🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

انڈین پروگریسو رایؑٹرز ایسوسیایشن بشکریہ ویکیپیڈیا

Back to Posts

انڈین پروگریسو رایؑٹرز ایسوسیایشن بشکریہ ویکیپیڈیا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاـــــــ
اس زمانے میں ہندوستان کے چند نوجوان تعلیم اور دوسرے اغراض کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے یہ طلباؑ بھی ان تحریکوں سے متاثر ہوئے ۔ اور اپنے وطن کی حالت بھی ان کے پیش نظر تھی ۔ انہوں نے ہٹلر کے فاشزم کی مخالفت کی ۔ اور آہستہ آہستہ اس گروپ نے ایک ادبی حلقے کی شکل اختیا ر کرلی ۔ اس حلقے میں سجاد ظہیر بھی تھے ۔ جو لندن میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ ان کے علاوہ انگریزی کے ناول نگار ملک راج آنند ، بنگالی کے ادیب جیوتی گھوش اور پرسودسین گپتا اور شاعر محمد دین تاثیر شامل تھے۔ ان لوگوں نے ایک انجمن بنائی اور اسکا نام انڈین پروگریسو رئٹرز ایسوسی ایشن رکھا۔ 
اور ملک راج آنند کو اسکا صدر مقرر کیا گیا ۔ انجمن کے مینی فسٹو کا مسودہ لندن ہی میں تیار ہوا۔ اس کی نقل سجاد ظہیر نے ہندوستان میں اپنے دوستوں کے علاوہ احمد علی اور ہیروین مکر جی کو بھیجا ۔ پھر جب 
٭1935 ء میں سجاد ظہیر الہ آباد کی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تو انہوں نے منشی پریم چند ، جوش میلح آبادی ، مولوی عبدالحق اور منشی دیا نارائن نگم سے ملاقات کی۔ ان ادیبوں نے مینی منسٹو کے مقاصد سے اتفاق کیا اور اس پر دستخط کیئے۔ 
ترقی پسند تحریک پہلی ادبی تحریک تھی جس میں مختلف زبانوں کے ادیب نظریاتی اتحاد کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے تھے ۔ اس بات کو محسوس کیا جانے لگا ۔ کہ ایک کانفرنس بلائی جائے جس میں ملک کے ادیب اور دانشور جمع ہو کر ایک دوسرے سے تبادلہء خیال کریں اور انجمن کا لائحہ عمل تیار کریں ۔
٭ اسطرح 1936ءمیں ترقی پسند ادیبوں نے پہلی کل ہند کانفرنس لکھنٔو میں بلائی ۔ جسکی صدارت منشی پریم چند نے کی ۔ اور استقبالیہ کمیٹی کے صدر چودھری محمد علی ردیلوی منتخب کئے گئے ۔ اس کانفرنس کو دو چیزوں کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک علان نامہ اور دوسرا پریم چند کا صدارتی خطبہ ۔ علان نامہ میں کہا گیا کہ ہندوستانی مصنفین کا یہ فرض ہے کی ملک میں جو ترقی پذیر رجحانات ابھر رہے ہیں ان کی ترجمانی کریں اور ان کی نشونما میں حصہ لیں۔ بے بنیاد روحانیت اور تّصور پر ستی چھوڈ کر عقلیت کو اختیا کریں۔ ادبیات اور دیگر فنون لطیفہ کو قدامت پرستوں سے نجات دلاکر عوام کے دکھ سکھ اور جدو جہد کا ترجمان بنائے۔ نیا ادب ہماری زندگی بنیادی مسائل بھوک، افلاس ، سماجی پستی اور غلامی کو موضوع بنائے ۔ پریم چند کا صدارتی خطبہ 
” ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا ُترے گا جس میں تفکر ہو،
آذادی کاجذبہ ہو ، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو ، زندگی کی
حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے ، سلائے نہیں کیونکہ اب ذیادہ سونا موت کی علامت ہوگی”
٭ترقی پسند تحریک کی دوسری کل ہند کانفرنس دسمبر 1938ء میں کلکتہ میں مُنعقد ہوئی۔ جسکی صدارت ملک راج آنندنے کی۔اصل میں اس کانفرنس کی صدارت راٰبندرناتھ ٹیگو ر کو کرنی تھی مگر وہ عین موقعے پر بیمار ہوگئے۔اسی زمانے میں ترقی پسند ادیبوں کا اپنا رسالہ “نیا ادب” کے نام سے لکھنو میں جاری ہوا۔ جس کا پہلا پرچہ 1939 میں شائع ہوا۔ اس کی ادارت ، سبط حسن ،مجاز اور سردار جعفری کے ہاتھوں میں دی گئی۔ا
٭س کے بعدتیسری کل ہند کانفرنس 1942 ءدہلی میں 
٭1947 ء میں چوتھی (لکھٔنو) 1949 ء میں ممبئ اور 1953 ءمیں دہلی میں منعقد کی گئ۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان گیر تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔
نیا ادب
ـــــــــــ
علی گڑھ تحریک کے بعدترقی پسند تحریک دوسری شعوری تحریک تھی جس کے زیر اثر ہمارے ادب کو بعض بڑی اور اہم تبدیلیوں سے دوچار ہو نا پڑا ۔ ہماری زبان میں شعروادب کا بڑا ذخیرہ اسی تحریک کی پیدوار ہے ۔ ترقی پسند تحریک 1935ء میں شروع ہوئی اور اس کی بڑی خصوصیت یہ ہے۔ کہ اس نے پورے ملک کے ادیبوں کو ایک نظریاتی رشتے میں منسلک کرنے کی کوشش کی اور یہ ہندوستان کی دوسری تمام زبانوں میں اعتماد واشتراک کا ایک وسیلہ بن گئی۔ ترقی پسند ادیبوں نے ہندوستان کی خستہ حالی کو عوام کے سامنے پیش کیا ۔ تقسیم ہند جیسے افوسناک واقعے پر اپنا قلم اٹھا یا ۔ “نیا ادب” کے نام سے لکھنٔو سے ترقی پسند مصنفین کا جو رسالہ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔ اس نے ادب اردوکو گرا ں قدر تخلیقات بخشی۔ 44-1943 ء میں بنگال کو ایک زبردست قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ۔قحط بنگال کے موضوع پر ترقی پسند ادیبوں نے نظمیں لکھیں ۔افسانے لکھے ،گیت لکھے اور اپنی تخلیقات میں اس روح فرسہ حالت کی عکا سی کی۔ ترقی پسند تحریک نے اپنے ۔ ٣٥ سالہ دور میں اردو زبان کے شعری اور نثری سرمائے میں بیش بہا اضافے کئے۔ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کے زیر اثر بہت سے مصنفین نے اشتراکی فلسفہ کی زبردست حمایت کی اور وقعی کئی تصانیف ایسی لکھی گیئں جو کہ محض پروپیگنڈ اتھیں ۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترقی پسند تحریک نے اردو شاعری ، ڈرامہ ، ناول ، افسانہ اور تنقید میں ایسے ایسے اضافے کیئے جن کے بغیر اردو ادب کا دامن خالی نظر آتا ہے ۔ ترقی پسند شعراء میں مجاز، مخدوم محی الدین ، جذبی ، علی سردار جعفری ، فیض احمد فیض ، فراق گورکھپوری ، جانثار اختر ، ساحر لدھیانوی ، مجروح سلطانپوری ، اخترالایمان ، احمد ندیم قاسمی ، قتیل شفائی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان شعراء کا کلام اردو شاعری کا بہترین سرمایہ ہے۔ فراق کی غزلیں ، فیض اور مجاز کی نظمیں عوام میں بے حد مقبول ہوئیں ۔ ان شعراء کی اپنی انفرادیت ہے ان کا کلا م محض پرو پیگنڈا نہیں بلکہ وہ شاعری کے معیا ر پر پورا اتر تا ہے ۔ اور ادب کے ساتھ ادب برائے ادب زندگی کے تصور کو بھی سامنے لاتا ہے ۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں حیات اﷲانصاری ، کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، جیسے افسانہ نگار اردو افسانہ کی خدمت دے رہے تھے ۔ ان میں سے کئی نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ۔ ہندوستان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کے کئی پہلؤوں کو سامنے لایا اور اردو افسا نہ کو اس منزل تک پہنچادیا جہاں وہ دوسری زبانوں کے افسانوں سے آنکھیں ملا سکتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جن ترقی پسند مصنفین نے اپنی کہانیوں میں انفردیت پیدا کی ان میں انور عظیم ، ممتاز مفتی ، غیاث احمد گدی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اس تحریک کے تحت اردو ناول نے بھی ترقی کی۔ کرشن چندر اور عصمت چغتائی کے کئی ناول بے حد مقبول ہوئے۔
ترقی پسند تحریک نے اردو میں تنقید کو بلندیوں تک پہنچادیا ۔ اختر حسین رائے پوری ، سجاد ظہیر، مجنون گورکھپوری ، آل احمد سرور، سید احتشام حسین ، اختر انصاری ، عزیز احمد جیسے عظیم نقاد اس تحریک سے متاثر ہوئے ۔ انہوں نے یورپین زبانوں کے تنقیدی ادب کا گہرا مطالعہ کیا اور اردو ادب کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنی تنقید سے ادیبوں اور شاعروں کو نئی روشنی دکھائی۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک میں کچھ چیزیں ایسی بھی لکھی گئیں ۔ جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھودی۔ کیونکہ وہ ادب کم اور نعرہ بازی زیادہ تھی لیکن ہم اس حقیقت سے ان کو فراموش نہیں کر سکتے کہ ترقی پسند مصنفین نے اردو ادب کو اپنی گوناگو ں تصانیف سے مالا مال کر دیا ۔آزاد نظم اردو شاعری کے لئے ایک نئی چیز تھی مگر ترقی پسند مصنفین کی کوششوں سے ہما رے شعراء نے اس صنف کی طرف بھی توجہ دی ۔ الغرض یہ کہ اس تحریک نے ذہن اور شعور کو ایک نئی بیداری عطا کی

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts