سوشلزم اور پاکستانی مذہبی معروض
کامریڈ فاروق بلوچ
کالم نگار آئی بی سی اردو
عمومی طور پر مذہب اور خاص طور پر، پاکستانی معروض میں، اسلام ہمارے لیے نہایت حساس معاملہ ہے۔ مارکس اور اینگلز اسلام کے ظہور کی وجوہ و محرکات اور اسلام کے کردار کو سمجھنے میں بڑے سنجیدہ تھے- وہ اسے محمدیﷺ انقلاب Muhammadan Religious Revolution تسلیم کرتے تھے اور اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپس میں خط و کتابت بھی کرتے رہے-
اسلامی عقائد و شخصیات کے مطالعے کو سمجھنا چاہیئے- مسلمان اقوام کی تواریخ کے مطالعے سے بے نیازی نہیں برتی جا سکتی۔ پاکستان کے قدیم و جدید سماج کی تاریخ کا سائنسی مطالعہ کرنا ہوگا- خاص طور پر ابتدائی صدیوں کی اسلامی تاریخ کابھی حقیقت پسندانہ معروضی تجزیہ کرنا ہوگا-
جب ہمارا دعویٰ ہی سماجی تاریخ کو اپنے عوام کے حق میں تبدیل کرنے کا ہے تو پھر پاکستان اور مسلمانوں کی سماجی تاریخ سے یہ لاتعلقی کیوں برتی جائے- سماجی نصب العین کوسامنے رکھا جائے تو عالمی مارکسی رجحان کا اسلام سمیت کسی بھی مذہب سے براہِ راست کوئی تصادم نہیں- مارکس اور اینگلز کا لکھا ہوا “کیمیونسٹ مینی فیسٹو” راہ انقلاب کی بنیادی دستاویز ہے، جس میں کسی بھی مذہب کے خلاف ایک سطر بھی نہیں۔
روس کا معروف انارکسٹ باکونن پہلی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں ’’ملحد سوشلسٹوں کے سیکشن‘‘ کی حیثیت سے رکنیت چاہتا تھا لیکن مارکس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ورکروں کو مومنوں اور ملحدوں میں مت تقسیم کرو۔ مارکسی نظریات کو پڑھے اور سمجھے بنا کفر کے فتوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالانکہ یہ ایک عین اسلامی نظام ہے-
سمجھانے کی بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے، معاشی اخلاقیات اور اصول و ضوابط بھی کھلم کھلا بیان کرتا ہے- اسلام نے کوئی مربوط معاشی نظام دینے سے گریز کیا ہے- کوئی مخصوص وضع قطع بیان نہیں کی- اسلام ہمیں معاشی اخلاقیات و اصول کے ذریعے کسی بھی معاشی نظام ترتیب دینے کی اجازت دیتا ہے- مثال کے طور پر اسلام سود کی اور جوئے کی شدید ممانعت کرتا ہے- اس بے قید سرمایہ داری کا ایک بڑا سبب سودی کاروبار ہے۔
اسلام سود کو حرام قرار دیتا ہے تاکہ سرمایہ داری کو تقویت حاصل نہ ہو۔ اسی طرح جواء لاٹری اور سٹہ بھی حرام ہے، ان چیزوں میں دوسرے کا مال بغیر معاوضے کے ہتھیا لیا جاتا ہے، جس سے ہارنے والے کا دل مال جیتنے والے کی طرف سے خراب ہو جاتا ہے اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے، جو امن عامہ کو خراب کرتا ہے، اسی لئے قرآن مجید میں اس کو عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ ”جب اللہ کسی چیز کو حرام بتاتا ہے تو اس کے معاوضے میں حاصل ہونے والا مال بھی حرام قرار دیتا ہے“- سرمایہ داری میں تو سود اور جوئے اور لکی ڈرا کا دھندا اس نظام کی بنیاد ہے-
سوشلزم واحد معاشی نظام ہے جس میں ان معاشی خباثتوں کا امکان ہی سرے سے ختم کیا گیا ہے-
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ پیداواری وسائل تمام عوام کی ملکیت تھے، ہر شخص معیشت کے مختلف ذرائع زراعت، تجارت، دستکاری وغیرہ اختیار کرنے میں آزاد تھا، جس کے نتیجے میں ہر شخص مطمئن ہو کر جدوجہد میں لگا ہوا تھا اور معاشرے میں سکون تھا۔
مارکس بھی ہر انسان سے اسکی مرضی، خواہش اور اہلیت کے مطابق کام لینے کی بات کرتا ہے اور ہر انسان کی ضروریات کو اسکی دہلیز پہ پہنچانے کا نظام وضع کرتا ہے- اللہ کے مال میں بنیادی طور پر تمام انسانوں کو یکساں حق تصرف حاصل ہے، تمام چیزیں جو زمین سے نکلتی ہیں یا دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب بنی نوع انسان کی نفع رسائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں-
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس بستی میں کوئی غریب بھوکا سوگیا، اس بستی پر سے اللہ کی رحمت اٹھالی جاتی ہے- ایک اور حدیث کے مطابق اس دور کے معروضی ذرائع پیداوار یعنی آگ، پانی اور چراگاہ پہ تمام انسانیت کا حق ہے- اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ نے یہودی سرمایہ دار سے میٹھے پانی کا کنووں خرید کر بلا امتیاز سب کے تصرف میں دے دیا- جیسے عزت مآب عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ مشرق ومغرب کے جس کونے میں بھی محمد ﷺ کی امت کا کوئی فرد ہو،میں اس تک اس کا حق پہنچادوں،بغیر اس کے کہ وہ مجھ سے اپنا حق مانگنے آئے (ابن اثیر۔ الکامل فی التاریخ: ۲ ۔ ۳۷۱)
سود اور جوا کی طرح معاشی استحصال سرمایہ دار نظام کے بنیادی نشانیوں میں سے ہے- سوشلزم نجی ملکیت کو ضرورت کے مطابق رہائشی گھر کی ملکیت وغیرہ تک محدود کرتے ہوئے معاشی استحصال کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے-
اسلام طبقاتی امتیاز کی شدت سے مخالفت کرتا ہے- سماجی، سیاسی، ثقافتی، نسلی، علاقائی اور معاشی غرض ہمہ قسمی امتیازات کی اسلام میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے- اسلام ایک ایسے عاملگیر انسانی سماج کی بات کرتا ہے جہاں تمام لوگ عزت اور آسانی سے اپنی زندگی کے معاملات گزارتے ہوں- اور یہ عالمگیر انسانی سماج جس میں مساوات بنیادی وصف ہو گا صرف سوشلزم کے تحت ممکن ہے-
سوشلزم بنیادی طور پر مانگ کا خاتمہ کرتا ہے اور ہر کسی کو باعزت طور پر اسکی ضروریات مہیا کی جاتی ہیں- یہ نہیں کہ کسی کے پاس ذخیرہ اور کہیں پیٹ کے لالے ہوں- حضرت علی ؓ نے اس کی روک تھام کے لئے عام اعلان کر دیا تھا کہ “کوئی شخص ذخیرہ اندوزی نہ کرے، ورنہ وہ مناسب سزا کا مستحق ہو گا۔
معاشی نظام میں توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اسراف، یعنی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے، یعنی آپ فرماتے ہیں کہ:میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آﺅ، آج کے دن کل کو بھول نہ جاﺅ اور بغیر ضرورت چیزوں کو سمیٹنے کے بارے میں فرمایا، جس چیز کی ضرورت نہ ہو، اُسے چھوڑ دو اور اُسی چیز کو حاصل کرو، جس کی ضرورت ہو”- حضرت علی ؓ کے اعلان سے ثابت ہوا کہ اسلام معاشی منصوبہ بندی کی فکر دیتا ہے- اور سوشلزم تو ہے ہی منصوبہ بند معیشت کا نام-
پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی عظیم الشان سنت یہ ہے کہ انسانوں کو انسان کی غلامی سے بچایا جائے- سیدنا عمر ابن خطاب نے فرمایا کہ انسانوں کو ان کی ماں نے آزاد جنا تھا لیکن تم لوگوں نے انہیں غلام بنا لیا- اسلام کے انقلاب کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک غلام کو روم جیسے ملک کی سرکوبی کیلیے فوج کی کمان سونپی گئی- حضرت بلال جیسے سیاہ فام توتلے غلام کو اسلامی معاشرے نے کمال تکریم عطا کی- جید صحابی سیدنا ابوزر غفاری کی سوانح کا تجزیہ بتاتا ہے کہ انہوں نے تادم مرگ معاشی استحصال کے خاتمے کی جنگ لڑی- انہوں نے شام کے گورنر کو اپنے لئیے محل کی تعمیر پر شدید تنبیہہ کی جس کی پاداش میں انہیں شام بدر کر دیا گیا – یہ ساری اخلاقیات اور مثبت سنتوں پر عمل معاشی مساوات اور عدم استحصال کے بغیر ممکن ہیں ہی نہیں-
جرائم اور گداگری کی اسلام نے شدید مخالفت کی اور سوشلسٹ سماج میں جرائم میں شدید کمی (نہ ہونے کے برابر ) واقع ہو سکتی ہے- سوشلزم میں گداگری کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے- سوشلزم کی منصوبہ بند معیشت کے تحت کوئی انسان خیرات کا حقدار ہی نہیں رہتا جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بندہ خود کو خیرات لینے کا حقدار نہیں سمجھتا ہے اور جو لوگ خیرات کرنا چاہتے تھے انکو لینے والا نہ ملتا تھا-
غرض سوشلسٹ نظام اور اسلامی معاشی اخلاقیات و اصول کا آپس میں کوئی تصادم نہیں بلکہ یہ ایک عین اسلامی نظام ہے-
Leave a Reply