خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ امید کے دیے ٹِمٹِمارہے ہیں
خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ
خودکشی امید کے دیے ٹِمٹِمارہے ہیں
دست یاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں خودکشی کرلینے یا اس کی کوشش کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔ ان میں سے مرد عموماً غیر شادی شدہ اور خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں۔ پھندا لگالینا، بندوق کا استعمال یازہریلی ادویات کا استعمال اس مقصد کے لیے عام ہے۔
عام وجوہات میں گھریلو مسائل، خاندانی جھگڑے ، نفسیاتی الجھن اور نفسیاتی مرض شامل ہیں۔ سماجی اور نفسیاتی ماہرین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ضروری وسائل کی کمی، صحت و صفائی کی بنیادی سہولتوں کا نہ ہونا، دماغی و نفسیاتی صحت کی معلومات نہ ہونا اور ہمارا کم زور سیاسی، معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی نظام ہے جو خودکشی کے خطرناک رحجان کو روکنے میں بے بس نظر آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس رحجان پر قابو پانے کے لیے صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے معاشرے اور غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کو بھی آگے آنا ہوگا۔
یہاں ہم نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان میں اموات کی سالانہ شرح کے بارے میں حکومت کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں ان میں خودکشی کے ذریعے ہونے والی اموات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ اگرچہ پاکستان میں رائج قانون کے مطابق خودکشی یا خود کو جسمانی نقصان پہنچانے کا عمل غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کے لئے جرمانے اور جیل کی سزائیں موجود ہیں۔
قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خودکشی کی کامیاب یا ناکام کوشش کے کیسز کو لازماً کسی سرکاری ہسپتال تک لانا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے میڈیکو لیگل سینٹر کی قانونی اصطلاح موجود ہے اور سرکاری ہسپتال میں میڈیکو لیگل افسران مقرر ہیں لیکن ہوتا کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔
قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خودکشی کی کامیاب کوشش کی صورت میں مرنے والے شخص کا لازماً پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے مگر زیادہ تر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔
1991ء سے 2000ء تک کے دستیاب غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً ایک لاکھ افراد خود کو جسمانی نقصان پہنچاتے یا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان میں بہت سوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔
کا مستند
مبتلا پایا جائے تو
یہاں امریکا اور یورپ کی نہیں بلکہ اپنے خطے کی اور ہماری ہی طرح کے ترقی پذیر ملک سری لنکا کی مثال پیش کرنا غلط نہیں ہوگا۔
دنیا بھر میں کرائسز انٹرونیشن سینٹرز (بحران کی صورت میں مدد دینے والے مراکز) اور خودکشی کو روکنے والی ٹیلی فون کی ہاٹ لائنز، خودکشی پر آمادہ افراد کو یہ قدم اٹھانے سے روکنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
سری لنکا میں یہ سہولتیں موجود ہیں اور سری لنکا کے اداروں کے دستیاب اعداد و شمار ان اداروں کی عمدہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ہمیں بھی اس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوگا اور امداد باہمی کے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔
اس کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کے لئے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے اور اختلافات کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔
Leave a Reply