🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

عِلم ۔ جِدوجُہد ۔ فتح

Back to Posts

عِلم ۔ جِدوجُہد ۔ فتح

پارتھینون (Parthenon) یونان کے شہر ایتھنز کے قریب ایک عِمارت ہے۔ قدیم یونانی پران (Greek Mythology) کے مُطابق یہاں ذہانت اور طاقت کی دیوی ایتھنا (Athena) کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ عمارت ایک پُر شِکوہ کھنڈر کے روُپ میں آج بھی یونان میں قائم ہے۔ اِدھر آنے والے اکثر سیاح اور معروف شخصیات اِس عمارت کا طواف کرنا اپنا فرضِ اولّیں سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف ڈاکٹررشید حسن خان بھی ایک انقلابی کو یونانی دیومالائی کردار سیسیفَس یا سیسی فوس (Sisyphus) سے تشبیہہ دیتے تھے۔ یوں تو سیسیفَس ایفا ئرا (Ephyra) کا بادشاہ تھا اور ایفائرا یونان کے قدیم شہر کارنِتھ یا کارنِتھیا (Cornith or Cornithia) کا بنیادی نام ہے جو پیلوپونوسی کی پہاڑیوں میں واقع ہے اور آج بھی تیل اور موٹر وے کی وجہ سے نیو کارنتھیا کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ پیلوپونوسی کی پہاڑیوں سے منسوب ایک واقعہ قابلِ زِکر ہے۔ مگر پہلے ، سیاق و سباق ۔۔۔۔
یوں تو یونانی ثقافت میں جمہوریت اور جمہوری جِدوجہد کی روایت ۵۰۰ سال قبل از مسیح سے مِلتی ہے۔ عہدِ سقراط بھی ۳۳۵ سال قبل از مسیح کا ہے مگر الیگزانڈروس پیناگولِس (Alexandrous Panagoulis) نے یونان میں فوجی آمریت کے خِلاف 1967 سے لے کر 1974 تک مُسلح جِدوجہد کی۔ یہ شخص بنیادی طور پر شاعر تھا اور اِسے آج بھی نہ صِرف شاعر بلکہ یونان میں عوام کے جمہوری حقوق کے سِپاہی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
الیگزانڈروس پیناگولِس (Alexandrous Panagoulis) کے بارے میں لِکھا گیا کہ جب اُس نے یونانی فوجی جنتا (چارفوجی جرنیلوں کا گِروہ، جِن کے سرغنہ کا نام بھی جارج پاپاڈوپلس تھا) کے ریاستی اداروں ای اے ٹی اور ای ایس اے “E.A.T.-E.S.A‘ کے پول کھولنے کی کوشِش کی تو اُسے فقط 36 سال کی عُمر میں عین یکم مئی 1976 کو ایک کار حادِثے میں قتل کروا دیا گیا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جِن معاشروں میں جمہوریت کی روایت ہے، اُن معاشروں میں آپ کوجمہوریت کے لیئے قربانیوں کی بھی طویل داستانیں سننے کو ملیں گی اور اِس کے برعکس جہاں محلاتی سازشوں ہی کو جمہوریت سمجھا اور بتلایا جاتا ہے اُن کی تاریخ میں آپ کو اورنگزیب بادشاہ ٹوپیاں سی کرگذارا کرتے نظر آئیں گے، جہانگیرنامی کوئی بادشاہ گھنٹہ لٹکائے عدل کرتا نظر آئے گا اور نہ صرف یہ کہ تاریخ میں میر جعفر کے کِردارکا تذکرہ انتہائی معمولی سطح پر کیا جائے گا بلکہ اِس حقیقت کو تو بالکل ہی خارِج از تاریخ کر دیا جائے گا کہ پاکستان کے چوتھے گونر جنرل جو بعد میں پاکِستان کے پہلے صدر بنے، اپنے عہد میں ۵ وزرائے اعظم کو گھر بھیجا، انیس سو چھپن کا آئین پامال کیا، مُلک میں پہلا مارشل لاء نافِذ کیا …… یہ کوئی اور نہیں بلکہ گورنر جنرل سکندر مِرزا تھے اور یہ اُسی میر جعفر کے پڑپوتے تھے جِنہوں نے نواب سِراج الدولہ سے غداری کی اور رابرٹ کلایئو سے وفاداری!
