مسلم لیگ کے دھڑوں کی تاریخ پر ایک نظر
اس وقت مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ہی ایک دھڑا ہے جو پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والی پارٹی تھی۔ مسلم لیگ پاکستان کے بانیوں کی پارٹی تھی۔ لیکن پاکستان کی آزادی کے بعد یہ پارٹی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ 1970 کی دہائی میں یہ تقریبا ختم ہونے والی تھی۔ 1980 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی وجہ سے یہ پارٹی واپس اپنے پاوں پر کھڑی ہوئی۔ آج کی مسلم لیگ آل انڈیا مسلم لیگ کا ہی ایک دھڑا ہے۔ 1970 کی دہائی تک آل انڈیا مسلم لیگ ماڈرنسٹ اسلام اور ماڈرن مسلم نیشنلزم کی بنیاد پر قائم تھی۔ 1970 کی دہائی تک یہ ایسے ہی قائم رہی اور پھر یہ کنزرویٹو اسلامسٹ بنتی گئی۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلم لیگ ن سمیت اس پارٹی کے تمام دھڑے واپس آل انڈیا مسلم لیگ کی رسوم کو اپناتے نظر آئے۔
آل انڈیا مسلم لیگ
یہ پارٹی شروع میں بھارت کی مسلم مڈل کلاس کی سیاسی نمائندگی کے لیے 1906 میں قائم کی گئی ہے۔ سر سید احمد خاند پہلے ایکٹوسٹ تھے جن کی کوششوں سے مسلمانوں نے بھارت میں ماڈرن ازم کو قبول کرنے کی ٹھانی۔ ان کی وفات کے کچھ سال بعد ہی یہ پارٹی کچھ مسلمان سیاستدانوں نے بنگال میں قائم کی۔
1930، علامہ اقبال کی علیحدگی کی تجویز
1930 میں علامہ اقبال نے پارٹی کی صدارت سنبھالی اور ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی واپس بھارت آکر مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم لیگ کی رہنمائی کرنے پر ابھارا۔ 1920 کے زمانے میں بھارت میں مسلمانوں اور ہندوں میں اختلافات کے بعد جناح واپس انگلینڈ چلے گئے۔ وہ برطانیہ میں وکالت کی پریکٹس میں مصروف ہو گئے تھے۔ اقبال نے سر سید احمد خان کے خیالات اور مسلم ماڈرن ازم کے ساتھ جڑ کے بھارت میں مسلم نیشنلزم کی بنیاد رکھی۔
1940 ، جناح کا قیام پاکستان کا مطالبہ
جناح 1930 کی دہائی میں واپس آئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ ایک پارٹی میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے 1940 میں جناح نے اعلان کیا کہ ہندوں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمان اکھنڈ بھارت میں دب جائیں گے اس لیے انہیں ایک علیحدہ ملک پاکستان کے نام سے دیا جائے جہاں وہ اپنی زندگی پوری آزادی کے ساتھ جی سکیں۔
1946 مسلم لیگ کے الیکشن میں کارکردگی
1945/46 میں برطانوی حکومت نے الیکشن کے انعقاد کے ذریعے بھارت میں مرکزی اور صوبائی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے آپ کو بھارتی مسلمانوں کا واحد نمائندہ ثابت کرنے کے لیے یہ انتخابات مسلم لیگ کے لیے بہت اہم تھے۔ مسلم لیگ کی جیت کی صورت میں ہی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگ کی سب سے بڑی حریف بھارت کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس تھی۔ کچھ دوسری پارٹیاں جو مسلم لیگی عہدیداروں کو جعلی مسلمان سمجتھی تھیں بھی مسلم لیگ کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئیں۔ مسلم لیگ کا منشور یہ تھا کہ یہ پارٹی برصغیر کے تمام مسلمانوں اور اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق کا تحفظ دلائے گی۔ لیگ نے دعوی کیا کہ چھوٹی ذات کے ہندو بھی مسلمان میں زیادہ محفوظ زندگی گزاریں گے۔ الیکشن میں مسلم لیگ کو بنگال میں 250 میں سے 114 ، پنجاب میں 175 میں سے 75 ، این ڈبلیو ایف پی میں 150 میں سے 17، سندھ میں 60 میں سے 28، اتر پردیش میں 228 میں سے 54، بہار میں 152 میں سے 34، آسام میں 108 میں سے 31، بمبئی میں 175 میں سے 30، مدراس میں 215 میں سے 29 اور اڑیسا میں 60 میں سے 4 سیٹیں ملیں۔ اسطرح مسلم لیگ کو مسلمان ووٹوں میں 87 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ ملے اور اسے پورے ملک کی مسلم نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا گیا۔
حکمران پارٹی
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خان بنے۔ آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کے قیام کی وجہ بنی۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک ماڈرن مسلم سٹیٹ ہو گا جہاں ریاست مذہبی لحاظ سے غیر جانبدار رہے گی اور لوگ اپنے مذہب کو بالائے طاق رکھ کر اچھے پاکستانی بنیں گے۔ 1948 میں قائد اعظم کا انتقال ہو گیا۔
پہلی دراڑ
جناح کی وفات کے فوری بعد مسلم لیگ میں اندرونی سطح پر اختلافات شروع ہو گئے۔ پارٹی کے الگ الگ دھڑے بننے لگے۔
آل پاکستان عوامی مسلم لیگ
آل پاکستان عوامی مسلم لیگ پہلا دھڑا تھا۔ یہ 1949 میں بنایا گیا اور اس کے لیڈر کا تعلق بنگال سے تھا ۔ ان کا نام حسین شہید سہروردی ہے۔ سہروردی کا ماننا تھا کہ مسلم لیگ کی پارٹی عوام سے دور ہو کر رہ گئی ہے۔اسی لیے سہروردی نے 1949 میں مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
جناح مسلم لیگ (جے ایم ایل )
افتخار ممدوٹ پاکستان میں پنجاب کے پہلے چیف منسٹر بنے اور صوبے میں مسلم لیگ کے بھی سربراہ مقرر وہئے۔ جناح کی طرح ممدوٹ کو بھی تنظیم اور ڈسپلن کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ وہ کھل کر گفتگو کرنے والے لیڈر تھے۔ جناح کی موت کے بعد ممدوٹ کو پنجاب کے چیف منسٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ پارٹی کےاحکامات اور وزیر اعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ 1949 میں ہی ممدوٹ بھی مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور جناح مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔
جناح عوامی مسلم لیگ (جے اے ایم ایل)
یہ پارٹی 1950 میں سہروردی اور ممدوٹ کی جماعتوں کے اختلاط سے قائم ہوئی۔
آزاد پاکستان پارٹی (اے پی پی)
اےآئی ایم ایل کا ایک ووکل لیفٹ ونگ تھا اور میاں افتخار اس ونگ کے لیڈر تھے۔ جناح کی موت کے بعد اس ونگ کی اہمیت مسلم لیگ میں کمزور پڑ گئی۔ 1949 میں میاں افتخار مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے ایک لیفٹ ونگ پارٹی قائم کی۔ اے آئی ایم ایل کے کچھ سوشلسٹ ممبر بھی میاں افتخار کی پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ کچھ دوسری لیفٹ ونگ پارٹی کے ساتھ مل کر اس پارٹی نے 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی کی شکل اختیار کر لی۔
سندھ مسلم لیگ (ایس ایم ایل)
ایوب کھوڑو سندھ مسلم لیگ کے پہلے رہنما تھے۔ وہ اس صوبے میں مسلم لیگ کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ 1952 میں کھوڑو اور سندھ کے لیڈرز کے بیچ اختلافات پیدا ہوئے تو کھوڑو کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کھوڑو نے مسلم لیگ چھوڑ کر سندھ مسلم لیگ قائم کی۔ سندھ مسلم لیگ 1954 میں ختم ہو گئی۔
1951، 53 اور 54 کے صوبائی الیکشنز
اگرچہ مسلم لیگ کوپارلیمنٹ میں اکثریت حاصل تھی لیکن1951 میں پہلی بار مغربی پاکستان کے چار صوبوں، پنجاب اور این ڈبلیو ایف پی کے اندر براہ راست الیکشن کا انعقاد ہوا۔ پنجاب میں 191 کل سیٹوں میں سے مسلم لیگ کو 140 سیٹیں ملیں، جناح مسلم لیگ کو 32 سیٹیں ملیں ، آزاد پاکستان پارٹی کو ایک سیٹ پر فتح حاصل ہوئی جب کہ جماعت اسلامی کو بھی ایک ہی سیٹ مل پائی۔ آزاد امیدواروں نے 17 سیٹیں جیتیں۔ این ڈبلیو ایف پی میں مسلم لیگ کو 85 میں سے 67 سیٹیں ملیں، جناح عوامی مسلم لیگ 4 سیٹیں جیت پائی اور 13 سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصہ میں آئیں۔ سندھ میں براہ راست انتخابات 1953 میں ہوئے۔ 111 میں سے مسلم لیگ کو 78 سیٹیں ملیں او ر سندھ مسلم لیگ 7 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جی ایم سید کی سندھی نیشلسٹ پارٹی جو سندھ محاذ کے نام سے قائم تھی کو 7 سیٹیں ملیں ۔ آزاد امیدوار 19 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
جناح عوامی لیگ
1953 میں سہروردی کی جناح عوامی مسلم لیگ نے اپنی پارٹی کے نام سے مسلم کا لفظ حذف کر دیا اور ایک سیکولر پارٹی بن گئی۔ ممدوٹ اس پارٹی سے علیحدہ ہو کر پی ایم ایل میں چلے گئے۔
1954، مشرقی پاکستان الیکشن ،
1954 میں مشرقی پاکستان میں پہلی بار صوبائی انتخابات ہوئے ۔ جناح عوامی لیگ نے ڈیموکریٹک پارٹی ، پیپلز کمیٹی پارٹی، نظام اسلام پارٹی سے اتحاد کر لیا جس کا نام یونائیٹڈ فرنٹ رکھ لیا۔ 309 میں سے جناح عوامی لیگ کو 223 سیٹیں ملیں۔ مسلم لیگ کو صرف 10 سیٹیں ملیں۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے حصے میں 24 سیٹیں آئیں۔ ایک اور ہندو پارٹی شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کو 27 سیٹوں پر فتح ملی۔ دی فرنٹ کو 10 سیٹیں ملیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے 4 سیٹوں پر فتح سمیٹی۔ گاناتنتری دل کو 3 سیٹیں مل گئیں۔ بدھسٹ پارٹی کو 2 سیٹوں پر فتح ملی۔ ایک عیسائی پارٹی کو بھی ایک سیٹ پر فتح ملی۔ صرف ایک سیٹ آزاد امیدوار کو ملی۔ مسلم لیگ کو بد ترین شکست ہوئی۔ حسین شہید سہروردی1956 میں پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔
ری پبلکن پارٹی
1955 میں اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی قائم کی۔ یہ پارٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کی طاقت پر کھڑی تھی اس لیے مسلم لیگ کے ممبران اور پارلیمنٹ لیڈر بھی اس جماعت میں شریک ہونے لگے۔ ری پبلکن پارٹی کے مضبوط ہوتے ہی مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور ہونے لگی۔ سکندر مرزا کو وزیر اعظم سہروردی اور جناھ عوامی لیگ سے سخت نفرت تھی۔ ری پبلکن پارٹی ایک کنزرویٹو پارٹی تھی۔ 1958 میں اس پارٹی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
عوامی لیگ
1954 میں بنگال میں فتح سمیٹنے کے بعد جناح عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی پارٹی بن گئی۔ 1956 میں اس پارٹی کا نام چھوٹا کر کے عوامی لیگ رکھا گیا۔ 1971 میں یہ بنگال کی بانی پارٹی بن گئی۔
پارٹی کا خاتمہ
1958 میں مرزا اور ایوب خان نے مل کر ملک میں پہلا مارشل لا لگایا۔ کچھ ماہ بعد ایوب خان نے مرزا کو ہٹا کر ملک کی صدارت سنبھال لی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس وقت تک مسلم لیگ ویسے بھی بہت سکڑ چکی تھی۔
سیاست میں واپسی
جب 1962 میں ایوب دور حکومت میں سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم ہوئی تو مسلم لیگ کے بہت سے دھڑے بکھرے پڑے تھے۔ ایوب خان نے پارٹی کو دوبارہ سے نئے روح میں لانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ کنوینشن
1959 میں ایوب خان پاکستان کے صدر بنے۔ 1962 میں وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کے دھڑوں کے لیڈرز کو بلایا۔ ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان کے لفظ کو جوڑ کا پارٹی کا نیا نام پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا۔ جب کچھ مسلم لیگ کے رہنماوں نے اس پارٹی میں اآنے سے انکار کیا تو اسے پاکستان مسلم لیگ کنوینشن کا نام دیا گیا۔ اس پارٹی کے منشور کے اہم نکات میں تیز رفتار انڈسٹریلائیزیشن، فری مارکیٹ انٹرپرائز، اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلم ماڈرنازم کی ترقی شامل تھے۔ ایوب خان اس پارٹی کے سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔
پاکستان مسلم لیگ کونسل
ایوب کی پاکستان مسلم لیگ کے قیام کے بعد سردار عبد القیوم اور ممتاز دولتانہ نے مل کر ایک اور دھڑا قائم کیا جسے پی ایم ایل کونسل کا نام دیا گیا۔ اس پارٹی کے ممبران نے اپوزیشن بینچ پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اس پارٹی کے منشور میں ملک میں جمہوری پارلیمنٹ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔
1965 کے صدارتی الیکشنز
1965 کے صدارتی انتخابات کے دو بڑے امیدوار صدر ایوب اور فاطمہ جناح تھے۔ فاطمہ جناح پی ایم ایل کونسل کی درخواست پر یہ الیکشن لڑ رہی تھیں۔ بعد میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نظام اسلام پارٹی، اور جماعت اسلامی جیسی پارٹیاں بھی پی ایم ایل کونسل کے اتحاد میں شامل ہو گئیں اور فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار مقرر کیا۔ ایوب کو 64 فیصد جب کہ 36 فیصد ووٹ فاطمہ جناح کو ملے۔ کراچی اور ڈھاکہ میں البتہ ایوب کو بُری طرح شکست ہوئی۔ حیدرآباد میں بھی جناح کو فتح مل گئی۔ باقی سب علاقوں سے ایوب خان کو فتح ملی۔
خاموشی کے سال
1969 میں ایوب کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کی وجہ طلبا، لیبر یونین اور اپوزیشن کی طرف سے کیا جانے والا احتجاج تھا۔ نئے ملٹری چیف یحیی خان نے ملک میں براہ راست الیکشن کے انعقاد کی حامی بھری۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی علیحدہ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے قائم کی۔ مغربی پاکستان میں یہ پارٹی بہت تیزی سے پھیلی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اکثریت تھی۔
قیوم مسلم لیگ
پی پی پی اور اے ایل کو شکست دینے کے لیے پی ایم ایل کنوینشن اور پی ایم ایل کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ پی ایم ایل کونسل کے لیڈر سردار قیوم نے پارٹی چھوڑ دی اور قیوم مسلم لیگ کے نام سے علیحدہ پارٹی بنا لی۔
1970 کے تاریخی انتخابات
70 کے انتخابات میں 300 میں سے عوامی لیگ کو 160 جب کہ پی پی پی کو 81 سیٹیں ملیں۔ باقی تمام پارٹیوں کو بہت کم تعداد میں سیٹیں ملیں۔ 16 سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ 1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کی شکل میں ایک نیا ملک بن گیا۔ مغربی پاکستان کی فاتح جماعت پی پی پی ملک کی حکومتی پارٹی بن گئی۔ قیوم لیگ کو پی پی پی میں ضم کر دیا گیا۔
مسلم لیگ فنکشنل
1973 میں ایک سندھی جاگیردار پیر پگاڑا نے پی ایم ایل کنوینش اور پی ایم ایل کونسل کو ملا کر پی ایم ایل فنکشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی کو انڈسٹریلسٹ حضرات اور تاجر برادری کی حمایت حاصل تھی اور یہ پی پی پی کی نیشنلائزیشن پالیسی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ 1972 اور 1976 کے ضمنی انتخابات میں اس پارٹی کو شکست فاش ہوئی۔ 1976 میں یہ ایک اتحاد کاحصہ بن گئی جو صرف پی پی پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اتحاد نے 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ احتجاج پر تشدد ہوتا گیا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔
پاکستان مسلم لیگ قاسم
ملک قاسم 1977 میں مسلم لیگ فنکشنل سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ 1978 میں انہوں نے اپنا علیحدہ دھڑا بنایا جسےپی ایم ایل قاسم کا نام دیا گیا۔ یہ پارٹی پی پی پی کے ساتھ مل کر ضیا الحق سے نجات کی جدوجہد میں مصروف ہو گئی۔
سیاست میں واپسی
1985 میں صدر بن کر مارشل لا ہٹانے کے بعد ضیا نے جنرل الیکشنز کا انعقاد عمل میں لایا۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ پی ایم ایل فنکشنل کے ایک لیڈر محمد خان جنیجو نے پی ایم ایل فنکشنل کو ایک متحدہ پاکستان مسلم لیگ میں بدل دیا۔ یہ اکثریتی پارٹی بن گئی اور جنیجو کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ اس پارٹی کا منشور ضیا سے نجات اور اکانومی کی بہتری تھا۔ یہ پارٹی ملک میں اسلام کا نفاذ اور افغان جنگ سے نجات چاہتی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز
میاں نواز شریف 1985 کی پی ایم ایل کے ممبر رہ چکے تھے۔ یہ پارٹی 1988 میں رائٹ ونگ الائنس کا حصہ بن گئی۔ الیکشن میں پی پی پی کو فتح ملی۔ صدر اسحاق نے پی پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں کرپشن کے الزام میں وزارت عظمی سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ۔آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ پارٹی کا ایک گروپ جنیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا۔ یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بچی کھچی پارٹی کو پی ایم ایل این کا نام دیا گیا۔ ن لیگ ضیا مشن کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔ اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1997 میں پی ایم ایل این ایک بار پھر حکمران پارٹی بن گئی اور 1999 میں مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
2000 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کمزور پڑ گئی۔ مشرف کی رخصتی کے بعد پی ایم ایل نے زبردست انداز سے واپسی کی۔ 2013 میں مسلم لیگ ن نے ملک میں واضح اکثریت حاصل کی۔ پی ایم ایل این اب تک پاکستان مسلم لیگ کا سب سے بڑا دھڑا ہے۔ لیکن کچھ سالوں سے اس کی توجہ صرف مرکز تک محدود ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ معاشی ترقیاتی اور جمہوری لبرل ازم میں یقین رکھتی ہے۔ اب یہ ایک ماڈریٹ مذہبی پارٹی بن چکی ہے۔ یہ پارٹی مذہبی شدت پسندی کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ جنیجو
جنیجو کی 1993 میں موت کے بعد حامد ناصر چھٹا نہ مسلم لیگ جونیجو قائم کی۔ پارٹی نے 1993 میں پی پی پی کو سپورٹ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ جناح
منظور وٹو پی ایم ایل جونیجو کے ایک بڑے لیڈر تھے۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جب جونیجو لیگ نے پی پی پی کے ساتھ اتحاد کیا اور فتح حاصل کی تو منظور وٹو چیف منسٹر پنجاب مقرر ہوئے۔ لیکن پارٹی کے اندر اختلافات کی وجہ سے وٹو کو وزارت اعلی سے محروم کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی علیحدہ جماعت بنا لی۔ جسے پی ایم ایل جناح کا نام دیا گیا۔ 2008 میں منظور وٹو پی پی پی میں شامل ہو گئے۔
پاکستان مسلم لیگ ق
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران پارٹی میں ایک بڑی دراڑ پڑ گئی۔ جب 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کو حکومت سے باہر کر کے جلا وطن کر دیا تو پی ایم ایل این کے چار رہنما چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، مشاہد حسین اور شیخ رشید نے مشرف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ جب مشرف نے 2002 میں اپنی پوزیشن مضبوط کی تو کچھ دوسرے پی پی ممبران بھی مشرف کے ساتھ آ گئے اور مسلم لیگ قائد کے نام سے ایک پارٹی قائم ہوئی۔ پی ایم ایل ق نے 2002 میں الیکشن میں فتح حاصل کی اور مشرف کے ساتھ مل کر معاشی اصلاحات لانے کا بیڑا اٹھایا۔ 2008 میں پی ایم ایل ق کو شکست ہوئی اور پی پی پی حکومت میں آئی جب کہ 2013 میں پی پی پی کو مسلم لیگ ن سے شکست فاش ہوئی۔
پاکستان مسلم لیگ ضیا
2002 میں ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق نےمسلم لیگ ضیا کے نام سے ایک چھوٹی سی پارٹی بنائی۔ یہ دھڑا مسلم لیگ کا سب سے چھوٹا دھڑا رہا ہے۔
عوامی مسلم لیگ
شیخ رشید جو پہلے پی ایم ایل این اور پی ایم ایل ق کے ممبر رہ چکے تھے نے 2008 میں ق لیگ کی شکست کے بعد اپنی علیحدہ پارٹی کی بنیاد رکھی جسے انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا نام دیا۔ اس وقت یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔
آل پاکستان مسلم لیگ
مسلم لیگ کا یہ فیکشن مشرف نے قائم کیا جب 2008 میں انہیں صدارت سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ دھڑا آج بھی ایک چھوٹے سے گروپ کی شکل میں موجود ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
Leave a Reply