🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

چندر شیکھر آذاد ۔ تاریخ کا بہروپیا انقلابی

Back to Posts

چندر شیکھر آذاد ۔ تاریخ کا بہروپیا انقلابی

’انقلابی کبھی ہتھیار نہیں ڈالتے۔ ہم لڑیں گے اور آخِر تک لڑیں گے‘
یہ الفاظ اُس نے تب کہے جب ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کی ایکشن کمیٹی نے دلی اسمبلی میں گھس کر بم پھینکنے کا پلان پیش کیا۔ برطانوی سامراجی اُسے مذاق سے ’بہروپیا انقلابی‘ کہتے مگر اُس کے عمل کی دہشت آج بھی تاجِ برطانیہ کا دل دہلا دیتی ہے۔

چندر شیکھر آذاد جھابوا ضلع کے گاؤں بھاورہ میں پیدا ہوئے جو حالیہ مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔ اُن کا جنم جِگرانی دیوی اور سیتا رام تیواری کے ہاں ایک معمولی جھونپڑی میں ہوا۔ اُن کے والِد سیتا رام تیواری کانپور کے نزدیک واقع ضلع اُناؤ کے گاؤں بدرکہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی سکھدیو کا جنم بھی بدرکہ میں ہی ہوا تھا۔ سیتا رام تیواری کے ہاں ۵ بچوں نے جنم لیا مگر فقط چندر شیکھر آذاد ہی بچ پائے۔
آذاد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بھاورہ ہی میں حاصل کی مگر بارہ سے تیرہ سال کی عُمر میں بمبئی چلے آئے اور پیٹ پالنے کے لیئے چھوٹی موٹی مزدوری کرنے لگے۔ یہاں سے آذاد بنارس چلے آئے اور ایک سنسکرت سکوُل میں داخلہ لے لیا۔ یہ ۱۹۲۱ کا زمانہ تھا جب گاندھی کی ’عدم تعاون کی تحریک‘ یعنی Non Cooperation Movement زوروں پر تھی اور آزاد اس کا حصہ تھے۔ اِس تحریک کے نتیجہ میں آذاد کو ۱۵ کوڑوں کی سزا ہوئی مگر ہر کوڑے پر آذاد کے منہ سے ’مہاتما گاندھی کی جے‘ کا نعرہ ہی بلند ہوتا۔ ۱۵کوڑے کھانے کے بعد آذاد شدید زخمی تھے۔ آزاد کی انقلابی طبیعت نے جیل کے اسپتال میں علاج کروانا قبول نہ کیا بلکہ کِسی آذادی کے سپاہی کے ہاں علاج معالجے کو ترجیح دی۔ 4 فروری ۱۹۲۲ کو جب چوری چورا کے واقعے کے بعد گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک واپس لے لی تو آذاد کا گاندھی اور کانگریس کی سیاست پر سے اعتماد اُٹھ گیا۔
اِس وقت سچندر ناتھ سانیال (سانیال بابوُ) نے پرانے انقلابیوں پر مشتمل ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن(HRA) تشکیل دی تو آذاد اس میں شامل ہو گئے۔ یہ وہی گروپ تھا جس میں اس وقت اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل، روشن سنگھ، راجندر لہری اور دیگر معروف انقلابی شامل تھے۔ ۹ اگست ۱۹۲۵ کو کاکوری اسٹیشن پرہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (HRA) نے برطانوی سامراج کا سرکاری خزانہ لوُٹ لیا۔ اِس واقعے کے بعد برطانوی سامراج بوکھلا گیا اور انہوں نے پکڑ دھکڑ میں کئی ایسے ہندوستانی شہری بلا تفریق شہید کر دیئے جِن کا کاکوری معرکے سے دور دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ رام پرساد بسمل، روشن سنگھ اور راجندر لہری گرفتار ہو گئے۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو 17 سے 19 دسمبر تک اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں پھانسی کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔ تاہم آزاد اور کندن لعل پکڑے نہ جا سکے۔

اِس پھانسی کے بعد گوری سرکار سمجھ بیٹھی تھی کہ اب برطانوی سامراج کو کسی انقلابی سے کوئی خطرہ نہیں مگر یہ ہر سامراج کی طرح برطانوی سامراج کی خام خیالی نکلی۔ چندر شیکھر آذاد اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے اور اب بھگت سنگھ اپنے ’نوجوان بھارت سبھا‘ کے کامریڈز کو لے کر ان کے ساتھ شامِل ہو چکے تھے۔ یہ گروپ محض آذادی کے متوالے عام گروپوں کی طرح کام کر رہا تھا مگر ۸ اور ۹ ستمبر۱۹۲۸ کو دلی کے کوٹلہ فیروز شاہ گراؤنڈز میں کامریڈز نے ایک بہت بڑی کنونشن منعقد کی اور اپنی پارٹی کا نیا نام ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) رکھا۔ اب یہ گروپ ایک انقلابی پارٹی کا رُوپ دھار چکا تھا۔ آزاد کوڈ نیم ’بلراج‘ کے ساتھ HSRA کے مسلح ونگ کے کمانڈر انچیف مقرر کیئے گئے اور بھگت سنگھ سیاسی و نظریاتی فرنٹ کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ اِس کنونشن میں HSRA کو طلبہ، مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ایک عوامی جمہوری پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر سائمن کمشن کے خِلاف احتجاج (Simon Go Back) کے دوران لالہ لاجپت رائے کی بہیمانہ تشدد سے ہونے والی شہادت نے پارٹی کا رُخ ہی تبدیل کر دیا۔
لالہ لاجپت رائے کی شہادت کو ’قومی توہین‘ قرار دیا گیا اور جب کانگریس، ہندو مہا سبھا اور آل انڈیا مسلم لیگ وغیرہ نے برطانوی سامراج کی خوشنودی حاصِل کرنے کے لیئے بزدلانہ خاموشی کی چادر اوڑھ لی تو ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) نے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ یہ کوئی جاگیردارانہ طرز کا انتقام نہ تھا بلکہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) برطانوی سامراج کو باور کروانا چاہتی تھی کہ بس بہت ہوا، اب ہندوستان کے عوام مزید ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ سامراجی جبروتشدد کا جواب دیا جائے گا۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) نے سکاٹ(James A. Scott) کو مارنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ چندر شیکھر آذاد کی قیادت میں یہ ایکشن 17 دسمبر 1928 کو ہونا طے پاگیا۔ منصوبے کے مطابق جے گوپال کو سکاٹ کی شناخت کرنا تھی، بھگت سنگھ اور راج گرو نے حملہ کرنا تھا جبکہ سکھدیو تھاپڑ اور چندر شیکھر آذاد کی ذمہ داری کامریڈز کو لے کر بحافظت لاہور سے باہر نکلنا تھا۔

17 دسمبر 1928 کے دِن ایس ایس پی آفس لاہور کے باہر یہ ایکشن ہوا۔ جے گوپال نے غلط نشاندہی کی اور سکاٹ کی جگہ ساؤنڈرس مارا گیا۔ جب چندر شیکھر آذاد کامریڈز کو لے کر موقع سے جا رہے تھے تو سب انسپکٹر چنن سنگھ نے انقلابیوں کا پیچھا کیا۔ آذاد نے سب انسپکٹر چنن سنگھ کو وارننگ دی کہ یہ انقلاب کی جنگ ہے،میرے دوست اور وہ کسی ہندوستانی پر یا عام عوام پر ہتھیار نہیں اُٹھانا چاہتے۔ مگر جب چنن سنگھ نے بندوق تان لی تو مجبوراً آذاد کو گولی چلانا پڑی اور غدار چنن سنگھ جہنم واصل ہوا۔ یہ وارننگ سب انسپکٹر چنن سنگھ کے نزعی بیان میں لکھی گئی ہے۔ ساؤنڈرس کے قتل کے بعد برطانوی سامراج بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ چندر شیکھر آذاد، بھگت سنگھ، راج گرو، سکھ دیو تھاپڑ اور دیوی درگا بھابی جو کامریڈ بھاگوتی چرن ووہرا کی اہلیہ تھیں، یہ سب تو لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر سامراج کی پکڑ دھکڑ کے دوران سینکڑوں طلباء کو ان کے ہاسٹلوں سے گرفتار کر لیا گیا اور جن نوجوانوں پر پولیس کو ذرا سا شبہ بھی ہوا اُس کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔
اِدھر انقلابیوں کی جِدوجہد جاری تھی اُدھر برطانوی سامراج کی پروردہ کانگریس، ہندو مہا سبھا اور آل انڈیا مسلم لیگ سامراجی ایجنڈے پر چلتے ہوئے، برِصغیر میں تیزی سے پھیلتے ہوئے مارکسی انقلابی نظریات کا اثر کم کرنے کے لیئے اپنی اپنی سازشوں میں لگی ہوئی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب روس میں انقلاب آ چکا تھا اور جوزف سٹالن کی شخصیت کا سحر، برِصغیر کے عام لوگوں کی پسماندہ حالت کے ساتھ مِل کر ایک انقلاب کاراستہ ہموار کر رہا تھا۔ عام لوگ بسمل عظیم آبادی کی معروف نظم ۔۔۔۔
’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دِل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتِل میں ہیں‘
کو رام پرساد بسمل کی شاعری سمجھ کر کالجوں، گلیوں اور چوراہوں میں گا رہے تھے۔ ’انقلاب رہس‘ کے نام سے ایک سٹریٹ تھیئٹر Street Theater سامراج کے خِلاف ہندو مسلم ایکتا کی بات کر رہا تھا۔ ایک کانگریسی ذمیندار کی اطلاع پر ’انقلاب رہس‘ کے نوجوانوں کو گرفتار کر کے کالا پانی بھیج دیا گیا۔ جِن میں سے صرف چند افراد ہی رہا ہو کر واپِس آ سکے۔ یہ وہی گروپ ہے جِس نے بعد میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت تو کی مگر دِلّی کے نام نہاد انقلابیوں کی بے عملی سے مایوس ہو کر خاموش ہو کر رہ گئے۔
’انقلاب رہس‘ کے ساتھیوں کی گرفتاری اور بومبے ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں پر ظالمانہ تشدد کے بعد HSRA نے فیصلہ کیا وہ بھگت سنگھ کی قیادت میں اسمبلی میں بم پھینک کرگرفتاری دیں گے اور انقلابی نظریات کو جیل سے بیٹھ کرعوام میں پھیلائیں گے۔ یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا۔ HSRA کے انقلابیوں نے کامریڈ جتن داس کی مدد سے بم بنانا تو سیکھ ہی لیا تھا مگر آذاد جانتے تھے کہ ابھی تک ساؤنڈرس مرڈر کیس کی فائل بند نہیں ہوئی۔ انہوں نے HSRA کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے اِس پلان کی مخالفت کی۔ آذاد کا مؤقف تھا کا ایکشن ضرور ہو گا مگر ایکشن کمیٹی کسی ایسے کامریڈ کو نہ چُنے جس کا نام ساؤنڈرس مرڈر کیس میں شامل ہے، خصوصاً بھگت۔ مگر ایکشن کمیٹی نے آذاد کی آپشن کو قبول نہیں کیا۔
ایکشن کمیٹی کی نظر میں بھگت اور بٹو کشور دت سے بہتر کوئی اور ساتھی اِس کام کو سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ ۸ اپریل ۱۹۲۹ کو بھگت سنگھ اور بٹو کشور دت نے دِلّی اسمبلی میں بم کچھ اِس طرح سے پھینکے کہ کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ساتھیوں نے جان بوجھ کر بموں میں کیمکل اور شارپنرز کا استعمال نہیں کیا اور گرفتاری پیش کرتے ہوئے اپنا اسلحہ بھی سامراجی گارڈ کے حوالے کر دیا۔
جب برطانوی سامراج نے دیکھا کہ جیل میں رہ کر انقلابی جدوجہد اور بھی تیز ہو گئی ہے تو انہوں نے بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کی پھانسی کا فیصلہ کر لیا۔ اِس صورتحال میں آذاد نے فیصلہ کیا کہ بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو جیل سے عدالت جاتے ہوئے رستے میں ہی چھُڑا لیا جائے گا۔ مگر اِس ایکشن کے مرکزی کردار ساتھی بھاگوتی چرن ووہرا ۲۸ مئی ۱۹۳۰ کو دریائے راوی کے کنارے بم بنانے کا تجربہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔
مگر آذاد جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کا رابطہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے باپ موتی لعل نہرو سے بھی رہتا۔ سخت نظم و ضبط کے قائل چندر شیکھر آذاد اپنے رویئے میں لچک بھی رکھتے تھے۔ جب موتی لعل نہرو کی 6 فروری 1931 کو وفات ہو گئی تو آذاد نے کامریڈ یشپال اور کامریڈ سُرندر پانڈے کو جواہر لعل نہرو کے تعاون سے ہی ماسکو بھیجا تا کہ وہ مارکسی نظریاتی تربیت حاصِل کر سکیں۔ وہ جانتے تھے کہ نہرو گھرانہ کبھی انقلاب دوست نہیں ہو سکتا اور وہ اِس امر کا اظہار بھی کرتے۔ مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انقلابیوں کا نظریاتی تربیت حاصل کرنا بے حد ضروری ہے، سو انہوں نے پارٹی کی بہتری کے لیئے نسبتاً سیکولر سیاستدان نہرو سے مدد قبول کرنا بھی گوارہ کیا۔
آذاد ایک سیدھے سادھے کیمونسٹ تھے۔ انہوں نے کبھی انقلابی دانشور ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ جہاں کہیں بھی نظریاتی بحث مباحثہ کی ضرورت پڑتی تو وہ اِس کام کے لیئے بھگت سنگھ کو کہتے۔ اِس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے ساتھی جتن داس (جنہوں نے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی 114 دنوں کی بھوک ہڑتال میں سب سے پہلے جامِ شہادت نوش کیا) وہ مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں تھے اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ملک میں انقلاب لانا چاہتے تھے۔ مگرآذاد نے یہ ذمہ داری بھگت سنگھ کو دی کہ وہ کیمسٹری کے اِس پروفیسر کو جدوجہد پر قائل کریں۔ یہ آذاد ہی کی تنظیمی صلاحیت تھی کہ جتن داس نہ صرف بنگال بلکہ پوُرے برِصغیر کے انقلابی ہیرو بنے، جامِ شہادت نوش کیا اور ایک ایسی مِثال بنے کہ اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامریڈ سوریا سین (ماسٹر دا) جیسے سینکڑوں انقلابی پیدا ہوئے جِنہوں نے برطانوی سامراج کو واپس اپنے اپنے گھروں میں لوٹنے پر مجبور کردیا۔
مختصراً یہ کہ وہ اکتسابی انقلابی سے ذیادہ عملی انقلابی تھے، اِس حد تک کہ انہوں نے ’مینی فیسٹو آف دا کیمونسٹ پارٹی‘ بھی کامریڈ شیو ورما سے ہندی ذبان میں سن کر سیکھا۔ کامریڈ شیو ورما وہی ہیں جنہیں جے دیو کپور، کایا پرساد، بٹو کشور دت اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ عمر قید کی سزا ہوئی اور کالا پانی بھیجا گیا۔
چندر شیکھر آذاد اور بھگت سنگھ کی جوڑی ایسی ہی تھی جیسے سٹالن اور لینن، ہو چی منہ اور جنرل گائپ یا فیدل کاسترو اور چے گویرا یا ماؤ زے تنگ اور چوُ این لائی کی جوڑی تھی۔ مگر سامراج نے انقلابی صفوں میں موجود اپنے گھُس بیٹھیوں کے ذریعے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی کہ چندرشیکھر آذاد ایک ان پڑھ شخص ہے اِس کا نوجوانوں سے کیا تعلُق؟ اِس منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی صفوں میں ویر بھدر تیواری اور سکھدیو راج جیسے غدار پیدا ہوئے جنہوں نے آذاد کی مخبری کی۔ سکھدیو راج باتوں باتوں میں آذاد کو اکثر کہتا کہ آپ کے پاس رقم موجود ہے لہٰذہ آپ ماسکو یا کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے؟ مگر ہر مرتبہ آذاد رقم راج گرو یا کِسی اورمُستحِق انقلابی ساتھی کے گھر بھجوا دیتے اور سکھدیو راج سے کہتے کہ ’میں اِس مٹی لڑائی اِس مٹی میں رہ کر لڑنا چاہتا ہوں‘۔
رفتہ رفتہ 27 فروری ۱۹۳۱ کو برطانوی پولیس نے الفریڈ پارک الہہ آباد میں چندر شیکھر آذاد کوصبح ۹ بجے کے قریب گھیرے میں لے لیا۔ آذاد نے اپنی جان کی حِفاظت سے پہلے سکھدیو راج کو بھگایا کیونکہ جانتے تھے بے رحم برطانوی سامراج ان کی جان لینے کے لیئے کِسی کے بھی قتل سے دریغ نہ کرے گا۔ یہ مقابلے کا وقت تھا۔ چندر شیکھر آذاد نے پولیس کی بھاری نفری کی بے دریغ فائرنگ کا مقابلہ آخری گولی تک کیا اور جیسا وہ کہتے تھے کہ وہ اپنی مٹی کی لڑائی اپنی مٹی میں رہ کر لڑیں گے ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی آخری سانس تک لڑی اور بہت دیر فائرنگ کے تبادلے کے بعد 27 فروری ۱۹۳۱ کو الفریڈ پارک الہہ آباد میں شہید ہو گئے۔

فائرنگ تھم چکی تھی۔ مگر پولیس کی بھاری نفری تقریباً دو گھنٹے تک آذاد کی لاش کے پاس آنے سے بھی گھبرا رہی تھی۔ گولیوں کی آواز سے الہہ آباد کے شہری الفریڈ پارک کے نزدیک اکٹھے ہو چکے تھے۔ پولیس آذاد کی لاش کو وہیں جلا کر راکھ کر دینا چاہتی تھی، بالکل اسی طرح جیسے ان درندوں نے بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے، ان کی راکھ دریا میں بہا دی تھی۔ مگر یہ دِن کا وقت تھا اور ہتھیار بند پولیس ان سپاہیوں سمیت جو آذاد کی گولیوں زخمی ہوئے تھے اب الہہ آباد کے نہتے عوام کے نرغے میں تھے۔
آذاد کی آخری رسومات میں جواہر لعل نہرو کی بیوی کملا نہرو، مدن موہن مالویا جی کے بھتیجے یا شا ئد بھانجے (کہ تاریخ میں اُن کے لیئے Nephew کا لفظ استعمال کیا ہے) پدما کانت مالویا ( یہ ابھیدیو نامی ایک اخبار کے مدیر بھی تھے) اور سچندر ناتھ سانیال (سانیال بابو، جو ایچ آر اے کے بانی تھے) کی اہلیہ شامل تھے۔ انہوں نے آذاد کی آخری رسومات کلکتہ کے خودی رام بوس (1908) کی طرز پر ادا کیں۔ آج برطانیہ بھی اِس عظیم اور بہادر انقلابی کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔

گاؤں میں بیٹھی آذاد کی بیوہ ماں کو ایک عرصے تک یقین ہی نہیں ہوا کہ اُس کا بہادر سپوت شہید کر دیا گیا ہے۔ مگر 1948 میں جب کامریڈ بھگوان داس ماہور اور سداشِو مالا پُرکار جگرانی دیوی کو جھانسی لے کر آئے تو انہیں یقین آیا کہ ان کا عظیم سپوت اب اِس دنیا میں نہیں۔ جگرانی دیوی کی وفات ۱۹۵۱ میں ہوئی اور کامریڈ سداشِو مالا پُرکار ہی نے اِس عظیم ماں کی چِتا کو آگ دی۔ بھگوان داس ماہور کی شادی ماسٹر ردر نرائن کی بیٹی سے جھانسی میں اسی گھر میں ہوئی جہاں چندر شیکھر آذاد بہت بہت دیر رہا کرتے تھے۔
’جب تک میرے پاس میرا یہ ہتھیا ر ہے، میں آذاد رہوں گا اور موت سے ڈر جانے والا انسان دیش کی آذادی کے لیئے کیا لڑے گا‘ ۔۔۔۔ چندر شیکھر آذاد

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts