🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

تاریخ اردو اور تاریخ برصغیر پاک و ہند پارٹ(1)٭٭(ترمیم2) قسط # 1

Back to Posts

تاریخ اردو اور تاریخ برصغیر پاک و ہند پارٹ(1)٭٭(ترمیم2) قسط # 1

تاریخ اردو اور تاریخ برصغیر پاک و ہند پارٹ(1)٭٭(ترمیم2)
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭ 
عربوں نے 636ع میں فارس کو فتح کیا۔رفتی رفتہ ساسانی سلظنت کے بقیہ علاقہ بھی اُن کے قبضہ میں آگےۤ۔ 
٭ محمد بن قاسم 712ع میں جن دنوں سندھ پر قبضہ کرنے میں مصروف تھا تو عربوں کا ایک لشکر قتیبہ ابن مسلم کی قیادت میں سمرقند،بخارآ اور ماوراُاۤلنہر کو تسخیر کرلیا۔ 
٭ نویں صدی میں جب عربوں کا زوال شروع ہوا تو ماورا اۤلنہر میں سامانیوں نے اپنی خود مختار حکومت قایۤم کرلی تھی۔ سامانیوں کا دارلحکومت بخارا تھا۔اور بلاد عجم میں ان ہی کا فرمان چلتا تھا۔سامانی ایرانی نژاد تھے۔انہوں نے ایرانی تہذیب کو خوب چمکایا تھا۔
 ٭ دولت سامانیہ کی حکومت خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 874ء میں ماوراء النہر میں قائم ہوئی۔ (((ماوراء النہر (Transoxiana)وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں موجودہ ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کا علاقہ ہے۔جہاں پہلے یہ ملک آباد تھا ماوراء النہر کے اہم ترین شہر سمرقند اور بخارا،خجند،اشروسنہ اور ترمذ شامل تھے پانچ صدیوں تک یہ ملک اسلامی ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین ملک رہا ہےیہ بہت مشہور بزرگ علماء ،دانشور، درویش اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔1917 تا 1989ء تک روسی تسلط میں رہا اب ازبکستان کا حصہ ہے۔ 
٭فارسی کے معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر ہے۔ چنگیز خان نے 1219ء میں خوارزم شاہی سلطنت کی فتح کے موقع پر ماوراء النہر کو زیر نگیں کیا اور اپنی وفات سے قبل مغربی وسط ایشیا اپنے دوسرے بیٹے چغتائی خان کو سونپ دیا جس نے علاقے میں چغتائی سلطنت قائم کی۔ امیر تیمور نے ماوراء النہر کے شہر سمرقند کو تیموری سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔)))
 ٭اپنے مورث اعلیٰ اسد بن سامان کے نام پر یہ خاندان سامانی کہلاتا ہے ۔ نصر بن احمد بن اسد سامانیوں کی آزاد حکومت کا پہلا حکمران تھا۔ ماوراء النہر کے علاوہ موجودہ افغانستان اور خراسان بھی اس کی حکومت میں شامل تھے۔ اس کا دارالحکومت بخارا تھا۔ سامانیوں نے 1005ء تک (یعنی کل 134 سال) حکومت کی۔ اس عرصے میں ان کے دس حکمران ہوئے۔ 
٭سامانیوں کاایک بڑا کارنامہ خانہ بدوش ترک قبائل کی یلغار سے مملکت کی حفاظت کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے شمالی سرحدوں پر جگہ جگہ چوکیاں قائم تھیں، جنہیں رباط کہا جاتا تھا۔ یہاں حملہ آوروں کے خلاف جہاد کے لئے ہر وقت رضاکار موجود رہتے تھے۔ اس دور میں ترکوں میں اسلام تیزی سے پھیلا اور چوتھی صدی کے آخر تک مشرقی ترکستان یعنی کاشغر اور اس سے ملحق علاقے اور شمالی ترکستان سے لے کر روس میں وولگا کی وادی تک اسلام پھیل گیا۔ 
#٭انہوں نے عربی کو ہٹا کر فارسی کو سرکاری زبان کا رُتبہ دیا۔فارسی کا پہلا عظیم شاعر رود کی ( 940ع) سامانیوں کے ہی دربار سے وابستہ تھا۔ سامانی دور کا فارسی شاعر رودکی کی تصنیفات اور اسکی خصوصیات پر مختصر نوٹ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
قصیدہ اور رودکی ۔رودکی اپنے قصائد کی وجہ سے بہت مشہور ہوا، اس کے لیئے قصیدوں میں یہ اہتمام کیا گیا کہ پہلے مطلع آتا اس کے ساتھ ہی تشبیب شروع ہوجاتی ہے۔ تشبیب میں شاعر عموما اپنے محبوب کے حسن و جمال کا ذکر کرتا ہے اس لیئے اسے غزل بھی کہاجاتا ہے۔ شروع میں غزل گوئی جداگانہ صنف سخن نہ تھی بلکہ تشبیب ہی کو غزل کہتے تھے ۔تشبیب کے بعد ممدوح کی تعریف ہوتی ہے پھر ممدوح کے حق میں دعا ہوتی ہے آخر میں شاعر ممدوح کو اپنی ضرورتوں کا احساس دلاتا ہے جس کو طلب یا حسن طلب کہتے ہیں۔ جس شعر میں شاعر اپنا تخلص لاتاہے اس کو قطع کہتے ہیں ۔رودکی قصیدے لکھنے کا جو انداز اختیار کیا تھا وہ آج بھی جوں کا توں ہے ۔ 
تصنیفات
۔ ــــــــــــــــ
 تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ کلیہ ودمنہ کو فارسی میں نظم کرنے والے رودکی تھے جسے نوشیرواں عادل کے زمانے میں حکیم بزرجمہیرنے ایک مشہور عالم ابن مقفع سے عربی سے پہلوی میں ترجمہ کرایا تھا یہ منظوم کلیہ ودمنہ اب ناپید ہے لیکن اس کے بعض اشعار فرہنگ اسد ی طوسی میں درج کیئے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظم سے ان کو چالیس ہزار درھم انعام میں ملے تھے ۔محمد عوفی لکھتے ہیں کہ رودکی بہت پرگو شاعر تھے اس نے 100 منظوم کتابیں لکھی ہیں ممکن ہے کہ عوفی کا بیان درست ہو لیکن اب رودکی کے ایک دیوان کے سوائے کوئی یادگار باقی نہیں ہیں۔ علم و ادب کی سرپرستی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ-
 عربی دور کے بعد فارسی دور
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 سامانی عہد میں علم و ادب کی دل کھول کر سرپرستی کی گئی۔ اس دور کی بڑی خصوصی فارسی زبان کی ترقی ہے۔ اس سے قبل تک مسلمان جس قدر کتابیں لکھتے تھے وہ عربی زبان میں ہوتی تھیں، حتیٰ کہ جو لوگ عرب نہیں تھے (مثلاً ایرانی و ترک) وہ بھی عربی ہی پڑھتے اور لکھتے تھے۔ یہ لوگ فارسی اور ترکی کے بجائے شاعری بھی عربی میں ہی کرتے تھے۔ سامانی بادشاہوں نے اب فارسی زبان کی سرپرستی شروع کردی، کیونکہ وہ خود بھی فارسی بولتے تھے۔ 
٭چنانچہ فارسی کا پہلا بڑا شاعر رودکی، اسماعیل کے پوتے نصر (913ء تا 942ء) کے دربار کا شاعر تھا۔ 
٭اسی زمانے میں امام طبری کی مشہور تاریخ اور تفسیر کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ ٭مشہور فلسفی فارابی اور ابن سینا کا ابتدائی تعلق سامانی دربار سے تھا۔ 
٭علماء میں علم الکلام کے ماہر امام منصور ماتریدی متوفی 330ھ 
٭اور صوفیوں میں ابو نصر سراج متوفی 378ھ بھی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاتمہ ــــــــ-
– آخری دور میں سامانی حکومت بھی عباسیوں کی طرح کمزور ہوتی چلی گئی۔ مختلف گورنروں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ خراسان اور غزنی کے علاقوں میں ان کے ایک سپہ سالار سبکتگین نے اپنی آزاد حکومت قائم کرلی۔ 
اسی طرح بخارا اور سمرقند پر کاشغر کے بادشاہ ایلک خان نے قبضہ کرکے سامانی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ سبکتگین ٭٭٭٭٭٭
 امیر ناصر الدین سبتگین کنیت ابو منصور (942 – اگست 997),سطنت غزنویہ کے بانی تھے جس پر وہ 977 تا 997 تک حکمران رہے۔ سبکتگین ایک ترک لفظ ہے جس کے معنی عزیز شہزادے کے ہیں۔یہ سبکتگین ہی تھے جنھوں نے پنجاب کے حکمران راجہ جے پال اور اس کے ساتھ دینے والے دہلی ،اجمیر کالنجر اور قنوج کی متحد ٹڈی دل لشکر کو شکست دی اور یوں ہندوستان میں اپنی حکومت کو وسعت دی۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts