عوامی سطح پر صورتحال کچھ الگ تھی جبکہ بادشاہوں نے اپنے محلات میں بیگمات کی حیثیت سے کئی
عورتوں کو رکھنا شروع کردیا تھا، لیکن عورتوں کو باقائدہ حرم کی شکل ایرانی حکمرانوں نے دی یا پھر بازنطینی بادشاہوں نے۔ حرم کا مطلب یہ تھا کہ تمام خواتین جن سے بادشاہ کا تعلق ہوتا تھا، انہیں سب سے علیحدہ کر کے محلات میں حفاظت سے رکھا جاتا اور اس کے بعد انہیں اجازت نہیں ہوتی کہ وہ بادشاہ کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے شادی کریں یا جنسی تعلق رکھیں۔ یہ عورتیں بادشاہ کی عزت و آبرو اور شان بن جاتی تھیں۔ ان کی حفاظت کیلئے خواجہ سرا ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ عثمانی سلاطین اور مغل بادشاہوں کے ہاں موجود تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ عورت کا باعصمت، پاکباز، باحیا اور با شرم ہونا لازمی ہوچکا تھا، اس لیے عورت اور گھر ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوچکے تھے اور اسی سے اور مثالی عورت خوبیاں بیان کرنے والا ادب لکھا جانے لگا۔ اس قسم کی ایک کتاب کام شاستر ہندوستان میں لکھی گئی ۔ اس کتاب میں خصوصیت سے ہندوستان کی اس سماجی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے جو کہ امراء کے طبقے میں تھی۔ اس کتاب کے مطابق ایک اچھی بیوی میں ان شرائط کا ہونا لازمی ہے: ماں باپ زندہ ہوں، شوہر سے کم از کم تین سال چھوٹی ہو، اچھے خاندان سے ہو، دولت مند ہو، خاندان بڑا اور اتفاق رکھنے والا ہو، جسمانی طور پر خوب صورت ہو اور اچھے کردار کی مالک ہو، جسم پر خوش قسمتی کے نشانات ہوں، دانت، ناخن، کان، بال، آنکھیں اور سینہ متوازی ہوں وغیرہ۔ دوسری جانب مسلمان معاشرے کے بارے کی ایک اچھی سند امام غزالی کی ہے۔ جنہوں نے احیاء العلوم میں ایک مثالی عورت کی خوبیاں بتائی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک اچھی بیوی وہ ہے جو نیک بخت و دین دار ہو، اگر اپنی ذات و شرم گاہ میں کچی ہوگی تو خاوند کو حقیر کرے گی اور اس سے لوگوں میں اسکا منہ کالا ہوگا۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ نکاح کا مطلب لونڈی ہوجانا ہے، لہٰذا بیوی شوہر کی لونڈی ہے اور اس لیے اس پر مطلق فرمانبرداری واجب ہے۔
اس کے علاوہ فرانسیسی جرنیل نیپولین بوناپارٹ نے عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے کہا کہ ان کیلئے تعلیم زیادہ ضروری نہیں کیونکہ ان کی زندگی کا اولین و آخری مقصد شادی کرنا ہوتا ہے، لہٰذا ایک مثالی عورت کی تعلیم و تربیت خاص حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ صرف اتنی جس قدر شوہر کو کو ضرورت ہے۔
معاشرے میں موجود اس طرح کے نظریات کا مقصد فقط یہ تھا کہ کس طرح سے عورت کی صلاحیتوں کو محدود کیا جائے اور اس کی ذہانت کو کیسے آگے بڑھنے سے روکا جائے اور اس مقصد میں مذہبی و سماجی روایات نے مرد کی مدد کی۔
عورت جب طوائف کی شکل میں نظر آتی ہے تو یہ دلائل دیئے جاتے ہیں کہ یہ ایک قدیم ترین پیشہ ہے اور چونکہ اس پیشے کی ضرورت رہی ہے اس لیے اس کا وجود بھی ہوگیا۔ اس پیشے کا ذمیدار مکمل طور پر عورت کو ہی ٹھرایا گیا ہے اور اس سوال سے کنارہ کشی کی گئی ہے کہ کیا اگر گاہک نہ ہوتے تو یہ پیشہ ہوگا؟ اسی طرح سے عورت اپنے اس روپ کی زمیدار ٹھرائی جاتی ہے۔ ہندو مذہب میں چونکہ ذات پات کے بارے میں سخت اصول ہیں اس لیے اوپر کی تین اعلیٰ ذاتوں کی عورت طوائف نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ پیشہ نچلی ذاتوں کے لیے تھا۔ مہا بھارت میں بھی طوائفوں کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، وہ طوائفیں جو بادشاہ کی ضروریات کو پورا کریں۔ شہری طوائفیں جن کے مشہور کوٹھے ہوتے تھے کہ جہاں شہر کے امراء جاتے تھے، داسیاں جو کہ مندروں میں دیوتاؤں کی طوائفیں ہوتی تھیں اور عام طوائفیں۔
یہی صورتحال چین اور جاپان میں بھی تھی لیکن جاپانی معاشرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں عورت طوائف سے دوبارہ معزز بن سکتی تھی۔ دوسری طرف مسلمان معاشرے میں کنیز کی وجہ سے بیوی کا رتبہ گرا ہوا تھا اور یہاں بھی بیوی مرد کے تابع اور تسلط میں تھی۔یہاں مرد اپنی بیوی کو سختی کے ساتھ پردے میں رکھتا جبکہ کنیز کے ساتھ یہ سختی نہیں تھی۔ اس لیے معاشرے میں شادی شدہ عورت اور کنیز دو مختلف درجے رکھتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ خلیفہ مامون کے ہاں ایک شخص نے بیس یونانی کنیزوں کو دیکھا جو گردنوں میں صلیبیں ڈالے رقصاں تھیں۔
ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے عہد میں عورت تاریخ میں غائب نظر آتی ہے، یہاں تک کہ دربار کے مورخ بادشاہوں کی بیغمات کے نام تک نہیں دیتے سواء ان کے بارے میں احترامی جملے لکھنے کے۔
وینا تلوراولڈنبرگ نے لکھنؤ کی طوائفوں کے بارے میں لکھا ہے کہ نوابوں کے زمانے میں معاشرے میں طوائفوں کا مقام سماجی طور پر بلند تھا اور انہوں نے معاشرے کی ثقافتی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم جیسے ہی لکھنؤ کمپنی کے قبضے میں آیا یہاں کی صورتحال بدل گئی اور نوابوں اور امراء کا وہ طبقہ جو ان سرگرمیوں کی حفاظت کرتا تھا ختم ہوگیا اور یوں ۱۸۵۸ء کے بعد طوائف اور بدتر ہوکر رہ گئی۔
اس کتاب کے مصنف عورت اور شادی کے متعلق لکھتے ہیں کہ شادی کا ادارا عورت کے لیے اسے تحفظ دینے کے لیے ہے ۔ شادی کے بعد عورت باپ کی حفاظت سے نکل کر شوہر کی حفاظت میں آجاتی ہے۔عورت کے لیے اچھے اور قابل محافظ کو حاصل کرنے کے لیے جہیز کی رسم ہے تاکہ اسکی لالچ میںآکر وہ عورت کا محافظ بننا قبول کرے۔ جہیز کی رسم کی وجہ سے عورت کی سماجی حیثیت اور کمتر ہوگئی اور امیر طبقے کی عورت کی مانگ تو ہوتی ہے لیکن جس کے پاس جہیز نہیں ہوتااسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثلاً۱۶۹۸ء میں یورپ میں ایک امیر نے اپنے بیٹے کو خط میں لکھا کہ وہ تمہیں اپنی لڑکی دے رہے ہیں جس کی قیمت ۸۰ ہزار لیرا ہے۔چنانچہ جہیز کی خاطر اس لیے بھی شادیاں کی جاتی ہیں کہ اس سے مرد اپنا قرض ادا کر سکے، کاروبار کرے اور جہیز کے ساز و سامان و پیسے سے عیش کرے۔ہمارے معاشرے کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ مرد کی عمر بھلے عورت کے مقابلے میں کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو اس سے معاشرے کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن جب بیوی کی عمر مرد سے زیادہ ہو تو سب حیران رہ جاتے ہیں نہ فقط اتنا بلکہ بڑی عمر کی خواتین کو مختلف قسم کے طعنے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ہندو معاشرے نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسے شوہر کی چتا پرستی ہوکر جل مرنا چاہیے اور اگر وہ جلنا پسند نہ کرے تو پھر بطور بیوہ اسے ساری زندگی منحوس سائے کی حیثیت سے گزارنا ہوگی اور اگر شوہر جوانی میں ہی مر جائے تواس کا الزام بھی عورت کو ہی دیا جاتا ہے ۔
رینیساں کے زمانے میں یورپ میں شادی کی اہمیت ہوئی اور تحریک اصلاح مذہب کے زمانے میں مصلحین مذہب نے بھی شادیاں کیں مگر سترہویں صدی تک تصور یہی تھا کہ عورت نسل کو جاری رکھنے کا وسیلہ ہے۔ آگے چل کر شادی سے متعلق لوگوں کے تاثرات بدلے اور اس میں محبت کا عنصر بھی شامل ہوا اور مرد و عورت نے اپنی پسند کی روایت کو روشناس کرایا۔ ہمارے ہاں اب تک شادیاں ماں باپ کی مرضی سے ہوتی ہیں اور ابتدا ہی میں لڑکیوں کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ انہیں کس طرح سے اپنے شوہر کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا ہے۔اور عورت ہر حال میں اپنی شادی کو کامیاب کرنا چاہتی ہے اور یہی شرط شوہر کواس پر تشدد اور اسے اپنی خواہشات کے تابع بنانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔
اس معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ عورت کی عزت نہیں ہوتی جبکہ مرد ان الزامات سے پاک ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے ادارے کو مؤثر بنانے کے لیے لازم ہے کہ جب مردوعورت مساویانہ طور پر محبت و الفت کے رشتوں میں منسلک ہوں ۔
ہندوستانی معاشرے میں عورت عدم تحفظ کا شکار رہنے کی وجہ سے جب بھی گھریلو مسائل کا شکار ہوتی ہے تو ان کا تعویذوں میں تلاش کرتی ہے۔اس کی اصل وجہ سماج کا ڈھانچہ جن روایات پر قائم ہے ان کے تحت وہ خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی اور اپنی بے بسی کے باعث تعویذوں کا سہارا لیتی ہے۔اس عمل میں اگر تعویذ کا اثر ہو تو اگر کامیابی نہ ہو تو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر ہر اذیت برداشت کر لیتی ہے۔
اپنی تحریر کردہ کتاب میں احمد رضا خان بریلوی نے شوہر و بیوی کے مابین تعلقات کی خرابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعویذ تجویز کیے ہیں اور ساتھ ہی ان کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ عورت کو مرد کی سختیوں اور زیادتیوں کو برداشت کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ خدا نے اس مرد کی خدمت اس کو سونپی ہے اور اسکا اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔۔۔
اسی طرح عورت کے تعویذوں کی جانب مائل ہونے کا تعلق بھی اسکی سماجی پسماندگی کے باعث ہے۔
یورپ کے جاگیردار معاشرے میں عورت کو محض جائیداد سمجھا جاتا تھا، مگر جب جاسرمائیدارانہ معاشرہ شروع ہوا تب بھی اسکی سماجی حیثیت بلند نہ ہوسکی۔ اگرچہ عورت نے معاشرے کی صنعتی ترقی میں بھرپور حصہ لیا اور کارخانوں میں مردوں سے کم اجرت پر کام کیا اور ساتھ ہی گھریلو کام کو بھی سنبھالا مگر اسکے باوجود اسکی خدمات نظرانداز کی گئیں ۔
بورژوا معاشرے نے عورت کو مرد کے لیے استعمال کیا مثلاً عورت کی ذمیداری تھی کہ وہ بورژوا خاندان کے وارث کو آگے بڑھنے کی تربیت دے اور دوسرے بورژوا معاشرے نے عورت کو محض نمائش کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا جس میں عورت کا کام یہ تھا کہ وہ مرد کے ساتھی کی حیثیت سے نمائندگی کرے اور اسی طرح کا ادب بھی لکھا جانے لگا۔ اسی دؤر(۱۷۱۵ء) کی ایک کتاب Ladies Lexicon جس میں انکو بتایا گیا ہے کہ انہیں طبقہ اشراف کے ساتھ میل جول کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔اس کتاب کے مطابق عورت بہت موٹی نہ ہو، مگر زیادہ دبلی بھی نہ ہو، جب مسکرائے تو اس میں دلربائی اور شان ہو۔ اس کے کان سرخ اور چھوٹے ہوں۔ اسکی جلد ملائم ہووغیرہ وغیرہ۔۔۔ اسکے علاوہ ۱۷۴۷ء میں Squires of Beauty اور ۱۷۶۰ء میں Academy of the Graces میں مردوں کی خواہشات کے پیش نظر عورتوں کی جسمانی خوبصورتی کا تعین کیا گیا ہے۔
خوبصورت عورت کو فقط صنعتی دؤر میں ہی نہیں بلکہ جاگیردارانہ عہد میں بھی امراء نے اپنی لڑکیوں اور بیویوں کو بادشاہ کے لیے پیش کیا تاکہ وہ اسکے ذریعے بادشاہ سے قریب ہوسکیں اور مراعات حاصل کر سکیں۔بورژوا طبقے نے عورت کا یہی استعمال اشیاء کی فروخت کرنے کے لیے کیا اور اسکی خوبصورتی کو پیداواری چیزوں سے ملا کر لوگوں کے جذبات کو بھڑکاکے انہیں زیادہ سے زیادہ فروخت کیا گیا۔
ہندوستانی معاشرے میں جب عورت کی سماجی حیثیت و جدوجہد پہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو معاشرے میں تو کسی حد تک عورتوں کی جدوجہد جوکہ اب بھی جاری ہے نظر آتی ہے لیکن اس کے برعکس مسلمان معاشرے میں عورت کی آزادی اور ان کے حقوق لیے کوئی جدوجہد نہیں ہوئی بلکہ سر سید احمد خان جیسے لوگ بھی جو کہ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حامی تھے لیکن ان کی یہ روشن خیالی فقط مردوں کے لیے تھی۔ مسلمانوں کے لکھے گئے ادب میں عورت پر کیا گیا طنزو مزاح بھی نظر آتا ہے اور ساتھ ہی علماء کا طبقہ بھی عورتوں کی آزادی کی سخت مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان علماء کی تصانیف میں سے مشہور عالم اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی ذیور قابل ذکر ہے جس میں عورتوں کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ کتاب لڑکیوں کو شادی کے وقت تحفتًہ بھی دی جاتی ہے تاکہ اس کتاب میں بتائے گئے اصول و ضوابط کے مطابق وہ اپنے شوہر کی فرمانبردار رہیں ۔ یہ کتاب درحقیقت عورتوں کی بڑھتی ہوئی آزادی اور اسکی سماجی حیثیت میں تبدیلی کے خطرے کے باعث لکھی گئی۔
ان ساری رکاوٹوں کے باوجود ہندوستانی معاشرے میں عورت سے متعلق تبدیلی آتی رہی اور اس کی ایک وجہ یہاں کا بڑھتا ہوا سیاسی تحرک بھی تھا۔ تقسیم کے بعد اس عمل میں تیزی آئی اور ٹیکنالاجی نے بھی اپنا کردار نبھایا۔ لیکن ضیاء کا زمانہ پھر سے پاکستانی عورتوں کے لیے ناخشگوار رہا جس میں حدود آرڈی ننس اور اس قسم کے دیگر قوانین لاکر عورت کی ترقی کے اس عمل کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس معاشرے میں عورتوں کی تنظیمیں اپنے حقوق کے لیے لڑتی رہی ہیں اور جہاں انہیں ایک طرف تعلیم اور معاشی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی ہے وہیں دوسری جانب یہاں کے ثقافتی تسلط کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عورت کو کم تر بتانے والے تمام نظریات و افکار کی نفی کریں۔
عورت کے سیاست میں حصے سے متعلق ڈاکٹر مبارک علی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سیاست میں شریک ہونے مطلب تھا اقتدار میں شرکت کی جائے اور اقتدار کا مطلب تھا طاقت و قوت کے ذرائع پر کنٹرول کا حصول۔ اس لیے مرد کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ عورت کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ اس لیے عورت کی ذہنی کمزوری کی دلیلیں تلاش کی گئیں۔ ہندوستانی معاشرے میں سیاسی امور میں رضیہ سلطان کی مثال موجود ہے لیکن انہیں بھی تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑا ۔دوسری جانب نورجہاں نے مغل سلطنت کے استحکام اور دربار کی شان و شوکت بڑھانے میں حصہ لیا مگر اسکے باوجود اسے مخالفت کا سامنا ہوا اور مہابت خان نے بغاوت کرکے اسے اور جہاں گیر کو قید کردیا۔ اسی طرح ایک ایرانی دانشور برز چمبر لکھتے ہیں کہ ساسانی خاندان کو اس لیے زوال ہوا کہ انہوں نے اور باتوں کے علاوہ عورتوں پر بھی بھروسہ کیا۔
ہمارے ہاں آج بھی علماؤں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ عورتوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔
جوں جوں عورتوں میں سیاسی شعور بڑھ رہا ہے عورت اپنی شناخت کو تاریخ کی تاریکیوں اور دیومالائی قصوں سے نکال کر اجاگر کر رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب کی عورت مشرک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے آزاد ہورہی ہے اور ثقافتی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے زبان کے استعمال کو تبدیل کر رہی ہے۔ مثلاً بائیبل میں خدا کو اب تک بحیثیت مرد استعمال کیا جاتا تھا مگر یہ تحریک ہے کہ خدا کو غیر جانبدار کہا جائے۔
عورت کو آزادی اور مساوی مقام دینے سے نہ صرف آزادی ہوگی بلکہ معاشرے کو ایک نئی توانائی دے گی اور ان کی صلاحیتیں جو اب تک چار دیواری میں قید تھیں اور کھل کر سامنے آئیں گی اور پورے معاشرے کی از سرِ نو تعمیر کریں گی۔
Leave a Reply