.پاکستان میں اسلام قسط # 1
اسلام جمہوریہ اسلامی پاکستان کا سرکاری مذہب ہے ۔یہاں کی آبادی تقریباً 19 کروڑ 2 لاکھ ہے- ملک کی 95 سے 97 فیصد آبادی مسلمان ہے جب کہ 3 سے 5 فیصد آبادی اقلیت پر مشتمل ہے جن میں عیسائی، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہيں- تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں میں سے اکثریت سنیوں کی ہے اور اہل تشیع اس کے بعد آتے ہيں -ایرانی محقق ولی نصر کے مطابق ایران شیعوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں اول نمبر پر ہے جب کہ پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جہاں شیعوں کی تعداد سب سے زيادہ ہے جو 16اعشاریہ 5 ملین سے بڑھ کر اب 30 ملین ہو چکی ہے – پاکستانی عوام کا مسلکی تشخص
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بین الاقومی مرکز تحقیق، سنگا پور کے مطابق پاکستان میں سنی مسلمان 60 فیصد (جس میں بریلوی اور دیوبندی دونوں آتے ہیں)، اہل تشیع 20 فیصد، وہابی 4 فیصد باقی 1 فیصد دیگر۔
سنی مسلمان (60%)
اہل تشیع (20%)
وہابی (4%)
دیگر (1%)
تاریخ پاکستان اور اسلام کی آمد
پاکستان میں اسلام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اہل سنت بریلوی دیوبندی صوفیاء شیعہ اہل حدیث
فقہی مکاتب فکر
حنفی شافعی فقہ مالکی حنبلی جعفری
تاریخ
ــــــــ-
پاکستان میں اسلام کا تذکرہ ہمیشہ قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ آتا ہے ۔ کیوں کہ بر صغیر میں اسلام کی پہلی باقاعدہ آمد تو محمد بن قاسم کے حوالے سے مشہور ہے مگر دیگر تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان یہاں اس سے بھی پہلے پہنچ چکے تھے ۔
دور بنو امیہ اور جدید پاکستانی خطۂ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخی لحاظ سے موجودہ پاکستان جس میں سندھ، بلوچستان، پنجاب و کشمیر کا علاقہ شامل ہے ، اسلام سے اس وقت متعارف ہوا جب امیر معاویہ نے سندھ کے علاقوں کی طرف جہاد کے لیے لشکر بھیجا۔ بعد میں محمد بن قاسم نے کشمیر تک اسلامی فتوحات کا پرچم لہرایا ۔
بلوچستان میں اسلام
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
قدیم زمانے میں بلوچستان بھی سندھ سے ملحق ہوا کرتا تھا ۔ اس کا ایک قدیم حصہ کرمان کے نام سے مشہور تھا جو آج کل ایران کا حصہ ہے ۔ اسےسنہ 11ھجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سہل بن عدی نے بالائی بلوچستان یعنی پنجگور تک فتح کیا ۔ جب کہ پاکستانی حصے کا قدیم نام سیستان تھا جسے زیریں بلوچستان بھی کہا جاتا تھا اسے بعد میں حضرت عثمان کے زمانے میں (سنہ 18 ھجری / 652 عیسوی )حضرت مشاج بن مسعود نے فتح کیا ۔ پھر عبد الرحمن بن تمرہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین عثمان غنی کی طرف سے گورنر مامور ہوئے اس علاقے میں ۔ جس کے لیے زہری قوم کے لوگوں نے سب سے پہلے ان کا ساتھ دیا ۔ عبد الرحمان بن تمرہ کے عملداری میں کرمان ( ایرانی بلوچستان )، سیستان (پاکستانی بلوچستان ) اور سجستان ( افغانستان ) شامل تھے ۔ کہا جاتا ہے پورے ہندوستان میں کہیں کسی صحابی کا مدفن نہيں ہے سوائے بلوچستان کے علاقے زہری کے جہاں گورنر بلوچستان عبدالرحمٰن بن تمرہ دفن ہیں ۔ ان کے بعد حارث بن مرہ نے قلات کے علاقے کو بھی فتح کر کے مملکت اسلامیہ میں شامل کیا ۔اس زمانے میں اس علاقے کا نام توران بھی لیا جاتا ہے گیارہویں صدی کےدور میں یہاں ناصر الدین سبکتگین کی حکومت رہی ۔ جو غزنوی دور حکومت کی شروعات تھی ۔ 1219ء میں خیوہ ( خوارزم ) کے سلطان محمد خان کی حکومت رہی ۔ جنوبی مکران 1223ء میں منگولوں کے ہاتھوں تاراج ہوا ۔ 1595ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے حکومت کی – 1747 میں افغانستان کے احمد شاہ درانی نے فتح کیا ۔ خانان قلات کے پہلے سردار ناصر خان اول نے 1758 ء میں اسے افغانوں سے حاصل کیا ۔
سندھ میں اسلام
ـــــــــــــــــــــــ
خلافت بغداد کے ماتحت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنہ 50 ہجری میں حضرت امیر معاویہ مکران و بلوچستان کے عامل عبداللہ بن سوار کو سندھیوں کی تادیب کے لیے بھیجا ۔ سندھیوں کے ساتھ اس معرکے میں عبداللہ بن سوار شہید ہوگئے ۔ ان کے بعد حلب بن ابی صغرہ نے سندھ پر یلغار کی اور سندھ کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا ۔ اس کےکچھ عرصے بعد سنہ 92 ہجری میں سلمان بن عبدالملک کے دور خلافت میں حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے سپہ سالار محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ کے راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے فوج روانہ کی ۔ یہ سندھ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑي آمد تھی ۔ جس کی وجہ سے سندھ کو آج تک باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔ محمد بن قاسم سے پہلے تین حملوں میں اسلامی فوج کو کامیابی نہيں ملی ۔ مگر پھر بالآخر محمد بن قاسم کی فتح کے بعد کشمیر تا وادی سندھ اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا ۔ سندھ اور ملتان تک علاقے کو فتح کر لینے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے کردار سے اہل سندھ کے دلوں کو جیت لیا ۔ اس کے بعد اموی خلفاء کی زیادہ تر توجہ اس علاقے کی طرف کم ہی رہی ۔ تا آنکہ اموی خلافت بھی گزر گئی اور عباسی خلافت بھی گزر گئی ۔ ان دونوں خلافتوں کے دور میں اسلامی حکومت کی طرف سے عامل یا گورنر مقرر کیے جاتے رہے تھے ۔ جو مقامی حکمرانوں کی عمل داری میں خلافت اسلامیہ کی نمائندگی بھی کرتے تھے ۔ تا آنکہ سنہ 265 ہجری میں خلافت عباسیہ کے بتدریج زوال پزیر ی کے بعد صوبہ سندھ بھی بے تعلق اور آزاد ہو گیا ۔ یہاں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں ۔ ایک کا دارالحکومت ملتان اور دوسری کا دارالحکومت منصورہ تھا ۔ سلطنت منصورہ میں ملک سندھ کا جنوبی حصہ شامل تھا اور ملتان کی حکومت شمالی حصہ پر قائم تھی ۔ علاوہ توران ، قصدار ، کیکانان ، مکران ، مشکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی عرب سرداروں نے قائم کر لی تھیں ، جو ان بڑی ریاستوں کی ماتحتی اور خراج گزاری تسلیم کر چلی تھی ں۔ اس طرح سندھ کی ریاست خلیفہ بغداد کی حکومت سے آزاد تھی مگر مسلمانوں میں خطبہ اب بھی خلیفہ بغداد کا پڑھا جاتا تھا ۔
سومرو دور حکومت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلفاء بنو امیہ نے اپنے دور میں یہاں عزیز الحباری نام کے گورنر کو مقرر فرمایا جس کی وجہ سے یہ دور حباری دور حکومت کہلاتا تھا ۔ ان کے دور میں سندھ کا دارالحکومت منصورہ رہا تھا ۔ بنو امیہ کے زوال کے بعد جب عباسیوں نے نشانات اموی کو مٹا ڈالنے کی شروعات کی تھی تو 1120 عیسوی میں سندھ میں بھی حباری حکومت کو محمود غزنوی کے ذریعے ختم کروا کر نیا گورنر “الحفیف” کو بنایا جس کا آبائی شہر سمرّہ تھا اسی نسبت سے اس کے دور اقتدار کو سومرو دور حکومت کہا جاتا تھا اس کو “سردار خفیف سومرو” بھی کہا جاتا تھا ۔ سقوط بغداد کے بعد سومرو حکمران “دودو ۔ اول” نے یہاں اپنی خود مختار ریاست بحیرہ عرب سے پنجاب تک قائم کی ۔ اس کے بعد ہی سومرو خاندان مکمل طور پر سندھ کی مقامی علمی اور ثقافتی تہذيب میں ڈھل چکا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں قرآن کا پہلا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا ۔
سمہ دور حکومت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1339 عیسوی میں سندھی مسلم حکمران جامو نار نے تخت دہلی کی ماتحتی سے انکار کر کے اپنی حکومت”سلطان سندھ” کی بنیاد رکھی۔سمہ حکمران جام نظام الدین دوم المعروف جام نندو نے اپنا دارالحکومت دیبل کے بجائے ٹھٹھہ اور مکلی میں آباد کیا ۔سمہ دور حکومت میں سندھ کی عوام اور ثقافت کے لیے تاریخ ساز کام کئے گئے ۔
مغلیہ دور حکومت
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ میں چودھویں صدی سے لے کر 1739ء تک یہاں مغل حکمرانوں کی حکومت قائم رہی۔ تاہم 1739ء کی جنگ کرنال میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے اس پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد سے اس شہر کو بالکل نظر انداز کر دیاگیا۔ ٹھٹہ اسلامی فنِ تعمیر کی تاریخی وراثت سے مالامال ہے، جوکہ سولہویں اورسترھویں صدی میں بنائے گئے۔
کلہوڑو دور حکومت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا .
برطانوی دور اور سندھ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1802 میں یہاں میر غلام علی تالپر کی حکمرانی تھی ۔ برطانویں نے اپنی نوآبادیاں بنانے کے لیے جب سندھ کا انتخاب کیا تو ان کی تجارتی کوٹھیاں جو آنے والے دور کے لیے جنگی رسدگاہ تھیں ، اس کے لیے ٹھٹھہ کا انتخاب کیا ۔ 1843 میں انگریزوں اور سندھیوں کے درمیان ” میانی ” کے مقام پر معرکہ آرائی ہوئی جس میں ایک طرف سندھی قبائل تھے جن کی قیادت تالپر قبیلے کے سردار میر ناصر خان تالپر کر رہے تھے اور دوسری طرف نو آبادیات کے حامی انگریز فوج نیپئر کی قیادت میں ۔ 50 ہزار سندھی فوجوں کے نقصان کے بعد اس جنگ کا نتیجہ انگریزوں کے حق میں نکلا ۔ مگر اس جنگ کے بعد انگریزوں کو بر صغیر سے باہر نکالنے کی ایک اور چھوٹی سی کوشش “ہوش محمد شیدی” نے بھی کی “دبّو” کے مقام پر 5 ہزار جنگجوؤں کے ساتھ، یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوئی ۔ اس دوران اسماعیلی فرقے کے “آغا خان ۔ اول” نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ اس تعاون کے بدلے میں انگریزوں نے آغا خانیوں کو سندھ میں مراعات و انعامات سے نوازا جو قیام پاکستان تک جاری رہا ۔ انگریزں کے قبضے کے بعد 1853 میں سندھ کو بمبمئی کے ماتحت کیا گیا اور بعد میں 1935 میں علاحدہ صوبہ بنا دیا گیا ۔ برطانوی قبضے کے دوران مسلمانان سندھ کی جدو جہد آزادی تحریک پاکستان کے ساتھ جاری رہی جس کے لیے سندھ میں مشہور نام پیر صبغت اللہ راشدی کا ہے جو سندھ میں آزادی کی تحریک “حرّ تحریک آزادی” کے پیشوا تھے ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدو جہد کا آغاز ایک ایسے دور میں کیا جب بر صغیر کے مسلمان علمی اور قانونی لحاظ سے انگریزوں سے پنجہ آزمائی کرنے کی پوزيشن میں تھے ۔ جس کے نتیجے میں حرّوں کی یہ جنگ ناکام ثابت ہوئی اور پھر ان کو گرفتار کر کے 20 مارج 1943 کو حیدر آباد میں پھانسی کی سزا دی گئی ۔ ان کے بعد بھی سندھ پر مذہبی لحاظ سے حرّوں کا ہی غلبہ رہا جو آج تک ہے ۔
قیام پاکستان اور سندھ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
23
مارچ 1940 میں لاہور میں قرار داد پاکستان میں سندھ کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے سر حاجی عبداللہ ہارون نے قیام پاکستان کی قرار داد پیش کی ۔ جس کے بعد صحیح معنوں میں سندھ میں بھی قیام پاکستان کے لیے شعور اجاگر کرنے کا موقع ملا ۔
1947 میں سندھ ایک قانون ساز عمل رائے دہی کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنا ۔
Leave a Reply