🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

ہندوستان میں اسلامی سامراج قسط # 1

Back to Posts

ہندوستان میں اسلامی سامراج قسط # 1

51T4QAKBycL._SX331_BO1,204,203,200_ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ سنہ1757ء میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کے درمیان پلاسی کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اور اس شکست سے ہندوستان میں مسلمان حکمرانی کے خاتمے کا آغاز ہو ا جو1799 ء میں آزاد مسلمان حکمران سلطان ٹیپو کی شکست سے اس حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ 1850 میں پنجاب پر قبضہ کے بعد ہندوستان کے بڑے حصے پر انگریز قابض ہو گیا۔ انگریز حکمران نے شروع میں مسلمان حکمرانوں کو کٹھ پتلی حکمران کے طور پر برقرار رکھا لیکن 1857 کے غدر کے بعد ان حکمرانوں کوبھی ہٹا دیا گیا اور 1858 میں باقاعدہ برطانوی حکومت کا آغاز ہو ا۔ہندوستان کے قوم پرست رہنماؤں کی ایک لمبی جدوجہد کے بعد بالآخرانگریز نے 26جنوری 1947 کو ہندوستان چھوڑنے کا اعلان کیا اور چودہ اور پندرہ اگست کو ہندوستان برطانوی تسلط سے ہو گیا ۔ کئی صدیوں کے غیر ملکی تسلط کے بعد یہ خطہ دو نئے ملک پاکستان اوربھارت تقسیم ہوا جو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا تعین کر سکتے تھے۔ ہندوستان میں دو بیرونی قوتوں نے حکمرانی کی لیکن تاریخ دان اور دانشور صرف برطانوی حکومت کو ہی سامراج قرارد یتے ہوئے اس سے نفرت کا اظہار کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کا دور، جو کہ سب سے زیادہ لمبا تسلط کا دور تھا ، کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ دان اور لکھاری چاہے وہ پاکستان ، بنگلا دیش یا بھارت سے تعلق رکھنے والے ہوں، مسلمان حکمرانوں کے دور کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں اور 190 سالہ برطانوی سامراج کی مذمت کرتے ہوئے ان کی لوٹ مار کا ذکر کرتے ہیں جو انھوں نے اس خطے میں کی۔ لیکن اس کے مقابلے میں مسلمان حکمران کئی صدیوں تک اس خطے میں جو قتل و غارت اور لوٹ مار کرتے رہے اس کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔جب بھی ہندوستان میں مسلمان حکمرانو ں کا ذکر ہوتا ہے تو اسے ایک فلاح و بہبود سے بھرپور شاندار دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نہرو بھی ایک جگہ اپنی کتاب میں مسلمان حکمرانوں کے مظالم کا ذکر کرنے کی بجائے لکھتے ہیں کہ ’’ اسلام کی وجہ سے ہندوستان میں ترقی کا عنصرآیا‘‘ ۔۱۔ آج ہندوستان سمیت پوری دنیا کے مستقبل کو سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی مسلم انتہا پسندی اور عسکریت پسندی(طالبان، القاعدہ ، داعش، الشباب وغیرہ)سے ہے جس کی جڑیں مسلم حکمرانی کے دور میں پائی جاتی ہیں جبکہ برطانوی تسلط یا سامراج، جس پر مسلسل لعن طعن کی جاتی ہے، نے ہندوستان میں ایسے کوئی اثرات نہیں چھوڑے تھے جو اس کے مستقبل کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ہندوستان کے روشن خیال دانشور، برطانوی سامراج کے خلاف کھل کر گفتگو کرتے ہیں اور اس کی خرابیاں گنواتے نہیں تھکتے لیکن اسلامی سامراج پر خاموش ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ دان ، دانشوراور لکھاری اسلامی حملوں کے ان تفصیلات اور ان کے اثرات پر بحث نہیں کرتے جو درحقیقت ہندوستان کے مستقبل پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ ایسے ہندو مورخ جو مارکسسٹ سوچ رکھتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے دور حکومت کو ایک شاندار دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاریخ دانوں،دانشورں کایہ رویہ دراصل مسلمان حکمرانوں کے دور کے حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے جن کا ذکر خود مسلمان مورخوں نے کیا ہے۔ یہ یورپین نوآبادی کی اتنی مذمت کرتے ہیں کہ ان ممالک کے دانشور اس پر اکثر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے ان علاقوں میں زیادتیاں روا رکھیں۔ ابن واراق ہندوستان میں برطانوی تسلط کی مذمت کے متعلق لکھتا ہے کہ ’’ 1947 کی آزادی کے فوراً بعد ہندوستانی تاریخ دانوں نے’’قومیت‘‘ پر مبنی جو تاریخ لکھی اس میں ہندوستان کی تمام خرابیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار سلطنتِ برطانیہ کا استحصالی دور ٹھہرایا گیا ‘‘۔۲۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے جدید ہندوستان میں تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت، ایڈمنسٹریشن ہو یا گڈ گورننس یامذاہب کا احترام اور انسانی حقوق یہ سب کچھ انگریزوں کے دور کی وجہ سے ہے جس کے خلاف ہمارے تاریخ دان اور دانشور چیختے چلاتے درہتے ہیں۔ ابنِ واراق مزید لکھتا ہے کہ کہ مسلمان حکمرانوں نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر ہندوستان، یورپ اور افریقہ پر اقتدار کے لیے جو حملے کیے اورقتل و غارت کیاس پر کسی نے توجہ نہیں دی جبکہ مسلمان بڑے فخر سے اس کو شاندار دور کہتے ہیں۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس OIC کے ترکی سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل اکمیل الدین کا مطالبہ ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں اس لیے شامل کیا جائے کیونکہ ماضی میں مسلمانوں کی یورپ کے لیے بہت خدمات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اسلام کا یورپ پر بہت احسان ہے اور یہ یورپ کی تہذیب و تمدن کا بانی عنصر ہے‘‘۔ پانچ صدیوں تک عثمانیوں نے بالکز میں حکمرانی کی اور آٹھ صدیوں تک اندلس پر راج کیا اس لیے اسلام کو بیرونی عنصر کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتابلکہ اسلام یورپین تہذیب کا بنیادی عنصر ہے۔۳۔ آج ہندوستان کے خطے (بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے استحکام اور اس کے مستقبل کو مسلمان انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں، طالبان اور القاعدہ جن میں مقامی لوگ اور غیر ملکی عرب شامل ہیں، سے خطرہ لاحق ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ برطانوی استعمار کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسلامی استعماریعنی مسلمان حکمرانوں کی یلغار اور طرز حکمرانی سے متعلق ایک معروضی تجزیہ کیا جائے ۔ اسلامی فتوحات اور حکمرانی آج کا ماڈرن تاریخ دان اور دانشور اس بات کا بڑا چرچا کرتے ہیں کہ انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان میں ہندو اور مسلمان آپس میں انتہا ئی امن و چین اور باہمی رواداری سے رہ رہے تھے لیکن جیسے ہی انگریز ہندوستان پر قابض ہوا تو اس نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور ہندو اور مسلمان کی یہ لڑائی آج تک چلی آرہی ہے۔اگر غیر جانبداری سے تاریخ کے بنیادی ماخذ اور مسلمان حکمرانوں کے طرز حکمرانی کو دیکھا جائے تو یہ دعویٰ کہ انگریز سے پہلے ہندو اور مسلمان باہمی اتفاق سے رہتے تھے ، بالکل غلط ثابت ہو تا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیسے ہی مسلمان حملہ آور ہندوستان میں آئے اسی وقت سے ہندو اور مسلمان میں اختلاف پیدا ہو گیا تھاا ور دونوں کبھی بھی امن سے نہ رہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مسلمان حملہ آور جو کئی صدیوں تک ہندوستان پر حملہ کرتے رہے ان کا طرز حکمرانی کیا تھا۔ محمد بن قاسم کا حملہ اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے حجاج بن یوسف نے چھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا اور اس حکم کے ساتھ ہندوستان بھیجا کہ تمام مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے ۔ سندھ کے شہر دیبل کو فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم کے لشکر نے تین دن تک قتل عام کیا ۔ برہمن آباد میں چھ ہزار سے سولہ ہزار مسلح افراد کو قتل کیا گیا ۔ ملتان میں تمام مسلح افراد کو قتل کیا گیا۔۴۔ چچ نامہ کے مطابق راور میں محمد بن قاسم کی فوج نے ساٹھ ہزار افراد کو غلام بنایا‘‘۔ محمد بن قاسم نے تین سال کے دوران ، ہندوستان کا دفاع کرنے والوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا۔ ان کے مندر ڈھادیئے ،مورتیاں اور بت توڑ دیئے گئے ، بتوں کو توڑکر بے شمار دولت اکٹھی کی اور ان کی جگہ مساجد تعمیر کی گئیں ۔ سلطان محمود غزنوی کا حملہ سلطان محمود غزنوی نے (1000-1027) ہندوستان پر سترہ حملے کیے ۔ یہ حملے محمد بن قاسم کے حملے سے زیادہ شدید تھے جن میں پہلے سے زیادہ قتل وغارت اور لوٹ مار کی گئی اور عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا گیا۔ ہندوستان سے جو دولت لوٹی گئی اسے خمس کہا گیا ۔ سلطان محمود کی شمال مغربی ہندوستان میں لوٹ مار کے متعلق مسلمان مورخ ’’العطبی‘‘ لکھتا ہے کہ ’’کالے بادلوں میں تلواریں چمکتی تھیں اور خون کے پھوارے پھوٹتے تھے ۔ خدا کے دوستوں نے مخالفین کو شکست فاش دی ۔۔۔ مسلمانوں نے خدا کے مخالفین سے بھرپور انتقام لیا اور پندرہ ہزار افرا کو جہنم واصل کیا جو کئی دن تک جانوروں اور پرندوں کی خوراک بنے۔۔۔ اللہ نے انھیں بے شمار دولت کے علاوہ پانچ لاکھ غلاموں سے بھی نوازا جس میں خوبصورت مرد او ر عورتیں تھیں‘‘ ۔۵۔ العطبی مزید لکھتا ہے کہ 1008میں سلطان محمودنے ننگرکوٹ (کانگڑہ) پر قبضہ کیا یہاں سے سات کروڑ درہم کی مالیت کے سکے اور سات لاکھ من سونا اور چاندی کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھر اور کڑھائی شدہ کپڑا لوٹا ۔ 1011 میں سلطان محمود نے تھانسیر پر چڑھائی کی تاکہ یہاں اسلامی تعلیمات پھیلائی جا سکیں اور بت پرستی کا خاتمہ ہو سکے۔اس جنگ میں کافروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ندیوں کے پانی کا رنگ اتنا تبدیل ہو گیا کہ وہ پینے کے قابل نہ رہا۔ سلطان نے بے تحاشا دولت کے ساتھ واپس لوٹا جس کا شمار ممکن نہیں تھا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مدد، جو اس نے مسلمانوں پر کی، کے بغیر ممکن نہیں تھا‘‘ ۔۶۔ العطبی مزیدلکھتا ہے ’’قنوج پر حملے کے وقت وہاں کے لوگوں کو کہا گیا کہ یا تو اسلام قبول کرو ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ سلطا ن نے یہاں سے بے شمار دولت اورقیدی (غلام) قبضے میں کیے۔ دولت اتنی تھی کہ اس کا شمار کرتے کرتے انگلیاں تھک جاتی تھیں۔ بے شمار لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے جو بھا گ نہیں سکے وہ مارے گئے ۔ سلطان نے ایک ہی دن میں سات قلعوں پر قبضہ کر لیا اور اپنے لشکر کو وہاں لوٹ مار کی اجازت دی۔۷۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts