ڈاکٹر مبارک علی نے اس کتاب کے ابتدائی کلمات میں حقوقِ نسواں کی ایک جرمن خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے
لکھا ہے کہ میری تاریخ کی کتابیں جھوٹ بولتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میرا وجود نہیں تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ میں مردوں خاص طور پر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کا ذکر تو بھرپور ہے لیکن اس میں خواتین کا وجود ثانوی یا مرد کی ملکیت کا سا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی تشکیل مرد نے دی ہے، اس میں عورت کا عمل دخل نہیں رہا۔ یہی وجہ تھی کہ مرد کو ہی معاشرتی تاریخ کا اہم محرک سمجھا گیا اور عورت کے اس میں شامل حصے پر کسی نے آنکھ نہ دھری۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ معاشرتی ارتقاء کے ابتدائی ادوار میں جنگوں کے بعد جب قبائل دوستانہ ماحول کی طرف بھڑتے تھے تو تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خواتین کو استعمال کرتے تھے۔ آسٹریلیا کے قدیم قبائل میں بھی یہ رواج تھا، اسکیمو قبائل کے لوگوں میں بیویوں کے تبادلے کا رواج تھا اور اس عمل میں عورت کی راء شامل نہیں ہوتی تھی اور اسے سارے احکامات ماننے پڑتے تھے۔ مرد نے ہمیشہ اپنا اقتدار بچانے کی خاطر عورت کو استعمال کیا جس کی ایک مثال ہے کہ بابر جب ثمرقند میں تھا تو اس کے دشمن شیبانی خان نے ثمرقند کا محاصرہ کرلیا اور بابر نے اپنی جان بچانے کی خاطر اپنی بہن خانزادہ بیگم کو شیبانی کے حوالے کردیا۔ دوسری جانب جب حکمران طبقے کو مخالفوں کے حملوں کی وجہ سے اپنی شکست نظر آتی تھی تو وہ اپنی عورتوں کو دشمنوں کی گرفتاری سے بچانے کیلئے قتل کردیتے تھے یا زندہ جلادیتے تھے (یعنی عورت خود کچھ بھی نہیں تھی اگر تھی تو مرد کی عزت و آبرو تھی)۔ قدیمی جنگوں سے لے کر عالمی جنگوں تک عورتوں کی عصمت دری کا رواج عام رہا۔ فاتحین، مفتوح خواتین کی عصمت دری کو اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ نہ فقط یہ بلکہ عورتوں کے حصول کی خاطر بھی جنگیں لڑی جاتیں جس کی مثالیں ہیلن آف ٹروئے سے لے کر پدماوتی تک ملتی ہیں۔
تاریخ میں عورت کا ذکر مرد حکمرانوں کو اپنی خوبصورتی سے قابو کرنے کا بھی آتا ہے، مورخ نورجہاں کو جہاں گیر کو قابو میں کرنے اور اپنی پسند کے فیصلے کروانے کا الزام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے حکومت میں خرابیاں ہوئیں اسی طرح جرمنی کے پہلے چانسلر بسمارک نے بھی پروشیا کی ملکہ کو الزام دیا کہ وہ بادشاہ کو فرانس کے خلاف جنگ نہ لڑنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
تاریخ میں عورت اگر ملکہ کی صورت میں نظر آئی تو مورخوں نے اس میں بھی خامیاں ہی تلاشیں۔ اور جب اس کا ذکر ماں کی صورت میں آیا تب بھی اس کی عظمت کو اس کے بیٹے کی بہادری سے جانا گیا۔ طوائف کی صورت میں عورت مرد کی نفسانی خواہشات کو پورا کرتے ہوئے نظر آتی ہے اور یہاں پر عورت کا کردار طبقاتی نظر آتا ہے کہ طوائفیں اپنی قربانی دیکر شریف عورتوں کی عزت محفوظ رکھتی ہیں ۔
۱۹۰۲ء میں ادب کا نوبل انعام پانے والے جرمن مورخ تھیوڈور مومزن نے رومیوں کے زوال کی وجہ بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ جیسے جیسے عورت کا سماجی رتبہ بڑھتا گیا، رومی معاشرہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔ نہ فقط یہ بلکہ انگلستان کے مشہور مورخ ٹوائن بی بھی انسانی تاریخ میں تباہی کا ذمیدار عورت کو ٹھراتا ہے۔
اسی مرد کی تصنیف کردہ تاریخ کے اندر عورت محض ایک شے کی مانند ہے اور اس کا کوئی علیحدہ وجود نہیں۔
تاریخ نے مرد کو جنگجو، بہادر اور ہر سماجی تبدیلی کا اہم محرک لکھا ہے جبکہ عورت کو جنگ سے نفرت کرنے اور مرد کو جنگ سے روکنے کا ذمیدار ٹھرایا ہے۔ اگرچہ وہ جنگ سے نفرت کرتی ہے مگر وہ مرد کی خوشی کی خاطر اپنے بچوں کو قربان ہونے کیلئے خوشی خوشی بھیج دیتی ہے۔
اس لیے خواتین کو تاریخ کی تشکیل نئے سرے سے کرنا ہوگی اور اپنی ذات جو مرد کے بنائے ہوئے اصولوں میں کھوئی ہوئی ہے اسے تلاش کرنا ہوگا اور اپنے کردار کو ابھارنا ہوگا۔ اس عمل سے گزرنے کیلئے اس کیلئے لازم ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں مرد نے اس کی ذات پر غلبہ حاصل کیا تاکہ ان حالات کو بدل سکے اور اپنی ایک الگ شناخت قائم کر سکے۔
ہندوستان میں موہن جو دڑو کی تہذیب میں تو عورت کی حیثیت بڑی نظر آتی ہے اور اس تہذیب کا معاشرہ مادری معاشرہ نظر آتا ہے لیکن آگے چل کر قصہ جب مہابھارت تک پہنچتا ہے تو اس کی حالت پسمندہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اسی دور میں دروپدی جس کے ایک زیادہ شوہر تھے، اس کے اس عمل کو بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا اور وہ نیک عورت کے طور پر سامنے آتیں۔ اور اسی دور میں نیوگ کی رسم بھی موجود تھی جس میں اگر اسے اپنے شوہر سے اولاد نہ ہو تو وہ کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلق رکھ سکتی تھی اور وہ ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی تھی لیکن اس دور میں شادی کا مقصد لڑکے ہی پیدا کرنا تھا۔ یہاں تک تو عورت کا کچھ رتبہ تھا لیکن رامائن کے دور میں اس کی حالت بالکل بدل جاتی ہے اور اس کا سماجی رتبہ ختم ہوجاتا ہے۔ رامائن کی ہیروئن سیتا مکمل طور پر شوہر کے تابے ہوتی ہے اورراون کے اسے لے جانے کے بعد جب وہ دوبارہ واپس آتی ہے تو رام جو اسے قبول کرنے سے انکار کرتا ہے کہ آگے اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کیلئے اپنے زمین میں دھس جانے کی دعا مانگتی ہے جو کہ قبول ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ہندوستانی معاشرے کا نمونہ سیتا بنتی ہے دروپدی نہیں۔
ہندوستانی معاشرے کی اس دور کے بعد آنے والی رسومات میں ستی کی رسم بھی ہے جس میں عورت مرد کے شوہر کی چتا پر جل جاتی ہے۔ ستی کی پہلی یادگار ۵۱۰ء میں مدھیا پردیش کے شہر اران میں ملتی ہے۔ اس رسم کے تحت عورت مکمل طور پر مرد کی ملکیت ہے اور اس کے شوہر کی وفات کے بعد اسے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ ستی کی رسم کے حوالے سے ابن بطوطہ نے بھی آنکھوں دیکھا حال اپنی تحاریر میں بیان کیا ہے۔ اس رسم کو اکبر نے ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بالآخر ۱۹۱۹ء میں اس رسم پر پابند لگی اور ساردا قانون کے تحت بچپن کی شادیاں ممنوع ہوئیں۔
چرچ اور عیسائی رہنماؤں کے قریب بھی عورت مردوں کیلئے باعث گناہ تھی۔ چرچ کے ایک بڑے رہنما سینٹ آگسٹائین کے بارے میں ان کے ایک طالبعلم لکھتے ہیں کہ ان کے گھر میں کوئی عورت قدم نہیں رکھ سکتی تھی، وہ کسی عورت سے اس وقت تک نہیں بولتا تھا جب تک کوئی تیسرا شخص موجود نہ ہو۔ اسی طرح سے چرچ کی جانب سے راہبوں پر عورتوں کے قریب جانے پر پابندی عائد کردی گئی اور یوں چرچ مزید عورتوں کے خلاف ہوتا چلا گیا۔ اور خطبوں میں بھی عورتوں کی برائیاں بیان کی جانے لگیں۔ اسی طرح رہبانیت کا مطلب تھا ترک دنیا یعنی دنیا کے عیش و آرام سے اور سہولیات کو چھوڑ کر عبادت اور ریاضت و تپسیا کے ذریعے روحانی مقامات بلند کرنا۔ اور ان صوفیا یا راہبوں کیلئے عورت ایک بڑی رکاوٹ تھی، بلکہ اس کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے ذہن سے عورت کے تصور کو نکال دے۔ ڈاکٹر این میری شمل کے مطابق صوفیا کے یہاں اکثر عورت شہوت پرست، طوائف، بے وفا اور ایک ایسی عورت کہ جو اپنے بچے کھاجاتی ہے کے روپ میں دکھایا جاتا ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح سید علی حجویری عورت کے فتنہ ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت آدم کیلئے جو پہلا فتنہ مقدر ہوا وہ عورت ہی کا فتنہ تھا۔
صوفیا کے نزدیک عورت ایک رقیب تھی جو خدا کی محبت کے درمیان آتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے چشتیہ سلسلے کے ایک صوفی شیخ کلیم اللہ اپنے خلفاء کو شادی سے منع کرتے تھے کہ عورتیں دین کو ختم کردیتی ہیں۔
عورت کی حالت کی بدتری ہر جگہ مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔
Leave a Reply