انسان بڑا کیسے بنا؟ بشکریہ منیب احمد ساحل
مصنف:ایلین اور سیگال
مترجم :منیب احمد ساحل
حصہ اول
عظیم انسان
کرہ ارض پرا یک عظیم ہستی ہے۔
اس کے ہاتھ ایسے ہیں کہ وہ آسانی سے انجن اٹھا لیتے ہیں۔
اس کے پیر ایسے ہیں کہ وہ ہزاروں میل کا راستہ ایک دن میں طے کر لیتے ہیں۔
اس کے پر ایسے ہیں کہ وہ اس کو بادلوں کے اوپر لے جاتے ہیں جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا۔
اس کے پیراک پر ایسے ہیں کہ وہ زیر آب کسی مچھلی سے بہتر کام دیتے ہیں۔
اس کی آنکھیں ایسی ہیں کہ غائب چیز کو دیکھ سکتی ہیں اور کان ایسے ہیں کہ دنیا کے دوسرے سرے کی بات سن سکتے ہیں
یہ ہستی اتنی طاقتور ہے کہ پہاڑوں کے اندر سرنگیں بناتی ہے اور آبشاروں کو ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔
وہ اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے خدوخال بدل رہی ہے، جنگل لگا رہی ہے، سمندروں کو ایک دوسرے سے ملا رہی ہے، ریگستانوں کو سیراب کر رہی ہے۔
یہ عظیم ہستی کون ہے؟
لیکن وہ عظیم کیسے بن گیا، کرہ ارض کا مالک کیسے بنا؟
اس کتاب میں ہم یہی بتانا چاہتے ہیں۔
پہلا باب
نظرنہ آنے والا پنجرا
ایک زمانہ تھا جب انسان عظیم نہیں بلکہ حقیر تھا، قدرت کا مالک نہیں، اس کا فرماں بردار غلام۔
قدرت پر اس کا زور اتنا ہی کم تھا اور اس کی آزادی اتنی ہی محدود تھی جتنی جنگلی جانور یا پرندے کی ہوتی ہے۔
کہاوت تویہ ہے کہ ”چڑیا کی طرح آزاد”۔
لیکن کیا چڑیا واقعی آزاد ہوتی ہے؟
یہ سچ ہے کہ اس کے پر ہوتے ہیں اور وہ کہیں بھی جا سکتی ہے، جنگلوں،پہاڑوں اور سمندروں کے اوپر۔ جب خزاں میں سارس جنوب کی طرف اڑکر جاتے ہیں تو ہمیں بڑا رشک آتا ہے۔ اوپر آسمان میں وہ باقاعدہ ڈار بنا کر اڑتے ہیں اور نیچے کھڑے لوگ اپنے سر اٹھا اٹھا کر اوپر دیکھتے ہیں اور حیرت سے کہتے ہیں ” چڑیوں کو دیکھو! وہ ہر جگہ اڑکر جاسکتی ہیں!”
لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا چڑیاں ہزاروں میل اسی لئے اڑتی ہیں کہ ان کو سفر پسند ہے؟ نہیں، وہ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً ایسا کرتی ہیں۔ ان کی منتقل ہونے کی عادتیں بے شمار نسلوں اور ہزاروں سال کی مدت میں زندگی کی جدوجہد نے پیدا کی ہیں۔
چونکہ ہر چڑیا ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑکر جا سکتی ہے اس لئے یہ سوال بجا طو رپر پیدا ہوتا ہے کہ ہر قسم کی چڑیاں دنیا کے ہر حصے میںکیوں نہیں پائی جاتیں۔
اگر ایسا ہوتا تو ہمارے صنوبر کے شمالی جنگل اور سفیدے کی گپھائیں شوخ رنگ طوطوں اورلوئوں سے بھری پڑی ہوتیں۔ جنگل سے گذرتے ہوئے ہم اپنے سر کے اوپر میدانی چکاوک کی جانی پہچانی چہچہاہٹ سنتے۔ لیکن نہ تو ایسا ہے اورنہ کبھی ہو سکتا ہے کیونکہ چڑیاں اتنی آزاد تونہیں جتنی وہ معلوم ہوتی ہیں۔ دنیا میں ہر چڑیا کا اپنا مقام ہے ۔ ایک جنگل میںر ہتی ہے تو دوسری کھلے میدان میں اور تیسری ساحل سمندر پر۔
ذرا سوچو تو عقاب کے پروں میں کتنی قوت ہوتی ہے! لیکن وہ اپنی حد سے باہر نکل کر کبھی گھونسلا نہیں بنائے گا۔ سنہرا عقاب اپنا بڑا سا گھونسلا کھلے اور بے درخت میدانوں میں نہیں بناتا اور میدانی عقاب کبھی جنگل میں گھونسلا نہیں بناتا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جنگل استیپ کے میدانوں سے ایسی نظر نہ آنے والی دیوار کے ذریعہ علحدہ کیا گیا ہے جس کے اندر سے ہرجانور اور ہر چڑیا نہیں گذر سکتی۔
تم کو جنگل کے سچے باسی مثلاً بٹیر، جنگلی مرغی اور گلہری کبھی میدانوںمیں نہیں ملیں گے اور میدانوں کے جانور جیسے تغدار اور پھدکنے والا چوا وغیرہ جنگل میں نہیں دکھائی دیں گے۔
اس کے علاوہ ہر جنگل اور ہر میدان میں بہت سی نظر نہ آنے والی دیواریں ہوتی
ہیں جو اس کو چھوٹی چھوٹی دنیائوں میں بانٹ دیتی ہیں۔
ہیں جو اس کو چھوٹی چھوٹی دنیائوں میں بانٹ دیتی ہیں۔
Leave a Reply