مُحمد علی بوگرہ بھی اِنہی کے عہد کی پیداوار ہیں، جِنہوں نے کیمونسِٹ پارٹی آف پاکستان اور ڈیموکریٹِک سٹوڈنٹس فیدریشن پر پابندی لگا کر پاکستان میں جرنیلوں کے عہد یا Era of Colonels کی بنیاد ڈالی۔ یہ خواجہ ناظِم الدین ہی کا ایک تسلسل تھے جِن کے سر پر 8 جنوری 1953 کے روز اُن 27 طلبہ اورمعصوُم شہریوں کا خوُن ہے جو صِرف طلبہ حقوق کے حصوُل کے لیئے سڑکوں پر نِکلے اور گولیوں سے بھوُن دیئے گئے۔ یہ تسلسل اِس طرح سے ہے کہ پاکستان کے گورنر جنرل تاجِ برطانیہ کی بادشاہت تلے تھے اور اُس وقت اِن کے بادشاہ جارج ششم اور ملِکہ الیزبتھ دوئم تھیں۔ یہ Era of Colonels آج بھی ہمارے مُلک کے جمہوری خاکے کے پسِ منظر میں مزدوروں، کِسانوں اور ترقّی پسند قؤتوں پر قہقہے لگاتا نظر آتا ہے۔
خیر یونان میں بھی ایسے کِردار ضرور ہوں گے مگرفی الوقت ہم اوریانا فلاسی کی بات کرتے ہیں، جِنہوں نے اپنی شہرہء آفاق کِتاب An Interview with History لِکھنے کا اِرادہ کیا۔ وہ چند ایسے گِنے چُنے خواص کا انٹرویو کرنا چاہتی تھیں جِن کے فیصلے اپنے وقت کی تاریخ رقم کرتے تھے۔ اِسی ضِمن میں وہ الیگزانڈروس پیناگولِس سے مِلنے یونان پہنچیں اور اِسی سفر کے دوران اوریانا فلاسی نے اپنی ذندگی کی سب سے مسحور کُن ’یادگار‘ دیکھی۔ یہ یادگار کوئی عمارت یا مینار نہیں تھا بلکہ پیلوپونوسی (Peloponnese) کی پہاڑیوں پر لِکھی ہوئی ایک تین حرفی تحریر تھی، جِس نے اوریانا کو حیران کر کے رکھ دیا۔
یہ یونانی لفظ όχι تھا، جِس کا اردو ترجمہ ’نہیں‘ ہے۔ ’نہیں‘۔ یہ لفظ یونان کے جمہوریت پسندوں نے پیلوپونوسی کی پہاڑیوں پر لِکھ چھوڑا تھا جِس پر فوجی آمِر سفیدی پھِروا کر اُسے حرفِ غلط سمجھ کر مِٹانے کی کوشِش کرتے رہتے ۔۔۔۔ مگرجب بارِش ہوتی تو یہی όχι ، یہی حرفِ اِنکار پہلے سے بھی ذیادہ روشن ہو کر جگمگانے لگتا۔
یہ حرفِ اَنکار όχι کہاں سے یونانی تاریخ میں در آیا تھا؟ کیا اِس نے یونانی ’لفظی قیاس‘ (Greek Analogy) سے جنم لیا تھا یا یہ کوئی اِستعارہ تھا؟؟ ڈاکٹر محمد سرور سے لیکر ایم اے محبوب (این ایس ایف کے پہلے باقائدہ صدر ۔ 1956) اور عبدالودود (این ایس ایف کے پہلے منتخب جنرل سیکریٹری ۔ 1956) تک اور پھِر ڈاکٹر رشید حسن خان تک, این ایس ایف کی قیادت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ یہ ایک جُہدِ مسلسل کا اِستعارہ ہے۔ مگر اب وقت اِس اِستعارے کو جوُں کا توُں استعمال کرنے کا نہیں تھا۔
ڈیموکریٹِک سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی لگ چکی تھی۔ کیمونسٹ پارٹی آف پاکِستان اور عبداُلحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی مصائب کی ذد میں تھی۔ ایوب خان جو نہ صِرف اپنی تاریخ سے بخوبی واقِف تھا، چین اور کیوبا کا اِنقلاب بھی دیکھ چکا تھا بلکہ سرکاری سطح پر پاکستان میں ارنسٹو چے گویرا سے رسمی مُلاقات بھی کر چُکا تھا۔ طلبہ کراچی کی سڑکوں پر کانگو کے شہید ترقّی پسند پیٹرس لوممبا اور جبل پوُر کے شہداء سے اِظہارِ یکجہتی کر رہے تھے۔ اُسے شِدّت سے احساس تھا کہ اگر طلبہ منظم ہوئے تو جیسے خواجہ ںاظِم الدین کو طلبہ پر تشدد کے باوجود جنوری ۱۹۵۳ کو اُن کے تمام مطالبات ماننے پڑے، اُسی طرح طلبہ آئیندہ اُس کے تابوتِ اقتدارمیں بھی آخری کیل ٹھونک سکتے ہیں۔
یہی سوچ کر اُس طبقے نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی. مگر اسے مکافاتِ عمل کہیئے یا کُچھ اور کہ بہت کم عرصے میں ڈیموکریٹِک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان نے اُسی کی بنائی ہوئی این ایس ایف پر نہ صرف یہ کہ مُکمل غلبہ حاصِل کر لیا بلکہ ایوب خان کے خلاف اکتوبر تحریک کو عوامی رُخ دے کر اُسے صدارتی محل سے رُخصت بھی کر دیا۔ اُس پر سِتم یہ کہ ایوب خان تو اِکا دُکا ٹرکوں کے پیچھے اِس زیر عنوان (Caption) کے ساتھ نظر آتا ہے کہ ’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘ جو اپنی تشریح میں ایک ایسا بے معنی ناسٹیلجیا ہے جو اُس عہد کے غیر سیاسی لوگوں کے ساتھ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا چلا گیا۔ مگر این ایس ایف آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ملک بھر میں ترقّی پسند انقلابی طلبہ کی نمائندہ تنظیم سمجھی جاتی ہے، جِس کی بنیاد میں یہی یونانی لفظ όχι (نہیں) ہے۔
یہ وہ حالات تھے جِن میں ڈاکٹر رشید حسن خان اور اُس وقت کی انقلابی قیادت پر دیگر مصائب کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی چیلینج یہ بھی آن پڑا کہ کِس طرح این ایس ایف آنے والے نادیدہ دِنوں میں اپنی درست انقلابی سمت سے بھٹکنے نہ پائے۔
لہٰذہ جب ڈاکٹررشید حسن خان ایک انقلابی کو سیسیفَس (Sisyphus) سے تشبیہہ دیتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک جہدِ مسلسل میں ’مبتلا‘ ایک یونانی بادشاہ کیسے ہو سکتا ہے؟ خصوصاً ڈاکٹر رشید حسن خان جیسا ایک انقلابی مُدرّس جو آنے والی کئی نسلوں کے لیئے آج بھی مِشعلِ راہ ہے …. کیوں ایفا ئرا (Ephyra) کے ایک بادشاہ کی تشبیہہ ایک اِنقلابی کے لیئے اِستعمال کرے گا؟ ایک ایسا شخص جو ایتھنز کا تذکرہ نسلِ انسانی میں جمہوریت کی بنیادی جدوجہد کے حوالے سے کرتا ہے، سوال اُٹھانے کے حوالے سے سُقراط کی مِثالیں دیتا ہے …. کیا اُس کے پاس سیسیفَس کے عِلاوہ کوئی اور تشبیہہ نہ تھی؟؟
اِس سوال کے جواب کو سمجھنا ہمارے لیئے ذرا بھی مُشکل نہیں، بشرطیکہ ہم ’اُلو‘ کو اردو سیاق و سباق سے آگے نِکل کر جاننے کی کوشِش کریں۔ کیونکہ ایک اُلو وہ بھی ہے جو یونانی دیو مالاؤں میں ذہانت اور طاقت کی دیوی ایتھنا (Athena) کے پہلوُ میں ہوتا تھا۔ یہ الّو پورے یورپ میں اور انقلابی فلاسفہ کی نظر میں ’عِلم‘ کی علامت سمجھا، مانا اور چھاپا گیا ہے۔ مغرب میں عینکوں کی ایک بہت بڑی کمپنی کا لوگو آج بھی ’ایتھنا کا اُلّو‘ (Owl of Athena) ہی ہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ لاطینی کی عقل و دانِش کی دیوی منروا (Minerva) دراصل یونانی ایتھینا ہی کا لاطینی مُترادِف ہے اور لاطینی میں اِسی نِسبت سے اُلو کو ’منروا کا اُلّو (Owl of Minerva) کہتے ہیں۔
این ایس ایف کے قائدین نے ’علم‘ کا لفظ محض تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والی تعلیم کے حوالے سے ہرگز نہیں چُنا بلکہ اِس کا ماخِذ ’ایتھنا کا اُلّو‘ (Owl of Athena) ہے اور اِس ’علم‘ کا اصل مطلب درست معلومات، شعور، دانِش، تنظیمی قابلیت، لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں لچک اور سماج میں پائے جانے والے طبقاتی تضادات کا اِدراک ہے۔ این ایس ایف کے لوگو میں استعمال ہونے والا لفظِ ’عِلم‘ اِن تمام خصوصیات کا مجموعہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ طلبہ تنظیم سے تعلُق رکھنے والے ایک اِنقلابی میں معلومات، شعور، دانِش، تنظیمی قابلیت، لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں لچک اور سماج میں پائے جانے والے طبقاتی تضادات کا مُکمل اِدراک ہونا ضروری ہے۔
این ایس ایف کے لوگو میں اگلا لفظ ’جِدوجہد‘ ہے اور اِس کا یونانی ماخِذ سیسیفَس ہی ہے جِس کا تذکرہ ڈاکٹر رشید حسن خان نے کئی مرتبہ کیا۔ اِس میں غور طلب بات صِرف یہ ہے کہ سیسیفَس جِدوجہد میں ’مبتلا‘ تھا۔ ایک بھاری پتھر کو وہ محض مشغلے کے طور پر روزانہ اپنی کمر پر اُٹھا کر پہاڑ کی بلندی پر لے کر نہیں جاتا تھا بلکہ اُسے یہ کرنا ہی تھا۔
اِسی طرح جب طلبہ کی معلومات میں اِضافہ ہوتا ہے، سیاسی شعور بڑھتا ہے، تنظیمی قابلیت بڑھتی ہے اور سماج میں پائے جانے والے طبقاتی تضادات کا اِدراک ہوتا ہے تو وہ سیسیفَس کی طرح ایک جہدِ مسلسل میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ خود ڈاکٹر صاحب کی ذندگی پر غور کیجیئے، اُنہیں اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی جاتی تھی، اچھے وقتوں کے میڈیکل ڈاکٹر تھے جو چاہتے تو اپنی تمام ذندگی آرام و آسائش سے گذار سکتے تھے۔ مگر انہوں نے اپنے لیئے سیسیفَس کی ذندگی اِس لیئے قبول کی کہ کیونکہ وہ مندرجہ بالا مظاہِر کا اِدراک حاصِل کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنے آخری ایّام ایک چھوٹے سے کمرے میں گذار دیئے اور آخِر تک ’اپنا کل‘ نامی بلاگ لِکھتے رہے۔ مُجھے یہ لِکھنے میں کوئی کوئی عار نہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے عہد کے سیسیفَس ہی تھے۔ کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت اُن کی جِدوجہد کو ذاتی مفادات یا لالچ سے آلودہ نہ کر سکی۔ انہیں سیسیفَس کی طرح بس جِدوجہد ہی کرنا تھی، سو اُنہوں نے کی۔
بقول سلیم کوثر ۔۔۔۔۔
میں تو خود اپنی ہی سچائی کا مُجرم ہوں سلیم
میرا غالِب سے تعلُق نہ کوئی میِر کے ساتھ
