Back to Posts
Back to Posts
04Nov
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
#٭قدیم اسلامی فتوحات کے زمانے میں فارسی اور ہندی کے باہمی تصادم اور میل جول سے ایک نیۤ زبان ظہور میں ایۤ جو رفتہ رفتہ ترقی کرتی رہی اور آج اردو ہوگیۤ۔ اردو کی ابتدآ مسلمانوں اور ہندووۤں کے باہم میل جول اور کاروباری تعلق سے ہویۤ۔ اردو زبان کی پرورش میں ،،صوفیآ اکرام ،،کے عوام دوست رویہ نے بھی اسے پروان چڑہنا میں کلیدی رول ادا کیا۔
٭ ساتویں صدی عیسوی میں کچھ عرب تجارت کی غرج سے ساحل مالابار پر وارد ہوےۤ اور رفتہ رفتہ تمام دکن میں پھیل گیےۤ۔ قیاس کیا جاتا ھے انہیں عرب تجار اور دکھنیوں کے باہم اجتماع اور اکتلاط سے ایک نیۤ زبان کی ابتدآ ہویۤ جس نے ترقی کرتے کرتے موجودہ اردو کی شکل اختیار کرلی۔لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ کیونکہ اردو کا تعلق ڈریوڈین زبانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی اسے کچھ عربی سے مناسبت ہے۔بلکہ اس کے اجزاےۤ ترکیبی خالڈ ایرین ہیں ۔یعنی سنسکرت اور فارسی۔
٭جنوبی ہند کے علاوہ عرب سندھ میں بھی وراد ہوےۤ۔ یہاں یہ تجارت کی غرض سے نہیں بلکہ فتوحات بڑھانے کی غرض سے آےۤ تھے اور 717 ع میں سندھ پر قابض ھوگےۤ تھے اور 400 سال تک اس علاقے پر قابض رہے۔ گمان ہوتا ہے عربوں اور سندھیوں کے باہم میل جول سےکسی زبان کی ابتدآ ہویٓ ہو۔ لیکن یہ اردو نہیں تھی بلکہ موجودہ سندھی زبان کی ابتدایۤ شکل تھی۔
٭ فتوحات سندھ کے بعد دسویں صدی میں محمود غزنوی نے سندھ پر 17 حملے کیےۤ اور گوالیار و دریاےۤ گنگ علاقے کو فتح کر ڈالے۔
٭ اس نے لاہور کو ڈارلحکومت قرار دے کر وہاں ایک سپہ سالار (َََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )مع افواج کے چھوڑا اور خود غزنی واپس چلا گیا۔ ٭ اس کی وفات کے بعد اُس کے جانشینوں نے پنجاب کی حکومت کو استحکام دیا اور 1193 تک پنجاب میں ایک خود مختار سلطنت قایۤم رہی اور لاہور اُس کا دارلحکومت رہا۔
٭ یہاں تک کہ 1193 میں محمد غوری نے ہندوستان فتح کر کے ،،دہلی،، کو اپنا دارلحکومت قرار دیا۔ اور پنجاب کو بھی دہلی کی حکومت میں شامل کرلیا۔
٭ خیال کیا جاتا ھے کہ اردو کی ابتدآ 1193 سے ہویۤ۔لیکن یہ خیال درست نہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ اردو کی داغ بیل فتح دہلی (1193) سے بہت قبل پڑ چکی تھی۔ مگر زبان کی حیثیت البتہ فتح دہلی کے بعد ہی اختیار کی۔
٭٭٭ 1000ع کے لگ بھگ موجودہ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور الہ آباد کے درمیانی علاقوں میں جو ،،پراکرت،، بولی جاتی تھی۔ اُسے ،،سورا سینی پراکرت،، کہتے تھے اور یہ ھی ،،پراکرت زبان اردو کی ماں،، ہے۔
الپگتین
٭٭٭٭٭
سلطنت غزنویہ ( فارسی کا دور)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطنت غزنویہ 976ء سے 1186ء تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دار الحکومت افغانستان کا شہر غزنی تھا۔ اس کا سب سے مشہور حکمران محمود غزنوی تھا جس نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور سومنات پر حملہ کرکے بطور بت شکن خود کو تاریخ میں امر کردیا۔
جب سامانی حکومت کمزور ہوگئی اور اس کے صوبہ دار خودمختار ہوگئے تو ان میں ایک صوبہ دار سبکتگین (366ھ تا 387ھ) نے افغانستان کے دار الحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں 366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین کا خراسان پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ۔
اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ راجہ جے پال نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی پر حملہ کردیا لیکن لڑائی میں سبکتگین نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار کرلیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال کو رہا کردیا اور وہ لاہور واپس آگیا لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کردیا اور وادی پشاور پر قبضہ کرلیا۔
