تاریخ نزول قرآن
علمائے اسلام کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختلاف ہے
کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے
کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔
چنانچہ اس اختلاف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں: پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔
اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔
اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ لوح محفوظ سے آسمان میں موجود ایک مقام بیت العزت میں شب قدر کو نازل ہوا۔
اس کی دلیل قرآن کی یہ آیتیں ہیں إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ، إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
درج ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں: عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے،
فرماتے ہیں کہ “قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا،
جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے”۔
ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب المرشد والوجيز عن هذا النزول میں لکھا ہے:
“علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے
کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔
کلام الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے،
جب جبریل کا ان پر سے گزر ہوا تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگے: وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس کا املا کرایا، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا،
نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ پر محیط ہے۔
قرآن میں ہے: قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ
تمام آسمانی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے
جو بتدریج نازل ہوئی، چنانچہ قرآن میں مذکور ہے
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا ۔
علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں:
کفار کی مخالفت، اذیت رسانی اور سخت کشیدہ حالات میں پیغمبر محمد کی دل بستگی، سورہ فرقان میں ہے: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
۔ آیت “ورتلناہ ترتيلاً” میں اس بات کی جانب اشارہ ہے
کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔
مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دلائل کا یکے بعد دیگرے اِبطال: وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا ۔
پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔
احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا
کہ جن رسوم و رواج اور عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتاً چھوڑ دے، مثلاً شراب پینا۔
حسب ضرورت احکام کا نزول، یعنی بسا اوقات صحابہ کسی پیش آمدہ صورت حال پر حکم الہی جاننا چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔
بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔
نیز تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کا وحی کے ذریعہ نزول ہوا
اور دوسرا دور خلفائے راشدین کا جس میں قرآن کو ایک مصحف میں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔
Leave a Reply