قرآن عہد نبوی
اسلامی روایات کے مطابق محمّد پر پہلی وحی غار حرا میں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔
اس کے بعد یہ سلسلہ وحی 23 برس کے عرصہ تک جاری رہا۔
احادیث اور اسلامی تاریخ کے مطابق ہجرت مدینہ کے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا
تو آپ نے اپنے صحابہ کو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔
روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہ جنگ بدر کے بعدجب قریش کے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔
قرآن کو پتھروں، ہڈیوں اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔
اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکر سنّی اور شیعہ دونوں روایات میں ملتا ہے۔
جیسا کہ محمد کا قرآن کو تبلیغ کے لیے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔
تاہم، 632 عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔
تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے
کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اور عائشہ سے روایت ہے کہ،
’’میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔
وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے
’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔
پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔
پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔
ویلچ (Welch) جو ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں
کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے
وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔
ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں
گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعی مافوق الفطرت ہے۔
تاہم، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کو مجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے
کیونکہ قدیم عرب میں کئی ایسے لوگ اس طرح کے تجربات کے مدّعی تھے۔
ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے
کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔
قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔
قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہ طبری کے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں
:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا
(اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔
اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔
جیسا کہ امام فخر الدّین رازی کہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا جا سکتا تھا
کہ اُنہوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔
کچھ عالم جیسا کہ واٹ دوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
Leave a Reply