🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

کیا سوشلزم میں مساوی اجرت سے لوگ کاہل ہو جائیں گے؟

Back to Posts

کیا سوشلزم میں مساوی اجرت سے لوگ کاہل ہو جائیں گے؟

اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سوشلزم نہیں چل سکتا کیونکہ اگر سب کو ’’مساوی اجرت دی جائے‘‘ تو 

’’محنت‘‘ سے کام کرنے کا محرک ختم ہو جائے گا۔

یہ دلیل کئی حوالوں سے غلط ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں یہ تصور کیا گیا ہے کہ سرمایہ داری میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ اجرت ملتی ہے وہ ’’سب سے زیادہ محنت‘‘ کرتے ہیں۔ درحقیقت امیر ترین افراد اپنی دولت کام کر کے نہیں کماتے بلکہ ان کی دولت کا ذریعہ ان کی ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے۔ اس بنیاد پر وہ پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی غیر ادا شدہ اجرت پر قابض ہو جاتے ہیں۔
ان میں سے بہت سے ارب پتی کوئی بھی پیداواری کام نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی کمپنیوں اور کھاتوں کو چلانے کے لیے دوسروں کو اجرت دیتے ہیں۔ آکسفیم (Oxfam) کی ایک تحقیق کی مطابق دنیا بھر کے ارب پتیوں میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جنہیں ان کی دولت وراثت میں ملی اور 43 فیصد کی دولت بدعنوانی کی پیداوار ہے۔
جب یہ جونکیں اپنے مہنگے یاٹس میں بیٹھ کر ’’محنت‘‘ کر رہی ہوتی ہیں، اسی دوران اربوں لوگ ہفتے میں 50 سے 60 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ جان توڑ مشقت کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے بدلے انہیں اتنی کم اجرت ملتی ہے جس پر گزارہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
اس ’’محنت سے کام‘‘ کرنے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں کو زیادہ اجرت ملتی ہے۔ اس کا تعلق کھانا کھانے اور کرایہ اور بل ادا کرنے کے لیے ناگزیر طور پر کوئی بھی نوکری قبول کرنے کی ضرورت سے ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے بے روزگاروں کی فوج کا حصہ بننا پڑے گا اور بہت سے لوگوں کے لیے اس کا مطلب فاقے اور بے گھری ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ دلیل ہی غلط ہے کہ ’’سوشلزم میں سب کو برابر اجرت ملے گی۔‘‘
ہمارا حتمی مقصد ایک کمیونسٹ سماج کا قیام ہے، جہاں ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق جو کچھ چاہے حاصل کر سکتا ہو۔ لیکن مارکسی یوٹوپیائی نہیں ہوا کرتے، ہم یہ نہیں سمجھتے کہ محنت کشوں کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی ایسا ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک عبوری دور درکار ہو گا (جسے عام طور پر ’’سوشلزم‘‘ کہا جاتا ہے)، جس میں سرمایہ داری کی کچھ خصوصیات ناگزیر ہوں گی۔
مارکس لکھتا ہے:
’’ہم ادھر کمیونسٹ (مارکس نے سوشلزم کو نچلے درجے کا کمیونزم لکھا ہے) سماج کی بات کر رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ علیحدہ سے اپنی بنیادوں پر قائم ہو گا، بلکہ اس کے برعکس یہ ایک سرمایہ دارانہ سماج سے ہی نمودار ہو گا۔ اسی وجہ سے معاشی، اخلاقی اور ذہنی طور پر اس کے جسم پر اس پرانے سماج کے نشانات باقی ہوں گے جس کی کوکھ سے وہ جنم لے گا۔‘‘
معیشت کے کلیدی حصوں کو قبضے میں لے کر پیداوار کو ضرورت کے مطابق ڈھالتے ہوئے اکثریتی لوگوں کی زندگیاں بہتر بنائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اجرتوں میں کمی کیے بغیر اوقات کار گھٹا کر فوری طور پر بے روزگاری ختم کی جا سکتی ہے۔
جس طرح برطانیہ میں NHS کے ذریعے حفظان صحت کی سہولیات ہر کسی کو مہیا کی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح توانائی، انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ اور خوراک کی سہولیات ہر کسی کو مفت مہیا کی جا سکتی ہیں۔ ایسا ممکن ہے کیونکہ ہم ضرورت سے بہت زیادہ چیزیں پیدا کرتے ہیں یا پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہو گا جیسے سماج کی اکثریت کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا جائے۔
لیکن جب تک قلت باقی رہے گی تب تک کچھ اشیاء کی تقسیم کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوگی، اس لیے اجرتوں کی ادائیگی تب بھی ضروری ہو گی۔ یہ ایک یوٹوپیائی بات ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہر کوئی ایک جیسی اجرت کو قبول کر لے گا، کیونکہ ہر کسی کی ضروریات ذمہ داریاں اور کام کی نوعیت مختلف ہو گی، یا پھر جو لوگ کوئی کام کرتے ہی نہیں انہیں سماج کی دولت میں سے حصہ دینے کی کوئی حمایت نہیں کرے گا۔
لیکن سرمایہ داری کی طرح بھی نہیں جہاں مختلف کمپنیوں میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے (FTSE100 کمپنیوں کے مالکان کم از کم اجرت سے 386 گنا زیادہ ’’کماتے‘‘ ہیں)۔ سوشلزم میں ہم اس تفاوت کو بہت حد تک کم کر دیں گے۔ سوویت یونین کے ابتدائی دنوں میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ اجرت کے درمیان 1:4 کی نسبت تھی اور اسے بھی زیادہ سمجھا جاتا تھا۔
مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں اوقات کار بہت کم ہو جائیں گے اور ذہنی اور جسمانی محنت کا فرق بھی ختم ہوجائے گا، اس لیے ہمارا ’’کام‘‘ کا تصور بھی بدل جائے گا۔ ایک تھکا دینے والے بوجھ سے، جو بل ادا کرنے کے لیے ضروری ہے اور جس سے ارب پتی مزید امیر ہوتے ہیں، یہ سرشاری کا ذریعہ یا ’’زندگی کی بنیادی ضرورت‘‘ بن جائے گا۔
ذرائع پیداوار کی ترقی کے ساتھ ایک ایسا وقت آئیگا جب سب کچھ اتنی وافر مقدار میں موجود ہوگا کہ ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق آزادی سے سب کچھ حاصل کر سکے گا۔ تب دوسروں سے زیادہ اجرت کی خواہش بے مطلب ہو جائے گی۔ ایک ہمہ گیر سستی کی بجائے انسانیت اپنی پوری صلاحیت استعمال کرنے کے قابل ہو گی۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts