🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

احتجاج اور آگاہی ضروری ہے

Back to Posts

احتجاج اور آگاہی ضروری ہے

احتجاج اور آگاہی ضروری ہے


بیان بازی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور خود ستایؑش کے سوا کچھ نہیں ہے!

عوام کو مسلسل آگاہی فراہم کر کر ہی بیداری پیدا کی جاسکتی ہے۔

سیاسی اور فیس بکی بیان بازی سستی شیرت اور ذہنی آسودگی کے سوا کچھ اور کچھ نہیں ہے۔


ساتھیوں اور دوستوں کی سانح زینب پر لن ترانیاں اور موشگا فیوں پر اظہار خیال

ََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ،بہت خوب، اب تعلیم کو بھی رنگ و نسل کی طرح تقسیم کر کر ، مذہبی لبادہ پہنانا ضروری ہوگیا۔ تعلیم تو تعلیم ہی ہے۔ اس کا کویؑ مذہب نہیں ہوتا۔ ہمیں تعلیم عام کرنے کی بات کرنی چاہیےؑ اور آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیےؑ۔ میں بھی رانی،تو بھی رانی، کون پھیلاےؑ گا تعلیم کی کہانی؟ ۔ ۔ ۔ ہمیں عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیےؑ اپنا معاشرتی کردار ادا کرنا چاہیےؑ۔ اپنا وقت اپنے ہی خیالات کے دوسووں میں علمی بھیس کر کر اپنی دہاک بیٹھانے میں صرف نہیں کرنا چاہیےؑ اور نہ ہی یہ سمجھنا چاہیےؑ کہ ہم نے کویؑ تیر چلا لیا۔ ۔ ۔ رو رو کر غم ہلکا نہیں کرنا چاہیےؑ بلکہ عوام کے آنسووؑں کو پوچھنے کی صحیح کرنا چاہیےؑ۔



3 گھنٹے قبل چند سطر کی ایک تحریر درج کی تھی اور سوچا تھا کہ صبح ،احساس ویب پر ،،بچوں سے جنسی زیادتی کے موضوع پر عوام کی آگاہی کے لیےؑ مضمون تلاش کرکر اپ لوڈ کروں گا۔ اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور وہ بھی بنا تگ و دو کے اور پیٹ بھر کر۔ یہ بات مجھ پر صادق آتی ہے کہ بنا تلاش کے کیؑ بہترین مضمون چند منٹ میں ہی مل گیےؑ۔ اندھے کو کیا چاہیےؑ؟ ایک آنکھ !
مندرجہ ذیل مضمون میری چند سطروں کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
ساتھیوں اور دوستوں سے بھی درخواست ہے کہ ،،آپ اپنی اداوؑں پر غور کیجیےؑ، ہم عرض نہیں کریں گے۔
جب اس قسم کی تحریریں اور مضامین موجود ہوں تو ہمیں ان موضوعات پر مضمون تحریر کرنے کے لیےؑ زحمت نہیں کرنی چاہیےؑ بلکہ اپنا وقت ان تحریروں کو عوام تک پہنچانے میں صرف کرنا چاہیےؑ بلکہ برق رفتاری سے بھی۔
کویؑ بھی تحریر اور تخلیق اصل نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اصل کی نقل کا پرتو ہوتی ہے۔ اس لیےؑ ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیےؑ اور نہ ہی کلف لگانا چاہیےؑ۔


سی زیادتی اور قتل کے واقعہ پر نئی نسل کے جذبات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بشکریہ،دنیا بلاگرز
By اویس احمد On Jan 11, 2018
Share 0 1,472
میں آپ کی طرح ایک عام پاکستانی ہوں۔ بالکل ویسا ہی جیسے کہ آپ ہیں۔ کل سے میں قصور میں ہوئے واقعہ بلکہ سانحہ پر ٹی وی اور سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں۔ ہر کوئی اپنے غم اور غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بھی کچھ کرنا چاہیئے۔ پھر میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ ماضی میں کیا کیا کرتا رہا ہوں۔


جب سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول میں 136 بچوں کو مارا گیا تھا تو میں تین دن تک روتا رہا تھا۔ چوتھے دن میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک منائی اور اپنا غم غلط کیا تھا۔
جب سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو مشتعل ہجوم نے مار مار کر مار ڈالا تھا اور اس سارے واقعے کی ویڈیو بنائی تھی تب بھی میں وہ دیڈیو دیکھ کر دو دن بہت تکلیف میں رہا تھا۔ تیسرے دن رمضان کا نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہو گیا تھا تب کہیں جا کر میرے ذہن پر سے بوجھ اترا تھا۔
جب کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو توہینِ مذہب کے الزام میں اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا تھا تب تو مجھے شاید صرف دو گھنٹے کے لی دکھ ہوا تھا۔ آخر ان دونوں نے توہین مذہب کی تھی۔ ان کے ساتھ تو جو بھی ہو جاتا وہ کم تھا۔ ہے نا؟
جب جوزف کالونی لاہور کے بم دھماکے کے بعد دو لوگوں کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا اور پھر ان کی جلی ہوئی لاشوں کو رسی باندھ کر سڑکوں پر بچے اور لڑکے گھسیٹتے پھرے تب بھی مجھے بس اتنی ہی دیر افسوس ہوا تھا جتنی دیر تک میں نے وہ ویڈیو دیکھی تھی۔
جب احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر والے واقعے میں دو سو لوگ زندہ جل مرے تھے تب مجھے افسوس سے زیادہ ان لوگوں پر غصہ آیا تھا جو مفت کا تیل لوٹنے جا پہنچے تھے۔
پھر جب میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں ایک پانچ چھ سال کے مردہ بچے کو برہنہ حالت میں رسی سے باندھ کر لٹکایا ہوا تھا۔ پتا چلا بچے کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی تھی اور مسجد میں لٹکا دیا تھا۔ تب مجھے اس بچے کی موت کا دکھ ہوا تھا مگر اگلے دن میں نے سینما میں فلم بھی دیکھی تھی۔
جب لاہور کے اسپتال کے دروازے پر تین سالہ بچی کو زیادتی کے بعد چھوڑا گیا تھا تب میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا تھا مگر مجھے ایک ڈنر پر پہنچنا تھا لہٰذا میں نے ضمیر کو سلایا اور ڈنر کے لیے نکل گیا تھا۔
اور پھر جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایک لڑکے کے ساتھ بدفعلی کر کے اسے عمارت سے دھکا دے کر گرا کر مار دیا گیا تب بھی میرے منہ سے بس “اوہ شٹ” ہی نکلا تھا۔
قصور کے بچوں کی جنسی زیادتی کی ویڈیوز کا اسکینڈل جب سامنے آیا تو میں نے پوری کوشش کی تھی کہ کہیں سے میں ایک آدھی ویڈیو ہی ڈھونڈ کر دیکھ پاتا مگر میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ پھر مجھے پروا ہی نہیں رہی تھی اس واقعے کی۔
پھر جب ایمان فاطمہ کی نچی ہوئی لاش گنے کے کھیت سے برآمد ہوئی تھی تب میرے دل کو کچھ ہوا تھا۔ مگر چونکہ سوشل میڈیا پر وہ واقعہ وائرل نہیں ہوا تھا اس لیے مجھے بھی اس کا کچھ خاص دکھ نہیں ہوا تھا۔
اب زینب والا واقعہ ہو گیا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکا ہے۔ اب میں نے لسٹ بنا لی ہے کہ میں نے کیا کیا کرنا ہے۔
پہلا کام تو میں یہ کروں گا کہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ڈھونڈوں گا۔ اگر تو زینب کے لیے انصاف کا کوئی ٹرینڈ ہوا تو میں اس کو لائک بھی کروں گا، فالو بھی کروں گا بلکہ ری-ٹویٹس بھی کروں گا۔ اس پر بہت ری-ٹویٹس ملتے ہیں۔ پھر میں فیس بک پر جاؤں گا۔ وہاں ہیش ٹیگ لگا لگا کر اپنی وال اور ہر اس گروپ میں جہاں جہاں میں ایڈ ہوں، زینب کی تصویر اور ایک غصے سے بھری پوسٹ لگاؤں گا۔ اس کے علاوہ ایسی ہی دوسری پوسٹوں کو لائک بھی کروں گا تاکہ لوگ میری پوسٹ بھی لائک کریں۔ شیئر مل جائیں تو اور زیادہ اچھا ہو گا۔
اس کے علاوہ میں ٹویٹر، فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر ایک دن کے لیے اپنی پروفائل پکچر پر زینب کی تصویر لگا دوں گا۔ بہت لائکس ملیں گے۔ اور ساتھ ساتھ میں حکومت کو گالیاں دوں گا۔ ان کی ناکامی اور نالائقی کھول کھول کر پوسٹ کروں گا تاکہ میری سوشل میڈیا جنگ سے حکومت کا تختہ الٹ جائے۔
چارپانچ دن تو گذر ہی جائیں گے۔ پھر کوئی نیا واقعہ ہو جائے گا ۔ نئے سرے سے ایکٹیو ہو جاؤں گا۔
اویس احمد
اویس احمد اسلام آباد میں رہتے ہیں اور ایک نجی بنک کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ پانچ سال کی عمر سے کتاب بینی کر رہے ہیں۔ پڑھنے کے علاوہ لکھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔


ساتھیوں اور دوستوں، اپنے سچے،کھرے اور کرخت انداز تحریر پر معذرت خواہ ہوں۔ لیکن مجبور ہوں کہ اب نہ بولا تو کب بولوں گا۔ ساتھیوں سے بھی کھرے اور کرخت انداز میں مدعا بیان نہ کروں تو کیا راہ چلتے افراد سے ذکر کروں۔ اُن ہی سے مخاطب ہوں جن سے 30-40 سالہ رفاقت ہے۔ اس آس میں لکھتا ہوں کہ شاید کسی کے کان پر جوں رینگ جاےؑ گو یہ جوےؑ شیر لانے کے مترادف ہے اور نان شبینہ کی محتاجی کا باعث بھی ہوسکتا ہے مگر جہاں،، کھونے کو زنجیریں اور پانے کے لیےؑ کایؑینات ہو ،، تو ایسے میں سب کچھ سراب لگتا ہے اور بعض مرتبہ سراب بھی شراب نظر آتا ہے۔ آےؑ کچھ ابر،کچھ شراب آےؑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


عملی اقدام کی ضرورت ہے۔عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے


آگاہی فراہم کیجیےؑ

صرف شیؑیر ہی کر کر اپنا کردار ادا کیجےؑ

احساس ہی تو ہے

نوازش


معصوم زینب کا قرض اُتاریےؑ

صرف شیؑیر کر کر زینب کے شُکر گُزاروں میں شامل ہوں

عین نوازش


اُن لوگوں کے لیےؑ جو جنسی زیادتی اور جنسی بے راہ راوی کے لیےؑ میڈیا کو قصور وار کرار دے کر واقعہ قصور پر اپنی شرم ساری سے ببچنے کی کوشش کے لیےؑ مذہبی تاویلات کا سہارا لے کر ذہنی آسودگی حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہوتے ہیں اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے کے مصداق ، مذہب کی ڈھال میں اپنا گھناوؑنا چہرہ چجپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور عوام کو گمراہ کر کر اپنی مردانہ مذہبی برتری کو ثابت کرنے کے لیےؑ بھونڈی کوشش کرتے ہیں ۔ مقصد اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ عام زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خود ،،کانے ،، ہوتے ہیں اور عوام کو بھی اندھا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

قوم لوط کے زمانے میں کون سا میڈیا رول ادا کر رہاتھا؟۔۔۔۔۔۔ انسانی نفسیات اور جبلت کے معاملات کے لیےؑ ہر بات میں مذہبی تاویلات نہ ہی ضروری ہے اور نہ فرض! شیزو فرینیا کے لیےؑ بھی مذہبی تاویلات تلاش کیجیےؑ؟


اپیل،التجا،درخواست،گذارش،
آپ کو زینب کا واسطہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سانحہ زینب کے غم و غصہ کے اظہار اور ننھی معصوم بچی کے لواحقین کے قرار کے لیےؑ بہترین عمل بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اور یہ اس کا بہترین وقت ہے۔ جس کے لیےؑ ہم سب کو بھرپور مہم چلانا چاہیےؑ۔ ایک مرتبہ آپ بچوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کردیں گے تو اس کے متعلق بے جا خدشات زایؑل ہو جایؑیں گے۔ جتنے بھرپور طریقہ سے اور جتنی سرعت کے ساتھ آپ یہ مہم چلایؑیں گے اُتنی جلد ہی بچوں میں جنسی تعلیمات فراہم کرنے کے متعلق ہچکچاہٹ زایؑل ہوتا جاےؑ گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ! اور کبھی نہیں! ؟

براےؑ مہربانی فیس بک کا ہر ممبر کم ازکم ایک مضمون،وڈیو،نیوز، وغیرہ پوسٹ کرے اور تمام لوگ اس کو بار بار شیؑیر کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

ہمیں ایک ہفتہ تک بھرپور میم چلانی چاہیےؑ۔ صرف آگاہی فراہم کریں۔ ڈسکشن اور بحث مباحثہ میں اپنا وقت ضایؑع نہ کریں۔
کوشش کی جاےؑ کہ یہ گاہی مہم میں اردو اور مقامی زبانوں میں کی جاےؑ۔
براےؑ مہربانی اس میں شرکت لینے والے حضرات اس پوسٹ میں اپنے ناموں کا اندراج کریں۔



ساتھیوں،کچھ تو مدد کرو! ۔ ۔ ۔ آرتیکل پوسٹ کرنے اور تلاش کرنے کا وقت نہیں تو کمازکم شیؑیر کر کر آگہی کا پیغام زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانے ہی میں مدد کرو۔
تمہیں زینب کا واسطہ


افسوس کہ 3700 سال بعد بھی حمورابی جیسے قوانین اور ان پر عمل کروانے کی جرآت ہم میں نہیں۔اور اشرافیہ کو بچانے کے لیےؑ حمورابی کے قوانین کی ترویج اور عملدرآمد پر بات نہیں کی جاتی۔ اور اس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حمرابی کے قوانین کے متعلق علم رکھتے ہیں، وہ عوام کو آگہی فراہم کرنے کے لیےؑ کوشش نہیں کرتے۔اور اسے اپنے سینے ہی سے لگا کر اپنی چھاتی کا صرف بوجھ ہی ہلکا کرتے ہیں۔ ہم ملا،مولوی،مدرسوں پر تو خوب تنقید کرتے ہیں مگر اُن کی آگہی مہم کے زور کو توڑنے کے لیےؑ عوام کی آگہی کے لیےؑ وقت نہیں نکالتے ہیں۔ اور بس عوام کی لاعلمی اور لاچارگی پر اظہار افسوس کر کر ہی سرخ رو ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہمیں عوام کی آگہی کے لیےؑ وقت نکالنا چاہیےؑ اور جو علم آپ نے حاصل کیا ہے ،اُسے عوام تک پہنچانے اور منتقل کرنے کی کوشش کرنی چاہیےؑ



دو تین روز سے رات کو کلینک جاتے وقت ،،فایؑیو اسٹار کے چوراہے کی ایک طرف 25-50 لڑکوں کو ہاتھ میں پلے کارڈ لیےؑ کھڑے خاموش احتجاج کرتے ہوےؑ دیکھ رہا تھا جو زینب کے کرب ساتھی تھے۔ اس احتجاج میں میرا بھی جی کیا کہ کچھ منٹ کے لیےؑ شریک ہوجاوؑں۔ مگر معمول کے مطابق کلینک دیر سے جانے کی عادت رکاوٹۂ کا باعث بنی۔ لعنت ہے ہم پر! افسوس یہ 20-25 سال کے نوجوان چوراہے پر کھڑا ہوکر آتے جاتے مسافروں کو چند منٹ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے مگر اس روڈ سے ہزاروں مسافروں کے ٹریفک میں سے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تھی۔ ہاےؑ یہ زندگی کی بھاگ دوڑ اپنے لیےؑ کتنی اہم ہے! آج شام کسی کام سے واپسی میں گھر براستہ فایؑیو اسٹار کے چوراہے سے گزر رہاتھا تو وہ ہی منظر دیکھا۔ سامان سے لدھا پھندا تھا مگر لرکوں،بالکوں کو پلے کارڈ پکڑے قطار میں دیکھا تو لعنت نے ملامت کیا اور وہیں بایؑیک پارک کرکر احتجاج کی قطار میں شامل ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ 
یہ لڑکے،بالک کسی قریبی گلی،محلے کے غیر سیاسی بندے تھے۔ بس انہوں نے مختلف رنگ برنگے ،مختلف اقسام کے پوستر اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوےؑ تھے۔جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ جس کے جو سمجھ میں آیا بنا لیا۔ کسی نے مارکر سے کسی رنگ اور تحریر میں لکھا ہوا تھا تو کسی نے پینافلیکس بنوایا ہوا تھا۔ میں نے جا کر اُن کا حوصلہ بڑھایا اور اُن کا کہا کہ سنگل قطار میں کھڑے ہو کر قطار کو بڑا کرو اور ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھو۔میں نے اُن سے کہا اپنی تعداد سے حوصلہ نہ ہارو۔ثابت قدم رہو اور اس احتجاج کو روزانہ جاری رکھو،چاہے چند گھنتوں کے لیےؑ۔ اور اس جگہ پر پوستر لگاوؑ اور پھول رکھو تاکہ آنے جانے والے اس مقام کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیےؑ مخصوص کریں۔ میں نے اپنی شرمندگی اور افسوس کا اظہار کیا کہ 20-25 سال کی عمر کے افراد اندے ،بچوں میں مصروف اور گُم ہیں۔
اس چوراہے کی دوسری طرف،، پاک سر زمین پارتی،، کے کارکن بھی سانحہ زینب کے احتجاج کے لیےؑ جمع ہو رہے تھے۔ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ پہلی سیاسی پارتی ہے جس کو میں نے روڈ پر احتجاج کرتے ہوا دیکھا اور اس پارتی کے پوستر اور بینر بھی شہر میں لگے ہوےؑ دیکھے۔
اس کے علاوہ تمام سیاسی اور مذہبی پارتیوں کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ یا اُنہوں نے صرف سیاسی فایؑیدہ اُتھانے کے لیؑے اور نون لیگ کوزچ کرنے کے لیےؑ نام اہاد احتجاج اور اخباری بیانات جاری کیےؑ ہیں۔ شرم کرو،حیا کرو،ڈوب مرو!
میں سمجھتا ہوں کہ یہ موقع ہے اگر عوام مختلف ذرایع یعنی سوشل میڈیا،ای میل،عام خط و کتابت،پوسٹ کارڈ کے ذریعہ صرف ایک مطالبہ کریں کہ ،، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے تحفظ اور بچاوؑ کے لیےؑ ، نصاب میں مضامین شامل کیےؑ جایؑیں،،۔۔۔۔ تو یقیناً کامیابی حاصل ہوگی۔ شرط یہ ہے کہ مستقل اور بھرپور طریقہ سے اسے جاری رہنا چاہیےؑ۔ یہ نہیں کہ چند دنوں یا ہفتوں بعد تھک ہار کے بیتھ جایؑیں۔ اس کے لیےؑ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص صرف 7 دن تک فیس بک(سوشل میڈیا) پر ،، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،، کے متعلق عوام کی آگاہی کے لیےؑ معلوماتی مضامین لکھے یا شایؑع شدہ مضامین کو پوسٹ کرے اور شیؑر کرے۔ اس ہی طرح متعلقہ موضوع پر آڈیو اور وڈیو کو بھی پوست اور شیؑیر کرے۔ اس کا ایک فایؑیدہ عوام کو آگاہی کی فراہمی ہوگی اور دوسری طرف ان مضامین کے لکھنے،شایؑع کرنے اور پڑھنے کے متعلق جھجھک ختم ہوگی جو کہ نہایت اہم بات ہے۔جب یہ جھجھک ختم ہوگی تو اس موضوع پر بات کرنا اور لکھنے کو معیوب سمجھنے کی سوچ زایؑیل ہوگی اور یہ ہی عوام کی جیت ہوگی۔ 7 دن کا مطلب 7 دن ہے یعنی اتوار سے اگلے اتوار تک یا بدھ سے اگلے بدھ تک۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ این۔جی۔اوز اور ترقی پسند سوچ رکھنے والی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے اب تک کویؑ مربوط اور منظم احتجاج کا سلسلہ شروع نہیں کیا ہے۔ ہاں البتہ وہ ہی روایتی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والا روایہ اپنایا ہوا ہے یا صرف ریکارڈ میں لانے کے لیےؑ رسماً بیان بازی یا مخصوص حلقہ تک احتجاج کو محدود رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں مذہبی جماعتیں نظریاتی،مسلکی،فقہی اختلافات کو بالاےؑ طاق رکھ کر اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جیسا کہ طالبان کے ایشو پر دیو بندی اور بریلوی مسلک آمنے،سامنے ہیں۔ مگر قادری کی پھانسی پر دونوں متحد تھے۔ اس موضوع پر اس بحث کی ضرورت نہیں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے، عدلیہ کا کام ہے کیفر کردار تک پہنچانا، پولس کا کام ہے ملزمان کو پکڑنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ ہم کمازکم عوام کو تو آگاہی فراہم کریں تاکہ وہ خود اختیاطی تدابیر اختیار کریں اور اُن کے بھایؑیوں،ماماوؤں،چاچوں،کزنوں کے مقدس رشتوں کے تو بُت تو توڑیں۔ عوام کو اس بات پر راضی کریں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے تحفظ اور بچاوؑ کے مضامین کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا جاےؑ ۔ ۔ ۔ ۔ خدارا اب تو کچھ دوسروں کے لیےؑ کرو! ۔




جمعہ یا ہفتے والے دن ہم نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ 7 دن تک سانحہ زینب پر پوسٹ اور شیؑیر کریں گے۔ آج منگل ہی کو سیاسی رہنماوؑں اور میڈیا کے قبلہ کا رخ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ ہی سوشل میڈیا کے افراد کے امتحان کا وقت ہوتا ہے مگر اکثر سوشل میڈیا بھی الیکترونک میڈیا کی لال بتی کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ یہ ہی وقت ہوتا ہے کہ آپ اپنے مشن پر کاربند رہیں اور بھتٓکیں نہیں۔ مگر جب دیگر دوست الیکٹرونیک میڈیا کی خبروں کا چسکا لیتے ہیں تو دیگر دوست بھی مجمع کے ساتھ رینا پسند کرتے ہیں۔ ۔منظر بوس،سو فیصد درست فرمایا۔ منظر بھایؑ ہمیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے خیر کی کویؑ اُمید ہی نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے آپ سے شرمندگی ہے کہ ہم ہی کچھ وقت نکال کر اجتماعی طور پر عوام کو آگہی فراہم کر کر،درست سمت اختیار کرنے اور درست سیاسی اور معاشرتی فیصلہ کرنے کے لیےؑ تربیتی مواد فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ مگر زیادہ تر پڑھے لکھے،تعلیمیافتہ افراد کا رویہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے انداز سے مختلف نہیں۔ بس وقتی،زبانی مذمت،رونا دھونا اور کسی کو قصور وار قرار دے کر سارا ملبہ اُس پر ڈال دینا۔ بحیثیت انسان اور اشرف المخلوقات انفرادی طور پر ہماری بھی کویؑ ذمہ داری ہے یا بس دنیا میں آےؑ،کمایا،کھایا، توبہ تلہ کی اور روایتی عبادات کی اور جنت کے خواب دیکھتے ہوےؑ، ایک دن خواب خرگوش کی عبدی نیند سو گیےؑ


بچوں کو جنسی زیادتی سے بچاوؑ کے لیےؑ آگاہی مہم جاری رکھیےؑ


بچوں کو جنسی زیادتی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیےؑ آگاہی مہم جاری رکھیےؑ۔ اب نہ بولو گے تو کب بولو گے؟


تمام موجودہ مذاہب کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ مذہب کے نام کی تبدیلی سے مذہبی رویہ میں کویؑ فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان، ہندوستان،یورپ اور امریکہ میں مختلف مذاہب کے مانے والوں کی مذہبی ترویج کے باوجود، ،، بچوں میں جنسی زیادتی،، کے بچاوؑ اور تحفظ پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ جن ممالک میں جنسی زیادتی پر قدرے قابو پایا گیا ہے تو وہ صرف اور صرف آگاہی اور قوانین کے موثر اقدامات کے باعث ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذہب اس معاملہ میں خاموش ہے بلکہ یہ ہے کہ مذہبی اکابرین ،، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،، کے معاملہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں اور سخت مذہبی پیراےؑ میں اس کے تحفظ،بچاوؑ اور مرتکب کو سخت مذہبی سزاوؑں سے نہیں ڈراتے ہیں۔


بین الاقوامی میڈیا اور زینب
احساس ہی تو ہے

زینب کی یاد میں!

لڑکیوں کی صحت و دیکھ بھال

Provides awareness through collective resources of Ahsas’s constituents (publishes books on different kind of diseases as their themes)



لڑکیوں اور خواتین کی ہمت و حوصلہ کو سلام جنہوں نے نہایت بے باکی سے بچوں کو جنسی زیادتی سے تحفظ کے لیےؑ آگاہی اور اسکول کے نساب میں مضمون شامل کرنے کی پرزور وکالت کی اور ذاتی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا بے باکی سے اطہار کیا۔ سلام،سلام

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts