پاکستان: آمریت بمقابلہ منتخب نمائندے قسط # 1
21 وزرائے اعظم مجموعی طور پر 16218 سے زائد دن عہدے پر فائز رہے جبکہ 4 فوجی آمروں نے ملک پر 12116 دن تک حکومت کی۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک جمہوری ملک کے طور پر سامنے آیا اور بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے جبکہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے، پاکستان میں فوری طور پر آئین سازی تو نہ ہو سکی، تاہم ملک مشکلات کا شکار ضرور رہا اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو دوران تقریر قتل کر دیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک میں متعدد مرتبہ جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کی گئی، مختلف ادوار میں اس حوالے سے متعدد سازشیں بھی سامنے آتی رہیں، 14 اگست 1947 سے تاحال، لیاقت علی خان سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک متعدد منتخب وزرائے اعظم نے حکومت کی،
کئی بار فوجی مداخلت ہوئی، بعض دفعہ صدور نے حکومت ختم کی جبکہ 2 بار عدلیہ سے وزرائے اعظم نااہل قرار پائے، جس کے باعث کوئی بھی وزیراعظم 5 سال تک وزارت عظمیٰ کا دور مکمل نہ کر سکا۔
اس رپورٹ کی اشاعت تک 21 وزرائے اعظم مجموعی طور پر 16218 سے زائد دن پاکستان پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ 4 فوجی آمروں نے ملک پر مجموعی طور پر 12116 دن تک حکومت کی۔
لیاقت علی خان
14 اگست 1947 سے 16 اکتوبر 1951
4 سال 2 ماہ 2 دن (1524 دن) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
14 اگست 1947 میں آزادی کے بعد نومولود ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی خان کو پہلا وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ 4 سال 2 ماہ اور 2 دن تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہے.
جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کے پاس آئین نہیں تھا جبکہ اس کے امور چلانے کے لیے متحدہ ہندوستان کے 1935 کے آئین میں ترامیم کرکے اسے عبوری آئین کے طور پر ملک میں نافذ کیا گیا، اس وقت لیاقت علی خان نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک قرار داد تیار کی، جس میں علما کا تعاون بھی حاصل رہا، اس مسودے کو ’قرارداد مقاصد‘ کا نام دیا گیا، پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرار داد مقاصد کی منظوری دی۔
یہ قرارداد 7 مارچ 1949 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی تھی، جس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا نہیں ہوگا بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔
خیال رہے کہ 2 مارچ 1985 کو صدر محمد ضیاء الحق نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان میں 8ویں ترمیم کی تھی، جس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کر لیا گیا تھا۔
جسٹس حمود الرحمٰن نے قراردادِ مقاصد سے متعلق کہا تھا کہ ’اسے ابھی تک کسی نے منسوخ نہیں کیا، نہ کسی عہدِ حکومت، فوجی یا سول میں اِس سے اِنحراف کیا گیا‘۔
لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک سیاسی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تھا، ان کے قتل کے بعد 16 اکتوبر 1951 سے 17 اکتوبر 1951 تک وزارت عظمیٰ کی نشست خالی رہی، ان کے بعد خواجہ ناظم الدین نے ان کی جگہ لی۔
خواجہ ناظم الدین
17 اکتوبر 1951 سے 17 اپریل 1953
ایک سال 6 ماہ (548 دن)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلم لیگ سے ہی تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین، قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل بنائے گئے تھے اور انہوں نے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک کے دوسرے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔
تاہم ایک سال اور 6 ماہ اپنے عہدے پر رہنے کے بعد اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953 کو ان کی حکومت تحلیل کردی تھی۔
محمد علی بوگرا
17 اپریل 1953 سے 12 اگست 1955
2 سال 3 ماہ 26 دن (847 دن) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خواجہ ناظم الدین کی حکومت تحلیل کیے جانے کے بعد مسلم لیگ سے ہی تعلق رکھنے والے محمد علی بوگرا نے 17 اپریل 1953 کو ان کی جگہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔
اس سے قبل محمد علی بوگرا 1948 میں برما میں پاکستان کے سفیر مقرر کیے گئے، انہیں 1949 میں کینیڈا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تھا جبکہ 1952 میں انہوں امریکا میں سفیر کی خدمات انجام دی تھیں۔
انہوں نے پاکستان کا آئین بنانے کا آغاز کیا، جس میں پانچ صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی، جن میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور مشرقی پاکستان شامل تھے، جبکہ اس حوالے سے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئیں، تاہم مذکورہ تجاویز پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد انہوں نے متنازع ’ون یونٹ‘ فارمولا بنانے کا کام شروع کیا جس کا مقصد تمام صوبوں کو ایک ریاست میں تبدیل کرنا تھا۔
محمد علی بوگرا نے 22 نومبر 1954 میں ون یونٹ کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کوئی بنگالی نہیں، کوئی پنجابی نہیں، کوئی سندھی نہیں، کوئی پٹھان نہیں، کوئی بلوچی نہیں، کوئی بہاولپوری نہیں اور نہ ہی کوئی خیرپوری، علاقائی تقسیم کی عدم موجودگی پاکستان کی سالمیت کو مستحکم کرے گی‘۔ تاہم بعد ازاں اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے اختلافات کے باعث انہیں 12 اگست 1955 کو برطرف کردیا۔
Leave a Reply