دولت غزنویہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سبکتگین کا 20 سال کی حکومت کے بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت پر بیٹھا۔ محمود خاندان سبکتگین کا سب سے بڑا بادشاہ ہوا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مشہور حکمرانوں میں سے ایک محمود ہندوستان پر 17 حملوں کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔
محمود بچپن سے ہی بڑا نڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکا تھا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ وہ کامیاب سپہ سالار اور فاتح بھی تھا۔ شمال میں اس نے خوارزم اور بخارا پر قبضہ کرلیا اور سمرقند کے علاقے کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی۔ اس نے پہلے بخارا اور سمرقند کاشغر کے ایلک خانی حکمرانوں کے قبضے میں تھے اور خوارزم میں ایک چھوٹی سے خودمختار حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ جنوب میں اس نے رے، اصفہان اور ہمدان فتح کرلئے جو بنی بویہ کے قبضے میں تھے ۔ مشرق میں اس نے قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے ۔
محمود عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور شخصیات میں فردوسی اور البیرونی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
زوال
ــــــــــ
محمود کے لڑکے مسعود کے آخری زمانے میں وسط ایشیا کے سلجوقی ترکوں نے غزنوی سلطنت کے شمال اور مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اب سلاطین غزنی کے قبضے میں صرف وہ علاقے رہ گئے جو اب مشرقی افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہیں۔ بارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا جانے والا مینار سلطان مسعود غزنوی
سلطان ابراہیم
ـــــــــــــــــــــــ
دور زوال کے غزنوی حکمرانوں میں سلطان ابراہیم (451ھ تا 492ھ) کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ اس نے اپنے 40 سالہ دور حکومت میں سلطنت کو مستحکم کیا، سلجوقیوں سے اچھے تعلقات قائم کئے اور ہندوستان میں مزید فتوحات حاصل کیں۔ اس کے عہد میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو پنجاب سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ ابراہیم نے دہلی تک تمام علاقہ غزنی کی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کی افواج نے بنارس تک کامیاب حملے کئے ۔ ابراہیم بڑا دیندار اور رعایا پرور حکمران تھا۔ رات کو غزنی کی گلیوں میں گشت کرتا اور محتاجوں اور بیوائوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کرتا۔ وہ اعلیٰ درجے کا خوشنویس تھا۔ ہر سال ایک قرآن مجید لکھتا جسے ایک سال مکہ معظمہ اور دوسرے سال مدینہ منورہ بھیجتا۔ اس کو محلات سے زیادہ ایسی عمارتیں بنانے کا شوق تھا جن سے عوام کو فائدہ پہنچے چنانچہ اس کے عہد میں 400 سے زائد مدارس، خانقاہیں، مسافر خانے اور مساجد تعمیر کی گئیں۔ اس نے غزنی کے شاہی محل میں ایک بہت بڑا دوا خانہ قائم کیا جہاں سے عوام کو مفت ادویات ملتی تھیں۔ اس دوا خانے میں خصوصاً آنکھ کی بیماریوں کی بڑی اچھی دوائیں دستیاب تھیں۔
خاتمہ
ـــــــــــــ 545
ھ بمطابق 1150ء میں غزنی پر غور کے ایک حکمران علاؤ الدین نے قبضہ کرکے شہر کو آگ لگادی جس کی وجہ سے دنیا کا یہ عظیم شہر جل کر خاکستر ہوگیا۔ علائو الدین کے اس ظالمانہ کام کی وجہ سے لوگ اس کو ”جہاں سوز“ یعنی دنیا کا جلانے والا کہتے ہیں۔ اس کے بعد غزنوی خاندان کے آخری دو حکمرانوں کا دارالسلطنت لاہور ہوگیا۔ 582ھ میں غور کے ایک دوسرے حکمران شہاب الدین غوری نے لاہور پر قبضہ کرکے آل سبکتگین کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔
اہمیت
ــــــــــ
غزنوی حکمرانوں کا دور پاکستان کی تاریخ میں خاص طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ پاکستان تقریباً 200 سال تک غزنی کی سلطنت کا حصہ رہا اور اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ کوہ سلیمان کے رہنے والے پٹھانوں نے اسی زمانے میں اسلام قبول کیا اور لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کا مرکز بنا۔
Leave a Reply