ڈاکٹر رشید حسن خان
ڈاکٹر رشید حسن خان
وہ گرمیوں کی ایک سہ پہر تھی۔ من موجی ایک دوست کے گھر پر اپنے جند دوستوں اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پہنچا، تو لاھور کا حبس اپنے جوبن پر تھا۔ گھر سے کوئی آدہے گھنٹے کے فاصلے پر سیف کا گھر ایک نامکمل سا گھر تھا۔ جس کے مین دروازے سے داخل ھوتے ہی کچا صحن تھا، جس میں آٹھ نو کرسیاں تھیں اور ایک دو چارپائیاں۔ سامنے دو کمرے تھے۔
عصر کے بعد سیف پانی کا چھڑکاؤ کر دیا کرتا تھا تاکہ مہمانوں کو گرمی کا قدرے کم احساس ھو۔ ہر ہفتے یہاں محفل جمتی۔ اور کوئی نہ کوئی مہمان بلا یا جاتا۔ سیاسی اور معاشی نیز سماجی امور پر مہمانِ خصوصی لیکچر دیتا اور پھر سوال وجواب کا سلسلہ شروع ھو جاتا۔
اِس دوران سیف چائے کا پانی رکھ دیتا اور بات چیت کے اختتام کے نذدیک چائے کے ساتھ کوئی نہ کوئی لوازمات بھی پیش کئے جاتے۔
مغرب کے نزدیک جب مچھروں کی یلغار ھوتی تو محفل برخاست ھوتی۔ ہلکی پھلکی بات چیت کے بعد، دوست یار رخصت ھوتے۔
ڈاکٹر صاحب تنظیمی دورے پر لاھور آئے ھوئے تھے۔ اور من موجی کے گھر ٹھہرے ھوئے تھے۔
جب من موجی، ڈاکٹر صاحب اور دیگر دوست سیف کے گھر پہنچے تو محفل سجی ھوئی تھی اور ایک صاحبہ مع اپنی ایک ھم خیال کے لیکچر دے رھی تھیں۔ اُن کا موضوع ”عورتوں کے حقوق اور ترقی پسند تحریک” یا کچھ اسی قسم کا موضوع تھا۔
خاتون ذہین ھونے کے ساتھ ساتھ بلا کی حسین تھیں۔ چونکہ سارے حاضرین ایک سنجیدہ موضوع کے لیئے جمع تھے اِس لئے سب اُن کے حسن کی تابناکی کو نظر انداز کئے ھوئے تھے۔ من موجی کے دل میں ہلچل تھی۔ وہ بلا کی حسیں تھی۔ من موجی اُس کے حسن، ذہانت اور بے باکی سے متاثر تھا۔
مغرب کے بعد، جب من موجی ڈاکتر صاحب کے ساتھ گھر لوٹا تو رات کے کھانے پر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ راحیلہ بہت ذہین لڑکی ہے۔
من موجی نے انجان بنتے ھوئے کہا، ”جی ھاں۔۔۔”
ڈاکٹر صاحب نے لقمہ لیتے ھوئے کہا،
” ایسی لڑکیاں جو امیر ماں باپ کی اکلوتی اواد ھوتی ہیں۔۔۔۔ شادی کے بعد اپنے شوہر کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں اور سیاست سے دور کر دیتی ہیں۔۔۔۔”
من موجی ڈاکٹر صاحب کی بات کا مطلب سمجھ گیا۔
—– —– —-
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔
وقت کے دھارے نے من موجی کو لاھور سے کراچی لا پھینکا۔ من موجی کبھی کبھار ڈاکٹر صاحب سے ملتا۔۔۔۔ مگر روزی روٹی کی بھاگ دوڑ نے من موجی کو اتنا مصروف کر دیا کہ ملنا ملانا ۔۔۔۔ ناممکن ھو گیا۔ پھر کچھ ایسی مجبوریاں آن پڑیں کہ اں سے ملنے کا مطلب تھا سیاسی حلقوں اور مرتکز نگاہوں کے زیر آ جانا۔ ڈاکڑ صاحب کو بھی دکھ تھا کہ من موجی ملتا نہیں۔ کبھی جب فون پر بات ھوتی تو وہ سخت طیش والے انداز میں احتجاج کرتے اور من موجی کے پاس کوئی جواب نہ بن پڑتا۔ لہذا من موجی اب فون کرنے سے بھی گیا۔
کرچی جیسے شہر میں جہاں گولی ایک آسان آلہّ قتل اور قتل ایک آسان حربہ ہے، وھاں سچی سیاست کرنا گناہ بلکہ غلطی کا نام ہے۔
یہان زندہ رھنے کے لیئے من موجی کو اپنے شعور کو مارنا پڑا۔ شعور کا قتل، جسم کو زندہ رکھنے کے لیئے ضروری تھا۔
——————-
ڈاکٹر صاحب نے شادی نہیں کی تھی۔ یا تو وقت نے ملہت نہیں دی یا چاھت نے دوری اختیار کر لی یا انقلاب کی دلہن ہی من میں ایسی بسی کہ کسی اور چاھت کی ضرورت نہ رھی۔ یا وہ جانتے تھے شادی سچی سیاست کرنے والوں کو راس نہیں آتی۔ کبھی کبھی من موجی سوچتا کہ اگر وہ شادی نہ کرتا تو وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح آزاد زندگی گذارتا اور ضمیر کی لے پر لہکتا۔
—————–
کل 30 اپریل کو من موجی سارا دن آفس کا نیا فرنیچر خریدنے میں مصروف رھا۔ رات کو لوڈ شیڈینگ نے ایسا تھکا دیا کہ جب لائیٹ آئی تو نیند نے آدبوچا۔
——————-
آج جب من موجی ڈان اخبار خرید کر لایا تو انتقال پُر ملال کا اشتہار پڑھا۔ علم ھوا ڈاکتر رشید حسن خان کل 30 اپریل، 2016 کو سوتے میں انتقال کر گئے۔ اُنہیں پچھلے سال میجر ھارٹ اٹیک ھوا تھا۔ کافی سال پہلے اینجئیو پلاسٹی بھی ھوئی تھی۔
اُنہوں نے ایک دفعہ من موجی سے کہا تھا اُنہیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔ قدرت نے اُن کی لاج رکھ لی۔
من موجی نے آج تک اُن جیسا نڈر، بے باک، سچا، کھرا اور بہادر شخص نہیں دیکھا۔ ابتدائی دنوں میں جب من موجی کراچی آتا تھا تو اُن سے ملاقات ھوتی تھی۔ عجیب پراسرار معلوم ھوتا تھا سب کچھ۔ ایسے لگتا تھا جیسے من موجی وقت سے پہلے ایک اعزاز سے نوازا جا رھا ہے۔ اُسے اہمیت دی جا رھی ہے۔
—————–
اتنا بڑا رہنما ہونے کے باوجود، وہ اور من موجی عام سڑک پر کھڑے بس کا انتظار کرتے تھے۔ من موجی جانتا تھا وہ وقت کے سکندر کے ساتھ کھڑا ہے، لوگ ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتے اُن کے درمیان کون کھڑا ہے۔
من موجی یہ بھی جانتا تھا وہ اُس وقت کے سکندر کے ساتھ کھڑا ہے جسے حالات کی ستم ظریفی نے دھول میں دھندلا دیا ہے۔۔۔۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔۔۔ مگر جو جانتے ہیں وہ صرف ”ڈاکٹر صاحب” کے نام سے ہی چوکنے ھو جاتے ہیں۔ اُن کی آنکھوںمیں چمک آجاتی ہے۔
وہ وقت کا سکندر عام سے آدمی کی طرح عام سی بس میں دھکے کھاتا چڑھ جاتا تھا۔ دھکم پیل۔۔۔۔ میں مسکراتا تھا۔
بس سے اُتر کر وہ دونوں پیدل چلے ھوئے اُن کے رفاہی کلینک پہنچتے۔ سگریٹ پیتے اور چائے سے لظف اندوز ھوتے۔ یہ من موجی کا اعزاز تھا کہ وہ بہت دور کا بونا ھونے کے باوجود ایک بہت قد آور شخصیت کے ساتھ ھم رکاب اور ہم دم تھا۔ یہ تاریخ کی مہربانی تھی۔
بڑی بڑی گاڑیوں میں پروٹوکول کے ساتھ فراٹے بھرنے والے فنا ھو جاتے ہیں، مگر جو وقت کے سکندر ھوتے یہں اُن کے نام سُرخرو رھتے ہیں۔ کئی لوگ آئے، جو پیدل تھے، اور جب اسمبلیوں میں بیٹہے تو پیجارو سے اُترے۔ جو چاپ لوسی کرنے محل میں داخل ھوئے اور جب واپس پلٹے تو بھری ھوئی جیبوں سے۔ جو سُرخ ہے سُرخ ہے کے نعرے لگاتے ھوئے بیرونِ ملک پہنچے اور وھاں انقلاب کی رام لیلا پڑھنے لگے۔
کبھی کبھی من موجی کو لگتا وہ بھی ایک دغا باز ہے، جو بے شک نہ تو پیجارو میں بیٹھا ہے، نہ جیبیں بھر کے نکلتا ہے اور نہ مفاد کے مندر میں رام لیلا جپتا ہے، مگر کہیں نہ کہیں اُن سے ایک عرصہ تک رابطہ نہ رکھ کر من موجی نے کوئی نہ کوئی دغا بازی ضرور کی ہے۔
30 اپریل کو نیند ہی میں یہ دنیا چھوڑنے والا بڑے سکون سے باضمیر ھو کر گیا۔
وقت کا باغی جب محلوں کو ڈھا کر سماج کی نئی دیواروں پر نئی تاریخ لکہے گا، تو بڑے بڑے سیاست کے چودھریوں، خانوں اور سرداروں اور بیروکریٹس کے نام نہ لکہے گا، وہ لکہے گا اُن لوگوں کے نام جو عام عوام میں سے تھے اور من موجی کو یقین ہے، اُن سنہری ناموں میں ”ڈاکٹر رشید حسن خان” کا نام سرِفہرست ھو گا۔
اور اگر وقت نے وفا کی تو من موجی اُس وقت، بایر سماج کے نئے چوراہے پر غریبوں کے جوتے مفت گانٹھا کرے گا موچی بن کر۔۔۔۔
Leave a Reply