🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

اپنے بچوں کی خاطر خود کو بھی تبدیل کیجیے

Back to Posts

اپنے بچوں کی خاطر خود کو بھی تبدیل کیجیے

زینب کو لے کر سیاسی، جذباتی اور مذہبی حوالوں سے نظریاتی بحث اور کمنٹس بھی ان پتھروں کی طرح ہیں جو ہم ہوا میں اچھال رہے ہیں اور جو ہماری ہی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس طرح کی پوسٹس کہ بیٹیوں کو جلا دیں۔ بہت مایوس کن اور شکست خوردہ باتیں ہیں۔
کیوں بیٹیوں کو جلائیں!
انہیں جلنے سے بچانے کا کیوں نہ انتظام کریں!
گھوم پھر کر وہی بیٹیوں کو مارنے کی آہ و بکا۔

انسانوں کے جنگل میں اس طرح کے درندے ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے۔
پاکستانی معاشرے میں ان درندوں کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ بغیر کسی اصول اور سسٹم کے اس معاشرے کی پرورش ہے۔
لیکن اب اگر ہم اپنی نسلوں کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر خود کو مثال بنانا ہوگا۔
جب آپ اپنے بچوں کو سمجھائیں گے کہ خود کو دوسروں سے بچاؤ تو کس کس اندوہناک واقعے کی مثال دیں گے!
چاہے آپ کیسے ہی اعلیٰ انسان کیوں نہ ہوں، مثال آپ ہی نے بننا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ آپ کے بچوں کو آپ کی باتیں ایک خوفناک لیکچر لگیں گی جنہیں ان کا ذہن کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔
پہلے آپ دوسروں کے بچوں کو چھوُنا اور لپٹانا اور چومنا بند کردیجیے۔
بچہ کھلونا نہیں ہوتا۔ بچہ ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔ یہ آپ کے کھیلنے کے لیے نہیں ہے۔ وہ اپنی مکمل زندگی جینے کے لیے دنیا میں موجود ہے۔ خود پر قابو پائیے۔ یوں اپنے گھر میں بچوں کو احساس دلائیے کہ بچوں کو صرف سلام کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ آپ کا بھتیجا/بھتیجی، بھانجا/ بھانجی کیوں نہ ہو!
ایسا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو وجہ بھی بتائیے کہ دوسروں کے بچوں کو خود سے لپٹانا ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہے۔ اس لیے یہ بری بات ہے۔
بچوں کو پرائیویسی سکھائیے۔ اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔

آپ کی بیٹیوں کا بھائی خود بھی ابھی بچہ ہی کیوں نہ ہو، اسے بہن کے ساتھ مت سلائیے۔ کیونکہ یہ بہن کی پرائیویسی کا معاملہ ہے۔
بیٹے کو سکھائیے کہ بہن کے کمرے میں اجازت لے کر جائے۔ کم کمروں کا گھر ہے تو بھی بہن سے اجازت لے کہ کیا میں تمہارے ساتھ کھیل سکتا ہوں؟ کیا میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟
یہی بیٹی کو بھی سکھائیے بھائی کے لیے تاکہ لڑکے لڑکی کی تفریق کے بغیر وہ ایک دوسرے کی اور اپنی اپنی پرائیویسی کو سمجھ سکیں۔
اجازت لینے کی آپ کو روایت ڈالنی پڑے گی۔
آپ خود جب گھر میں داخل ہوں تو دروازہ کھلا ہونے کے باوجود اجازت لے کر داخل ہونے کی عادت ڈالیے۔ اونچی آواز میں خاص طور پر اپنی بیٹیوں سے پوچھیے کہ بیٹا میں اندر آجاؤں؟
بڑا گھر ہو تو بھی جہاں بیٹیاں بیٹھی ہوں ان سے اجازت لیجیے اس حصے میں جاتے ہوئے۔
اجازت کے بعد بھی ذرا سے توقف کے بعد اندر جائیے۔ ایک دم سے گھر میں گھستے نہ چلے جائیے۔ لمحہ بھر کا یہ توقف بیٹیوں کو ان کی ضروت کے مطابق پرائیویسی کا موقع دے گا۔
آپ سے آپ کا بیٹا یہ عمل سیکھے گا۔ وہ زندگی میں دوسری لڑکیوں اور اپنی بہنوں کا احترام سیکھے گا۔
آپ کی بیٹیاں بھی یہ سیکھیں گی کہ اگر ہمارا باپ اور بھائی بھی ہم سے اجازت مانگتا ہے تو باقی لوگ اجازت کے بغیر کیسے ہمارے قریب آسکتے ہیں!
اپنے بیٹوں پر بھی نگاہ رکھیے۔ انھی بیٹوں کو آگے چل کر سماج میں مرد کا کردار ادا کرنا ہے۔
کوئی بھی درندہ ماں کے پیٹ سے درندہ بن کر نہیں آتا۔ مرد میں موجود شہوت درندگی کے مرض میں مبتلا ہونے سے بہت پہلے اور پیچھے سے کئی مراحل سے گزرتی ہے۔
صرف اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے بیٹوں کی بھی تربیت کیجیے۔
خیال رکھیے کہ آپ نے بیٹے کو انسان بنانا ہے۔ احتیاط صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کا بیٹا سگریٹ نہ پیے۔ نشہ نہ کرے۔ آوارہ گردی نہ کرے۔ تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائے۔
یہ بھی خیال رکھیے کہ وہ جن جسمانی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اس دوران اس کی نگاہ میں، اس کے لمس میں، اس کے رویّوں میں عورت اور لڑکیوں کے لیے کتنی نرمی ہے! وہ چھوٹے بچوں اور بچیوں سے کیسے ملتا ہے!
خیال رکھیے کہ کہیں آپ کے ہاتھوں ایک درندے کی پرورش تو نہیں ہورہی!
پرائیویسی کی تربیت کرتے ہوئے اگر آپ کی بیٹیاں علیحدہ کمرہ رکھتی ہیں تو باپ کو بیٹیوں کے کمرے میں کوشش کرکے نہیں جانا چاہیے۔ صرف ماں کو جانا چاہیے۔ بیٹیوں کو اپنے کمروں میں کھل کر بیٹھنے دیجیے تاکہ وہ اپنے گھر میں گھٹن کا شکار نہ ہوں۔ اور انہیں اپنے قیمتی ہونے کا بھی احساس ہو۔


اور اسی طرح جب آپ گھر سے باہر ہوں تو دوسروں کے بچوں سے ہٹ کر چلیں۔ کسی بچے یا بچی سے ٹکرا بھی جائیں تو سوری کہیں۔ تاکہ وہ بچہ سمجھ سکے کہ آپ کا اس سے ٹکرانا سوری کہنے کی بات ہے۔ آپ کے ساتھ موجود آپ کا بچہ بھی یہ دیکھے اور سیکھے۔
رشتے داروں اور دوستوں کے گھروں میں جائیں تو اپنی ایک حد مقرر کیجیے۔ تاکہ وہ بھی آپ کے گھر آئیں تو اسی حد میں رہیں۔ دوسروں کے بیڈروم میں بیٹھنے سے انکار کریں۔
گھر کے جس حصّے کو مہمان خانہ بنائیں وہی جگہ مہمانوں کے لیے مخصوص کریں۔ چاہے وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہوں۔
یاد رکھیے اگر سگے چچا ماموں اور خالو پوپھا بھی آج دندناتے ہوئے گھر میں داخل ہوں گے تو اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے کل ان کے جوان ہو چکے بیٹے بھی کزن بن کر اسی طرح دندناتے ہوئے آپ کے گھر میں گھسیں گے۔
اپنے میزبان سے کہہ دیں کہ زیادہ اندر جانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ تاکہ وہ بھی آپ کے گھر میں زیادہ اندر تک نہ آئیں۔
احباب کے بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ بے تکلف ہوکر ہنسی مذاق نہ کریں۔ دور سے سلام کریں اور رسمی بات چیت کریں۔ تاکہ آپ کے گھر میں بھی وہ ایسا ہی کریں۔ اور آپ کے بچے بھی سیکھ سکیں۔ انہیں بھی جوان ہونا ہی ہے۔
کبھی بھی اپنی بیٹی کو کسی کو بھی چائے پانی پیش کرنے نہ دیں۔ چاہے چچا ماموں کیوں نہ ہوں۔ کوئی آپ کی بیٹی سے چائے پانی مانگے تو بھی خود اٹھیے اور اسے پیش کیجیے۔ اسی طرح کسی بھی رشتے دار کے گھر میں اس کے بچے، بلخصوص بیٹی کو پانی پلانے کو مت کہیں۔
ٹھہریے۔ آپ لمحہ بھر کے لیے بچی کا پانی کا گلاس یا چائے کا کپ لیے کسی کو پیش کرنے کے منظر کا تصوّر کیجیے اور غور کیجیے۔ آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔
مگر بیٹی کے ساتھ ساتھ کم عمر بیٹے کو بھی کسی کو پانی پیش نہ کرنے دیجیے۔ آپ کو بیٹے بیٹی کو ایک طرح سے چلانا ہوگا تاکہ بیٹی کے اندر تفریق کا احساس اس سے اعتماد چھین نہ لے۔
نہ دوسروں کے بچوں سے ہاتھ ملائیں اور نہ اپنے بچوں کو ہاتھ ملانے کو کہیے۔ نہ دوسروں کے بچوں کو چوکلیٹ وغیرہ آفر کریں نہ اپنے بچوں کو لینے کی اجازت دیں۔
جب بھی ہاسپٹل یا کلینک وغیرہ جیسی جگہوں پر کسی اور کے بچے کے ساتھ لگ کر بیٹھنا پڑے تو پہلے اس کے والدین سے اور اس بچے سے اجازت لیجیے۔ تاکہ وہ والدین بھی آپ سے سیکھیں اور آپ کا بچہ بھی سیکھے کہ دوسروں کو مجھ سے اجازت لینی چاہیے۔ جب وہ جوان ہو تو وہ خود بھی اس پر عمل کرے۔
اپنے گھر سے گھٹن کا ماحول ختم کیجیے۔ دنیا کھل چکی ہے۔ آپ بچوں سے باتیں چھپا ہی نہیں سکتے۔ آپ کے سات سالہ بچے کو اگر کچھ باتوں کا پتہ چل جائے تو اس میں برائی نہیں اچھائی ہے۔
اس کے سوالوں کا صحیح جواب دیجیے۔
یہ جواب کہ یہ بچوں کے پوچھنے کی بات نہیں ہے، گئے زمانوں کی بات ہوچکی ہے۔ ہر سوال کا جواب کئی جگہوں پر کھلا رکھا ہے۔ آسان لفظوں میں سنبھل سنبھل کر جواب دیجیے۔
اپنے بچوں کو پکڑ کر بٹھا کر لیکچر دینے کے بجائے ان کی موجودگی میں آپس میں ان خطروں کو ڈسکس کیجیے جن سے آپ انہیں بچانا چاہتے ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے سنتے رہیں گے اور سمجھتے جائیں گے۔ پھر خود ہی مزید سوال کریں گے۔
مگر صرف یہی خطرہ نہیں ہے کہ باہر درندے گھوم رہے ہیں۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ انسان کے اندر دبے حیوان کو نظرانداز تو نہیں کررہے، جو آپ کے قریب قریب اور اردگرد موجود ہیں۔ وہ بچوں پر ایک بار ہی حملہ نہیں کرتے۔ وہ اتنے عیّار بھی ہوتے ہیں کہ جسمانی تبدیلیوں سے گزرتے بچوں کو اپنا عادی بھی بنا دیتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے انہیں شہوت کی لذت چکھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بچہ نہ صرف عادی ہوجاتا ہے بلکہ ہم راز بھی بن جاتا ہے۔ اور یہ سب عین ماں باپ کی ناک کے نیچے ہورہا ہوتا ہے اور انہیں خبر بھی نہیں پڑتی۔ عموماً بچیاں کم عرصہ نہیں بلکہ کئی کئی برس، جوان ہونے تک اپنے شکاری کے پنجے میں پھنسی ذہنی کرب سے گزرتی رہتی ہیں۔ ضرور غور کیا کیجیے کہ آپ کی بچی کیوں سہمی سہمی رہتی ہے! کیوں اپنا جسم بڑے بڑے دوپٹوں میں خواہ مخواہ لپیٹے رکھتی ہے! کیوں بات بات پر نروس ہوجاتی ہیں! کیوں گھر سے باہر نہیں نکلتی! یا کیوں چڑچڑی رہتی ہے! کیوں بدتمیز ہے! کیوں تنہائی پسند ہے! کیوں بناؤ سنگھار کرنے سے کتراتی ہے!
بچے کو بچانا ہے تو اسے کھل کر بولنے دیجیے اور بولنے کی ترغیب دیجیے۔ اسے احتجاج کرنے کی اجازت دیجیے۔ وہ اگر کہہ رہا ہے کہ فلاں انکل یا بھائی برا ہے۔ مجھے پسند نہیں۔ ہمارے گھر نہ آیا کرے، تو انہیں غور سے سنیے کہ انہیں کون کون سا انکل یا بھائی یا ٹیچر یا ملازم برا لگتا ہے۔ بچے صرف محسوس کرتے ہیں۔ سمجھا نہیں سکتے۔ جو انہیں اچھا نہیں لگتا اس سے اسے دور کردیں۔
مولوی اور ٹیچرز کے بارے میں ان کی باتیں سنیں۔
جن بچوں کے ساتھ وہ کھیلتے ہیں ان بچوں کے گھروں سے تعلقات بنائیے تاکہ آپ باخبر رہیں کہ ان بچوں کے گھر میں کون لوگ ہیں۔
یہ بچے آپ نے اپنے شوق اور اپنی مرضی سے پیدا کیے ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہیں۔ یہ خود سے نہیں آئے۔
اپنے بچوں سے سودا سلف لانے کا کام نہ لیں۔ خود اس طرح کے کام کریں۔ جب تک بچہ سمجھدار نہ ہوجائے۔ دکان پر خریداری کرتے ہوئے اگر کسی اور کا بچہ خریداری کر رہا ہے تو اس کا احترام کیجیے۔ اس کے پیچھے قطار بنائیے۔ اپنے بچے کو بھی قطار میں کھڑے ہونا سکھائیے۔ دکاندار بھی سیکھے گا کہ اسے بچوں سے کیسے بات کرنی ہے۔ بھیڑ یا جمگھٹا بنانے کا رواج ختم کیجیے، کیونکہ بچے ان میں پھنس کر گندے ہاتھوں کا چھونا برداشت کریں گے اور بلآخر اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔
اسکول وین، بس اور پک اپ میں بھیڑ بکریوں کی طرح بچوں کو اسکول بھیج کر سوتے نہ رہیے۔ یہ جو اسکول وین میں آپ بچوں کو ڈرائیوروں اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں میں دبوچا ہوا دیکھتے ہیں اور اٹھا اٹھا کر پٹختا دیکھتے ہیں وڈیوز میں، یہ ان بچوں کو بٹھانے کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ یہ وہی شہوانی لذت حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔
اپنے بچوں کی ذمہ داری اٹھائیے یا پھر بچے پیدا نہ کیجیے۔ بچہ پیدا نہ کرنے کے طریقے موجود ہیں۔
اپنی چند گھڑیوں کی مباشرت کے نطفے کو انسان کی تخلیق سمجھیے۔ کتے بلیوں کی طرح محض بلونگڑے نہیں جو دنیا کی گندگی میں منہ مارتے رہیں گے۔
سماج کی اور اپنے اردگرد کے ماحول کی اور اپنے گھر کی تربیت اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے آپ نے کرنی ہے۔ حکومت آپ کے گھر میں نہیں رہتی۔ آپ کے گھر میں آپ اپنی حکمرانی پر غور کیجیے۔
خود مذہب بھی آپ کو اس سلسلے میں کچھ ہدایات دیتا ہے جو ہم نے نہیں اپنائیں۔ مگر وہ عرب کلچر کا حصّہ ضرور ہیں اب بھی۔
1۔ مذہب بھی آپ کو سختی سے سات سال کی عمر سے بھائی بہن کا بستر الگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
یاد رکھیے سات سال کی عمر سے بچے کے اندر اپنے اور پرائے جسم کے لیے تجسس ابھرنا شروع ہوتا ہے اور یہ فطری ہے۔
2۔ مذہب ہی آپ کو یہ بھی حکم دیتا ہے کہ جب کسی کے گھر جاؤ تو دروازے کے باہر کھڑے ہوکر تین بار اجازت لو۔ گھر والے اگر جواب نہ دیں تو ناراض ہوئے بغیر لوٹ جاؤ۔
3۔ مذہب ہی آپ کی بیٹیوں کے نامحرموں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مذہبی احکامات کی تشریح پیش کرنے والوں نے ظلم یہ کیا ہے کہ صرف بیٹیوں کو پکڑ کر قید میں ڈال دینے کی ترغیب دی ہے تاکہ بیٹیوں کے نامحرم آزادی سے گھوم پھر سکیں۔
وہ آج بھی گرج گرج کر کہتے ہیں کہ لڑکیاں اس درندگی کی ذمہ دار ہیں۔ کیوں انہیں باہر نکالتے ہو! وہ مرد کو شرم حیا اور خوفِ خدا نہیں سکھاتے۔ وہ جان بوجھ کر نظرانداز کرتے ہیں کہ درندہ مرد تو گھروں میں بھی موجود ہوتا ہے، جہاں وہ بیٹیوں کو مقید کرکے شکار کو مزید آسان بنا دیتے ہیں۔
مذہب نامحرم کی نشاندہی کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ انہیں آپ کی بیٹیوں کو چھوُنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ انہیں آپ کے گھر میں آزادی سے آنے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کی بچی کو تنہا انگلی سے پکڑ کر اتنی آزادی سے کہیں بھی نہیں لے جاسکتے کہ وہ ان کے ساتھ ان کی خفیہ شکارگاہ تک پہنچ جائے۔
یہ ہے وہ شیطان جو نامحرموں کے اندر گھسا بیٹھا ہے، جو تنہائی میں آپ کی بچی کو دبوچنے کی پلاننگ کرتا ہے۔ جو اپنی بیباک نظروں کو جھکائے رکھنے کے بجائے، آپ کی بچی کے جسم کو آپ کی عین ناک کے نیچے تولتا رہتا ہے۔
مگر تشریح نگاروں نے یہ عجیب تشریح کردی کہ شکار کو پنجرے میں بند رکھو اور شکاری کو آزاد چھوڑ دو۔ انہوں نے تشریح کو اس سوچ پر روک دیا کہ عورت اور مرد کے بیچ شیطان ہوتا ہے اس لیے عورت بند ہوجائے۔ لیکن اگر وہی شیطان کم سن لڑکے کو مسجد میں دبوچ لے تو؟
اگر وہ شیطان دو تین سال کی بچی کو دبوچ لے تو؟
مرد نگاہ جھکائے رکھے، کاش اس کی بھی صحیح تشریح کردی ہوتی تشریح نگاروں نے!
جبکہ سورۃ نور میں عورت اور مرد، دونوں کے لیے یہ آیات ساتھ ساتھ موجود ہیں۔
مگر تنگ نظری والی محدود تشریح کی وجہ سے ہمارے گھروں اور ماحول میں موجود شیطانوں کی نشاندہی عورت کی قید و آزادی کے بحث تلے دبتی چلی گئی اور ہم نے اپنے دروازے شیطانوں پر کھول دیے۔
یہی وجہ ہے کہ جب لڑکی ریپ جیسے واقعات سے گزرتی ہے تو حضرات اسی پر الزام رکھتے ہیں کہ کیوں کھلی پھر رہی تھی! کھلی پھرے گی تو ریپ تو ہوگی۔ یوں لڑکی پر بری نگاہ ڈالنے والا اسے جائز عمل سمجھتا ہے۔
مذہب میں عمرہ تو ایک طرف مگر حج جو فرض ہے، اس کے لیے بھی اس صورت میں منع کیا گیا ہے جب آپ کے گھر میں بیٹی موجود ہو اور ابھی اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ مقصد یہی ہے کہ اسے غیرمحفوظ ماحول میں تنہا چھوڑ کر خدا کا فرض بھی ادا نہ کیجیے۔
اگر مرد کے اندر موجود شیطانی شہوت پر غور کرتے ہوئے اس گندی دلدل میں اتر کر غور کریں گے تو آپ کو کئی جگہوں پر باپ اور بھائی اور سگے اور محرم رشتے بھی ملیں گے۔ یہ شیطان دادا نانا کی عمر کے بوڑھے مرد میں بھی موجود ہے۔
ایسی وڈیو بھی آجکل دوبارہ نکل آئی ہے جس میں ایک سفید داڑھی والے نانا دادا قسم کے بڈھے نے ایک چھوٹی سی بچی کے منہ میں اپنا عضو ڈالا ہوا ہے اور اس بچی کو گھر کی چھت کے ایک کونے میں لیے بیٹھا ہے۔ وڈیو بنانے والے نے قریبی گھر کی چھت سے چھپ کر وڈیو بنائی ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلیجیے کہ انسان پہلے محض ایک جسم ہے پھر وہ شعوری طور پر ایک رشتہ ہے۔ اس جسم کو اور رشتے کے شعور کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت اسے مہذب بناتی ہے۔ انسان، بلخصوص مرد اپنے اندر حیوانی کشمکش اور اس سے مزاحمت سے بہرحال گزرتا رہتا ہے۔ اس لیے اکثر گھروں میں باپ اور بھائی بچیوں کو سینہ ڈھانپنے کو کہتے ہیں۔ بچیاں جوں جوں جوان ہوتی جاتی ہیں، لاشعوری طور پر باپ اور بھائیوں سے جھجک محسوس کرتی جاتی ہیں۔ ان کے سامنے آنے سے کتراتی ہیں۔
یہاں ماں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے مگر اسے بھی مذہب کی تشریح کرنے والوں نے یہ ہی سکھایا ہے کہ بیٹی کو موٹے کفن میں لپیٹ کر رکھو۔ اسے چپ کرواؤ۔ بچیاں اپنے اردگرد سرسراتی شیطانیت اور حیوانیت سے متعلق بات کرنے یا ماں کو آگاہ کرنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتیں۔ ماں ہی انہیں دبوچ لیتی ہے کہ چپ ہوجاؤ۔ بےحیائی مت کرو۔ شرم کرو۔ اندر سے اتنی غلیظ ہو!
بچیاں محسوس تو بہت کچھ کرلیتی ہیں مگر اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ سمجھا نہیں پاتیں۔ خود ہی کو بےحیا اور بدنیت سمجھ کر خود ہی کو گنہگار قرار دیتی ہیں اور چپ ہوجاتی ہیں۔
اس خوش فہمی میں بھی نہ رہیے کہ یہ سب جاہلوں اور کچی بستیوں میں ہوتا ہے۔ یہ پڑھے لکھوں اور اِلیٹ کلاس میں بھی ہو گزرتا ہے۔
لگے ہاتھوں یہ بھی سنتے چلیے کہ ہمارے اس بےاُصول معاشرے میں دوکردار ایسے بھی بہت زیادہ دکھتے ہیں جن پر پرانے وقتوں کی باشعور بزرگ خواتین نے ہمیشہ تنقید کی ہے مگر وہ نشاندہی بھی موجودہ دور کی اس بحث تلے کہیں دبی رہ گئی کہ یہ باتیں جدید دور کی آزاد زندگی کے خلاف ہیں۔
وہ دو کردار ہیں بہنوئی اور ماں کے منہ بولے بھائی کے۔ بہنوئی کے لیے پرانے وقتوں میں سالی آدھی گھر والی کا محاورہ رائج کیا گیا۔ ہر دور کے بہنوئی نے اس محاورے کی مناسبت سے خوب لذت لی۔ ہر دولہا سالیوں کے گھیراؤ کا دیوانہ ہوتا ہے۔
بہت سے گھروں میں تو بہنوئی سالیوں کی شادی اور رشتے کے معاملے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
بہت سے گھروں میں مائیں اپنے سگے بھائی ہوتے ہوئے بھی منہ بولے بھائی بناتی ہیں جو ماموں بن کر گھروں میں گھس آتے ہیں اور عین منہ بولی بہن کی ناک تلے منہ بولی بھانجیوں سے دل لگی کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف مذہب قطعی طور پر منہ بولے رشتے کو رد کرتا ہے۔
بعض بچیاں بھی اپنے بھائی ہوتے ہوئے اور ان کی سختیوں اور شکی طبیعت سے نالاں ہوکر منہ بولے بھائی کے تعلقات میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔
بچیوں کو بہادر کیجیے۔ خود سوچیے کہ انہیں منہ بولے جذباتی رشتوں کی کیوں ضرورت پڑتی ہے!
قصّہ مختصر تر یہ کہ سماج کی تعمیرِ نو کی ضرورت ہے۔ سماج دراصل ہمارا اپنا گھر ہے۔ ہمارے گھر سے اس کا پھیلاؤ شروع ہوتا اور ہمارے اردگرد پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے! تو یہ لوگ دراصل ہمارے اپنے دوست احباب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اگر اپنے گھر میں صاف ستھرا سماج تخلیق کریں تو ہمارا حلقہ احباب بھی اس میں خودبخود شامل ہونا شروع ہوجائے گا۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts