حکومتیں تاریخ اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں،ڈاکٹرریاض
کراچی شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(زیبسٹ) کے رئیس کلیہ سماجی علوم ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کہا کہ جنگیں اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ ہم تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں ۔حکومتیں تاریخ کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں ،ہمیں تاریخ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے ۔تاریخ کو صرف تاریخ نہیں بلکہ سماجی تاریخ کہنا چاہیئے اور سماجی پہلو سے تاریخ پر تبصرہ کرنا چاہیئے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈسکشن گروپ کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار بعنوان: ’’تاریخ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کے تناظر میں ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ ڈاکٹر مبارک علی کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتابوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ انہوں نے تاریخ جیسے خشک اور مشکل مضمون کو آسان اور عام فہم زبان میں عوام تک پہنچایا۔ان کے مطابق تاریخ صرف کارناموں اور فتوحات پر محیط نہیں بلکہ اس کے اور بھی پہلو ہیں جن پر کام کرنا ضروری ہے ۔تاریخ صرف طبقاتی کشمکش کا نام نہیں اور نہ یہ جامد ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کو منع کرکے پیش کرنے والوں کی شدید مذمت کی اور واضح کیا کہ تاریخ کو تنقیدی نکتہ نظر سے دیکھنا چاہیئے اردگرد میں پیش آنے والے حالات وواقعات بھی تاریخ ہیں۔وفاقی اُردو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان عزیز نے اپنی گفتگو کا آغاز اپنی کی ہوئی ایک تحقیق سے کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ایک سروے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ کراچی کے تین فیصد لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ۔مزید کریدنے پر پتہ چلا کہ ان تین فیصد کی بھی بڑی تعداد اُردو ادب وڈائجسٹ پڑھنے تک محدود ہیں۔پاکستانی قوم کا شمار جنوبی ایشیاء کی تیسری بڑی قوم میں ہوتاہے جو سب سے زیادہ ایس ایم ایس کرتی ہے۔سماجی میڈیا سے آنے والی معلومات مستند نہیں ہوتی اور 99 فیصد لوگ بناکسی تحقیق کے اسے آگے بڑھادیتے ہیں جس سے ایک علمی بحران پیدا ہوجاتا ہے ۔اس طرح کی گھمبیر اور علم دشمن صورتحال میں ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب بے انتہا مدد دیتی ہے ۔ان کی تحریریں انتہائی اختصار اور خود میں جامعیت لئے تنقیدی نظر سے گزر کر تاریخ کو بیان کرتی ہے ۔ان کی تحریرصحت مند ،مستند اور بالکل ہدف کے مطابق ہوتی ہے۔ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ رجعت پسندی کو نصاب کی کتابوں سے نکال دینا چاہیئے ۔اس کے باعث ہم ایک ہی دائرہ میں گھومتے رہتے ہیں اور ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں حمود آجاتاہے۔ڈاکٹر مبارک کے مطابق تعلیم کو ریاست کی سرپرستی میں ہونا چاہیئے ۔ہمیں اپنے تمام تر ہیروز کو چاہے وہ سیاسی ہوں یا ذاتی زندگی کے ،ان کے تمام ترخوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا چاہیئے ،اسی میں ہماری آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے۔چیئر پرسن شعبہ بین الاقوامی تعلقات پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ فرانس میں انقلاب فرانس کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتاہے لیکن نہیں بتایا جاتا کہ اس انقلاب میں کتنی زیادہ قتل وغارت گری ہوئی ۔
Leave a Reply