت پسند اور دہشت پسند مسلمانوں نے ایک اردن کے ہوا باز موات القصاصبہ MUATH AL QASSASSBEHکو زندہ جلایا تو اپنے فیصلے کے حق میں ابن تیمیہ کے فتوے کا حوالہ پیش کیا۔ آج کے دور میں گستاخِ رسول کو قتل کرنے اور زندہ جلانے کی روایت کئی صدیوں پہلے ابن تیمیہ کے فتووں سے جا ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے ان گنت فرقوں اور مسلکوں کو نظریاتی اور نفسیاتی طور پر ہم تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں پہلے گروہ کا سلسلہ الکندی‘ الرازی‘ الفارابی‘ بو علی سینا اور ابن رشد کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔ یہ گروہ مسلمانوں کو سائنس اور فلسفے‘ شاعری اور موسیقی‘ نفسیات اور سماجیات کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں سمجھتا۔ دوسرے گروہ کا سلسلہ الغزالی کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔ یہ گروہ سائنس ‘ طب اور فلسفے کو رد کر کے تصوف‘ طریقت اور روحانیت کو گلے لگاتا ہے۔ یہ گروہ کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں کو جدید مغربی علوم سے دور رکھا جائے کیونکہ وہ علوم مسلمانوں کے ایمان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ تیسرے گروہ کا سلسلہ ابن تیمیہ کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔ یہ گروہ نہ صرف سائنس اور فلسفے کو رد کرتا ہے بلکہ روحانیت اور تصوف سے بھی کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ یہ گروہ طریقت کی بجائے شریعت کو گلے لگاتا ہے اور سلفی‘ تکفیری‘ وہابی اور جہادی مسالک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس گروہ کے بعض پیروکار نہ صرف دہریوں اور ملحدوں کو قتل کرتے ہیں‘ صوفیا کے مزاروں کو تباہ و برباد کرتے ہیں بلکہ گستاخِ رسول مسلموں اور غیر مسلموں کو زندہ جلانے کے بھی حق میں ہیں۔ تصوف کے سلاسل بشکریہ ویکیپیڈیا
Leave a Reply