🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

پاکستانی معاشرے میں ذات برادری کی تفریق کا تاریخی پس منظر

Back to Posts

پاکستانی معاشرے میں ذات برادری کی تفریق کا تاریخی پس منظر

_____________________________________

2 سال پہلے ڈاکٹر عبدالمجید
معروف تاریخ دان ابن خلدون نے قبائلی معاشروں کے خدوخال بیان کرنے کے دوران ’عصبیت‘ کی اصطلاح پہلی دفعہ استعمال کی تھی۔ نسلی، لسانی، رنگت اور برادری کی بنیاد پر انسانوں کے بیچ تفریق تاریخ کا حصہ ہے۔ کئی سو سال قبل یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد انسانی مساوات اور جمہوریت کا علم بلند ہوا لیکن حقیقی مساوات کی جانب نوع انسانی کی پیش رفت کا عمل تاحال جاری ہے۔ سیاہ فام باشندوں کو غلا م رکھنے کی حامی ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہو یا نسلی برتری کا علم بردار جنوبی افریقہ، عقل و فہم کے دریچے وا ہونے میں کچھ وقت تو لگتا ہے۔ سیاست میں جمہوری بندوبست انسانی مساوات کی بنیاد پر قائم ہے اور تفریق کی گنجائش اس بندوبست میں موجود نہیں۔ برصغیر پاک وہند میں تفریق کی ایک شکل ذات پات یا برادری کی بنیادپر امتیاز کرنا ہے۔ اس تفریق کی جڑیں ہندوستانی معاشرے کی تاریخ میں پیوستہ ہیں۔
ہندوستان کے باسیوں میں ذات پات کی تفریق کے تانے بانے دو ہزار سال قبل دراوڑوں اور آریاؤں کے درمیان لڑائیوں سے جا ملتے ہیں۔یہ جنگیں کم وبیش چار سو برس تک جاری رہیں۔ جیسا کہ بیشتر فاتح اقوام کا طور ہے، آریاؤں نے فتح پانے کے بعد دراوڑوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا۔ جن دراوڑوں نے جنگ کے دوران آریاؤں کا ساتھ دیا تھا، انہیں ’کشتری‘ یعنی محافظ قرار دیا گیا اور مقامی حکومت کی باگ دوڑ انکے حوالے کر دی گئی۔ جو لوگ ان تنازعات میں غیر جانب دار رہے، انہیں ’ویش‘ کہا گیا اور انکے ذمے زراعت اور مویشیوں کی پال پوس کا کام لگایا گیا۔ جن گروہوں نے میدان جنگ میں آریاؤں کے دانت کھٹے کئے اور انکا مقابلہ کیا، انہیں ’شودر‘ قرار دیا گیا۔ شودروں میں مزید درجہ بندی اس طرح کی گئی کہ جو گروہ ابتدائی لڑائیوں کے بعد غیر جانب دار ہو گئے، انہیں سچھوت (یعنی چھونے کے قابل) جبکہ جنگوں کے دوران ڈٹ کر لڑنے والوں کو ’شودر اچھوت‘ قرار دیا۔ آخر الذکر درجے والے گروہوں کو زندہ رہنے کے لئے مردہ جانوروں کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انہیں پاخانہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ سور اور گدھے چرانے کا کام سونپا گیا۔ اس طبقے کے کچھ لوگ یہ ذلت برداشت کرنے پر تیار نہ تھے لہذٰا وہ جنگلوں میں جا بسے اور بہت سے قبائل تاحال وہیں آباد ہیں۔جان او برائن اپنی کتاب The Unconquered Peopleمیں لکھتے ہیں کہ اچھوت پن، معاشرے میں موت اور جسمانی رطوبتوں کے خوف کے باعث عام ہوا۔ اس خوف کے باعث اچھوتوں کے ذمے غسل خانوں اور گٹروں کی صفائی ، مردہ جانوروں کی لاشوں کی تدفین اور قبر کشائی کے کام لگائے جاتے ہیں۔براہمنی قانون کے مطابق اچھوت افراد کی حیثیت کتوں، کووں، لاشوں اور ماہواری کے دوران عورتوں کے برابر ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کی اس غیر انسانی تفریق کا ردِ عمل جین مت اور بدھ مت کے ظہور کی شکل میں سامنے آیا۔ذات پات کی یہ تقسیم ہندوستانی معاشرے میں کئی ہزار سال گزرنے کے باوجود قائم ہے۔ہندومت کی مقدس کتابوں میں اس تقسیم کومزید تقویت دی گئی اور کئی نسلوں سے چلنے والے اس سلسلے کو ہندوستان کی بیشتر آبادی نے اپنا لیا حتیٰ کہ یہ معمول کی چیز بن گئی۔صدیوں کا احساس محرومی شرم کو جنم دیتا ہے اور یہ داخلی شرم نچلی ذاتوں کے اندر بہت چھوٹی عمر میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق یہ احساس محرومی اور شرم کسی انسانی گروہ کی اجتماعی نفسیات کو متاثر کرتی ہے اور وہ گروہ اس بات پر یقین کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، شائد وہ اسی سلوک کے قابل ہیں۔ ایسے گروہوں کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف تعصبات کا شکار ہونے اور تشدد کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان گروہوں کے اندر درجہ بندیاں بننے لگتی ہیں مثلاً گاؤں کے رہنے والے عیسائی شہر میں رہنے والوں کو ادنیٰ سمجھتے ہیں، شہر والوں میں ’خشک‘ اور ’نم‘ کے درمیان تفریق الگ ہے۔
ذہنی استبداد کی ایک ادنیٰ سی مثال ہندوستانی ناموں میں سے ہے۔ جس طرح شمالی امریکہ کے حبشی غلاموں کو اپنے ناموں کے ساتھ اپنے مالک کا نام لگانا پڑتا تھا،ہندوستان میں برہمنوں نے دراوڑوں کو ’داس ‘ کالقب دیا جسکے معنی ’غلام‘ کے ہیں۔ یہ نام زمانہء موجود تک چلا آ رہا ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ نام دیوتاؤں کی ناراضگی کے خوف سے استعمال کیا جاتا رہا لیکن موجودہ دور میں ان ناموں کا استعمال صدیوں کے ذہنی استبداد کی نشانی ہے۔ذات برادری کی بنیاد پر تفریق نچلی ذات والوں کے لئے ایک وبالِ جان ہے۔ڈاکٹر امبیدکر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ہندو مت اچھوتوں کے لئے عقوبت خانے سے کم نہیں۔ اروندھتی رائے نے اپنے مضمون The Doctor and the Saint میں ہندوستان کی دلت آبادی کے متعلق کچھ اعداد وشمار پیش کئے۔ بھارت میں ایک گھنٹے کے دوران کم ازکم چار دلت افراد، غیر دلت افراد کے ہاتھوں جرائم کا نشانہ بنتے ہیں، ہر ہفتے تیرہ دلت افراد کو قتل کیا جاتا ہے جبکہ چھے دلت افراد کو اغوا کیا جاتا ہے ۔سنہ 2012ء میں پندرہ سو دلت خواتین کو زیادتی کانشانہ بنایا گیا اور ساڑھے چھے سو دلت افراد کوقتل کیا گیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے باسی عرب مسلمان تاجروں سے متعارف ہوئے اور بعدازاں اس علاقے کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت برصغیر میں چالیس کروڑ مسلمان موجود ہیں، جن میں اکثریت کے آباؤ اجداد ہندو مت یا سکھ مت ترک کر کے مسلمان ہوئے تھے۔ ہندو مت میں موجود ذات پات کا نظام مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ ذات پات کا تعصب صرف اسی خطے کے مسلمانوں پر موقوف نہیں بلکہ عرب اور افریقہ کے مسلمان بھی قبائلی تعصبات کا شکار ہیں۔ انیسویں صدی کے ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں نے اپنے آپ کو اشراف، اجلاف اور ارذال (رذیل کی جمع) میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اشراف ذاتوں میں شیخ ، سید، پٹھان اور مغل شامل تھے ۔ اجلاف میں محنت کش طبقے جیسے جولاہے یا انصاری جبکہ ان سے بھی بدتر طبقات مثلاً نائی، بھنگی، چمار اور کنجر وغیرہ ارذال میں شامل تھے۔ نچلی ذات کے افراد کو اچھا کھانا جیسے پلاؤ یا بریانی بنانے ، تعلیم حاصل کرنے ، اسلامی نام رکھنے اورکچھ مقامات پر تو پختہ مکان بنانے کی اجازت تک نہ تھی۔ پردہ صرف اشراف کی خواتین کے لئے مخصوص تھا جبکہ دیگر طبقات کی خواتین کو پردے سے روکا جاتا تھا۔ نام نہاد گنگا جمنی ’تہذیب‘ میں نیچ ذاتوں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک برتا جاتا تھا۔ اس تہذیب میں نیچ اقوام کی عورتیں دراصل ’شرفاء‘ کی خدمت اور جنسی ضروریات پوری کرنے کا سامان تھیں۔کچھ ذاتوں کی عورتوں کے ذمے طوائف بننا لگا دیا تھا (پنجاب میں ’کنجر‘ ذات اسی دور کی نشانی ہے۔ اردو زبان میں کنجر کا لفظ خانہ بدوش افراد کے لئے استعمال ہوتا ہے)۔ اشراف کی پہچان یہ سمجھی جاتی تھی کہ وہ ہاتھ سے کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سماجی تبدیلیوں کے باعث اس نظام کو دھچکا لگا۔ جدیدسہولیات جیسے ٹرین، پانی کے پائپ اور چھاپہ خانوں کی مقبولیت کے باعث بوسیدہ نظام کو باقی رکھنا ممکن نہ تھا، البتہ ’اشراف‘ نے ہار نہ مانی۔ اس دور کے کئی معزز مسلمانوں کے ذات پات کے موضوع پر خیالات تعصب سے بھرپور تھے۔
اعلی ٰ تعلیم یافتہ وکیل سید امیر علی اونچی ذات کے مسلمانوں اور نیچی ذات والے مسلمانوں کے یکساں نظام تعلیم کے مخالف تھے۔ دہلی کے خواجہ حسن نظامی نے دہائی دی کی کہ ’آج کل انگریزی تعلیم میں پیشہ ور قومیں (جولاہا وغیرہ) تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت حاصل کرتی ہیں جس کی وجہ سے شرفاء کے لڑکے بیکار رہ جاتے ہیں۔ گورنمنٹ کو اس پر توجہ دینی چاہئے‘۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (جو خود انصاری ذات سے تعلق رکھتے تھے)نے اپنی تصانیف میں سید ، شیخ، مغل اور پٹھان کو بڑی ذات کہا اور بقیہ دوسری برادریوں کو رذیل اور نیچ ذات کہاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی قاسم نانوتوی کے قلم سے اس مدرسے کے قیام کی وجہ ملاحضہ کریں:’ اس زمانے میں اور خوبیاں تو کچھ نہ کچھ موجود ہیں مگر علم ، خاص کر علم دین اٹھتا چلا جا رہا ہے، جس میں سادات اور شیوخ وغیرہم جو قدیم سے اس کمال میں اوروں سے ممتاز رہا کرتے تھے آج کل اس سعادت سے بالکل بے بہرہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ افلاس پر افلاس جو اہل اسلام خصوصاً شرفاء میں برابر چلا آتا ہے اس کا باعث بجز اس کے کیا ہے کہ اہل اسلام میں علم وہنر نہ رہا۔ یہ جوہر اہل اسلام خصوصاً ان چار قوموں(سید، شیخ، مغل، پٹھان) کے حق میں فقط موجب امتیاز دین ہی نہ تھا بلکہ سرمایۂ دنیا بھی ان کے حق میں یہی تھا اور قوموں کے اگر اور پیشے تھے تو سادات وشیوخ وغیر ہم کا پیشہ یہی علم تھا۔ الغرض جب یہ حال دیکھا تو چند خیر خواہان بے غرض نے بنام خدا اس قصبے دیوبند میں مدرسے کی بنیاد ڈالی۔‘دارالعلوم دیوبند کے داخلہ فارم میں ذات یا قوم کا کالم تاحال موجود ہے اور وہاں ’رذیل‘ اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء کا داخلہ ہی کئی دہائیوں تک ممکن نہ تھا۔
مفتی محمد شفیع عثمانی لکھتے ہیں کہ دجال پر ایمان لانے والے اکثر جولاہے ہوں گے۔ مولانا اشرف تھانوی کی مشہور زمانہ کتاب بہشتی زیورمیں ایک باب ’کون کون لوگ اپنے میل اور برابر کے ہیں اور کون نہیں‘ کے نام سے ہے اور انہوں نے ایک فتوے میں سید، شیخ، مغل اور پٹھانوں کو شریف، نجیب الطرفین اور دوسری برادریوں جیسے انصاری، جولاہا اور تیلی وغیرہ کو چھوٹی اور ذلیل اقوام کہا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ ’شریف خاندانوں کا فرض اکمل یہ تھا کہ وہ میدان علم وعمل میں بہت زیادہ جدوجہد کریں تاکہ ان کا ذاتی جوہر زنگ کھا کر فنا نہ ہو جائے‘۔ تبلیغی جماعت کے اہم راہنما اور فضائل اعمال کے مصنف مولانا محمد زکریا ذات پات کے قائل تھے ۔ جب تبلیغی جماعت کے امیر ، مولانا محمد یوسف کے انتقال کے بعد مولانا رحمت اللہ کو امیر بنایا گیا تو انکی ذات(روغن گر ؍تیلی) کے باعث انہیں جماعت کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور مولانا زکریا کے ایک ’خواب‘ کی بدولت انہیں امامت کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
ذات پات کی مخالفت کرنے والے ابواعلیٰ مودودی خود سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور سنہ 1932ء میں انہوں نے لکھا کہ ’میراتعلق ایسے خاندان سے ہے جو تیرہ سو سال سے راہنمائی، مذہبی اور صوفیانہ تعلیم کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔‘ دیگر اقوام کے متعلق اس قدر تعصب ہندوستان کے علاوہ تاریخ میں شاید صرف نازی جرمنی میں دیکھنے کو ملا۔
(اس مضمون کی تیاری کے ضمن میں مسعود عالم فلاحی کی کتاب ’ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان ‘ ، اجمل کمال اور اروندھتی رائے کے مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔ مسعود عالم فلاحی نے مسلمانوں میں ذات پات کا نظام متعارف کروانے کا ملبہ ’عجمی‘ بادشاہوں پر ڈالا ہے۔ )
(جاری ہے)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts