کراچی (اسٹاف رپورٹر) انقلاب روس کے ایک سو سال مکمل ہونے کے موقع پر شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس و ٹیکنالوجی (زیبسٹ) اور تاریخ فائونڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے SZABIST کی چانسلر ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ترقی پسند سیاست کے نہ ہونے کے باعث انتہا پسندی اور بنیاد پرستی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ضرورت اس امر کی ہے کہ دوبارہ عوام کی سیاست کی جائے، روسی انقلاب کے زیر اثر ہی پاکستان میں حقوق کی آوازیں بلند ہوئیں، اپنے کلیدی مقالے میں معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبار ک علی نے کہا کہ انقلاب روس اہم ترین انسانی تجربہ ہے جس کے بارے میں پاکستان میں تحقیق کا فقدان ہے۔ انقلاب روس کا معروضی جائزہ لے کر درپیش مسائل کے حل کیلئے پالیسی سازی میں اہم پیش رفت ممکن ہے، انقلاب روس کا جائزہ معروضی حقائق کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ انقلاب روس کی تنقید اور تعریف کے بجائے اس کے مطالعے کی ضرورت ہے، ہم مستقبل کے کمیونسٹ انقلاب کا خاکہ تحریر نہیں کرسکتے لیکن مسائل کے حل کیلئے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہوگ۔ کانفرنس سے پاکستان، بھارت، اسکاٹ لینڈ اور یونان سے تعلق رکھنے والے معروف محققین اور تجزیہ نگاروں نے تحقیقی مقالے پیش
کئے۔کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر پربھات پٹنایک (جواہر لعل یونیورسٹی، بھارت)، ڈاکٹر سوچی تانا ( جیداپور یونیورسٹی، بھارت)، ڈاکٹر طلعت احمد (یونیورسٹی آف ایڈنبرا، اسکاٹ لینڈ)، گورجیز مینوز (یونان) کے علاوہ ڈاکٹر جعفر احمد، پروفیسر ڈاکٹر انور شاہین، ڈاکٹر ناضرمحمود، ڈاکٹر ہما غفار، ڈاکٹر ریاض شیخ، ڈاکٹر توصیف احمد خان، اقبال علوی، مہناز رحمان، مقتدرہ منصور، ایوب ملک، اسلم خواجہ اور سرتاج خان نے اپنے مقالے پیش کئے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ 19ویں صدی میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر ایسے ادارے قائم ہوئے جنہوں نے کالونی بننے والے ممالک کے بارے میں معلوماتی ادب تخلیق کیا گیا، امریکا میں یہ کام جامعات نے سنبھال لیا جس کی سرپرستی مختلف فائونڈیشنز نے کی۔ آج بھی یونیورسٹیوں میں فائو نڈیشنز اور تھنک ٹینک کا کردار اہم ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ روس میں متلق العنان قسم کے حکمران تھے اور سب کچھ حکم کے مطابق ہوتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ روس میں تحقیق کے لیے مختص ادارے بڑی تعداد میں قائم تھے۔ 1950 کے عشرے کے بعد پاکستان کے بارے میں روس کے ادیبوں اور محققین نے لکھنا شروع کیا۔ روس کے محققین نے پہلی بار پاکستان کی سیاست کو پاکستان کی معیشت کے ساتھ ملا کرسمجھنے کی کوشش کی۔ معروف محقق ڈاکٹر ناضر محمود نے اپنے خطاب میں ان اسباب کا جائزہ پیش کیا جن کی وجہ سے روس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی نظر میں روس کا معاشرہ بہت اچھا لگتا تھا، بنیادی ضروریات عوام کو حاصل تھیں۔ شرح ملازمت سو فیصد تھی لیکن لوگوں کے درمیان بے چینی بھی پائی جاتی تھی۔ معروف ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ایوب ملک نے اپنے خظاب میں کہا کہ اکتوبر انقلاب اور روس کے خاتمے کے تیسری دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ سوویت یونین نے تیسری دنیا کے ممالک کی بہت مدد کی اور ان ممالک میں سائنسی ترقی کا آغاز کیا گیا۔ معروف عوامی تاریخ دان اور محقق ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مذہبی جماعتیں روسی انقلاب اور اشتراکی نظام کے خلاف مکمل طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد میدان عمل میں آئیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکا نے ان مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی۔ روسی انقلاب کا یہ اثر ہوا کہ قدامت پرست علماء نے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی جبکہ کئی ایسے علماء بھی ہیں جنہوں اشتراکیت اور اسلام کو ہم آہنگ کر کے ایک نیا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں میں اولین وہ لوگ تھے جو ہندوستان میں برطانوی سامراج کے سخت خلاف تھے۔ روسی انقلاب کا یہ اثر بھی ہوا کہ علماء نے اسلام کے اقتصادی نظام پر توجہ مرکوز کی اور اسلام کے اقتصادی نظام کو جدید حالات کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ یہ نظام جدید زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار مقتدہ منصور نے کہا کہ سندھ کی علیحدہ شناخت قدیم زمانے سے قائم ہے۔ قیام پاکستان سے قبل بھی سندھ ہاری کمیٹی متحرک تھی۔ سندھو دیش کا نعرہ پاکستان بننے سے قبل بھی موجود تھا۔ شمالی سندھ میں کمیونسٹ پارٹی زیادہ متحرک ہوئی اور اس میں ہجرت کرنے والے افراد نے کلیدی کردار ادا کیا۔سندھ میں قوم پرستی، سندھ کے وسائل پر وفاقی اداروں کابے جا کنٹرول، اہل دانش کے اغواجیسے مسائل سے سندھ آج بھی بری طرح متاثر ہے۔ سماجی کارکن تسنیم صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ریاست عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرتی رہے تو مذہب کی بنیاد پر تقسیم اور تشدد کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پاکستان میں ہائوسنگ کا مسئلہ بہت بنیادی اور پھیلا ہوا ہے۔ ایڈنبرا یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر طلعت احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ انقلاب نے سیاسی منظر نامے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کے مزاج کو بھی مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ بر صغیر میں انقلاب روس سے متاثر ہو کر کئی کتابیں لکھی گئیں، شاعری اور ڈراموں بھی عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی روش انقلاب روس کے بعد لوگوں میں مقبول ادب کی حیثیت اختیار کر گئی۔ نواب سعید حسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں انقلاب روس کا مطالعہ کرتے وقت برصغیر کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ معروف تجزیہ نگار اور سماجی کارکن اسلم خواجہ نے اپنے پیپر میں سندھ اور بلوچستان پر بالشویک انقلاب کے اثرات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1918 سے بلوچستان میں اس انقلاب کے اثرات قبول کرنا شروع کئے جب بلوچوں نے روسی انقلاب کو بچانے کی لڑائی میں اپنے روسی ساتھیوں کے شانہ بشانہ لڑائی کا آغاز کیا۔ بعد ازاں اس انقلاب میں بلوچستان کے علاوہ سندھ کے ادیبوں، دانشوروں، سیاسی کارکنوں، کسان اور مزدور کارکنوں کو اپنے نظریات سے متاثر کیا۔اس ضمن میں انہوں نے خصوصی طورپر جیٹھ مل پرس رام کی اخباری مضامین اور جیل ڈائری کا حوالہ دیا۔ سماجی اور سیاسی کارکن سرتاج خان نے اپنے بیان میں کہا کہ روسی انقلابیوں کا سرمایہ دارانہ ترقی اور جنگ کی طرف رجحان؍ روسی بادشاہت کے خلاف انیسویں صدی کے نصف کے لگ بھگ سے لے کر روسی انقالب ۱۹۱۷ تک کے ستر سالہ دور میں کئی ایک قوتیں سرگرم عمل رہیں۔ ان کا روس کے سماج اور اس میں ممکنہ تبدلیلی سے متعلق نقطہ نظر اور حکمت عملی، ان کے روس میں جبر و استحصال کے شکار طبقات کے ساتھ ان میں تبدیلی کی مخفی قوتوں کے افہام و ادراک اور موجودہ حالات کے تناظر میں طے ہوا۔
Leave a Reply