🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

’کاکوری ٹرین معرکہ‘ ۹ اگست 1925

Back to Posts

’کاکوری ٹرین معرکہ‘ ۹ اگست 1925

ٹرین لوُٹنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اِس سے پہلے 4 نومبر 1870 کو امریکہ میں ایک ٹرین لوٹی جا چکی تھی اور عین اسی طرح جیسی جیمز کا گروہ شکاگو کے نزدیک ۲۱ جولائی 1873 کو ایک ٹرین لوٹ چکا تھا مگر برِصغیر میں ۹ اگست ۱۹۲۵ کو ہونے والا ’کاکوری ٹرین معرکہ‘ اپنی نوعیت کا واحد ایسا معرکہ ہے جِسے برِصغیر کے عوام ایک معرکے کی حیثیت سے یاد رکھتے ہیں۔
سہارن پور سے لکھنؤ جانے والی ۸ ڈاون میں برطانوی سامراج برِصغیر سے لوٹا ہوا سونا لکھنؤ لے کر جا رہے تھے۔ یہ کوئی خفیہ بات نہ تھی مگر برِصغیر کے عوام ایک طویل اور صبر آزما آذادی کی جنگ سے بظاہر تھکے ہوئے نظر آتے تھے جِس نے انگریزوں کا مورال بلند کر دیا تھا اور کھلے عام انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ جاری تھی۔ سامراجی طرزِ جمہوریت کے نام پر پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہندوستانی امیر طبقات سامراج کی اِس لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار بن چکے تھے۔
ایسے میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن جو بعد میں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن بنی، اس کے ارکان اپنے خفیہ ٹھکانے میں بیٹھے ہوئے کسی ایسی کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے جو نہ صرف برِصغیر میں برطانوی سامراج کی جڑیں ہلا کر رکھ دے بلکہ آزادی کی جنگ کو آگے بڑھانے میں مددگار بھی ثابت ہو سکے۔
ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کے ان سرفروشوں میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجندر لہری، چندر شیکھر آزاد، سچندر بخشی، کشعب چکرورتی، مراری لعل گپتا (جن کا کوڈ نیم مکھنڈی لعل گپتا رکھا گیا تھا)، بنواری لعل اور دیگر انقلابی شامل تھے۔ کانپور میں ہونے والے اجلاس میں کامریڈز کی مختلف تجاویز تھیں۔ ہتھیاروں کی خریداری کے لیئے کسی بھی ہندوستانی ساہوکاریا جاگیردار کے ہاں دھاوا بول کر پیسہ تو مل سکتا تھا مگر اِس میں دو رکاوٹیں تھیں۔
اوّل یہ کہ اپنے ہی دیش واسیوں کو لوٹنے سے ایچ آر اے کے کامریڈز اسی عوام کی نظروں میں بدنام ہو جاتے جن کی آذادی کی جنگ وہ سر پر کفن باندھے لڑ رہے تھے۔
دوئم یہ کہ اِس طرح کے حملوں سے برطانوی سامراج پر ایک براہِ راست ضرب لگانا ممکن نہ تھا۔
یہ ایک خطرناک کام تھا۔ دورانِ سفر ٹرین میں ہتھیار بند پولیس اور برطانوی فوج موجود رہتی تھی۔ مگر یہ کر گزرنا ضروری تھا۔ آذادی کی جنگ کو کانگریس، مسلم لیگ یا ہندو مہا سبھا کے کھاتے پیتے لیڈروں پر چھوڑ دینا آزادی کی لڑائی سے دستبردار ہونے کے مترادف تھا۔ سو کانپور اجلاس میں یہ طے پا گیا کہ سہارن پور سے لکھنؤ جانے والی ٹرین، ۸ ڈاؤن کو کاکوری کے مقام پر روکا جائے گا اور وہ تمام سونا لوٹ لیا جائے گا جو برطانوی سامراج ہندوستان سے لوٹ کر لے جا رہے تھے۔
ایکشن کی تاریخ تھی ۹ اگست سن انیس سو پچیس۔
لکھنؤ اسٹیشن سے پہلے انقلابیوں نے کاکوری کے مقام پر ایمرجنسی زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روک لیا اور اس ڈبے میں داخل ہو گئے جس میں انگریز بھاری مالیت کا سونا اور سکوں کی صورت میں ہندوستان کا مال لوٹ کر لے جا رہے تھے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایچ آر اے نے جو تھیلے لوُٹے ان کی مالیت اس وقت کے فقط آٹھ ہزار ہندوستانی روپے بنتے تھے۔
اِس دوران احمد علی نام کے ایک مسافر نے مداخلت کی اور مسلح مزاحمت کا شِکار ہو گیا۔ ’کاکوری سازش کیس‘ کے مقدمہ میں احمد علی کی ہلاکت کو ’قتلِ عام‘ لکھا گیا اور انقلابی ساتھیوں کو سزا بھی ’قتلِ عام‘ ہی کی سنائی گئی۔
آٹھ ہزار روپے میں انقلابی جنگ کے لیئے ہتھیار تو کیا آنے تھے مگر اِس سے سامراج کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور شائد اِس کارروائی کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا۔
ہندوستان کے طول و عرض میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں، بس اسٹینڈوں اور طلباء ہاسٹلوں کے باہر پولیس کے ناکے لگا دیئے گئے۔ جس پر بھی شک گذرتا پولیس اس کو بے دریغ قتل کر دیتی۔ پولیس حوالات اور جیلیں ’مشکوک‘ افراد سے بھر دی گئیں۔ گویا آج اگر جعلی پولیس مقابلوں میں ترقی پسندوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور بلاجواز گرفتار کر لیا جاتا ہے تو یہ انہی سامراجی ہتھکنڈوں کی توسیع ہے جِس سے آج کے انقلابی بخوبی واقف ہیں۔
اِس ضمن میں برطانوی سامراج نے ملک کے طول و عرض سے چالیس افراد کو باضابطہ گرفتار کیا۔ ان کی تفصیل یہ ہے ۔۔۔۔۔
آگرہ سے چندر دھار جوہری اور چندر بھال جوہری
الہہ آباد سے شیتالہ سِہائی، جیوتی شنکر ڈکشت اور بھوپندر ناتھ سانیال
بنارس سے ممناتھ ناتھ گپتا، فانندرا ناتھ بینرجی، دھامودر سوارپ سیٹھ، رام ناتھ پانڈے، دیو دت بھٹا چاریہ، اندرا وکرم سنگھ اور مکھنڈی لعل
بنگال سے سچندر ناتھ سانیال، یوگیش چندر چیٹر جی، راجندر لہری، شرتھ چندر گوہا اور کالی داس بوس
ایتھا سے بابو رام ورما
ہردوئی سے بھیرو سنگھ
کانپور سے رام دلارے تریویدی، گوپی موہن، راجکمار سِنہا اور سریش چندر بھٹا چاریہ
لاہور سے موہن لعل گوتم
لکھمی سے ہرنام سندر لعل
متھُرا سے شِو چرن شرما ( ان کے وارنٹ نکل چکے تھے مگر شرما جی پوندی چیری نکل جانے میں کامیاب رہے)
میرٹھ سے وِشنو شرن دبلِش
اورئی سے ویر بھدر تیواری
پونا سے رام کِشن کھتری
رائے بریلی سے بنواری لعل
شاہجہان پور سے رام پرساد بسمل، بنارسی لعل، لالہ ہرگووند، پریم کرشن کھنہ، اِندو بھوشن مترا، ٹھاکر روشن سنگھ، رام دت شُکلا، مدن لعل، رام رتن شُکلا اور اشفاق اللہ خان.
پرتاپ نگر سے سچندر بخشی
ان میں سے سچندر ناتھ سانیال (سانیال بابو)، راجندر ناتھ لہری اور یوگیش چندر چیٹر جی کو پہلے ہی بنگال سے گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ اشفاق اللہ خان اور سچندر بخشی کو بعد میں گرفتار کیا گیا۔
گترفتار شدگان میں سے ۱۵لوگوں کو عدم شہادت کی بنیاد پر رہا کروا لیا گیا مگر ۲۸ لوگوں پر اور بھی کئی مقدمات بنا کر کارروائی کی گئی۔
چونکہ یہ کارروائی برطانوی سامراج پر ایک کاری ضرب تھی اِس لیئے ’کاکوری سازش کیس‘ کے تحت عبرتناک سزائیں دینے کے لیئے ایک ۲۱ مئی انیس سو چھبیس کو ایک اسپیشل سیشن کورٹ ترتیب دی گئی۔ بنچ میں مسٹر اے ہملٹن، عباس سلیم خان، بنواری لعل بھارگوا اور گیان چیٹر جی شامل تھے جبکہ عدالت کی معاونت کے لیئے محمد ایوب کو چنا گیا۔ اِس مقدمے میں خاص طور پراسیکیوشن کے لیئے جگت نرائن مُلا کو متعین کیا گیا کیونکہ جگت نرائن مُلا بال گنگادھر تلک کے سلسلے میں نکالے گئے جلوس کی وجہ سے، 1916 ہی سے بسمل جی کا سخت مُخالف تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ جگت نرائن ملا تاجِ برطانیہ کے خِلاف ’مین پوری سازش کیس‘ میں بھی سرکار کی طرف سے ہندوستانی عوام کے خِلاف وکیل تھا جِس میں جیوتی شنکر ڈکشت اور بسمل جی کو ’مفرور اشتہاری‘ قرار دیا گیا تھا۔
بہرحال، جب ’کاکوری سازش کیس‘ شروع کیا گیا تو اشفاق اللہ خان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیئے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب انہوں نے برطانوی سامراج کے جبر و تشدد کا جرات مندی سے کامیاب مقابلہ کیا تو 18جولائی 1927
کو انگریزوں نے اتر پردیش(اودھ) میں مسٹر جے۔ آر۔ ڈبلیو بینیٹ کی اسپیشل سیشن کورٹ میں سچندر بخشی اور اشفاق اللہ خان پر ایک اِضافی مقدمہ قائم کر دیا۔
مگر کیا کیجیئے کہ ہر عہد اور ہر جگہ کے انقلابیوں کی دماغی ساخت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ جوں جوں وقت کا جبر بڑھتا ہے توں توں انقلاب کا شعلہ ان کے سینوں میں توانا ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ہوا۔
رام پرساد بسمل، ٹھاکر روشن سنگھ، راجندر ناتھ لہری اور اشفاق اللہ خان کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
سچندر ناتھ سانیال (سانیال بابو) اور سچندر بخشی کو کالا پانی کی سزا ہوئی۔
(یہاں بتاتا چلوں کہ کالا پانی 572 جزیروں پر مشتمل جزائر انڈیمان اور نکو بار میں واقع ایک سیلولر جیل تھی جو 1896 سے لے کر 1906 تک کے عرصے میں برطانوی سامراج نے بنائی تاکہ ۱۸۵۸ کی جنگِ آذادی کے قیدیوں کو اُس میں رکھا جا سکے، بہت سے ’امیر انقلابی‘ ایک Pleasure trip کے طور پر کالا پانی کی سیلولر جیل کی سیاحت کو آج بھی جاتے ہیں۔ وہاں سے ذندہ واپس آنا تقریباً ناممکن ہی تصور کیا جاتا تھا)
ممناتھ ناتھ گپتا کو 14 سال قید بامشقت ہوئی۔
یوگیش چندر چیٹرجی، مکھنڈ لعل، گووند چرنکار، راجکمار سنگھ اور رام کرشن کھتری کو دس سال قید با مشقت ہوئی۔
وِشنو چرن دبلِش اور سریش چرن بھٹا چاریہ کو سات سال قید با مشقت ہوئی۔
بھوپن ناتھ سانیال اور پریم کرشن شرما کو پانچ سال قید با مشقت ہوئی۔
اور کشعب چکرورتی کو چار سال قید با مشقت ہوئی۔
تاہم چندر شیکھر آذاد بہروپ بدل کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے ہی بھگت سنگھ اور نوجوان بھارت سبھا کے کامریڈزکے ساتھ مل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کے نام سے انقلابیوں کو از سرِ نو منظم کیا۔
( چندر شیکھر آذاد کی مکمل تفصیلات گزشتہ مضمون میں درج کی جا چکی ہیں)
اب برطانوی سامراج یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ان انقلابیوں کو شہید کر کے یا جیلوں میں ڈالنے سے آذادی اور انقلاب کی شمع بجھ جائے گی۔ مگر ایسا ہو تو نہیں سکتا۔ نہ تب ہو سکتا تھا اور نہ آج ممکن ہے۔ لہٰذہ ان عظیم انقلابیوں کو ہندوستان کی علیحدہ علیحدہ جیلوں میں ڈال دیا گیا تاکہ یہ دوبارہ اکٹھے نہ ہو سکیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھیئے کہ علیحدہ علیحدہ جیلوں میں ہونے کے باوجود ان سرفروشوں کے انقلابی نظم و ضبط میں کوئی کمی نہ آئی۔ جب انہیں جیل کی وردی پہننے کو کہا گیا تو انقلابیوں نے اپنی اپنی جیلوں میں بھوک ہڑتال کر دی اور سب کا مؤقف یہی تھا کہ وہ اپنے دیس کی آذادی کے سپاہی ہیں، لہٰذہ ان کے ساتھ مجرموں والا سلوک روا نہ رکھا جائے اور نہ انہیں مجرموں والی وردی پہنائی جائے۔
بھوک ہڑتال کرنے والے سرفروشوں کی تفصیلات یہ ہیں ۔۔۔۔۔
رام پرساد بسمل، گورکھپور سنٹرل جیل، چار دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لے کر ۱۱ اپریل انیس سو ستائیس تک۔
روشن سنگھ، الہہ آباد جیل، چھ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۳ اپریل انیس سو ستائیس تک۔
رام ناتھ پانڈے، رائے بریلی ڈسٹرکٹ جیل، ۱۱ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۸ اپریل انیس سو ستائیس تک۔
پریم کرشن کھنہ، ڈیرہ دون ڈسرکٹ جیل، سولہ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر تئیس اپریل انیس سو ستائیس تک۔
سریش چندر بھٹا چاریہ، آگرہ سنٹرل جیل، انیس دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر چھبیس اپریل انیس سو ستائیس تک۔
رام کرشن کھتری، آگرہ سنٹرل جیل، ۳۲ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر نو مئی انیس سو ستائیس تک۔
مکھنڈی لعل، بریلی ڈسرکٹ جیل، ۳۲ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر نو مئی انیس سو ستائیس تک۔
راجکمار سِنہا، بریلی ڈسٹرکٹ جیل، ۳۸ دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۵ مئی انیس سو ستائیس تک
جوگیش چندر چیٹرجی، فتح گڑھ جیل، اکتالیس دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۸ مئی انیس سو ستائیس تک۔
رام دلارے تریویدی، فتح گڑھ جیل، اکتالیس دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۸ مئی انیس سو ستائیس تک۔
گووند چرنکار، فتح گڑھ جیل، اکتالیس دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۱۸ مئی انیس سو ستائیس تک۔
ممناتھ ناتھ گپتا، نینی الہہ آباد جیل، 45 دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۲۲ مئی انیس سو ستائیس تک
اور
وِشنو شرن دبلِش، نینی الہہ آباد جیل، 45 دن کی بھوک ہڑتال، سات اپریل سے لیکر ۲۲ مئی انیس سو ستائیس تک.
یہ جدوجہد برطانوی سامراج کی خواہشات کے برعکس جیل کی چاردیواری میں مقیّد نہ رہ سکی۔ پارٹی نے نہ صرف جیل کے باہر اپنی انقلابی جدوجہد جاری رکھی بلکہ قانونی سطح پر بھی سزائے موت کے حقدار ٹھہرائے جانے والے ساتھیوں کی رہائی کے لیئے ہر ممکن کوشش کی۔ سڑکوں، گلیوں، چوراہوں میں جہاں احتجاج منظم کیئے گئے وہیں قانونی سطح پر گوبند بلبھ پانٹ، موہن لال سکسینہ، چندر بھانوُ گپتا، اجیت پرساد جین، گوپی ناتھ شری واستو، آر ایم بہادر جی، بی کے چوہدری اور کِرپا شنکر ہجیلہ کی طرف سے ملنے والی قانونی مدد کو قبول کیا حالانکہ سب جانتے تھے برطانوی سامراج کبھی بھی ان کو ذندہ چھوڑنے کا رِسک نہیں لے گا۔
معروف سیاسی شخصیات پر بھی عوامی دباؤ اِس قدر بڑھا کہ وہ بھی ’کاکوری معرکے‘ کے سرفروشوں کے حق میں بیان دینے پر مجبور ہو گئے۔ جن سیاسی شخصیات نے کاکوری معرکے میں ملوث کارکنان کا ساتھ دیا، ان میں موتی لعل نہرو، مدن موہن مالویہ جی، محمد علی جناح، لالہ لاجپت رائے، جواہر لعل نہرو، گنیش شنکر ودھیارتی، شِو پرساد گپتا، شری پرکاش اور اچاریہ نرندر دیو شامل ہیں۔ تاہم، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جگت نرائن ملا جو انقلابیوں کے خلاف سرکاری وکیل تھے، پنڈت جواہر لعل نہرو برادِ نسبتی تھے اور انہوں نے انقلابیوں کو پھانسی چڑھانے کی سر توڑ کوشش کی۔
ملک بھر میں انقلابیوں کی رہائی کے لیئے پر تشدد احتجاج شروع ہو چکے تھے۔ لوگ اپنے خون سے انقلابیوں کی رہائی کے لیئے خطوط لکھ کر وائسرائے ہند، گاندھی اور پرائوی کونسل کو بھیج رہے تھے۔ مگر تمام درخواستیں رد کی جارہی تھیں۔
۲۲ اگست انیس سو ستائیس کو چیف کورٹ میں انقلابیوں کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی گئی، مگر ملک کی اس سب سے بڑی عدالت نے اس اپیل کو خارج کر دیا۔ ۹ ستمبر انیس سو ستائیس کو گورکھپور جیل سے بسمل جی نے مدن موہن مالویہ جی کو ایک خط ارسال کیا، جِس کی بنیاد پر مالویہ جی نے مرکزی مقننہ کے 78 ارکان کے دستخطوں کے ساتھ اس وقت کے گورنر جنرل اور وائسرائے شاہ ایڈورڈ فریڈرک لنڈلے ووڈ کو ایک یارداشت بھی بھجوائی مگر اِس یارداشت کو بھی رد کر دیا گیا۔ اس ضمن میں آخری کوشش یہ کی گئی کہ ایک برطانوی وکیل ایس۔ ایل۔ پولاک کے ذریعے سولہ ستمبر انیس سو ستائیس کو تاجِ برطانیہ میں چاروں انقلابیوں کی سزائے موت ختم کرنے کی اپیل کی گئی مگر سرکار نے اس اپیل کا یہ جواب دیا کہ ’چاروں انقلابیوں کو ۱۹ دسمبر، انیس سو ستائیس تک پھانسی دے کر یہ معاملہ جلد از جلد ختم کر دیا جائے‘۔
پھانسی کی تاریخ ۱۹ دسمبر تھی مگر برِ صغیر پر قابِض گوری سرکار نے دو دن پہلے ہی رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، ٹھاکر روشن سنگھ اور راجندر ناتھ لہری کو پھانسی کی گھاٹ اتار دیا۔
اِس طرح کاکوری معرکہ جسے حکمران طبقات کاکوری ٹرین ڈکیتی یا کاکوری سازش کہتے ہیں، برِصغیر کی آذادی اور انقلاب کا پیش خیمہ بنا اور بلاخر، برطانوی سامراج کو انیس سو چھیالیس میں برِصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس لوٹنا پڑا۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts