🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

پنجاب میں اسلام قسط # 2

Back to Posts

پنجاب میں اسلام قسط # 2

ــــــــــــــــــــــــــــــ محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں مسلمان مجاہدین جب سندھ کے راجہ داہر کو شکست دیتے ہوئے مزید آگے بڑھے ان فوجوں نے پنجاب میں بھی ہندو حکمرانوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ اس مہم کے دوران اسلامی فوج جنوبی پنجاب اور ملتان میں بھی فتح یاب ہوچکی تھی ۔جو آنے والے وقت میں اسماعیلی فرقے کے مسلمانوں کا گڑھ بنا ۔ جیسا کہ اوپر سندھ کے متعلق مذکور ہو چکا ہے کہ سنہ 265 ہجری میں خلافت عباسیہ کے بتدریج زوال پزیر ی کے بعد صوبہ سندھ بھی بے تعلق اور آزاد ہو گیا ۔ یہاں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں ۔ ایک کا دارالحکومت ملتان اور دوسری کا دارالحکومت منصورہ تھا ۔ سلطنت منصورہ میں ملک سندھ کا جنوبی حصہ شامل تھا اور ملتان کی حکومت شمالی حصہ پر قائم تھی ۔ 265 ہجری میں خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد ایک صدی کے بعد سندھ سے مسلمان حکومت کی عمل داری ختم ہو چکی تھی ۔ جب کہ ملتان کی ریاست اس وقت تک قائم تھی جب کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا ۔ محمود غزنوی نے پنجاب اور ملتان سے لے کر خراسان کے مغربی سرے تک اور خلیج فارس سے لے کر دریائے جیحون تک اپنی سلطنت کو وسعت دی ۔محمود غزنوی نے سترہ حملے ہندوستان پر کئے ۔ اس کے بعد اس کی حکومت کو زوال آیا اور افغانستان و پنجاب پر خاندان غوری قابض ہوا ۔ اس کے بعد باقاعدہ پہلا مسلمان بادشاہ جو ہندوستان پر حاکم ہوا وہ قطب الدین تھا جو شہاب الدین غوری کا غلام تھا ۔ خاندان غلاماں کے بعد خلجی خاندان نے حکومت کی ۔ پھر تغلق پھر خضر خاں کا خاندان اور پھر لودھی اور ان کے بعد مغل افغانستان سے آئے ۔ مغلوں کے بعد ایک طویل عرصے تک پنجاب کا علاقہ مرہٹوں اور سکھوں کے زیر اثر رہا ۔ تاآنکہ جنگ آزادی کے بعد پنجاب مکمل طور پر برطانوی سامراج تلے آ گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کا ایک حصہ پاکستان کو اور دوسرا بھارت کو ملا ۔

پنجاب اور مسلم حکمران
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 711
–713: دور خلافت بنو امیہ، سپہ سالار اول محمد بن
 قاسم
713–1300: سلطنت دہلی ترک سلاطین

1206–1290: مملوک سلطنت (دہلی) فرمان روائے اول محمد غوری

1290–1320: خلجی فرماں روائے اول جلال الدین فیروز خلجی

1320–1413: تغلق خاندان فرماں روائے اول غیاث الدین تغلق
1414–1451: سیّد خاندان فرماں روائے اول خضر خان
 1451–1526: لودھی خاندان فرماں روائے اول بہلول خان
 لودھی
1526–1707: مغل
1526–1530: ظہیر الدین محمد بابر
1530–1540: ناصرالدین ہمایوں
1540–1545: شیرشاہ سوری
1545–1554: اسلام شاہ سوری
1555–1555: ناصرالدین محمد ہمایوں (دوبارہ اقتدارحاصل کیا )
1556–1605: جلال الدین محمد اکبر
1605–1627: نورالدین محمد جہانگیر

1627–1658: شہاب الدین محمد شاہ جہاں
1658–1707: محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر
1707: مغلیہ سلطنت کا زوال
1739: ایران سے نادر شاہ کی آمد
1748–1769: احمد شاہ ابدالی کی آمد(درانی)
1749-1848: سکھ مذہب کے ماننے والوں کا دور حکومت
1849–1947: پنجاب پہ انگریزوں کا راج

1947: تقسیم ہندوستان کے تحت پنجاب کے دوحصے ہوئے جس میں سے مشرقی پنجاب ( دو دریاؤں سمیت) کا حصہ بھارت کو اور مغربی پنجاب(تین دریاؤں سمیت ) پاکستان کے حصے میں آیا ۔

خیبر پختونخوا میں اسلام
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
اس علاقے میں اسلام کی آمد سے پہلے ہندو مت ، زرتشتی مذہب، بدھ مت اور مظاہر پرستی /شمن پرستی کے ماننے والوں کا دور دورہ تھا ۔جو ترک اور عرب حکمرانوں کی آمد کے ساتھ ہی مفتوح ہوگئے۔ فی زمانہ صوبہ خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام باشندگان مسلمان ہیں جن میں سُنّی سب سے زیادہ ہیں ۔اسلام سب سے پہلے برصغیر میں اس وقت آیا جب محمد بن قاسم نے سندھ سے برصغیر میں اسلام کی بنیاد رکھی،لیکن سندھ سے صرف بنیاد رکھی گئی باقی اسلام ہندوستان میں پھیلا تو اس وقت جب باب خیبر سے افغان ترک اور عرب برصغیر میں داخل ہوئے۔ یوں سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات) ہی وہ خطہ ہے جس کے ذریعے افغان ،فارسیبان،ترک اور عرب ہندوستان میں داخل ہوئے اور یوں پورے برصغیر میں اسلام پھیلتا گیا۔ 
بعد از اسلام
 ـــــــــــــــــــــــــــ 
بدھ مت اور شمن پرستی اُس وقت تک بڑے مذاہب رہے جب تک مسلمانوں اور ترکوں نے 10 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں قبضہ کرلیا. رفتہ رفتہ پشتون اور دوسرے قبیلے اسلام میں داخل ہوتے رہے ۔ اِس دوران انہوں نے اپنے کچھ روایات برقرار رکھے جیسا کہ پشتونوں کی روایت پشتونولی یا ضابطۂ وقار و عزت ۔ صوبہ خیبر پختونخوا عظیم اِسلامی مملکت یعنی “غزنوی مملکت” اور “غوری مملکت ” کا حصہ بھی رہا۔ اس زمانے میں باقی ماندہ مسلمان ممالک سے مسلمان تاجر، اساتذہ، سائنسدان، فوجی، شاعر، طبیب اور صوفی وغیرہ یہاں جوق در جوق آتے رہے۔ اس علاقے کے اسلامی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ایک نمایاں نام مشہور شاعر و مجاہد خوش حال خان خٹک کا ہے ۔ مُغل حکمران اورنگزیب کے دَور میں، پشتون قوم پرست شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے کئی پشتون قبائل کو حکمرانوں کے خلاف بیدار کیا، جس کی وجہ سے اِس خطے کو قابو میں رکھنے کے لئے بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی ۔ 
برطانوی دور اور تحریک پاکستان
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
اٹھارہویں صدی میں درانی حکومت کے مستحکم ہونے کے بعد انگریزوں نے اس اسلامی خطے پر اپنا تصرف برقرار رکھنے کے لیے اپنی کافی وسائل پھونک ڈالے ۔ 1893ء میں اس خطہ کو جو پختونوں اور افغانوں کے حوالے سے مشہور تھا دو حصوں میں ڈیورنڈ لائن کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے ایک حصہ برطانوی ہندوستان میں آیا اور باقی ماندہ افغانستان میں آیا جہاں انگریزوں نے بالواسطہ طور پر جزوی حکومت کی ۔ پاکستانی حصے میں جس کا نام 1901میں “سرحد ” رکھا گیا ، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانون ساز انجمن کا افتتاح کیا ۔ پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے ۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس علاقے میں حق خود ارادی کا اختیار ملا اور آزاد اُمیدوار اور مقامی جاگیردار صاحبزادہ عبدالقیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے ۔
 قیام پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
برطانیہ سے آزادی کے بعد، 1947ء کے اِستصوابِ رائے میں صوبہ خیبر پختونخوا نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی ۔ 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے تک پختونستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں تک تنازعات کا مؤجب بنا ۔ حملے کے سبب پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جو زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخوا میں قیام پزیر ہوئے (2007ء کے شمار کے مطابق قریباً تیس لاکھ ابھی بھی رہتے ہیں). افغانستان پر سوویت کے قبضے کے دوران، 1980ء کی دہائی میں صوبہ خیبر پختونخوا مسلمان مجاہدین کا بہت بڑا مرکز تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑرہے تھے ۔
 کشمیر (پاکستانی خطہ) میں اسلام
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
کشمیر میں اسلام چودھویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور انکے ایک ہزار مریدوں کے ساتھ پہنچا۔ بودھ راجہ رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔یوں راجہ رنچن سلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔بعد ازاں ایک ایرانی صوفیمیر سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں ، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ اسی دور میں شمس الدین عراقی اور انکے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا۔ انہوں نے چک خاندان کی مدد سے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیاآزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی 99 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ بلتستان میں اکثریت شیعہ جبکہ گلگت میں اکثریت اسماعیلیوں کی ہے۔ آزاد کشمیر میں اکثریت سنی مسلم ہے۔ ماخوذ از اصل موضوعکشمیر(حصہ:اسلام)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts