1۔ پرولتاریہ: وہ جن کے پاس زندہ رہنے کیلئے اپنی محنت کو بیچنے کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ 2۔ بورژوا: وہ جن کی بےپناہ دولت کی وجہ اُن کی محنت نہیں ہوتی بلکہ پرولتاریہ کی محنت سے پیدا ہونے والی بےپناہ پیداوار ہوتی ہے۔
طبقاتی جدوجہد کیا ہے؟
طبقاتی کشمکش، طبقاتی جدوجہد اور طبقاتی جنگ جیسی اصطلاحات دراصل اُس مخاصمت اور کشیدگی کے اظہار کے لیے مستعمل ہیں جو دو یا دو سے زائد طبقات کے افراد کے درمیان اقتصادی و سماجی مفادات کے حصول کے لیے پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی طبقاتی کشمکش سماج میں بنیاد تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے۔ طبقاتی کشمکش سماج میں کئی اقسام کے تصادم کا سبب بن سکتی ہے؛ مثلاً کم اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور وسائل کے لئے براہ راست جنگیں، یا غربت، بھوک، بیماری یا غیر محفوظ کام کرنے کے حالات کی وجہ سے ہونے والی اموات جیسا بالواسطہ استحصال بھی طبقاتی کشمکش ہی کی نوعیتیں ہیں۔ دریں اثناء ملازمت کے کھو جانے کا خوف اور سرمایہ داروں کی جانب سے سرمایہ کاری میں مندی کے رجحان جیسے جبر بھی اِسی طبقاتی کشمکش کے زمرے میں آتے ہیں۔ قانونی یا غیر قانونی سیاسی گروہ بندی (LOBBING) کرکے اور حکومتی عہدیداران کو رشوت دے کر لیبر قوانین، ٹیکس قوانین، صارف قوانین، ٹیرف قوانین وغیرہ جیسے قوانین لاگو کروانا یا تبدیل کروانا بھی طبقاتی کشمکش کی سیاسی جہات ہیں۔ اِسی طرح ٹریڈ یونین، طلبہ یونین اور دیگر یونین پہ پابندیاں بھی طبقاتی کشمکش کا سیاسی جبر ہے۔
کارل مارکس کے مطابق طبقاتی نظام میں طبقات کے مابین کشمکش ہی تاریخ کی بڑھوتری میں فیصلہ کن اور ناگزیر کردار ادا کرتی ہے۔
مشہور انارکسسٹ “میخائل باکونن” کے مطابق محنت کش طبقے، کسانوں اور غریب طبقے میں حکمران اشرافیہ حکومت کے خاتمے اور آذاد سوشلسٹ سماج کی تخلیق میں شامل ایک سماجی انقلاب کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔ یہ صرف ایک امکان ہے، یعنی طبقاتی جدوجہد ہمیشہ معاشرے میں فیصلہ کن عنصر نہیں ہوتی جبکہ کارل مارکس کے مطابق طبقاتی نظام میں طبقات کے مابین کشمکش ہی تاریخ کی بڑھوتری میں فیصلہ کن اور ناگزیر کردار ادا کرتی ہے۔
سماجی پیداوار اور اُس کی تقسیم، سماجی حیثیت و مرتبہ اور دولت کی بنیاد پہ طبقات میں منقسم سماج میں طبقاتی کشمکش کا موجود ہونا ایک ناگزیر امر ہے۔ اِس حوالے سے فریڈرک اینگلز کی کتاب The Peasant War in Germany طبقاتی کشمکش کا بہترین تجزیہ بیان کرتی ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندر “طبقاتی کشمکش” کی بہترین مثال ہے، جہاں “طبقاتی کشمکش” بنیادی طور بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان وقوع پذیر رہتی ہے۔ اِس کشمکش کے بنیاد کام/مزدوری کے اوقات، اجرت کی قدر، منافع کی تقسیم، مصنوعات/پیداوار ی لاگت، کام/مزدوری لینے کے طریقہ کار، پارلیمنٹ یا بیوروکریسی پر کنٹرول اور اقتصادی عدم مساوات پہ ہوتی ہے.
ایسا نہیں کہ “طبقاتی جدوجہد یا کشمکش” کی اصطلاح صرف سوشلسٹ یا کیمونسٹ استعمال کرتے ہیں۔ امیر ترین سرمایہ داروں اور حکمران اشرافیہ کو بھی اِس کشمکش کا مکمل ادراک ہے۔ سابق امریکی صدر تھامس جیفرسن کے مطابق: “میں اِس حقیقت کا قائل ہو چکا ہوں کہ وہ معاشرے جہاں عوام کے اوپر کوئی مرکزی حکومت مسلط نہیں ہے اُن معاشروں کی نسبت زیادہ پرسکون اور خوش ہیں جن پہ کوئی حکومت مسلط ہو چکی ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے طاقتور قانونی جبر کے تحت عوام بھیڑوں اور بھیڑیوں کے دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے، جبکہ حکومتی جبر کے بغیر معاشروں میں رائے عامہ ہی قانون اور ضابطوں کی جگہ ہوتی ہے۔ میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔”(1)
ایک سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندر “طبقاتی کشمکش” کی بہترین مثال ہے، جہاں “طبقاتی کشمکش” بنیادی طور بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان وقوع پذیر رہتی ہے۔
اِسی طرح دنیا کے مشہور ارب پتی “وارن بفٹ” نے سی این این کو انٹرویو کے دوران اعتراف کیا کہ: “میرے طبقے، یعنی امیرترین طبقے، نے دنیا بھر پہ طبقاتی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ یہ جنگ امیر طبقہ جیت رہا ہے، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے”۔ (2) جبکہ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وارن بفٹ نے کہا کہ: “مجھے طبقاتی جنگ کا ادراک ہے، یہ طبقاتی جنگ ہمارے امیر طبقے کی شروع کی ہوئی ہے اور ہم ہی اِسے جیت رہے ہیں”۔ (3) اِسی طرح وارن بفٹ نے ایک دوسرے انٹرویو میں امیر ترین طبقے کے مفادات کے لیے حکومتی چھتری کا اعتراف کیا۔ (4)
طبقاتی کشمکش ہمارے موجودہ عہد میں اپنی تاریخی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ بظاہر بہت خوش رنگ دِکھائی دینے والی تصاویر کی اصلیت بہت گھناؤنی ہے۔ امریکہ کی مثال بھی ایسے ہی ہے۔ لبرل ازم اور انسانی حقوق کا نام نہاد علمبردار ملک خود ایک بدبودار ریاست ہے۔ مشہور امریکی ماہرِ لسانیات، فلسفی اور سیاسی کارکن “نوم چومسکی” کے مطابق: “طبقاتی جنگ ہر جگہ موجود ہے، مگر امریکہ خاص طور پر کاروباریوں کے ہاتھوں یرغمال ریاست ہے جس میں کاروباری طبقہ اپنی طاقت میں اضافے کے لئے غیرمعمولی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں”۔ اِس ضمن میں نوم چومسکی کی تصنیف OCCUPY: Class War, Rebellion and Solidarity پڑھنے کے قابل ہے۔
موجودہ عہد میں طبقاتی کشمکش کی نمایاں ترین مثال “عرب بہار” کے نام سے منسوب عوامی بغاوت ہے۔ عرب ممالک میں اٹھنے والی اِس عوامی بغاوت کی وجوہ کے طور پر مطلق العنان بادشاہت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، حکومتی کرپشن، اقتصادی تنزلی، بے روزگاری، انتہائی غربت اور آبادیاتی ساخت جیسی بہت سے توجیہات بیان کی جاتی ہیں، مگر آخری تجزیہ میں طبقاتی کشمکش ہی اِس بغاوت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بلاشبہ پانچ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ بغاوت نظام کی تبدیلی کا سبب نہیں بن پائی ہے، کیونکہ وہاں کے معروض میں تبدیلی کے ایجنڈے کی حامل کوئی تنظیم موجود نہیں ہے۔ اگر عرب ممالک میں طبقاتی کشمکش کو کم اور بعدازاں یکسر ختم کرنے والی تبدیلیاں کی جاتیں تو سماج میں امن، برداشت اور ترقی کا دور چل نکلتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ شمالی افریقہ اور خلیج فارس کے تمام ممالک میں بغاوت کے لئے محرک دہائیوں سے اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اور نوجوانوں کی طرف سے جمود کو قبول کرنے سے انکار نے عطا کیا۔
طبقاتی جنگ ہر جگہ موجود ہے، مگر امریکہ خاص طور پر کاروباریوں کے ہاتھوں یرغمال ریاست ہے جس میں کاروباری طبقہ اپنی طاقت میں اضافے کے لئے غیرمعمولی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں
کیمونسٹ مینی فیسٹیو کے مصنفین کتاب میں لکھتے ہیں کہ: “ایک طبقہ اُس وقت قائم ہوتا ہے جب اُس کے اراکین طبقاتی شعور اور یکجہتی حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔۔ عموماً یہ اُس وقت ایسا ہوتا ہے جب ایک طبقے کے ارکان کو اُن کے استحصال کا ادراک ہو جاتا ہے اور اپنے طبقے کا استحصال کرنے والے دوسرے طبقے کی پہچان ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اِس طرح وہ طبقہ اپنے مشترکہ مفادات اور مشترکہ تشخص کا احساس کرنے لگتا ہے.” یعنی مارکس اور اینگلز جس نکتے کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک طبقے کے تمام اراکین کے باہمی مفادات مشترک ہوتے ہیں۔ یہ مفادات کا تنازعہ ہی طبقاتی کشمکش کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں دو مختلف اقسام کے انفرادی ارکان کے درمیان تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مارکسی طریقِ تجزیہ کے مطابق اِس وقت دنیا میں دو طبقات دستیاب ہیں؛
1۔ پرولتاریہ: وہ جن کے پاس زندہ رہنے کیلئے اپنی محنت کو بیچنے کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
2۔ بورژوا: وہ جن کی بےپناہ دولت کی وجہ اُن کی محنت نہیں ہوتی بلکہ پرولتاریہ کی محنت سے پیدا ہونے والی بےپناہ پیداوار ہوتی ہے۔
انقلاب کے بعد بھی طبقاتی کشمکش جاری رہے گی اور طبقات کا خاتمہ بتدریج خاتمہ ہو گا۔ طبقات کی بتدریج ٹوٹ پھوٹ سے ریاست بھی بتدریج تحلیل ہو گی۔
مارکسی تناظر میں ضروری نہیں کہ ہر طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہڑتالوں، احتجاجوں، تالہ بندیوں کی صورت میں پرتشدد ہوگا، بلکہ کارکنوں کے پست حوصلے، معمولی تخریب کاری اور چوری، اور چھوٹے موٹے عہدے داروں کی طرف سے محنت کشوں کے انفرادی غلط استعمال سے بھی طبقاتی کشمکش کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن طبقاتی کشمکش کا شدید ترین اظہار اُس وقت ہوتا ہے جب پرولتاریہ روایتی ٹریڈ یونینوں اور پاپولسٹ سیاسی جماعتوں سے علیحدہ ایک تحریک منظم کرتے ہیں۔ مارکس اِس شعوری عمل کو پرولتاریہ کی جانب سے دنیا بدل دینے کی حامل “پیش رفت” کہتا ہے۔
ایک اہم سوال بہت سے ترقی پسند ذہنوں میں بھی ابھرتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد کیا ہو گا؟ انقلاب کے بعد بھی طبقاتی کشمکش جاری رہے گی اور طبقات کا خاتمہ بتدریج خاتمہ ہو گا۔ طبقات کی بتدریج ٹوٹ پھوٹ سے ریاست بھی بتدریج تحلیل ہو گی۔ مارکس کے مطابق کسی بھی ریاست کی سرشت میں اپنی بقاء کی خواہش رہتی ہے مگر غیرطبقاتی نظام میں ایک ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ سماجی ارتقاء میں یہی مقام سوشلزم سے کمیونزم کی طرف سفر کا نقطہِ آغاز ہو گا۔
Leave a Reply