آیئے، کُچھ دیر کے لیئے ذرا عہدِ حاضر میں جھانکتے ہیں۔ آج متوسط طبقے کا نوجوان اپنی اِخلاقیات چھوڑ چھاڑ ایک ایسی بھیڑ کے پیچھے بھاگ رہا ہے جو جانتی ہی نہیں کہ اُن کی منزِل کیا ہے اور انہوں نے اپنی ذندگی کو ایک ریس ٹریک کیوں بنا رکھا ہے؟؟ دراصل اِس نوجوان کے لیئے اِخلاقیات یعنی Morality سے ذیادہ اپنے سے اوپر والے طبقے (Upper Middle Class) کے ساتھ مطابقت یعنی Conformity ذیادہ اہم ہے۔ وہ بھیڑ چال میں NIKE کے بوُٹ تو پہننا چاہتا ہے مگر یہ جاننا اُس کی ذندگی کے نِصاب سے باہر ہوتا جا رہا ہے کہ آخِر یہ NIKE ہے کیا چیز اور ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنے مہنگے برانڈ کا نام کِس پر رکھا ہے؟
مگر این ایس ایف کے بانی مبانی NIKE کو بھی جانتے تھے اور اِس کِردار کے پیچھے پوشیدہ درُست فلسفے کو بھی۔ دراصل یہ NIKE بھی قدیم یونانی پران ہی کا ایک کردار ہے۔ یہ ایتھنا کی قریبی ساتھی تھی۔ اِس کردار کی بنیاد یہ ہے کہ یہ پروں سے اُڑنے والی یونانی دیوی اپنے لشکر کو فتح سے تب تک ہمکنار کر ہی نہیں سکتی تھی جب تک لشکر ’عِلم‘ سے معمور ہو کر ’جِدوجُہد‘ کے راستے پر نہ چل رہا ہو۔
غرضیکہ، NIKE فتح کی دیوی تھی۔ ایتھینا اور سب سے طاقتور یونانی دیوتا زیوس Zeus کے ہر معرکے میں فتح کی سند. NIKE اپنے پروں پر اُڑتی ہوئی ایتھنا اور زیوس کے پاس آتی اور وہ فتحمند قرار دیئے جاتے۔ بیشتر یونانی فن پاروں میں ایتھینا، زیوس اور NIKE کو اِکٹھا دِکھایا جاتا ہے اور ایتھنا کے کاندھے کے نزدیک ایک اُلّو کو بھی اُڑتے ہوئے دِکھایا جاتا ہے۔ یہ اُلّو ’ایتھنا کا اُلّو‘ (Owl of Athena) ہی ہے۔ NIKE کے کِردار کی خوُبصورتی یہ ہے کہ یہ صرف حالتِ جنگ میں ہی فتح کی علامت نہیں بلکہ حالتِ امن میں بھی ترقّی کے لیئے کی جانے والی جُہدِ مسلسل کا نِشان ہے۔ یعنی ’فتح‘ کِسی ایک منزل کے حُصول کو نہیں کہا جاتا بلکہ ایک پائدان تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اگلے پائدان پر پہنچنے کے لیئے جِدوجہد جاری رکھنا ہی اصل ’فتح‘ ہے۔ NIKE کے پر مُسلسل اُڑان کا اِستعارہ ہیں۔
نتیجیتاً، یہ جو این ایس ایف پاکستان کی ہر تحریر، ہر پوسٹر، ہر پمفلٹ پر ’عِلم ۔ جِدوجہد ۔ فتح‘ لِکھا ہوا نظر آتا ہے، یہ کوئی حادثاتی برآمد نہیں بلکہ اِس کے پیچھے عوامی جمہوُری جدوجہد کی تاریخ پر مبنی ایک سوچ ہے جو علامتی طور پر اِن تین لفظوں میں اِس لیئے ظاہِر کی گئی کہ مُلک کے نوجوان آنکھیں بند کر کے کِسی کے پیچھے چلنے کی بجائے خود تحقیق کریں کیونکہ کِسی کے پیچھے آنکھیں موُند کر چلنا بھی ایک طرح کی غُلامی ہے اور شخصیت پرستی ہے۔
ڈاکٹر رشید حسن خان اور این ایس ایف کے بانی قائدین چاہتے تھے کہ نوجوان خود تحقیق کریں کہ جمہوری جِدوجہد کا سفر کہاں سے شُروع ہوا۔ کِن کِن منازل سے گذرا، اِس سفر کے دوران کون کون سی قربانیاں دینی پڑیں، کیا کھویا، کیا پایا، کیا سیکھا اور کیا سیکھنا رہ گیا۔
شائد فیض احمد فیض کے الفاظ میں ڈاکٹر رشید حسن خان کی طالبِ علموں کے لیئے یہی تمنا تھی کہ ۔۔۔۔۔۔
جِن کا دیں پیرویء کِذب و ریا ہے ان کو
ہِمتِ کُفر مِلے، جُرآتِ تحقیق مِلے
جِن کے سر مُنتظرِ تیغِ جفا ہیں اُن کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق مِلے

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts