پاکستان میں طلبہ سیاست کا عروج و زوال
نوجوان کسی بھی معاشرے کا پیمانہ ہوا کرتے ہیں۔ باشعور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد طلبہ پر مشتمل ہے جن کی سماجی و معاشرتی حالت کے تجزیے سے کسی بھی سماج کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں نوجوانوں اور خصوصاً طلبہ کا ایک خصوصی کرادار رہا ہے۔ کیمپس میں سیاست سے لیکر جابر آمروں کے خلاف بغاوت تک طالب علموں کا اہم انقلابی کردار رہا ہے۔ جہاں طالب علموں نے تاریخ کے دھارے کو موڑنے کا کردار ادا کیا وہیں مختلف سیاسی و مذہبی پارٹیوں نے طاقت و اقتدار کی ہوس میں ان کو ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیاہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور، اس کے بعد گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان اورپشاور یونیورسٹی میں ہونے والے حالیہ تصادم طلبہ سیاست کی گراوٹ کو آشکار کر رہے ہیں۔ ماضی میں اسٹوڈنٹس یونین کا مدعا فیسوں میں اضافہ اور طلبہ کو درپیش مسائل ہوا کرتے تھے اور آج طلبہ تنظیمیں مختلف علاقائی بنیادوں پر فنکشنوں میں لڑائی جھگڑے، غنڈہ گردی اور بھتے کی لڑائی تک محدود ہوگئی ہیں۔
جمعیت کی تو پیدائش ہی قدامت پرستی اور رجعت پر مبنی ہے۔ اگر طلبہ پر کبھی بھی کوئی ظلم ہوا ہے تو اس کے پیچھے جمعیت یا اسی ہی کی کوئی دوسری شکل رہی ہے۔ پاکستان میں طلبہ سیاست کا کرادارحالیہ صورتحال کے برعکس رہا ہے اس لئے اسکے ماضی کو سمجھے بغیر آج کی صورتحال کو سمجھنا محال ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بے شمار نوجوانوں نے حقوق کی لڑائی میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ 47ء کے خونریز بٹوارے کے بعد سے لیکر 1984ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگنے سے پہلے تک، پاکستان کی طلبہ سیاست میں مختلف تنظیموں نے بنیادی کرداراادا کیا۔ ہرسال کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے الیکشن کا انعقاد کرایا جاتا تھا۔ مختلف طلبہ تنظیمیں نوجوانوں کے سیاسی، تعلیمی اور ثقافتی معاملات کے پروگرام پر الیکشن میں حصہ لیتی تھیں۔ پھر جنرل ضیا کی مذہبی جنونیت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی۔ جس میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے نرمی کی لیکن نواز شریف کی حکومت نے 1992ء میں آکر طلبہ یونین پر یہ موقف رکھتے ہوئے پابندی لگائی کہ اس سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول خراب ہوتا ہے اور یہ تشدد کا باعث بنتی ہے۔ ضیا کی اس پابندی نے اس نرسری کا ہی خاتمہ کر دیا گیا جس سے سیاسی پلیٹ فارم کو نظریاتی معیار مہیا ہوتا تھا اور معاشرے میں ایک ’ڈی پولیٹی سائزیشن‘ کے عمل آغاز ہوا جس نے طلبہ سیاست و ثقافت کو مجروح کر دیا۔ پھر جس کے واضح اثرات ملک کی عمومی سیاسی صورتحال میں آشکار ہوئے۔
47ء میں صرف ایک طلبہ تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن( ایم ایس ایف) کا وجود تھا جو کہ مسلم لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ کے طور پر کام کرتی تھی۔ پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجہ میں ایم ایس ایف کا ٹوٹنا ایک ناگزیر عمل تھا۔ طلبہ کے ترقی پسند دھڑوں نے بائیں بازو کے ساتھیوں کے ساتھ ملکر ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( ڈی ایس ایف) کی بنیاد رکھی۔
کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایس ایف پر پابندی کے خلاف ڈی ایس ایف کے ساتھیوں نے ایم ایس ایف، پرانے ڈی ایس ایف کے کارکنان اور دوسرے ترقی پسند طلبہ دھڑوں سمیت مشرقی پاکستان کی طلبہ تنظیموں کو آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایس او) میں یکجا کرنا شروع کیا۔ اے پی ایس او دائیں اور بائیں بازو کے طلبہ کے ایک بڑے پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئی۔ لیکن اس اکٹھ پر بھی کراچی میں مظاہرین پر پولیس کے بدترین تشدد کے بعد پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی دوران نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) نے ڈی ایس ایف کے خلا کو پر کرتے ہوئے وسیع تر بنیادیں تعمیر کر لیں اور ڈی ایس ایف کے انقلابی ساتھیوں نے بھی این ایس ایف میں مداخلت کرتے ہوئے بائیں بازو کے نظریات کی ترویج کا کام کیا۔ این ایس ایف تمام بڑے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی امیدوں کا ایک محور بنی اور حقیقت میں این ایس ایف ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ملک کی سب سے بڑی طلبہ کی ترقی پسند پارٹی بن گئی۔ حکمرانوں نے ڈی ایس ایف اور کمیونسٹ پارٹی کو توکالعدم کر دیا لیکن انہی بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پراین ایس ایف نے بالکل اسی طرح تمام بڑے تعلیمی اداروں میں اپنی جیت رقم کی جس طرح ڈی ایس ایف نے 50ء کی دہائی کے اوائل میں جھنڈے گاڑے تھے۔ حکمران جماعت اس کا قلعہ قمع کرتی اس سے پہلے ہی فیلڈ مارشل ایوب نے یہاں پہلا ملٹری کُو کرتے ہوئے بیوروکریٹوں اور جاگیرداروں کی حکومت کو الٹاتے ہوئے جبری آمریت مسلط کر دی۔
1950ء سے 60ء کی دہائی میں ہونے والے طلبہ یونین کے الیکشنوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطہ کے نوجوانوں نے کبھی بھی کسی قدامت پرست اور بنیادپرست تنظیم کا ساتھ نہیں دیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان الیکشنو ں میں ڈی ایس ایف نے 50 فیصد، این ایس ایف نے 35 فیصد، ایم ایس ایف نے 10 فیصد اور اسلامی جمعیت طلبہ نے5 فیصدالیکشنوں میں جیت حاصل کی۔ ان نتائج سے سماج میں موجود ہلچل اور طلبہ کے سیاسی شعور کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ایوب آمریت نے بھی امریکی ایما پر کمیونسٹ پارٹی پر پابندی بدستور جاری رکھی۔
اس سارے عرصے میں گو کہ جماعت اسلامی کا رجعتی اسٹوڈنٹس ونگ ’اسلامی جمعیت طلبہ ‘ مختلف تعلیمی اداروں میں نہایت قلیل قوتوں کے ساتھ موجود تھا، لیکن انکی زیادہ تر توانائی ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی مخالفت میں ہی صرف ہوتی رہی۔ اور اسی عرصے میں ہی جمعیت اور این ایس ایف کے بے شمار مقامات پر تضادات بھی بنے۔ این ایس ایف اور ڈی ایس ایف ترقی پسند طلبہ تنظیمیں ضرور تھیں، جن کی بڑی گہری عوامی بنیادیں موجود تھیں، ڈی ایس ایف چونکہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ہی کالعدم ہوگئی اور این ایس ایف نے وسیع تر حمایت حاصل کر لی، لیکن ’سائینو سوویت سپلٹ‘ کے پیش نظر ماسکو اور بیجنگ کے تضادات پاکستانی تعلیمی اداروں کے اندر سرائیت کرنا شروع ہوگئے۔ ڈی ایس ایف جہاں سوویت یونین اور ماسکو کی پیروی کر رہی تھی وہیں این ایس ایف بیجنگ کی حمایتی تھی۔ لیکن دونوں تنظیموں کی نظریاتی بنیادیں ’مرحلہ وار انقلاب‘کے متروک نظرئیے میں ہی مقید تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے جہاں 68-69ء کے انقلاب سے روگردانی کی وہیں ڈی ایس ایف بھی اس تاریخی دھارے سے کٹ گئی۔
65ء کی جنگ کے بعد کے حالات اور ذوالفقار علی بھٹو کی اقوام متحدہ میں تقریرنے بھٹو کو نوجوانوں میں کافی مقبول کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے بعد این ایس ایف کے بیشتر ساتھیوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اورپیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے سوشلسٹ نظریات کی ترویج کی، اِن میں سے کچھ بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر بھی بنے۔ لیکن این ایس ایف کے اندر تطہیر اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل مسلسل جاری رہا اور یہ مختلف گروپوں میں بٹتی چلی گئی۔ ایک گروہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اینٹی انڈیا، اینٹی مجیب اور نیشنلسٹ ایجنڈا پرکام کرتا رہا جبکہ دوسرا دھڑامشرقی پاکستان کے حوالے سے الگ ہو گیا، ایک گروہ لبرل سیکولر ایجنڈا پرسندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس این ایس ایف) کے طور پر ٹوٹ کر الگ ہوا۔ گو کہ این ایس ایف کے تمام دھڑے مقبول رہے لیکن تقسیم کے باعث دائیں بازو کی رجعتی طلبہ تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئے۔ اسی وجہ سے 1960-69ء الیکشنوں میں این ایس ایف 60 فیصد، اسلامی جمعیت طلبہ 35 فیصد، ایم ایس ایف 3 فیصد اور ڈی ایس ایف نے محض 2 فیصدالیکشنوں میں جیت حاصل کی۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس کے باوجود درمیانے طبقے اور کسی حد تک محنت کشوں کی با لائی پرتیں اپنے روزمرہ کے بنیادی اخراجات کو کم سے کم کر کے مستقبل میں روزگار کے آسرے کے لیے بھاری بھرکم تعلیمی اخراجات کا کچھ بندوبست کرتی ہیں۔ طالب علم نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہی کی وجہ سے آج تقریباً ہر تعلیمی ادارے میں دو سے تین شفٹوں میں کلا سز کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ سہ پہر اور شام کے ان غیر انسانی اور محدودمعنوں میں غیر پیداواری اوقات کی وجہ سے یہ طلبہ آئندہ زندگی میں شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ اسی کی وجہ پاکستان میں نیند کے مسائل میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے ناگزیر اثرات نوجوانوں کی صلاحیتوں پر پڑتے ہیں۔ انسانی جسم کی خاصیت ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے میں قائم شدہ روٹین کو اپنا لیتا ہے لیکن پھر اگر یہ روٹین سماج کے برعکس بن جائے تو پھر اس کو ترک کرنا قدرے محال ہوجاتا ہے۔ سونے کے اوقات میں جاگنااور جاگنے کے اوقات میں سونانوجوانوں میں ایک معمول بن گیا ہے، ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی سہولیات پسماندہ معاشروں میں ایک بے ہنگم اور غیر ہموار معمول کا سبب بنتی ہیں، جس کی وجہ سے ان ایجادات کے مثبت سے زیادہ منفی اثرات سماج پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ فرد کو محرومی اور انفرادیت کی حد تک محدود کردیتی ہیں۔ اس کیفیت کے شعور پر ناگزیر اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کومحدود کر کے ان کو یو ٹوپیائی اور ایک خوابوں کی دنیاتک ہی مقید کر دیتے ہیں۔ کھیل اور دوسری غیر نصابی سرگرمیاں مکمل طور پرنا پید ہوچکی ہیں اورمتبادل کے طور پر منشیات کی ایک مکمل انڈسٹری ہے جس کی سب سے بڑی منڈی پھر یہی نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ بورژوا میڈیا کی پچھلے دنوں منظر عام پر آنے والی خبروں نے خاص طور پر یونیورسٹیوں میں موجود اور مسلسل پھلتے پھولتے ڈرگ ریکٹس کا انکشاف کیا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق منشیات کے استعمال میں خواتین طلبہ کا حیران کن اضافہ ہوا ہے اور سماجی بندھنوں اور قدامت پرست خیالات کی وجہ سے ایسی خواتین کسی سے بھی اپنی مجبوریوں کا ذکر نہیں کر پاتیں اور عمر بھر اس اذیت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ناقابل برداشت تعلیمی اخراجات اور سماج میں موجود مقابلے کی نفسیات کی وجہ معیار زندگی کو مصنوئی طور پر بلند کرنے کے لیے یونیورسٹیوں میں منظم گرہ موجودہیں جو مجبوروں کی عصمتوں کی سوداگری کرتے ہیں۔
نوجوانوں کو ان اذیتوں میں مبتلا تعلیم کے کاروبار نے کیا ہے۔ ریاست کے پاس نہ اتنا انفراسٹرکچر ہے اور نہ اتنی سکت کہ طلبہ کی تعداد کے مطابق تعلیمی ادارے بنائے جا سکیں۔ اور پھر اس تعداد کو کم کرنے کے لیے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ اور دیگر اس قسم کے امتحانات کا مقصد جہاں نوجوانوں میں مقابلے کی نفسیات کو فروغ دینا ہے وہیں ان امتحانات کے ذریعے ایک محدود اور نوجوانوں کی مطلوبہ تعداد کوہی آگے کی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پھر اس محدود تعداد میں شمولیت نہ حاصل کر سکنے پر تعلیم ترک کرنے یا خودکشی کے مرتکب بھی پسے ہوئے محروم طبقے سے آئے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ ورنہ جس کے پاس دولت ہے چاہے وہ کوئی امتحان پاس کرے نہ کرے سیلف فنانس پر یا کسی اور ملک میں جاکر آسانی سے پرائیویٹ طور پر ڈاکٹر انجینئر بن سکتا ہے۔
یہ اس طبقاتی تعلیم اور اسکے نظام کا دہرا معیار ہے اور اسکو جاری رکھنے کے لیے بالائی طبقہ، اسکی ریاست اور اسکے نمائندہ حکمران، طلبہ سیاست کو ہر ممکن حد تک ختم کرنے اور اسکو بدنام کرنے کے درپے ہیں۔ طلبہ کی ایکتا اور طاقت سے وہ خوف زدہ ہیں، بے شک آج نوجوانوں میں طلبہ سیاست کا ماضی دھندلا ہے لیکن حکمران طبقے کے لیے آج بھی طلبہ کا انقلابی کردار ایک ڈراونا خواب ہے۔ جنہوں نے ایوبی آمریت سے لیکر ضیا کے جبر تک کا جرأت مندانہ انداز میں مقابلہ کیا اور فتح یاب بھی ہوئے، جنہوں نے پسے ہوئے طبقے کی روایتی پارٹی کی بنیادیں استوار کیں۔ آج وہی روایتی پارٹی حکمرانوں کی دلالی میں سب سے آگے ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی اسی خوف کا اظہار ہے۔ کیمپسوں میں وہ جگہیں جہاں نوجوانوں کو اکٹھے بیٹھ کر فرصت کے لمحات گزارنے کا موقع میسر آتا تھا انکو یکسر ختم کیا جا رہا ہے۔ کیمپس کے ایک طرف قائم دکانوں کے ذریعے جو ’’ڈھابہ کلچر‘‘ قائم ہوا تھا اس کو کچلنے کے لیے ان دکانوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ کیمپس میں موجود درختوں کے جھرمٹوں، جن کی چھاؤں میں تپتی گرمیوں میں طلبہ سستاتے اور گفتگو کیا کرتے تھے، کوختم کر کے کنکریٹ کے نئے ڈربے بنائے جارہے ہیں۔ ضیاکی پھیلائی ہوئی دہشت گردی آج پلٹ کر وار کر رہی ہے جس سے نہ صرف معصوموں کا قتل عام ہورہا ہے بلکہ اس کو جواز بنا کر تعلیمی اداروں کو جیل خانوں کی شکل دے دی گئی ہے جو اپنی اساس میں پھر نوجوانوں کے شعور پر ایک کاری ضرب ہے۔ اپنے ہی ادارے میں داخل ہونے کا منظر کسی عالمی بارڈر کو عبورکرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ ان نوجوانوں کو انکے انقلابی کردار کا ادراک نہ ہونے دیا جائے۔ حکمرانوں کے یہ تمام تر حیلے اور حربے معمول کے ادوار میں تو کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن انقلابی ادوار میں یہ تمام روکاوٹیں ہوا میں معلق ہوجا یا کرتی ہیں۔
طلبہ سیاست میں یونین کی پابندی کے بعد سب سے رجعتی عمل مختلف علاقائی اور لسانی بنیادوں پر طلبہ کو تقسیم کرنے کی شکل میں شروع ہوا۔ 60ء، 70ء اور 80ء کی دہائی کے وہ تعلیمی ادارے جن کی طلبہ تنظیموں نے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی تھی ان میں یہ لسانی تقسیم ہمیں کونسلوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ مگر اول تو اس نیم جمود کے دور میں طلبہ کسی بھی کونسل میں شمولیت سے اجنتاب کرتے ہیں لیکن اگر کہیں کوئی کونسل بن بھی جاتی ہے تو اس کا کردار طلبہ مسائل کو اجاگر کرنے کے برعکس سالانہ ثقافتی پروگراموں تک محدود ہو گیا ہے۔ ان کونسلوں کی سرگرمیاں بالکل ہی مجرد اور یکسانیت کا شکار ہیں، ان کی اہمیت یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے کسی پروجیکٹ یا اسائنمنٹ تک رہ گئی ہے۔ سمسٹر سسٹم کی اذیت نے طلبہ سے راحت کے تمام لمحات چھین لیے ہیں۔ اگر کسی کونسل کی قیادت کچھ کرنا بھی چاہے تو سمسٹر ختم ہو جاتا ہے اور اس قیادت، جو عموماً سینئر ترین طلبہ پر مشتمل ہوتی ہے، کا ادارے کو خیر باد کہنے کا وقت آچکا ہوتاہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ان ایجوکیشنل کونسلوں کا سب سے بڑا کارنامہ ہر چھ ماہ بعد اپنے علاقوں سے ہوئے طلبہ کا داخلہ کرانا ہوتا ہے، جو کونسل کے سطحی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی اداروں میں بھی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کونسلوں کا داخلہ کرانے کا کارنامہ بھی ختم ہونے کی طرف جا رہاہے۔ اب نا گزیر طور پر ان کو نئے طریقہ کار کی جانب بڑھنا پڑے گا جس میں باشعور طلبہ کی کونسل کے کرادار کو یکسر بدلنے کی بنیادی ذمہ داری بنے گی تاکہ کونسل کو علاقائی اور قومی و لسانی بندھنوں کی جکڑ سے آزاد کراتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر طلبہ حقوق کی جدوجہد کو منظم کیا جا سکے۔
اس طرح سے پاکستان کے چند تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے الیکشن بھی کرائے جاتے ہیں اور اس قسم کی کئی ایک سوسائٹیاں بھی بنی ہوئی ہیں۔ اول تو یہ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن میں پڑھنے کا خواب صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ ہی دیکھ سکتا ہے، حتیٰ کہ درمیانے طبقے کی بھی بالائی پرتیں ان اداروں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اور یہاں طلبہ یونین کا کردار قطعاً ماضی کی یونین کی طرح نہیں ہے۔ اس کے الیکشن کسی نظریے یا طلبہ کے مسائل کی بنیاد پر نہیں ہوتے، کیونکہ ووٹ دینے والوں اور لینے والوں دونوں کا ایک ہی نظریہ اور طبقہ ہوتاہے۔ ان اداروں میں یونین سازی کا مقصد صرف حکمرانوں کی آئندہ نسل کو تیار کرناہوتا۔ یوں یہ عمل ایک پریکٹس یا ڈرِل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں بائیں بازو اور ترقی پسند طلبہ سیاست کا زوال ہے وہیں دایاں بازو بھی شدید بحرانی کیفیت میں ہے۔ آج کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی بھی مذہبی، رجعتی طلبہ تنظیم کی طالب علموں میں بنیادیں موجود نہیں ہیں۔ جس کی بوکھلاہٹ میں وہ غل غپاڑے، غنڈہ گردی اور دھونس کے ذریعے اپنے ہونے کا احساس خود اپنے آپ کو دلا رہے ہیں، حقیقتاًوہ بہت کمزور اور نحیف ہی ہوئے ہیں۔ طلبہ کا کوئی ایک سنجیدہ ردعمل ان کی اصلیت کو بے نقاب کردیتا ہے۔ جس طرح ہم نے ماضی کے تین سالوں کے مختلف واقعات میں دیکھا گیا ہے، جب 2014ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جینڈر اسٹڈیز کے شعبے کی طالبات پر تشدد کے ردعمل میں تمام طلبہ نے جمعیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور پھر بعد میں اسی طرح کا واقعہ کراچی یونیورسٹی میں پیش آیا جب لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر ان کو تشدد کا نشانہ بنانے پر طلبہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ان واقعات میں جب طلبہ ہر قسم کی تقسیم کے بالا تر ہوکر لڑے تو کامیا ب بھی ہوئے اور بنیاد پرستوں کے کھوکھلے وجود کو بے نقاب بھی کیا۔ اور کئی ایک مقامات پر تو طلبہ نے یکجا ہو کر انتظامیہ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، انہوں نے ملتان ایجوکیشن یونیورسٹی کی انتظامیہ کو زیر کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوائے۔
پچھلے دنوں میں لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور میں ہونے والے ہنگاموں کو اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو ایک چیز واضح ہے کہ مذہبی جنونیت کا مقابلہ قومی شاونزم سے نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے لیے طلبہ کی سنجیدہ جڑت درکار ہے۔ اس ضمن میں جہاں پہلے سے موجود طلبہ کی کونسلوں، تنظیموں اور سوسائٹیوں میں انقلابی نظریات متعارف کرانے کی ضرورت ہے وہاں پر اس بات کا بھی ادراک رکھنا پڑے گا کہ ان تنظیموں سے ہٹ کر طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جس نے طلبہ سیاست کا صرف لڑائی جھگڑے اور فسطائیت کا کردار دیکھا ہے اور اس سے شدید نالاں ہیں۔ اس کیفیت میں ان تک رسائی حاصل کرنا اور ان کوطلبہ سیاست و یونین کے درخشاں ماضی سے متعارف کرانا انقلابیوں کا اولین فریضہ ہے۔ جو خلا ان تنظیموں کے کردار کی وجہ سے طلبہ اور سیاست میں پیدا ہوا ہے اس کو پُر کرتے ہوئے طلبہ کی ایک سچی انقلابی تنظیم کی بنیادیں استوار کرناہوں گی ہے، جو قومی، مذہبی، لسانی، جنسی اور صنفی تقسیم کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے صرف طبقاتی مسائل کی بنیاد پر طلبہ کو ایک لڑی میں پروئے۔
Leave a Reply